مستقبل کے معمار

نوجوان مستقبل کے معمارکہلاتے ہیں ان مستقبل کے معماروں کو صحیح خطوط پر مکمل تربیت کی ضرورت ہے


[email protected]

لاہور: نوجوان مستقبل کے معمارکہلاتے ہیں ان مستقبل کے معماروں کو صحیح خطوط پر مکمل تربیت کی ضرورت ہے۔ ہمارے بچوں کا مستقبل ہم سے اور ہمارا مستقبل ہمارے بچوں سے وابستہ ہوتا ہے اگر ہمارے بچوں کا مستقبل بہتر ہے تو ہمارے بڑھاپے میں ہمارے مستقبل کی خیر کے بھی غالب امکان ہیں۔ بصورت دیگر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کے خراب مستقبل کی آگ کا دھواں ان کے بزرگوں کے بھی مستقبل اور مستقبل سے وابستہ امیدوں کو دھندلا دیتا ہے اور اس کے تمام تر ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہوتے ہیں۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ والدین اولاد سے اپنی محنت اور تربیت کے بدلے کسی صلے کے خواہاں اور آرزو مند نہیں ہوتے بلکہ تمام تر لالچ اور امیدوں کی خواہش سے بالاتر ہوکر وہ اولاد کی تعلیم و تربیت کی فرض شناسی کا حق ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں تاہم بعض اوقات اچھی تربیت کے باوجود سماجی اقدار جس تیزی سے زوال پذیر ہیں ان کے ظہور پذیر ہونے کے سبب اس عہد جدید میں والدین کی توقعات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا والدین کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مکمل ذمے داری سے اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآں ہوں لیکن اپنے بڑھاپے کے حوالے سے بہت سی بے جا توقعات وابستہ نہ کریں، یاد رکھیے! بچوں کے بڑے ہونے کے بعد فرمانبردار یا نافرمان ہونے کا تعلق اکثر بچپن میں والدین سے اچھے یا برے تعلقات اور اچھی یا بری تربیت پر منحصر ہوتا ہے لہٰذا اس ضمن میں گھر کے ماحول کا اچھا برا، پرامن یا جھگڑالو ہونا اپنی ذات میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

آج جگہ جگہ ''بے بی ڈے کیئر سینٹر'' اور ''اولڈ ہوم'' دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے جو والدین آج اپنی مصروفیات کی وجہ سے اپنے مستقبل کے معماروں کو اچھی تعلیم و تربیت اور بہترین ماحول مہیا کرنے سے قاصر ہیں اور وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے تجارتی سطح پر قائم کردہ بڑے بڑے ''بے بی ڈے کیئر سینٹرز'' میں اپنے بچوں کو پلواتے ہیں۔ اکثر پھر ان ہی کے بچے بھی مستقبل میں بڑے ہوکر اپنی مصروفیات کی بدولت ان ہی والدین کو ان ہی کے طریقے کار پر اپنی جان چھڑانے کے لیے ''اولڈ ہوم'' میں بھیج دیتے ہیں۔ جہاں یہ والدین بھی اس بڑھاپے اور بے کاری کے عالم میں اسے گوشہ عافیت سمجھتے ہوئے منتقل ہونے میں ہی اپنی تمام تر خیر سمجھتے ہیں، اگرچہ یہ ہماری تہذیب نہیں لیکن کیا کریں کہ مغربی تہذیب نے جہاں دیگر شعبہ ہائے حیات اور معاشرتی و خاندانی نظام اور اداروں پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں وہاں ہمارا یہ خاندانی نظام اور شعبہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہے یہ ہمارے معاشرے اور نظام کا ایک عظیم المیہ ہے۔

آج ہمارے پیش نظر بچوں کا کیریئر بنانے کے لیے جو ناقص منصوبے، بے جا تقاضے اور لوازمات ہوتے ہیں پھر ان کا منطقی نتیجہ بھی ہماری توقعات اور خواہشات کے بالکل برعکس نکلتا ہے، ہم اپنی اولاد کا کیریئر بنانے کے لیے نجانے کون کون سے راستے اختیارکرتے،کیا کیا چیزیں استعمال کرتے، کون کون سی تعلیم دلواتے ہیں پھر نتیجتاً وہ مغربی تہذیب سے مغلوب ہوکر غیروں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے والدین کا بڑھاپا آتے ہی ان سے اپنی بے زاری کا اعلان کرتے ہیں کہ کب یہ بوڑھا ختم ہو اور میری جان چھوٹے، کسی طریقے سے اس بوڑھے کو گھر سے نکال کر اولڈ ہوم میں ڈال دیا جائے۔ ایسا ہی تو ہوگا کیونکہ ہم نے ان کی جیسی تربیت کی اور جو تعلیم دلوائی اس سے یہی تہذیب پائی۔ جس تعلیم میں والدین کی عظمت کا کوئی خانہ نہیں، بڑوں کے احترام کا کوئی سبق نہیں تو پھر اولاد کے مزاج میں بھی والدین اور بزرگوں کی کوئی عزت و احترام نہیں ہوسکتا، ان کا مزاج اسی تعلیم و تربیت کے ہی مطابق ڈھلتا ہے جو انھیں فراہم کی جاتی ہے، ان کے جذبات و احساسات بھی اسی تناظر میں ہی پروان چڑھتے ہیں، پھر ہوائے نفس کی تکمیل میں جب ان کی جانب سے کوئی غیر متوقع اور ناقابل برداشت قدم اٹھ جاتا ہے تو پھر ہم روتے پھرتے ہیں کہ اولاد ہاتھ سے نکل گئی ہے اولاد نے یہ کیا قدم اٹھالیا؟ اس نے تو ہماری عزت کا جنازہ نکال دیا، ہماری توقیر خاک میں ملادی، ہمیں پوری برادری میں رسوا کردیا، لیکن ابتدا میں جب سوچنے کا وقت تھا تب نہیں سوچا کہ ہم ان کا کون سا کیریئر بنا رہے ہیں؟ ہم ان لوگوں کو کون سی تعلیم فراہم کر رہے ہیں؟ ہم ان کی کن خطوط پر تربیت کا اہتمام کر رہے ہیں؟ ہم ان کو کون سا ماحول فراہم کر رہے ہیں؟ ہم ان کو کہاں بھیج رہے ہیں؟ وہ وہاں کیا سیکھیں گے اور پھر یہ سب سیکھنے کے بعد وہ بطور ردعمل خود کیا کریں گے؟ اکثر والدین کا دکھڑا پھر یہی ہوتا ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو بہت سمجھایا لیکن جناب! کیا کریں وہ سمجھتا ہی نہیں ہے، ماحول ہی ایسا ہے، دوستیاں ہی ایسی ہیں، سوسائٹی ہی ایسی ہے، مانتا ہی نہیں، عزت ہی نہیں کرتا۔

بہرحال ایسے ماحول میں یہ عذر قابل قبول نہیں، یہ عذر کافی نہیں کہ میں نے بار بار کہا ہے مگر مانتا ہی نہیں ، اس کام کے لیے تو اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنا پڑیں گی اور تمام تر صلاحیتیں بھی بروئے کار لانا ہوں گی دنیا کی آگ سے اپنی اولاد کو بچانے کے لیے ہم فکر مند ہوتے ہیں ویسے ہی آخرت میں جہنم کی آگ سے خود اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو بچانے کی بھی ہمیں فکر کرنی چاہیے۔ اگر تمام تر کوششوں وکاوشوں اور محنت و تربیت کے بعد بھی اولاد نہیں سدھرتی تو پھر والدین مکلف نہیں بلکہ معذورہیں لیکن اگر ایسا نہیں تو والدین کو خواہ کتنی ہی اپنی نمازوں کی فکر ہو، اپنے صدقات کی فکر ہو، اپنی زکوٰۃ اور دیگر عبادات کی فکر ہو، اپنی زندگی کی فکر ہو تاہم اگر اولاد کی درست تعلیم و تربیت کی فکر نہیں تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔

جدید نظام تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنے بچوں کو اگر مغربی طرز کے اسکولوں میں پڑھانا پڑے تو ضرور پڑھائیے کیونکہ علم مومن کی میراث ہے جہاں سے ملے وہ ضرور حاصل کرے چاہے اسے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے لیکن دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی دینی تعلیم کا بھی بھرپور انتظام عمل میں لانا چاہیے اور ان کی اخلاقی و معاشرتی تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام حتی الامکان ہونا چاہیے۔ بچوں کو مستقبل میں ایک کامیاب اور ذمے دار انسان بنانے کے لیے ان کو اچھا ماحول فراہم کرنا اور ان کے مسائل کو سمجھنا والدین کی لازمی ذمے داری ہے اس لیے کہ ماحول کا سب سے زیادہ اثر بچے جلد قبول کرلیتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مہذب اور اعلیٰ رکھ رکھاؤ والے والدین کی اولاد بھی شائستہ اور مہذب ہوتی ہے اس کے برخلاف اپنی گفتگو میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے والے اور بدتمیز و بدتہذیب والدین کی اولاد بھی منہ پھٹ، بدتمیز اور بدتہذیب ہوتی ہے۔ معلم انسانیتؐ نے فرمایا ''باپ اپنی اولاد کو جو کچھ بھی دیتا ہے اس میں سب سے بہترین تحفہ اچھی تعلیم و تربیت ہے'' عظیم فاتح نپولین بونا پارٹ نے ملکی باگ ڈور سنبھالتے ہی امرا اور عمایدین پر مشتمل دربار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''آپ مجھے تعلیم یافتہ مائیں دیں میں آپ کو ایک مضبوط قوم دوں گا'' پس آج ہمارے مستقبل کے یہ معمار صحت مند ذہن، صحت مند تربیت، صحت مند تعلیم اور صحت مند مستقبل کے لیے ہماری خصوصی توجہ کے طالب ہیں، ہمارا مستقبل ہمارے بچوں سے جڑا ہے اور ہماری ملک و قوم کا مستقبل بھی ہمارے ان ہی بچوں سے وابستہ ہے جنھوں نے کل جوان ہوکر ہماری جگہ لینی اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ہمارے مستقبل کے یہ معمار توجہ چاہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں