آگ ‘حفاظت مقدم

ہم کسی خطرناک حادثے سے دو چار ہونے کے بعد بیدار ہوتے ہیں جو شاید ہمارے قومی مزاج کا لازمی جزوبن چکا ہے

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں انسانی زندگی کی بقاء کے لیے بنیادی ضروریات کی تکمیل کی اہمیت ہوتی ہے وہاں پانی اور آگ بھی انسان کی زندگی کو جِلا بخشنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ یہ نعمتیں اگر میانہ روی اور سمجھ داری سے استعمال کی جائیں تو ظاہر ہے اس کے مثبت اثرات پورے معاشرے میں محسوس ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر یہ اپنی مقرر کردہ حدود سے تجاوزکرجائیں تو اس کے منفی اور تباہ کن اثرات پوری قوم کو بھگتنا پڑتے ہیں ۔ پانی کی زیادتی سیلاب کا سبب بھی بنتی ہے اسی طرح آگ انسان کی طرز زندگی کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اگر یہ بھڑک جائے تو اس کو کنٹرول کرنا انسان کے بس کا روگ نہیں رہتا ۔ بلاشبہ انسان کی زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ موت برحق ہے ہمیں کسی بھی لمحے اس کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے ۔ جان لیجیے ! معمولی سی انسانی غفلت یا لا پرواہی ایک بڑے حادثے کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ آگ کے تذکرے نے حضرت انسان کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ سورۃ البقرہ میں آگ کے حوالے سے ذکر مشہور ہے کہ فرعون نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف آگ کا ایک شعلہ بھڑکا اور اُس نے مصر کے تمام گھر جلا کر خاکستر کردیے مگر بنی اسرائیل کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوا ۔ نجومیوں سے اس کی تعبیر پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کی نسل سے ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو سلطنت کی تباہی کا سبب بنے گا تو وہ بنی اسرائیل کا دشمن ہوگیا اور اذیتوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کردیا ۔ خدا کی شان دیکھیے ان شورشوں کے باوجود حضرت موسٰی ؑ فرعون ہی کے گھر میں پرورش پاکر جوان ہوئے ۔ (سبحان اللہ) ۔مشاہدہ اور تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمارات کی تعمیر سے قبل فائر سیفٹی سے متعلق امور پلان میں شامل نہیں کیے جاتے ۔ آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر عمارات سے انخلاء ہی حفاظت کی ضمانت ہے ۔آگ لگتے وقت کوشش کی جانی چاہیے کہ عمارت کی کھڑکیاںاور دروازے مکمل طور پر کھول دیے جائیں تاکہ عمارت کے اندرونی حصے میں دھواں جمع نہ ہوسکے کیونکہ آگ سے نکلنے والی تپش اور دھواں ہی انسان کی فوری ہلاکت کا سبب بنتی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے آگ بجھانے کے آلات کی تنصیب کے ساتھ ساتھ عمارت کی ہر منزل میں ایمرجنسی انخلاء (Emergency Exit) نمایاں مقامات پر آسان اور سادہ الفاظ میں تحریر شدہ پمفلیٹ آویزاں ہوں ۔

گزشتہ ایک عرصے سے جاری ملک میں بدامنی ،تخریب کاری اور دہشت گردی جیسے مجرمانہ عزائم کی تکمیل نے آگ کے تصور کو مزید تقویت پہنچائی ہے ۔ اس لیے ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ آگ بھڑک جانے کی صورت میں کیا کیا احتیاطی تدابیر اور اس کے سدِ باب کے لیے متحد ہوکر ایک مربوط پالیسی کے تحت کام کیا جائے تاکہ جانی اور مالی نقصانات کا امکان کم سے کم ہو ۔ فائرسیفٹی کا تصور سب سے پہلے قدیم رومی بادشاہ ''آگسٹس''نے پیش کیا تھا ۔آگ کے لیے ایک جگہ متعین نہیں ہے ، یہ کسی بھی مقام پر لگ سکتی ہے ۔ آگ ٹھوس اشیاء (Solid Material) یعنی لکڑی ، کاغذ ، ربڑ اور کپڑے میں بھی لگ سکتی ہے ۔ بجلی سے استعمال ہونے والے آلات بھی آگ کو مزید تقویت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ گیس ، کیمیکل، پیٹرول ، گریس ، مٹی کا تیل ، رنگ(Paint) ایسے مواد ہیں جو آگ سے لگنے والی تباہ کاری کا سب سے بڑا سبب ہے اس لیے ان اشیاء کا استعمال نہایت احتیاط سے کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ حساس مقامات اور عمارات میں آگ بجھانے والے آلات فائرایکسٹین گویشر ، جدید فائر ڈیٹکشن سسٹم ، فائر الارم کی تنصیب وقت کی اہم ضرورت ہے ۔


قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم کسی خطرناک حادثے سے دو چار ہونے کے بعد بیدار ہوتے ہیں جو شاید ہمارے قومی مزاج کا لازمی جزوبن چکا ہے جب کہ ترقی یافتہ اور سویلائزڈ سوسائٹی کی اقوام نے اس کو عبادت کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اپنی زندگی کاخاصہ بنالیاہے ۔ جب کہ بحیثیت قوم ہم بھی اسی دنیا کاحصہ ہیں۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کرنے کی بجائے تمام تر ذمے داری حکومتی اہلکاروں پر عائد کرکے بری الذمہ ہوجانے کے عادی ہیں۔آگ کوکنڑول کرنے کے لیے بنیادی طورپر عمارت میں نصب ایکسٹنگویشر بنیادی اور کلیدی کرداراداکرتے ہیں ۔ ان کا ماہرانہ طریقے سے استعمال اور مناسب دیکھ بھال بھی بہت ضروری ہے جوایکسٹنگویشر کے بیرونی حصے پر آویزاں ہوتی ہیں۔ ایکسٹنگویشرکو پانچ اقسام میں تقسیم کیاگیاہے ۔1۔ہیلیٹرون ۔2۔ ڈرائی کیمیکل پاؤڈر (CO2 gas) ۔3۔کاربن ڈائی آکسائیڈ ۔4۔ اے ٹرپل ایف (AFFF) فوم ٹائپ ۔5۔ واٹرٹائپ ۔ انسانی مسئلے کے پیش نظر فائر سیفٹی کو سرکاری سطح پر فعال کرنے کے لیے ہر سال ایک مخصوص رقم بجٹ میں مختص کیا جاتی ہے۔ جن میں کے ایم سی کا فائر بریگیڈ اسکواڈ ، محکمہ شہر ی دفاع، شہری حکومت جو جدید فائرٹینڈرز ، واٹرہائیڈرینٹس سسٹم اور 150فٹ بلند جدید سنارکل کے ذریعے بلند وبالا عمارات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے میں اپنی خدمات پیش کررہے ہیں ۔تربیت یافتہ افرادی قوت کی یہ ایمان افروز ریسکیو ٹیمیں معصوم انسانوں کی ہلاکت کی روک تھام کے لیے شب وروزکوشاں ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ''جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی۔''

یورپی ممالک جرمنی ، امریکا اور برطانیہ بھی جدید ٹیکنالوجی سے مزین فائر سیفٹی کے آلات تیارکررہے ہیں ۔ ''فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن'' نجی سیکٹرمیں قائم ایسی تربیت گاہ ہے جو بغیر کسی معاوضے کے ملک کے ہر ادارے میں فائر فائیٹنگ اور فائر سیفٹی کی تربیت فراہم کررہاہے ۔بالخصوص کثیر آبادیاتی شہر کراچی گزشتہ کئی سالوں سے ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی ، تخریب کاری اوربھتہ خوری کے پیش نظر یہاں پر موجودکثیرالمنزلہ رہائشی وتجارتی عمارات کو شدید خطرات لاحق ہیں ضرورت اس امر کی ہے فائر سیفٹی سے متعلق پورے ملک میں فائرکوڈ متعارف کروائے جائے۔اس سلسلے میں بعض اداروں کی کاوشیں لائق تحسین ہیں جنہوں نے اس حساس شعبے کو ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر ایک علیحدہ ڈیپارٹمنٹ ''فائر سیفٹی اینڈ سیکیورٹی'' کے نام سے قائم کیا ہے جو سال میں دومرتبہ تمام اسٹاف کو فائر ڈرل کی مشق کرواتا ہے۔اس شعبے کے روح رواں اور سربراہ'' حسین سبزعلی '' انسانیت کے جذبے سے سرشار انتھک محنت کررہے ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی وزارت انوائرنمنٹ نے تین مرتبہ ''ہائی رسک بلڈنگ سیفٹی ایوارڈ'' سے نوازا ہے۔
Load Next Story