بچوں میں ذہنی تناؤ

 علامات کیسے پہچانی جائیں؟

 علامات کیسے پہچانی جائیں؟

کراچی:
آج کے دور میں ذہنی صحت، تناؤ، پریشانی اور نفسیاتی مسائل ایسی حقیقت بن چکے ہیں جس سے انکار ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت اور انسانی رویوں کو ابھی تک سوالیہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے لیکن کسی حد تک لوگوں میں آگاہی اور شعور میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔

بڑی عمر کے لوگوں میں ذہنی صحت کے حوالے سے گفتگو بھی عام ہوتی ہے اور کسی حد تک معلومات تک رسائی بھی ہے۔ لیکن بچوں میں ذہنی صحت، پریشانی اور تناؤ کے اثرات کے بارے میں سوچ بہت کم پائی جاتی ہے۔ یہاں تو یہ تک کہا جاتا ہے کہ بچوں کو کیا پریشانی ہے یہ تو ٹیشن فری ہیں۔ ان پر کون سی ذمے داری ہے یہ تو سب مزے سے زندگی سے لطف اٹھاتے ہیں۔ انسان عمر کے ہر حصے میں جسمانی، نفسیاتی، روحانی اور جذباتی طور پر نشوونما پاتا ہے۔ ہر عمر کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جو ایک متوازن شخصیت کی تعمیر کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ یہ ردِعمل بہت آسان ہے لیکن خطرناک بھی کہ جس چیز کے بارے میں ہمیں علم نہ ہو اور نہ اس کا تجربہ ہو اُسے فوراً رد کر دو۔

اس طرح ماں باپ بھی اکثر، لاعلمی اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں ذہنی تبدیلیوں اور جذباتی تناؤ کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور بچوں کی بروقت اور مناسبت راہ نمائی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے دور میں بچوں کی پرورش، یعنی تعلیم وتربیت کسی بھی چیلینج سے کم نہیں ہے، اس لیے والدین کو سخت محنت اور بھرپور تیاری و قربانی دینی پڑتی ہے۔ بچوں میں تناؤ کی کیا علامات ہو سکتی ہیں؟ بچے اپنی جذبات اور احساسات کا کس طرح اظہار کرتے ہیں؟ آج اس آرٹیکل میں اسی موضوع پر گفتگو کریں گے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف اس ضمن میں بہترین کام کر رہا ہے۔ بچوں میں ذہنی تناؤ اور کووڈ19 کے بعد ذہنی مسائل، موبائل فون کے بے جا استعمال اور والدین کے لیے معلومات اور ہدایات کے لیے کئی اہم رپورٹ شائع کر چکا ہے۔ آج بھی اس مضمون میں unicef کی ایک رپورٹ کی روشنی میں ہی اپنے حالات اور معاشرتی مسائل کے پیش نظر گفتگو کریں گے۔

کیا بچے بھی تناؤ پر اپنے عام ردعمل کا اظہار کرتے ہیں؟

تمام بچے اپنے ماحول کے مطابق منفی واقعات پر مختلف ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر معاشرہ اور ثقافت ان ردعمل کے طریقوں کو بھی متاثر کرتی ہے جس میں بچے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ معاشروں میں زور سے رونے جیسے مضبوط جذبات کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے، جب کہ دوسروں معاشروں میں اس ردعمل کو بڑے پیمانے پر، بڑی آسانی سے قبول کیا جاتا ہے۔ بچوں میں پریشانی کی کچھ علامات اتنی واضح نہیں ہوسکتی ہیں۔ مختلف عمر میں ذہنی تکلیف اور تناؤ کی کچھ علامات درجہ ذیل ہیں لیکن مختلف بچے تکلیف کی مختلف علامات ظاہر کریں گے۔

کیا آپ جانتے ہیں تناؤ اور بحران کے اوقات میں بچے بالغوں کے طرزعمل اور جذبات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ خود کو کیسے منظم کرتے ہیں؟ بچوں کے لیے اس مشکل وقت میں والدین کو ایک رول ماڈل اور مضبوط و متوازن شخصیت کا حامل ہونا چاہیے۔ میں نے اکثر بچوں کی کونسلنگ کے دوران والدین کو زیادہ پریشان اور تذبذب کا شکار دیکھا ہے۔

بچوں میں تناؤ پر عام ردعمل کیا ہوتا ہے؟

یاد رکھیں تناؤ کے دوران بچوں کے کچھ رد عمل صرف تھوڑے وقت کے لیے ہوتے ہیں، اور یہ دباؤ کی کیفیت میں عام ردعمل تصور کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ رد عمل طویل عرصے تک جاری رہیں تو بچے کو ماہرانہ مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جس کے لیے والدین کو کسی ماہرنفسیات اور چائلڈہیلتھ کیئر اسپیشسلٹ کی معاونت حاصل کرنی چاہیے۔ بچے اپنی عمر اور ذہنی عمر کی مناسبت سے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

1سے 3 سال کے بچوں میں تناؤ کے ردعمل کی ممکنہ علامات: اپنی نگہداشت کرنے والوں سے معمول سے زیادہ چمٹے رہنا، اپنے پرانے (چھوٹی عمر) کے رویوں کی طرف رجوع کرنا، سونے اور کھانے کے انداز میں نمایاں تبدیلیاں، زیادہ چڑچڑاپن، ہائپر ایکٹیویٹی میں اضافہ، چیزوں سے زیادہ ڈرنا، ہر چیز کا زیادہ مطالبہ کرنا، معمول سے زیادہ رونا وغیرہ شامل ہے۔

4 سے6 سال کے بچوں میں تناؤ کے ردعمل کی ممکنہ علامات: اپنے سے بڑے بچوں سے چمٹا رہنا، اپنے سابقہ (چھوٹی عمر) کے رویوں کی طرف رجوع کرنا، سونے اور کھانے کے انداز میں تبدیلیاں، ضرورت سے زیادہ چڑچڑاپن، بہت زیادہ غیرفعال یا بہت زیادہ متحرک ہونا، کھیل کھیلنا بند کردینا، اپنی عمر سے بڑے بچوں کا کردار ادا کرنا، بولنا بالکل بند کردینا، کسی بھی چیز کے لیے زیادہ فکرمند یا پریشان ہوجانا وغیرہ اس عمر کے بچوں میں ذہنی تناؤ کی ممکنہ علامات میں شامل ہے۔


7 سے 12 سال کے بچوں میں تناؤ کے ردعمل کی ممکنہ علامات: دوسروں کے بارے میں اکثر تشویش کا اظہار کرنا ، سونے اور کھانے کے انداز میں تبدیلیاں، جلدی سے خوفزدہ ہوجانا، چڑچڑاپن کا اظہار کرنا، بار بار جارحیت اور تشدد (مارپیٹ، لڑائی) کرنا، بے چینی، کم زور یادداشت اور بھول جانا، ایسے بچوں میں جسمانی اور نفسیاتی علامات کی ایک نشانی اکثر کسی ایونٹ یا کھیل کے بارے میں باربار بات کرنا بھی ہوسکتی ہے۔ کسی بھی فعل کے لیے خود کو مجرم محسوس کرنا یا خود کو قصوروار ٹھہرانا بھی ہو سکتا ہے۔

13-17 سال کے بچوں میں تناؤ کے ردعمل کی ممکنہ علامات: بچوں میں یہ عمر سب سے زیادہ اپنے احساسات، جذبات اور کیفیت کو بیان کرنے کی ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچوں کی شخصیت سازی کیلئے جذبات کو سمجھنا نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچے جو کہ ابھی نوجوانی کی عمر میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ اکثر شدید غم اور دوسروں کے لیے ضرورت سے زیادہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن میں جرم اور شرم کے احساسات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں اپنے اختیارات کا بڑھتا ہوا انحراف محسوس ہوتا ہے۔ ان میں خطرہ مول لینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ جارحیت، خود کو تباہ کرنے والے جذبات کا شدت سے اظہار کرتے ہیں، اور بہت جلد نااُمید ہوجاتے اور تنہائی محسوس کرتے ہیں۔

مختلف عمر کے بچوں میں تناؤ کے ردعمل کی ممکنہ علامات: جسمانی ردعمل، یہ جسمانی بیماری کی علامات بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے براہ کرم اپنے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں تاکہ کسی بھی جسمانی حالت کو ٹھیک کیا جاسکے۔ بچوں میں تھکاوٹ، سینہ تیز چلنا، سانس میں کمی، منہ خشک ہونا، پٹھوں کی کم زوری، پیٹ کا درد، چکر آنا، سر درد اور عام درد کی علامات ہوسکتی ہیں۔ بچوں میں بہت سنگین تکلیف کے ردعمل اگر زیادہ دیر تک ہوتے رہیں یا بچے ان علامات کو طویل عرصے تک ظاہر کرتے رہیں انہیں ماہرانہ مدد کی ضرورت ہوگی۔ مثلاً کم یا بغیر کسی حرکت کے پیچھے ہٹنا یا بہت پرسکون جگہ پر رہنا یا دوسرے لوگوں سے دور رہنا، دوسروں کو جواب نہ دینا، یا بات نہیں کرنا علامات ہو سکتی ہیں۔ انتہائی اور مسلسل پریشانی محسوس کرنے کی جسمانی علامات میں لرزنا، سر درد، بھوک میں کمی، درد اور جارحانہ رویہ، دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرنا، الجھن میں یا پریشان رہنا شامل ہیں۔

جذباتی چیک ان: COVID-19 کا وبائی مرض ہر ایک کے لیے جذباتی طور پر مشکل وقت رہا ہے اور اس سے بہت سارے بچے بھی بہت متاثر ہوئے ہیں۔ والدین کو باقاعدگی سے چیک ان کرنا چاہیے کہ آپ کا بچہ کیسا محسوس کر رہا ہے۔ جذباتی طور پر چیک ان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچوں سے براہ راست یا بالواسطہ یہ پوچھیں ''وہ کیسے ہیں۔'' چیک ان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے بچے سے تصویر کھینچنے یا پینٹ کرنے کو کہیں۔ ان سے کہیں کہ وہ آپ کو تصویر کے بارے میں مزید بتائیں، انہوں نے کیا کھینچا ہے یا انہوں نے ایک مخصوص رنگ کیوں استعمال کیا۔ اس سے کچھ بچوں کو بات کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں، جب کہ دوسرے بچے بغیر بحث کے تصویر دکھانے میں خوش ہو سکتے ہیں، بچے کو فیصلہ کرنے دیں۔ یہ یاد رکھیں ہمارے ملک، معاشرے، اسکولوں اور گھروں کا ماحول بہت حبس زدہ اور سخت ہے جہاں بچوں کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع نہیں دیا جاتا۔

بچوں میں ذہنی تناؤ کم کرنے اور ان کی بہتری کے لیے سرگرمیاں: یہ عملی سرگرمیاں آپ کے بچے کا ذہنی تناؤ کو کم کرنے میں مدد کے لیے کی جا سکتی ہیں اور انہیں اس صورت حال سے مثبت طریقے سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی فراہم کی جا سکتی ہے جو ان کی فلاح و بہبود میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سرگرمیاں آپ کے لیے بھی فائدہ مند ہیں جو آپ اپنے بچے کے ساتھ مل کر سرانجام دے سکتے ہیں۔

پیٹ میں سانس اتارنا: اکثر جب ہم دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو ہماری سانسیں سخت ہوجاتی ہیں، ہمارے سینے میں کچھاؤ پیدا ہوجاتا ہے اور ہم اپنے پیٹ یا پیٹ میں گہرا سانس اتارنا بھول جاتے ہیں۔ پیٹ میں سانس اتارنا بہت پرسکون عمل ہے اور ہمارے پھیپھڑوں میں آکسیجن کو گہرائی تک پہنچانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہ کیسے کریں؟ اپنا ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھیں پانچ دفعہ گہری سانسیں لیں، سانس لینے میں پانچ سیکنڈ اور سانس باہر لینے میں پانچ سیکنڈ گزاریں، اپنی ناک سے سانس اندر اور منہ سے باہر نکالیں۔ غور کریں کہ جب آپ کا بچہ سانس لیتا ہے، تو وہ اپنے پیٹ کو غبارے کی طرح نرمی سے اڑا پھلا ہوتا ہے، اور جب وہ سانس چھوڑتا ہے تو غبارے سے ہوا آہستہ آہستہ باہر نکلتی ہے۔

کبھی کبھی ہمارے آس پاس کی دُنیا بہت زیادہ محسوس کر سکتی ہے۔ بغیر کسی تناؤ کے کسی پرسکون جگہ کا تصور کرنے کے لیے ایک لمحہ نکال کر، اپنے بچوں کو کم تناؤ محسوس کروا سکتے ہیں۔ اس لیے پکنک اور پارکس کا انتخاب بھی کیا جاسکتا ہے، تاکہ وہ موبائل، گھر کے کام کاج، ٹی وی کے شور اور دیگر سرگرمیوں سے مکمل طور پر کنارہ کشی کرکے پر سکون رہ سکیں۔

ایسی جگہ کا تصور کرنے میں آپ کے بچے کی مدد کرنے کے لیے یہاں ایک سرگرمی بتائی جارہی ہے۔ یہ کیسے کریں؟ آرام دہ حالت میں بیٹھیں یا لیٹ جائیں، آنکھیں بند کریں اور آرام کریں۔ اپنی ناک اور اپنے پیٹ میں کئی گہری اور آہستہ سانسیں لیں۔ اپنے منہ سے سانس باہر نکالیں۔ آہستہ اور آہستہ سانس لیتے رہیں۔ ہلکی لمبی سانسیں پھر ہلکی لمبی سانسیں چھوڑیں۔ اپنے ذہن میں کہانی سنیں اور اس پر عمل کریں۔ کہانی میں ہونے کا تصور کریں۔

''تصور کریں کہ آپ ایک سفید ریتیلے ساحل پر کھڑے ہیں۔ یہ صبح سویرے کا وقت ہے اور بہت خاموشی ہے۔ سورج آہستہ آہستہ طلوع ہو رہا ہے اور آپ اپنے چہرے اور جسم پر گرم روشنی محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ خوش اور پرسکون محسوس کر رہے ہیں۔ آپ کے ننگے پاؤں کے نیچے کی ریت نرم اور گرم ہے۔ ہلکی ہوا کا جھونکا آپ کے چہرے کو چھوتا ہے۔ آسمان نیلا اور کھلا ہے اور پرندے اڑ رہے ہیں۔ یہ جگہ محفوظ ہے اور آپ یہاں آرام کر سکتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ ہمیشہ واپس آسکتے ہیں جو ہمیشہ آپ کے دل کے اندر رہتی ہے۔ آپ جب چاہیں یہاں تشریف لاسکتے ہیں۔

اب بہت دھیرے دھیرے اپنی سانسوں کو دوبارہ محسوس کرنا شروع کریں۔ سانس لینے اور چھوڑنے کی نرم تال، اپنی جلد پر ہوا کے احساس کو محسوس کریں۔ بہت نرمی سے اپنی انگلیوں کو ہلانا شروع کریں۔ سانس لیں اور ایک لمبا سانس کھینچیں۔ گہری سانس چھوڑیں۔ جب تم تیار ہوجائیں تو آنکھیں کھول دیں۔''

اپنے بچوں کو خط لکھنا سکھائیں۔ اگر آپ کا بچہ وبائی امراض کے دوران کچھ دوستوں یا خاندان کے افراد کو نہیں دیکھ سکا ہے تو خط لکھنے سے اس شخص کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے چاہے وہ موجود نہ ہوں۔ (واٹس ایپ اور ویڈیو کال سے اجتناب کیا جائے)

یہ کیسے کریں؟ اپنے بچے سے کسی عزیز کے لیے خط لکھنے یا تصویر کھینچنے کو کہیں جسے اس نے طویل عرصے سے نہیں دیکھا اگر وہ آج آپ کے ساتھ بیٹھیں تو آپ ان سے کیا کہنا چاہیں گے؟ آپ ان کے بارے میں کیا پسند کرتے ہیں؟ ان کے بارے میں کون سی یادیں آپ کو خوشی دیتی ہیں؟ یاد رکھیں یہ باتیں شاید آپ کو کتابی لگیں لیکن یہ دُنیا اور زندگی ایک کتاب ہی تو ہے جو ہمیں مختلف طریقوں سے سکھاتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم آسان یعنی کتابی باتوں سے سیکھتے ہیں یا جب یہ مسائل ہمارے ساتھ، ہمارے بچوں کے ساتھ پیش آئیں گے تب سیکھیں گے؟ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے۔
Load Next Story