مہنگی ہوتی گندم سستی کیسے کریں

زراعت کے جدید ترین طریقوں کا بیان جو پاکستان میں خوراک کی کمی دور کر سکتے ہیں


زراعت کے جدید ترین طریقوں کا بیان جو پاکستان میں خوراک کی کمی دور کر سکتے ہیں

وطن عزیز میں گندم عوام کا من بھاتا کھاجا ہے۔وہ سالن یا پیاز روٹی کے ساتھ کھا کرپیٹ بھرتے اور زندہ رہتے ہیں۔جب پاکستان وجود میں آیا تو ہمارے ہاں ایک من گندم(چالیس سیر)آٹھ نو روپے میں مل جاتی تھی۔

پچاس پیسے میں ایک کلو باسمتی چاول اور ایک ہی کلو بڑا گوشت ملتا۔چھوٹا گوشت سوا ایک روپے فی کلو تھا۔دودھ فی لیٹر کی قیمت تیس پیسہ تھی۔جبکہ دیسی گھی ڈھائی روپے میں ملتا۔سونے کی فی تولہ قیمت 57 روپے تھی۔تب پاکستانی کرنسی مضبوط تھی، لہذا اشیائے ضروریہ خصوصاً خوراک کی قیمتیں بھی کم تھیں۔ مقروض ملک بن کر کرنسی کمزور ہو چکی ،چناں چہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہو گیا۔

اب تھیلے کا آٹا پچاس تا پچپن روپے فی کلو ملتا ہے۔ کبھی گندم کی قلت ہو جائے تو آٹے کی قیمت ستر اسّی روپے فی کلو تک بھی جا پہنچتی ہے۔چکی کا آٹا تو نوے روپے فی کلو جا پہنچا ہے۔ جس طرح گندم کی قیمت بڑھ رہی ہے، بعید نہیں وہ آنے والے دور میں فی کلو سو روپے ہو جائے۔ہمارے عوام نچلے و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً بیس کروڑ پاکستانیوں پہ مشتمل ہے۔

ان کروڑوں ہم وطنوں کی بیشتر آمدن پہلے ہی خوراک خریدنے پر خرچ ہوتی تھی۔ اب پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے اناج، سبزی اور پھل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔یہ صورت حال پاکستان کے نچلے و متوسط طبقوں کے لیے پریشان کن اور تشویش ناک ہے۔غذاؤں کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں تو ایک دن ایسا آ سکتا ہے کہ ساری آمدن خوراک خریدنے پر لگ جائے اور بقیہ اخراجات کے لیے کچھ پیسا نہ بچے ۔

قیمتوں میں اضافہ کیوں؟

گندم سمیت سبھی غذاؤں کی قیمتوں میں مختلف وجوہ کی بنا پر پوری دنیا میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ وجوہ پرانی ہیں اور کچھ نئی جو یہ ہیں:

٭زرعی رقبے میں کمی کیونکہ وہاں کالونیاں اور کارخانے تعمیر ہو چکے۔

٭کسانوں کا اپنا پیشہ چھوڑ کر دوسرے پیشوں کی طرف متوجہ ہونا۔

٭آب و ہوائی تبدیلیاں جن کی وجہ سے کہیں قحط پڑ رہے ہیں تو کہیں سیلاب آنے لگے ہیں۔قحط کا شکار ملکوں میں امریکا اور آسٹریلیا نمایاں ہیں۔

٭پانی میں کمی ۔

٭آبادی میں اضافہ ۔

٭کوویڈ وبا جس نے دنیا بھر میں سپلائی چین یا غذاؤں کی ترسیل متاثر کر دی۔غذائیں منگوانا اور بھیجوانا ماضی کی نسبت کافی مہنگا ہو چکا۔

٭روس اور یوکرائن کی جنگ۔

تکلیف دہ صورت حال

مگر پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھنا اور ان کی قلت ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ وجہ یہ کہ قدرت الہی نے وطن عزیز کو دریاؤں، زرخیز مٹی اور پانچوں موسموں سے نوازا ہے۔اسی دیس میں آب پاشی کا دنیا میں سب سے بڑا نظام ملتا ہے۔اس کے باوجود حال یہ ہو چکا کہ پاکستان اپنے شہریوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم، دالیں، خوردنی تیل، مسالے حتی کہ سبزیاں تک بیرون ممالک سے منگوا رہا ہے۔اس تکلیف دہ صورت حال کی کچھ ذمے دار وہ وجوہ ہیں جن کا پہلے تذکرہ ہو چکا۔مگر حکومت نے بھی قومی زراعت کی ترقی وبہبود کے لیے بہت کم ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

اس نے زراعت پہ توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے وہ زوال پذیر ہو گئی۔خاص طور پہ چھوٹے زمین داروں کا کوئی پُرسان حال نہیں رہا اور نہ ان کے مسائل حل کرنے کو کوششیں ہوئیں۔بڑے زمین داروں اور جاگیرداروں کی البتہ پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں کہ انھیں کوئی زرعی ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ اکثر وہ انکم ٹیکس بھی بہت کم دیتے ہیں۔

پیداوار مسلسل کم

عملی طور پہ پاکستان کے 80 کروڑ ہیکٹر رقبے پر کاشت کاری ممکن ہے۔تاہم صرف 23 کروڑ 50 لاکھ ہیکٹر رقبے پہ کھیتی باڑی ہوتی ہے۔پاکستان گندم، کپاس ، چاول، گنا، آم، کھجور اور کنو پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔مگر بیان کردہ وجوہ کی بنا پہ پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے، کم ہی فصلوں کی پیداوار بڑھ سکی۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے بڑھتی پیداوار بھی طلب پوری نہیں کر پاتی اور اشیائے خورونوش درآمد کرنا پڑتی ہیں۔

مثال کے طور پہ کئی برس سے گندم کی پیداوار 25 سے 28 لاکھ ٹن کے درمیان گھوم رہی ہے۔حالیہ مالی سال 27.50 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوئی جب کہ سالانہ ملکی ضرورت 30 لاکھ ٹن کی ہے۔اسی لیے حکومت 30 لاکھ 3.5 ارب ڈالر(سات سو ارب روپے) خرچ کر کے خریدے گی۔اس درآمدی گندم کی ٹرانسپورٹیشن اور ذخیرے پہ مزید دو سو ارب روپے لگیں گے۔حکومت اربوں روپے خرچ کر کے باہر سے اجناس منگوا لیتی ہے مگر ملکی زراعت کو ترقی دینے کے لیے رقم خرچ نہیں کرتی۔ بہرحال حالیہ بجٹ میں کچھ زراعت دوست اقدام کیے گئے ہیں۔

قومی معیشت پر مزید بوجھ

پانی کی کمی، سکڑتا زرعی رقبہ، کھاد کی قیمت میں اضافہ اور عمدہ بیجوں کی کم یابی وہ مسائل ہیں جن سے قومی زراعت نبردآزما ہے۔انہی مسائل کے سبب پاکستان باہر سے غذائیں منگوانے پہ مجبور ہو گیا۔ایک رپورٹ کی رو سے اب پاکستان ہر سال اشیائے خور ونوش درآمد کرنے پر'' دس ارب ڈالر'' کا کثیر زرمبادلہ خرچ کرنے لگا ہے جس نے قومی معیشت پہ مزید بوجھ ڈال دیا۔

اس بڑے خرچ کے باوجود تمام پاکستانیوں کو مطلوبہ واچھی غذا میّسر نہیں۔تقریباً دس کروڑ پاکستانی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھیں پوری غذا نہیں مل رہی۔یہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد ہے ۔ان میں اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہو کر بڑی مشکل سے اپنے دن کاٹ رہی ہے۔ انہی میں سے کچھ لوگ جرائم کی دنیا میں داخل ہو کر معاشرے میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔لہذا مملکت میں امن وامان قائم کرنے کے لیے غربت و بھوک کا خاتمہ اشد ضروری ہے۔دوسری صورت میں لاکھوں بھوکے خود حکمران طبقے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، جیسے حال ہی میں سری لنکا میں بھوک کا شکار عوام وزیروں اور سرکاری افسروں کے گھروں پہ حملے کرتے پائے گئے۔اس امر سے پاکستانی حکمران طبقے کو سبق سیکھنا چاہیے۔

ہر سال 48لاکھ نئے انسان

اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 48لاکھ انسانوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان سب کو خوراک، لباس، جائے رہائش اور ملازمت تو ضرور درکار ہے تاکہ وہ زندہ رہنے کا بندوبست کر سکیں۔ ان میں سب سے اہم خوراک ہے کیونکہ وہی انسان کو زندہ رکھتی ہے۔لہذا خوراک کا مہنگا ہونا یا اس کی کمی معاشرے میں بے چینی اور انتشار کو جنم دے سکتی ہے۔ہر ملک میں حکمران طبقے کا فرض ہے کہ وہ اس انتشار سے بچنے کے لیے یہ یقینی بنائے، ریاست میں خوراک ہر کسی کو وافر اور سستی دستیاب ہے۔

یہ درست ہے کہ بعض عارضی وجوہ کی بنا پہ غذائیں مہنگی ہیں۔ان میں روس اور یوکرائن کی جنگ سرفہرست ہے۔دراصل یہ دونوں ممالک دنیا بھر کو گندم، مکئی، سویابین،سورج مکھی کا تیل اور دیگر غذائیں فراہم کرتے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے ان کے لیے بڑی تعداد میں خوراک برآمد کرنا ممکن نہیں رہا۔اس دوران کئی ممالک نے غذائیں برآمد کرنے پہ پابندی لگا دی۔مثلاً بھارت، قازقستان اور سربیا نے گندم باہر بھجوانے پہ پابندیاں لگا دیں۔ان کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر خوراک مہنگی ہوئی۔ (اگرچہ اندرون ملک غذائیں سستی کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کو بھی اجناس، سبزی وپھل کی ایکسپورٹ پہ پابندی لگانی چاہیے)

کنکریٹ کے جنگل

وطن عزیز میں سکڑتے رقبے نے بھی قیمتوں پہ منفی اثرات مرتب کیے۔جہاں پہلے کبھی کھیت تھے، وہاں کالونیاں اور کارخانے نمودار ہو چکے۔ حکومت اگر ذمے دار ہوتی تو ایسا بندوبست کرتی کہ ہاؤسنگ کالونیاں اور کارخانے غیر زرعی زمین پر ہی تعمیر ہوں۔مگر بااثر افراد نے کسانوں پہ دباؤ ڈال کر اونے پونے داموں زرعی زمین خریدی ، وہاں کنکریٹ کے جنگل کھڑے کیے اور ارب پتی بن گئے۔

دوسری طرف آب وہوائی تبدیلیوں نے بھی پاکستانی زراعت پہ حملہ کر دیا۔ان کی وجہ سے وطن عزیز میں موسم سرما کا عرصہ کم ہو رہا ہے ۔اس باعث پہاڑوں پہ کم برف گرنے لگی ہے۔لہذا موسم گرما میں پہاڑوں سے کم پانی آ رہا ہے۔حال ہی میں تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول پہ پہنچ گیا تھا۔پھر تبدیلیوں سے بارش اور گرمی کے نظام بھی متاثر ہوئے۔ شدید گرمی اور پانی کی کمی کے باعث اس سال آم کی فصل کی پیداوار 40 فیصد کم رہی ہے۔

بے سوچے سمجھے پانی ضائع
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان میں پانی کم ہو سکتا ہے۔جبکہ ہماری قوم کا یہ عالم ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے پانی ضائع کرتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ کسی گھر میں نل خراب ہو تو کئی دن پانی بہتا رہتا ہے مگر اس کی مرمت نہیں ہوتی۔پانی کے چند قطروں کی اہمیت چولستان اور بلوچستان کے لوگوں سے پوچھیے جو یہ آب زر (پانی) پانے کے لیے نہایت تگ ودو کرتے ہیں۔ پانی محفوظ کرنے کی خاطر پاکستانیوںکو اپنے طورطریقے بدلنے ہوں گے اور سوچ بھی!

انقلاب کا انتباہ
حالات سے عیاں ہے کہ اب حکومت پاکستان کو ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے جن سے قومی زراعت کو ترقی ملے اور وہ پھلے پھولے تاکہ ملک خوراک کے سلسلے میں خودکفیل ہو سکے۔حکمران طبقے کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اس نے فوری اقدامات نہ کیے تو اس کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔آج بھی پاکستان میں بھوک و غربت کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے لگے ہیں۔اگر شہریوں کو سستی غذا مہیا نہ کی گئی تو نہ صرف خودکشیوں میں اضافہ ہو گا بلکہ بھوکے خونی انقلاب برپا کرنے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

صورت حال اب بھی تسّلی بخش نہیں۔کروڑوں غریب ہم وطنوں کے بچے ناکافی اور گھٹیا غذا کی وجہ سے بچپن ہی میں چل بستے ہیں۔جبکہ لاکھوں معذور یا جسمانی وذہنی طور پہ کمزور ہو جاتے ہیں۔وہ معاشرے کے لیے مفید خدمات انجام نہیں دیتے بلکہ بوجھ بن جاتے ہیں۔یہ صورت حال حکومت اور عوام، دونوں کے کے لیے تشویش ناک ہے۔

ترجیحات میں کافی فرق
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حکمران طبقے میں شامل اکثر مردوزن ملک وقوم کو درپیش مسائل سے بے پروا ہیں۔ان کی بیشتر توجہ اس امر پہ مرکوز رہتی ہے کہ کرسی بچ جائے، اچھا عہدہ مل سکے، مراعات وسہولیات بڑھ جائیں اور دولت میں اضافہ ہو۔ گویا حکمران طبقے اور پاکستانی عوام کی ترجیحات میں کافی فرق ہے۔عام پاکستانی تو صرف یہ چاہتا ہے کہ اسے بنیادی ضروریات زندگی بہ آسانی مل جائیں:دو وقت کی روٹی، صاف پانی، رہنے کو ٹھکانہ،لباس اور سستی تعلیم وعلاج۔بس یہ ہے ایک عام آدمی کی تمنا!

''افقی زراعت''
کروڑوں پاکستانیوں کو سستی خوراک مہیا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان زراعت کے جدید طریقوں میں سرمایہ کاری کرے۔ فی الوقت دنیا بھر میں ''افقی زراعت'' (Vertical farming) مقبول ہو رہی ہے۔اس طریق ِزراعت میں ایک عمارت کے اندر اوپر نیچے تختے لگا کر ان پہ کاشت کاری ہوتی ہے۔تختوں پہ مٹی ڈالی جاسکتی ہے۔یا پھر پودوں کی جڑیں مائع محلول میں ڈوبی ہوتی ہیں۔یہ محلول پودے کی پرورش کے لیے سبھی غذائیات(Nutrition)رکھتا ہے۔اس طریقے سے ہر قسم کی فصل، سبزی یا پھل بویا جا سکتا ہے۔فصل کو ایل ای ڈی بلبوں کے ذریعے روشنی دی جاتی ہے تاکہ پودے پھل پھول سکیں۔

یہ ''عمارتی کھیت''تیار کرنے میں خاصا خرچ اٹھتا ہے۔ بعد ازاں اسے کافی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی لیے کئی سال تک حکومتیں اور ادارے افقی زراعت کی سمت متوجہ نہیں ہوئے۔اب مگر یورپ میں بڑی بڑی عمارتوں میں یہ عمارتی کھیت تیار کیے جارہے ہیں تاکہ لوگوں کو سستی اور کیمیائی مادوں سے پاک غذا میسّر آ سکے۔اس طرح خوراک کی کم یابی کا مسّلہ حل کرنا مقصود ہے۔ان عمارتی کھیتوں کو شمسی پینلوں یا ہوائی چکیوں کے ذریعے بجلی مہیا کی جاتی ہے ۔یوں بجلی کا مسئلہ حل کر لیا گیا۔

پچاس ساٹھ فیصد کی بچت
ان عمارتی کھیتوں کی خصوصیت یہ ہے کہ فصل اگانے کے لیے وافر پانی ، کھاد ،کیڑے مار ادویہ اور دیگر کیمیائی مادوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔وجہ یہ کہ ایک پودے کو نشوونما کے لیے جتنی غذائیات چاہیے، وہ براہ راست جڑوں تک پہنچا دی جاتی ہے۔ یوں اکثر ''پچاس ساٹھ فیصد''حد تک پانی، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کی بچت ہو جاتی ہے۔ گویا افقی زراعت ان علاقوں میں بہت کارآمد ہے جہاں پانی کی کمی ہو۔اسی لیے رفتہ رفتہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں عمارتی کھیت نمودار ہو رہے ہیں جن میں ہر قسم کی سبزی، پھل اور اناج اگایا جا رہا ہے۔جیسا کہ بتایا گیا، افقی زراعت کی ایک قسم میں تو مٹی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور پودا غذائی محلول میں پرورش پا کر پھل پھول جاتا ہے۔

'' 19400 ٹن'' گندم فی ہیکٹر
افقی زراعت کو مزید آسان اور سستا کرنے کی خاطر مغربی ممالک میں سیکڑوں ماہرین تحقیق و تجربات میں محو ہیں۔انہی میں برطانیہ کی کمپنی،لائٹ سائنس ٹیکنالوجیز (Light Science Technologies ) بھی شامل ہے۔اس کے سی ای او، سائمن ڈیکن کہتے ہیں:

''اب افقی زراعت کی جدید ٹکناوجی کی مدد سے گندم، چاول اور کپاس اگانا بھی ممکن ہو چکا۔ ہم نے حال ہی میں ماہرین سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کرائی ہے۔ر پورٹ کے مطابق ایک عمارتی کھیت ایک ہیکٹر رقبے(2.471 ایکڑ)پر مشتمل ہو اور اس میں دس تختے لگا کر گندم بوئی جائے تو وہ سالانہ'' 1940 ٹن'' گندم کی پیداوار دے گا۔(یہ حیرت انگیز پیداوار ہے کیونکہ ایک پاکستانی کسان فی ہیکٹر رقبے میں زیادہ سے زیادہ ڈھائی ٹن یعنی پچیس چھبیس سو کلو گندم ہی اگا پاتا ہے۔)جبکہ اسی عمارتی کھیت میں ایک سو تختے لگا دئیے جائیں تو ہر سال'' 19400 ٹن'' گندم حاصل ہو گی۔''

یہ یقیناً صرف ایک ہیکٹر رقبے پہ گندم کی محیّر العقول مقدار ہے۔دراصل عمارتی کھیت میں سارا سال کاشت کاری کرنا ممکن ہے ۔پھر فصل کو زیادہ غذائیت دے کر اس کی پیداوار کافی بڑھائی جا سکتی ہے۔گویا حکومت پاکستان ایک ہیکٹر رقبے پہ محیط صرف ایسے دو سو عمارتی کھیت تیار کر لے جن میں ایک سو تختے نصب ہوں، تو ان کے ذریعے سالانہ 38 لاکھ ٹن گندم حاصل کرنا ممکن ہے۔یاد رہے ، پاکستان کو سالانہ تیس لاکھ ٹن گندم کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کی غذائی ضرورت پوری ہو سکے۔

ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات نہیں
یہ عمارتی کھیت ایک اور بڑا فائدہ رکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ انھیں بڑی تعداد میں شہروں کے مضافات میں تعمیر کرنا ممکن ہے۔ اس طرح ان عمارتی کھیتوں میں اگا اناج، سبزی اور پھل بڑی آسانی سے شہریوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔یوں ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات برداشت نہیں کرنا پڑتے۔ یہ اخراجات خوراک مہنگی ہونے کی بڑی وجہ ہیں۔پھر پاکستانی حکومت نجی شعبے کے تعاون سے پاکستان بھر میں عمارتی کھیت لگا سکتی ہے، خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں پانی کی قلت ہے۔یوں ان کے باعث ایسے علاقوں میں مقیم ہم وطنوں کو وافر وسستی غذا میسّر آ سکے گی۔حکومت شروع میں نجی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کی خاطر سبسڈ ی بھی دے سکتی ہے۔

''ڈرپ اریگیشن''
پانی ، کھاد ،کیڑے مار ادویہ کی بچت کرنے والا ایک اور طریق کاشت کاری ''ڈرپ اریگیشن''(Drip irrigation)ہے۔دنیا بھر میں لاکھوں کسان اسے بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ وجہ یہ کہ اب ڈرپ اریگیشن کی بدولت اناج مثلاً گندم، چاول گنا، مکئی وغیرہ کے علاوہ کپاس اگانا بھی ممکن ہو چکا۔پہلے یہ زرعی نظام سبزیوں اور پھلوں کے لیے کارآمد تھا۔جدید طریقے ایجاد ہونے کی وجہ سے اب یہ دنیا میں کاشت کاری کا مقبول طریق بن گیا ہے۔

ڈرپ اریگیشن میں پائپوں کے مربوط نظام کے ذریعے پودوں کی جڑوں کو براہ راست مطلوبہ پانی، کھاد، کیڑے مار ادویہ اور دیگر اشیا پہنچائی جاتی ہیں۔چونکہ صرف جڑوں کو مطلوبہ اشیا ملتی ہیں، لہذا طریق کاشت کاری میں پانی، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کی پچاس فیصد تک بچت کرنا ممکن ہے۔گویا کھیتی باڑی پر آنے والے اخراجات میں نمایاں کمی آتی ہے اور کسان کا منافع بڑھ جاتا ہے۔اس طریق سے فصل کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

دنیا بھر کے کسان گونا گوں خوبیوں اور فوائد کے سبب ڈرپ اریگیشن نظام اپنا رہے ہیں۔تاہم عمارتی کھیت بنانے کی طرح یہ نظام کھڑا کرنے میں بھی ابتداً کافی خرچ آتا ہے۔لہذا جو پاکستانی کسان بھائی اپنے کھیت میں ڈرپ اریگیشن استعمال کرنا چاہیں، انھیں چاہیے کہ پہلے پوری تحقیق کر لیں۔ماہرین زراعت سے مشورہ کریں اور خصوصاً یہ جائزہ لیں کہ کیا ان کی زمین ڈرپ اریگیشن کے لیے موزوں ہے؟زمین موزوں قرار پائے تو اگلا مرحلہ یہ سامنے آتا ہے کہ ڈرپ اریگیشن کا کون سا نمونہ برتا جائے۔دراصل مٹی کی ماہیت دیکھ کر اس طریق کھیتی باڑی کا مخصوص نمونہ استعمال کیا جاتا ہے۔

خوش خبری
بدقسمتی سے ہمارے کئی کسان ناخواندہ ہیں۔تاہم وہ کھیتی باڑی کا تجربہ رکھتے ہیں۔لہذا ماہرین زراعت انھیں ڈرپ اریگیشن نظام کی خصوصیات سے آگاہ کریں تو وہ ان کی بابت جلد سمجھ سکتے ہیں۔اکثر کسانوں کا کہنا ہے کہ چاول، گندم، کپاس ،مکئی وغیرہ کی ہر نئی فصل تیار کرتے ہوئے انھیں زمین کھودنا پڑتی ہے۔لہذا کیا ہر بار جڑوں تک پانی پہنچانے والا پائپوں کا نظام بچھایا جائے؟یہ تو بہت خرچے والا کام ہے جو کوئی کسان برداشت نہیں کر سکتا۔

درج بالا مسئلے کی وجہ سے ماضی میں گندم، چاول، مکئی وغیرہ کے کھیتوں میں ڈرپ اریگیشن استعمال کرنا بہت مشکل امر تھا۔خوش خبری یہ ہے کہ اب ایسے طریقے سامنے آ چکے جن کی مدد سے زمین کی کھدائی کرتے ہوئے بھی پائپوں کا نظام برقرار رہتا ہے۔یوں وہ بدستور پودوں کی جڑوں کو پانی و کھاد وغیرہ فراہم کرتے ہیں۔یہ نئے طریقے جاننے کے لیے کسان بھائی یوٹیوب پہ بھارتی اور یورپی کسانوں کی لگائی وڈیو دیکھیں۔ اس سلسلے میں انٹریٹ پہ مواد بھی دستیاب ہے۔گو اس سے صرف انگریزی جاننے والے کسان بھائی ہی مستفید ہو سکتے ہیں۔

پانی و کھاد کی بچت
ڈرپ اریگیشن نظام کی اپنی خامیاں ہیں۔مگر کوئی کسان یہ نظام استعمال کرنا سیکھ جائے تو اس کی خرابیوں سے بچ سکتا ہے۔اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ پانی، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کی کافی بچت ہوتی ہے۔وجہ یہی کہ ساری چیزیں صرف جڑوں کو ملتی ہیں، سارے کھیت میں نہیں پھیلائی جاتیں۔یہ عمل پانی و کھاد ضائع کرتا ہے۔پودا اسی وقت پھلتا پھولتا ہے جب جڑوں کو مطلوبہ اشیا ملتی رہیں۔ ڈرپ اریگیشن نظام ساری اشیا براہ راست جڑوں تک پہنچاتا ہے۔اس باعث پانی و کھاد کی بچت کرتا ہے۔

یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وطن عزیز کے جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے، وہاں خاص طور پہ تعلیم یافتہ کسان اب اپنے کھیتوں میں ڈرپ اریگیشن کی مدد سے کاشت کاری کر رہے ہیں۔انھوں نے جدت یہ اپنائی ہے کہ کھیت میں اس کے کنارے تالاب بنا لیے۔ان میں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔یہ پانی پھر ڈرپ اریگیشن میں کام آتا ہے۔اس طرح وہ اپنے کھیت میں بھرپور فصل اگانے کے قابل ہو گئے جبکہ خرچہ بھی کم آ رہا ہے۔دیگر پاکستانی بھائیوںکو بھی ان کے نقش قدم پہ چلنا چاہیے۔ ڈرپ اریگیشن درست طریقے سے کی جائے تو پودا زیادہ بڑھتا ہے،یوں فصل کی پیداوار بڑھ جاتی ہے اور کسان کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔

اسپرینکل اریگیشن
''اسپرینکل اریگیشن''(Sprinkler irrigation)بھی کھیت کو کم پانی فراہم کرنے والا نظام ہے۔اس میں پائپوں کے ذریعے فصل پہ پانی پھوار کی صورت ڈالا جاتا ہے۔اس سے بھی پانی و کھاد کی بچت ہوتی ہے، گو وہ ڈرپ اریگیشن جتنی نہیں۔ وجہ یہ کہ اسپرینکل اریگیشن میں بہت سا پانی دوران آب پاشی فضا میں اڑ جاتا ہے۔تاہم بعض حالات میںڈرپ اریگیشن کی بہ نسبت اسپرینکل اریگیشن کھیت کو زیادہ فائدہ دیتا ہے۔

پریزیشن ایگریکلچر
امریکا اور یورپ میں فی الوقت زراعت کا ایک اور طریق کار نمایاں ہو رہا ہے جسے ''پریزیشن ایگریکلچر''(Precision Agriculture) کا نام دیا جا چکا۔اس طریق زراعت میں مصنوعی ذہانت کے حامل چھوٹے چھوٹے روبوٹ کھیتی کرنے، نقصان دہ جڑی بوٹیاں اکھاڑنے، پانی دینے ،کیڑے مارنے اور دیگر کام کرنے میں کسانوں کی مدد کر رہے ہیں۔یہ ٹکنالوجی ابھی ارتقا پذیر ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے چند عشروں میں ''پریزیشن ایگریکلچر'' ساری دنیا میں رائج ہو جائے گی۔زراعت میں روبوٹ کی آمد سے کسانوں کو تو فائدہ ہو گا لیکن کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے والے مردوزن بے روزگار ہو سکتے ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ساڑھے سات کروڑ مردوزن کام کرنے کے اہل ہیں۔ماضی میں ہماری افرادی قوت کا بیشتر حصہ زراعت سے منسلک تھا مگر اب صرف 38 فیصد آبادی اس سے تعلق رکھتی ہے۔جبکہ بیروزگاروں کی تعداد تقریباً پچھتر لاکھ بتائی جاتی ہے۔حکومت اس ضمن میں ایک اہم اقدام کر سکتی ہے۔وہ یہ کہ سرکاری زرعی زمین پٹے پہ بیروزگاروں کو دے کر انھیں کھیتی باڑی کی ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے۔اس طرح دو فوائد حاصل ہوںگے۔اول پاکستان کو مذید سستی غذا میسّر آئے گی۔دوم بیروزگاروں کو کام ملنے سے بیروزگاری میں کمی آجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں