پاکستان… گرے لسٹ
فیٹف کی بلیک لسٹ میں دو ممالک ایران اور نارتھ کوریا شامل ہیں
LONDON:
دنیا بھر کے مالیاتی نظام کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے قائم عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف (FATF) فنانشل ٹاسک فورس میں پاکستان سمیت 12 ممالک کو گرے لسٹ میں رکھنے یا نکالنے کے عمل کا جائزہ لیا گیا جن میں پاکستان البانیہ، باربادوس، کمبوڈیا، بوٹسوانا، جمیکا، ماریشس، نکاراگوا، برما، شام، یوگنڈا، یمن اور زمبابوے شامل ہیں۔
فیٹف کی بلیک لسٹ میں دو ممالک ایران اور نارتھ کوریا شامل ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان اپنی رپورٹ پر براہ راست بحث میں حصہ نہیں لے سکتا تاہم پورٹ پر دوست ممالک کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ اجلاس کے دوران دوست ممالک پاکستانی موقف کی حمایت کریں۔جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرف فنانسنگ کو روکنے میں ناکامی پر گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے فروری 2018 کے اجلاس میں امریکا اور بھارت کی بھرپور کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ اس وقت چین ترکی اور سعودی عرب نے اس تجویز کی مخالفت کیا۔ اس وجہ سے امریکا اور بھارتی لابی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔
لیکن انھوں نے ایف اے ٹی ایف کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کو ایک 26 نکاتی پروگرام پر چار ماہ کے دوران عمل کا حکم دیے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کو واچ لسٹ پر رکھا جائے۔ اس طرح جون 2018 کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکسان کو "Strategic deficiencies combating terrorism"میں ناکامی پر "گرے لسٹ" میں ڈال دیا۔ گرے لسٹ میں آنے سے اس کے اثرات ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی پر نمایاں ہونے لگے۔ بھارت کو موقع بھی مل گیا او ر وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے منفی خیالات کھل کر بیان کرنے لگا۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہمیں معاشی اعتبار سے stable کی لسٹ سے نکال کر negative لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔
پاکستان نے FATF کی جانب سے دیے گئے تمام نکات اور اہداف مکمل کر کے ایک ذمے د ار ریاست کا ثبوت دیا۔ ا فواج پاکستان نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ا فواج پاکستان نے ایک قومی ادارے کے طور پر حکومت اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔ پاکستان نے FATF کی جانب سے دیے گئے ٹیرر فنایسنگ کے 27میں سے27پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ ان دونوں ایکشن پلانز کو ملا کر مجموعی طور پر 34 نکات پر عمل درامد کو یقینی بنانا تھا۔ اینٹی منی لانڈرنگ(AML)اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ(CFT) پر مبنی اس ایکشن پلان کو 4 سال کی مسلسل کوششوں کے بعد مکمل کیا اور اس طرح پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے عمل میں معاونت ملی۔
GHQ میں DGMO کی سربراہی میں اسپیشل سیل بھی قائم کیا گیا۔ اس سل نے جب ذمے داری سنبھالی تو اس وقت صرف 5نکات پر پیش رفت تھی۔ سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن کا میکنزم بنایا اور ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا اور اس پر ان تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز سے عمل درآمد بھی کرایا۔ پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن کی گزشتہ 13 مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں اور 71فیصد اثاثے ضبط کیے گئے جس سے گزشتہ 4 سالوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں کمی آئی۔
جب سے یہ اعلان ہوا ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے سے نکل رہا ہے تو یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس کا کریڈٹ کسے دیا جائے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ ان کی کوششوں سے ہوا ہے اور پاکستان گرے میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران گیا جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کو جون 2018 میں میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا، اس وقت ملک میں نگران حکومت تھی اور 2018 کے انتخابات کی تیاری جاری تھی۔ پاکستان پہلی بار 2012 میں فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہوا، اس وقت بھی ملک کا سیاسی نظام غیر مستحکم تھا ۔
2013 میں انتخابات ہوئے اور پی ایم ایل این کی حکومت آئی تو پاکستان باہر نکل آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ملک کا سیاسی نظام غیر مستحکم ہو اور مختلف ادارے ایک دوسرے سے متصادم ہو ں تو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کا فروغ پانا کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جب بھی پاکستان فیٹف میں گیا اس وقت ملک کا سیاسی نظام انتہائی غیر مستحکم اور معاشی حالت دگرگوں تھی۔
فیٹف سے نکلنے کا کریڈٹ کسی ایک حکومت یا ادارے کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کے تمام اداروں میں یکسوئی پیدا ہوئی اور ایک مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام متحد ہوئے تو ہم نے ہر ہدف حاصل کیا جوہری توانائی کا حصول یا پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ، سب کے سامنے ہر منزل حاصل کی۔ اس وقت بھی پاکستان کو سنگین معاشی صورتحال کا سامنا ہے، وقت کا تقاضہ ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈر مل کر کام کریں، اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اتحاد میں برکت ہے۔ ملک کے عسکری،سیاسی اور سول ادارے اور ان کے ماتحت ذیلی اداروں کو قومی مقاصد کے لیے گروہی اور ادارہ جاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کام کرنا چاہیے تاکہ ملک کو معاشی اور سیاسی بحران سے نکالا جاسکے۔
دنیا بھر کے مالیاتی نظام کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے قائم عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف (FATF) فنانشل ٹاسک فورس میں پاکستان سمیت 12 ممالک کو گرے لسٹ میں رکھنے یا نکالنے کے عمل کا جائزہ لیا گیا جن میں پاکستان البانیہ، باربادوس، کمبوڈیا، بوٹسوانا، جمیکا، ماریشس، نکاراگوا، برما، شام، یوگنڈا، یمن اور زمبابوے شامل ہیں۔
فیٹف کی بلیک لسٹ میں دو ممالک ایران اور نارتھ کوریا شامل ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان اپنی رپورٹ پر براہ راست بحث میں حصہ نہیں لے سکتا تاہم پورٹ پر دوست ممالک کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ اجلاس کے دوران دوست ممالک پاکستانی موقف کی حمایت کریں۔جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرف فنانسنگ کو روکنے میں ناکامی پر گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے فروری 2018 کے اجلاس میں امریکا اور بھارت کی بھرپور کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ اس وقت چین ترکی اور سعودی عرب نے اس تجویز کی مخالفت کیا۔ اس وجہ سے امریکا اور بھارتی لابی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔
لیکن انھوں نے ایف اے ٹی ایف کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کو ایک 26 نکاتی پروگرام پر چار ماہ کے دوران عمل کا حکم دیے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کو واچ لسٹ پر رکھا جائے۔ اس طرح جون 2018 کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکسان کو "Strategic deficiencies combating terrorism"میں ناکامی پر "گرے لسٹ" میں ڈال دیا۔ گرے لسٹ میں آنے سے اس کے اثرات ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی پر نمایاں ہونے لگے۔ بھارت کو موقع بھی مل گیا او ر وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے منفی خیالات کھل کر بیان کرنے لگا۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہمیں معاشی اعتبار سے stable کی لسٹ سے نکال کر negative لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔
پاکستان نے FATF کی جانب سے دیے گئے تمام نکات اور اہداف مکمل کر کے ایک ذمے د ار ریاست کا ثبوت دیا۔ ا فواج پاکستان نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ا فواج پاکستان نے ایک قومی ادارے کے طور پر حکومت اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔ پاکستان نے FATF کی جانب سے دیے گئے ٹیرر فنایسنگ کے 27میں سے27پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ ان دونوں ایکشن پلانز کو ملا کر مجموعی طور پر 34 نکات پر عمل درامد کو یقینی بنانا تھا۔ اینٹی منی لانڈرنگ(AML)اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ(CFT) پر مبنی اس ایکشن پلان کو 4 سال کی مسلسل کوششوں کے بعد مکمل کیا اور اس طرح پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے عمل میں معاونت ملی۔
GHQ میں DGMO کی سربراہی میں اسپیشل سیل بھی قائم کیا گیا۔ اس سل نے جب ذمے داری سنبھالی تو اس وقت صرف 5نکات پر پیش رفت تھی۔ سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن کا میکنزم بنایا اور ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا اور اس پر ان تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز سے عمل درآمد بھی کرایا۔ پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن کی گزشتہ 13 مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں اور 71فیصد اثاثے ضبط کیے گئے جس سے گزشتہ 4 سالوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں کمی آئی۔
جب سے یہ اعلان ہوا ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے سے نکل رہا ہے تو یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس کا کریڈٹ کسے دیا جائے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ ان کی کوششوں سے ہوا ہے اور پاکستان گرے میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران گیا جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کو جون 2018 میں میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا، اس وقت ملک میں نگران حکومت تھی اور 2018 کے انتخابات کی تیاری جاری تھی۔ پاکستان پہلی بار 2012 میں فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہوا، اس وقت بھی ملک کا سیاسی نظام غیر مستحکم تھا ۔
2013 میں انتخابات ہوئے اور پی ایم ایل این کی حکومت آئی تو پاکستان باہر نکل آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ملک کا سیاسی نظام غیر مستحکم ہو اور مختلف ادارے ایک دوسرے سے متصادم ہو ں تو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کا فروغ پانا کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جب بھی پاکستان فیٹف میں گیا اس وقت ملک کا سیاسی نظام انتہائی غیر مستحکم اور معاشی حالت دگرگوں تھی۔
فیٹف سے نکلنے کا کریڈٹ کسی ایک حکومت یا ادارے کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کے تمام اداروں میں یکسوئی پیدا ہوئی اور ایک مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام متحد ہوئے تو ہم نے ہر ہدف حاصل کیا جوہری توانائی کا حصول یا پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ، سب کے سامنے ہر منزل حاصل کی۔ اس وقت بھی پاکستان کو سنگین معاشی صورتحال کا سامنا ہے، وقت کا تقاضہ ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈر مل کر کام کریں، اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اتحاد میں برکت ہے۔ ملک کے عسکری،سیاسی اور سول ادارے اور ان کے ماتحت ذیلی اداروں کو قومی مقاصد کے لیے گروہی اور ادارہ جاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کام کرنا چاہیے تاکہ ملک کو معاشی اور سیاسی بحران سے نکالا جاسکے۔