اسلاموفوبیا
جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، بھارت، ہندوستان بن گیا ہے
ISLAMABAD:
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہر مسلمان مرد عورت کے رہبر ہیں، ہر مسلمان کو ان کی شخصیت سے عشق ہے، اللہ کے محبوب نبی کے احکامات کو ماننا ہر مسلمان کا فرض ہے، مسلمانوں کو حضرت محمد مصطفی ﷺ سے اس قدر عشق ہے کہ اگر کوئی معاذ اللہ ان کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہمارے دل دکھی ہوتے ہیں اور ہم اپنے ہوش کھو بیٹھتے ہیں، چند روز قبل ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما نوپور شرما اور نوین کمار جندال نے نبی کریم ﷺ کے متعلق گستاخانہ بیان دیا، جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے بھارت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔
یہ احتجاج نہ صرف سڑکوں بلکہ سوشل میڈیا فارمز پر بھی ریکارڈ کیا گیا۔ مسلمانوں کا غم و غصہ دیکھتے ہوئے بی جے پی نے نوپور شرما کی رکینت معطل جب کہ نوین کمار جندال کو پارٹی سے نکال دیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ کر دینا اس ملک کے لیے کافی ہے جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست کا دعوی کرتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، بھارت، ہندوستان بن گیا ہے، ہندو ازم کی سوچ اقلیتوں کے استحصال پر آمادہ ہے ،ہندوتوا ریاست میں ویشوا ہندو پریشد،بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، بجرنگ دَل اور دھرم جاگرن سمیتی،دھرم سنسد،جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلسل طاقت پکڑ رہی ہیں۔بھارتی انتہا پسند جماعتیں20لاکھ مسلمانوں کے قتل کی خواہشمند ہے تاکہ باقی کے مسلمانوں کو اپنا غلام بناکر رکھنے میں آسانی ہو،کیونکہ ہندوازم سوچ سے وابستہ سوچ کو ڈر ہے کہ جیسے جیسے ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے کہیں 2029 میں ہندوستان کا وزیراعظم مسلمان نہ بن جائے۔
اس لیے وہ کبھی مسلم نسل کشی پر آمادہ ہوتے ہیں تو کبھی متنازعہ شہری بل لاکر مسلمانوں کی حق تلفی کی کوشش کرتے ہیں، کبھی حجاب پر پابندی عائد کرکے تنگ کرتے ہیں تو کبھی زبردستی جے رام جی کہنے کے لیے تشدد کرتے ہیں۔بھارت کا اقلیتوں پر ظلم کوئی نئی بات نہیں جون 1984 میں سکھ برداری کے ساتھ جو ستم ڈھایا گیا تھا اس کے متعلق آج بھی اخبارات میں لکھا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے حوالے سے بھارت کا سیکولر ازم کو تار تار ہوتے سب نے دیکھا۔ اکتوبر2015 کو بھارتی پنجاب کے علاقے فریدکوٹ میں انتہا پسندوں نے سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے سو سے زائد مسخ شدہ نسخے پھینک دیے، جس پر سکھ سراپا احتجاج ہوئے، پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی جس سے پانچ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے جب کہ لاتعداد مظاہرین کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا گیا۔ بعد ازاں پے در پے گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کے واقعات بڑھے اور جالندھر، لدھیانہ، امرتسر، کوٹ کپور میں چھ مختلف واقعات میں سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کر کے سکھ کمیونٹی کے جذبات مجروح کیے گئے۔
اسی طرح 2002 میں ریاست گجرات میں پانچ ہزار مسلح ہندوؤں نے مسلمانوں کی آبادیوں پر حملے کر کے انھیں بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی (موجودہ وزیر اعظم بھارت) تھے، انھوں نے مسلمانوں کے قتل عام کو گودھرا واقعہ کا رد عمل قرار دیا تھا، دراصل گودھرا ٹرین حملے میں کچھ یاتری مارے گئے تھے جس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا تھا۔ بھارت میں مسیحی برادری کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
2014 میں دہلی کے بڑے گرجا گھر سینٹ سیستان چرچ کو نذر آتش کیا گیا۔ 2015 میں دلی کے ایک اور چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی، مجسموں کو توڑا گیا۔ دلی میں مسیحی اسکول ہولی چائلڈ پر بھی حملے ہوئے، ریاست کیرالہ، آندھرا پردیش میں درجنوں گرجا گھروں پر بم برسائے گئے اور مسیحی قبرستانوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں انسانوں کے درمیان افضل اور کمتر سوچ بھی پائی جاتی ہے، نسلی امتیاز کی وجہ سے ہندو ہونے کے باوجود دلت قوم کو کمتر اور غلام سمجھ جاتا ہے۔ آئے روز ان کی خواتین کی عصمت ریزی کی جاتی ہے، ان کے ساتھ انسانیت کے منافی سلوک کرنے کو ہندو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔اونچی ذات کے ہندو،دلت قوم پر تعلیم کے حصول کے مخالف ہیں،انھیں چھوت سمجھ کر اپنے گھروں،دکانوں یا کہیں بھی ایسی جگہ نہیں آنے دیتے ہیں جہاں ان کی موجودگی ہو۔
نائن الیون کے بعد سے امریکا میں بھی اسلام وفوبیا نے زور پکڑا،میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مواد میں نمایاں اضافہ ہوا، کسی بھی دہشت گردی کے واقعے میں کسی بھی مسلمان کی موجودگی کو بڑھاچڑھا کر دکھایا گیا، اسلاموفوبیا میں مزید تیزی ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد آئی۔جنوری 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے پہلے ماہ کے دوران سات مسلم اکثریتی ممالک سے سفر پر پابندی عائد کی تھی۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں امریکیوں کو آیندہ دہشت گردی کے حملوں سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان کی کوششوں کی بدولت دنیا نے اسلامو فوبیا کو سنجیدگی سے لیا اور اس پر بات کی گئی۔اس حوالے سے اقوام متحدہ نے پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا کا دن منانے کی پاکستانی قرارداد منظور کی جس پر بھارت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
امریکا اور بھارت گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہے کہ بھارت کھلے عام انسانی اقدار کی خلاف ورزیاں کررہا ہے،مگر عالمی انسانی حقوق کی تنظیم چپ ہیں یا کبھی کبھی ہلکی پھلکی بیان بازی کر لیتی ہے مگر کوئی بھی عالمی ادارہ بھارت پر کسی پابندی کا حکم جاری نہیں کرسکا ہے،جس کی وجہ اس کا خود مختار ریاست ہونا ہے۔پاکستان کو بھی کچھ اس قسم کے اقدامات کرنے ہونگے جس میں پختگی نظر آئے۔مان لیا خالی جیب لے کر آنکھیں نہیں دکھائی جاتیں مگر ہم کب اپنے قابل بنیں گے ، جب تک ہم کشکول لے کر ملک در ملک پھیریں گے ہماری کوئی عزت نہیں کرے گا،جب تک ہم اپنے آپ کو منوا نہیں لیں گے جب تک دنیا ہمیں سنجیدگی سے نہیں لے گی۔
اپنے آپ کو اس طرح بھی نہیں منوایا جاتا کہ جس کا کھائیں اس پر ہی غرانے لگیں یہ تو ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔اس رویے سے بھی دوسرے ممالک دور ہونے لگتے ہیں۔ خود کو منوانے کے لیے سب سے ملکر ٹھوس فیصلے لینے کی حکمت عملی ہوتی ہے۔کسی ملک کے بل بوتے پر کسی دوسرے ملک جس کی امداد پر پل رہے ہو اسے آنکھیں دکھانا بچپنا ہے مگر ہاں اپنی تجارتی منڈیاں مضبوط کرکے طاقتور کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ سازی کرنا،مضبوط ریاست ہونے کی واضح دلیل ہے،جب تک پاکستان معاشی لحاظ سے مستحکم نہیں ہوجاتا نہ تو وہ کشمیر آزاد کروا سکتا ہے نہ ہی کسی بھی فورم پر نمایاں نظر آسکتا ہے۔اس لیے سب سے پہلے اپنے پر کام کرنا ہوگا،اس طرح ہی پاکستان کی سربلندی ممکن ہے۔