انسان کی حقیقت
جتنا بھی خدا کا شکر ادا کرنے میں انسان لاتعلق ہو وہ اس کے لیے آزمائش کا عرصہ ہوتا ہے
خدا کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک انسان جو اپنے آپ کو عقل ِکل اور عظیم مخلوق گردانتا ہے، دراصل کچھ بھی نہیں ہے اور اپنی طاقت اور خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے نتیجے میں کبھی خود کو ناقابل ِ شکست اور دانائے کل سمجھتا ہے۔ میں ایک روز کمرے میں بیٹھا سامنے دیوار پر لگی تصاویر کو دیکھ رہا تھا تو مجھے ان میں دھندلا پن محسوس ہوا۔
میں نے دو تین اور لائٹیں جلائیں لیکن مجھے انتہائی مدھم روشنی نظر آئی۔ میں نے اپنی دائیں آنکھ بند کر کے دیکھا تھوڑا تھوڑا نظر آرہا تھا پھر میں نے دائیں آنکھ سے دیکھا تو بے حد دھندلا پن نظر آیا جیسے بینائی نے جواب دے دیا ہو۔ ایک لمحے کے لیے میری حالت غیر ہو گئی ہے۔ کئی بار دائیں اور بائیں آنکھ بند کر کے کمرے کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ میری دائیں آنکھ کی بینائی ختم ہو گئی ہے اور اس کے ذریعے دیکھا جائے تو نیلے پیلے سیاہ داغ نظر آتے ہیں جب کہ کمرے میں موجود چیزیں یکلخت اوجھل ہو گئی ہیں۔ اس تکلیف دہ عذاب پر میں نے توجہ دی تو نتیجہ یہ نکلا کہ میری دائیں آنکھ کی بینائی اب موجود نہیں ہے۔
خدائی عذاب کا یہ نمونہ کسی اور کے ساتھ شیئر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لہٰذا میں بیگم سے بات کرنے کے بعد اسے ساتھ لے کر آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر لودھی سے ملاقات کرنے پہنچا اور اُسے اپنی رُوداد سنائی۔ ڈاکٹر صاحب نے میری آنکھ کا معائنہ کیا اور مجھے فوری طور پر ڈاکٹر قاسم سے رجوع کرنے کے لیے کہا۔ میں ڈاکٹر قاسم کے پاس پہنچا اور اُسے اپنی آنکھ کی کیفیت بتائی۔ ڈاکٹر قاسم نے مجھے آپریشن تھیٹر میں لے جا کر میری دائیں آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالے اور کہا کہ میں نے اس میں ایک انجکشن لگا دیا ہے ۔
اب دوسرا انجکشن ایک ماہ بعد لگے گا۔ ڈاکٹر قاسم سے دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور دائیں آنکھ میں دو انجکشن لگ چکے ہیں۔ یہ خدا کا فضل ہے اور ہماری طبّی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے کہ پہلے انجکشن کے بعد چند روز میں مجھے اس دائیں آنکھ سے دس فیصد چیزیں صاف دکھائی دینے لگی تھیں جب کہ دوسرے انجکشن کے بعد پچاس فیصد بہتری آ گئی ہے ۔ بیشمار بیماریاں اور تکالیف ہیں جو انسانوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہیں اور ان میں سے متعدد ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج ہو رہا ہے لیکن بیشمار ایسی بیماریوں سے انسانوں کو واسطہ پڑتا ہے اور اُن کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا۔ ان کی تحقیق جاری ہے ۔
یہاں مجھے عبد الحئی کی یاد آ رہی ہے جس نے مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر سول سروس میں آکر سرکاری نوکری شروع کی، وہ اعلیٰ پوسٹوں پر رہا اور پھر اُسے اچانک آنکھوں کی بیماری نے آن لیا، وہ دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گیا۔ اس کا ایک بیٹا میڈیکل ڈاکٹر ہے دوسرا امریکا میں پروفیسر ہے جب کہ تیسرا فارن سروس آکر ایک ملک میں پاکستان کا سفیر ہے۔
عبد الحئی بیٹے کے پاس امریکا چلا گیا اور وہاں ماہر ڈاکٹروں سے علاج کرواتا رہا لیکن 2 سال میں کچھ فائدہ نہ ہوا تو وہ اپنے دوسرے ایمبیسڈر بیٹے کے پاس چلا گیا یہاں وہ گزشتہ ایک سال سے مقیم ہے لیکن وہاں بھی آنکھوں کا علاج اس بینائی واپس نہیں لا سکا۔ اب ہفتہ دس دن کے بعد مجھے اس کا ٹیلی فون آتا ہے تو وہ مجھے بتاتا ہے کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کی بینائی واپس لانے کے لیے کو ئی علاج دریافت نہیں ہو سکا جس کی کوششیں ساری دنیا میں جاری ہیں۔
میری اپنی آنکھ کی اچانک بینائی زائل ہونے کے بعد ڈاکٹر قاسم ایک ایک مہینے کے وقفے کے بعد متاثرہ آنکھ میں تین انجکشن لگا چکا ہے جس کا نتیجہ بتدریج بہتر ی کی طرف گیا ہے اور پہلی بار10 فیصد پھر50 فیصد اور تیسرے انجکشن کے بعد بینائی90 فیصد بحال ہو چکی ہے۔
یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ انسانی بیماریوں پر طویل عرصہ سے تجربات اور مشاہدات ہوئے ہیں جو اگرچہ مو جو د ہیں لیکن جب تک کوئی شخص کسی بیماری کے عذاب سے نہ گزرے اس کو اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ خود میں جو گزشتہ بیس سال سے ہر اتوار ایک مضمون لکھتا رہا جو پانچ کتب میں محفوظ ہیں، ان میں تسلسل کی بریک آئی ہے تو خود مجھے مشیت ایزدی کی عظمت کا ادراک ہوا ہے لیکن اشرف المخلوقات انسان بھی اس آزمائش سے گرتا دیکھا گیا ہے جس میں میر ی اپنی مثال مو جود ہے۔ چند روز قبل جب چئیر مین جمخانہ کلب نے مجھ سے دریافت کیا کہ میں انھیں گزشتہ دو اڑھائی ماہ نہیں مل سکا تو اس کی وجہ کیا ہے۔
اس کا مختصر جواب ہے کہ میرا ہفتہ وار کالم لکھنا تو اس دوران التوا میں پڑا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس آزمائش کے عرصہ میں مجھے لوگوں سے ملنے جلنے اور سیرو تفریح میں بھی نہ صرف کمی آئی بلکہ دلچسپی بھی نہ رہی۔ اس آزمائش سے گزرنے کے بعد مجھے احساس ہو تا ہے کہ جتنا بھی خدا کا شکر ادا کرنے میں انسان لا تعلق ہو وہ اس کے لیے آزمائش کا عرصہ ہو تا ہے۔ جس سے صرف ایک ہی طریقے سے بچا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مالک و خالق کی پناہ میں رہنے میں خود کو مصروف رکھے اور مالکِ حقیقی کو ایک لمحے کے لیے بھی بھولنے کی غلطی سے گریز کرے۔ یہاں مجھے ایک شعر یاد آتا ہے کہ:
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
میں نے دو تین اور لائٹیں جلائیں لیکن مجھے انتہائی مدھم روشنی نظر آئی۔ میں نے اپنی دائیں آنکھ بند کر کے دیکھا تھوڑا تھوڑا نظر آرہا تھا پھر میں نے دائیں آنکھ سے دیکھا تو بے حد دھندلا پن نظر آیا جیسے بینائی نے جواب دے دیا ہو۔ ایک لمحے کے لیے میری حالت غیر ہو گئی ہے۔ کئی بار دائیں اور بائیں آنکھ بند کر کے کمرے کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ میری دائیں آنکھ کی بینائی ختم ہو گئی ہے اور اس کے ذریعے دیکھا جائے تو نیلے پیلے سیاہ داغ نظر آتے ہیں جب کہ کمرے میں موجود چیزیں یکلخت اوجھل ہو گئی ہیں۔ اس تکلیف دہ عذاب پر میں نے توجہ دی تو نتیجہ یہ نکلا کہ میری دائیں آنکھ کی بینائی اب موجود نہیں ہے۔
خدائی عذاب کا یہ نمونہ کسی اور کے ساتھ شیئر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لہٰذا میں بیگم سے بات کرنے کے بعد اسے ساتھ لے کر آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر لودھی سے ملاقات کرنے پہنچا اور اُسے اپنی رُوداد سنائی۔ ڈاکٹر صاحب نے میری آنکھ کا معائنہ کیا اور مجھے فوری طور پر ڈاکٹر قاسم سے رجوع کرنے کے لیے کہا۔ میں ڈاکٹر قاسم کے پاس پہنچا اور اُسے اپنی آنکھ کی کیفیت بتائی۔ ڈاکٹر قاسم نے مجھے آپریشن تھیٹر میں لے جا کر میری دائیں آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالے اور کہا کہ میں نے اس میں ایک انجکشن لگا دیا ہے ۔
اب دوسرا انجکشن ایک ماہ بعد لگے گا۔ ڈاکٹر قاسم سے دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور دائیں آنکھ میں دو انجکشن لگ چکے ہیں۔ یہ خدا کا فضل ہے اور ہماری طبّی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے کہ پہلے انجکشن کے بعد چند روز میں مجھے اس دائیں آنکھ سے دس فیصد چیزیں صاف دکھائی دینے لگی تھیں جب کہ دوسرے انجکشن کے بعد پچاس فیصد بہتری آ گئی ہے ۔ بیشمار بیماریاں اور تکالیف ہیں جو انسانوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہیں اور ان میں سے متعدد ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج ہو رہا ہے لیکن بیشمار ایسی بیماریوں سے انسانوں کو واسطہ پڑتا ہے اور اُن کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا۔ ان کی تحقیق جاری ہے ۔
یہاں مجھے عبد الحئی کی یاد آ رہی ہے جس نے مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر سول سروس میں آکر سرکاری نوکری شروع کی، وہ اعلیٰ پوسٹوں پر رہا اور پھر اُسے اچانک آنکھوں کی بیماری نے آن لیا، وہ دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گیا۔ اس کا ایک بیٹا میڈیکل ڈاکٹر ہے دوسرا امریکا میں پروفیسر ہے جب کہ تیسرا فارن سروس آکر ایک ملک میں پاکستان کا سفیر ہے۔
عبد الحئی بیٹے کے پاس امریکا چلا گیا اور وہاں ماہر ڈاکٹروں سے علاج کرواتا رہا لیکن 2 سال میں کچھ فائدہ نہ ہوا تو وہ اپنے دوسرے ایمبیسڈر بیٹے کے پاس چلا گیا یہاں وہ گزشتہ ایک سال سے مقیم ہے لیکن وہاں بھی آنکھوں کا علاج اس بینائی واپس نہیں لا سکا۔ اب ہفتہ دس دن کے بعد مجھے اس کا ٹیلی فون آتا ہے تو وہ مجھے بتاتا ہے کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کی بینائی واپس لانے کے لیے کو ئی علاج دریافت نہیں ہو سکا جس کی کوششیں ساری دنیا میں جاری ہیں۔
میری اپنی آنکھ کی اچانک بینائی زائل ہونے کے بعد ڈاکٹر قاسم ایک ایک مہینے کے وقفے کے بعد متاثرہ آنکھ میں تین انجکشن لگا چکا ہے جس کا نتیجہ بتدریج بہتر ی کی طرف گیا ہے اور پہلی بار10 فیصد پھر50 فیصد اور تیسرے انجکشن کے بعد بینائی90 فیصد بحال ہو چکی ہے۔
یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ انسانی بیماریوں پر طویل عرصہ سے تجربات اور مشاہدات ہوئے ہیں جو اگرچہ مو جو د ہیں لیکن جب تک کوئی شخص کسی بیماری کے عذاب سے نہ گزرے اس کو اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ خود میں جو گزشتہ بیس سال سے ہر اتوار ایک مضمون لکھتا رہا جو پانچ کتب میں محفوظ ہیں، ان میں تسلسل کی بریک آئی ہے تو خود مجھے مشیت ایزدی کی عظمت کا ادراک ہوا ہے لیکن اشرف المخلوقات انسان بھی اس آزمائش سے گرتا دیکھا گیا ہے جس میں میر ی اپنی مثال مو جود ہے۔ چند روز قبل جب چئیر مین جمخانہ کلب نے مجھ سے دریافت کیا کہ میں انھیں گزشتہ دو اڑھائی ماہ نہیں مل سکا تو اس کی وجہ کیا ہے۔
اس کا مختصر جواب ہے کہ میرا ہفتہ وار کالم لکھنا تو اس دوران التوا میں پڑا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس آزمائش کے عرصہ میں مجھے لوگوں سے ملنے جلنے اور سیرو تفریح میں بھی نہ صرف کمی آئی بلکہ دلچسپی بھی نہ رہی۔ اس آزمائش سے گزرنے کے بعد مجھے احساس ہو تا ہے کہ جتنا بھی خدا کا شکر ادا کرنے میں انسان لا تعلق ہو وہ اس کے لیے آزمائش کا عرصہ ہو تا ہے۔ جس سے صرف ایک ہی طریقے سے بچا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مالک و خالق کی پناہ میں رہنے میں خود کو مصروف رکھے اور مالکِ حقیقی کو ایک لمحے کے لیے بھی بھولنے کی غلطی سے گریز کرے۔ یہاں مجھے ایک شعر یاد آتا ہے کہ:
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا