مہنگائی اور یوکرین جنگ

ایسی باتیں تو گزشتہ ہر بجٹ پیش کرنے والے وزرائے خزانہ بڑے فخر سے کہتے رہے ہیں

usmandamohi@yahoo.com

PESHAWAR/ISLAMABAD/LAHORE ':
ہم پاکستانی اس وقت روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے اپنے ہوش و حواس کھوتے جا رہے ہیں۔ یہ مہنگائی آخر کہاں جا کر رکے گی؟ اس کا کسی کو کچھ نہیں پتا۔ ہم تو پہلے سے ہی معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ کس طرح گزر بسر کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کو پال رہے ہیں یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ہماری پریشانیوں کا ہماری کسی حکومت کو کبھی کوئی احساس نہیں رہا۔ جب بھی کسی حکومت نے بجٹ پیش کیا اس میں غریبوں کو کچھ دینے کے بجائے ان سے بہت کچھ چھیننے کی کوشش کی گئی۔

موجودہ سال 2022-23 کا پیش کیا جانے والا وفاقی بجٹ بھی گزشتہ بجٹ سے مختلف نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے ضرور کہا جا رہا ہے کہ اس بجٹ میں غریبوں کی بھلائی کے لیے بہت کچھ رکھا گیا ہے۔ ایسی باتیں تو گزشتہ ہر بجٹ پیش کرنے والے وزرائے خزانہ بڑے فخر سے کہتے رہے ہیں۔ افسوس اس امر پر ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہر بجٹ میں اپنی اور اپنے صاحب ثروت احباب کی خوشحالی اور ترقی کو ضرور پیش نظر رکھا۔ یہ حقیقت یہ کہ ملک کے معاشی وڈیروں کو کبھی ناخوش نہیں کیا گیا ان کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرکے ان کے سرمائے کو د گنا اور چوگنا کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان پر ٹیکس کی پابندی ہے بھی اور نہیں بھی۔ انھیں بینکوں سے بڑے بڑے قرضے دلائے گئے انھوں نے ان قرضوں سے خوب دولت بنائی اور پھر جب قرض واپس کرنے کا وقت آیا تو وہ واپس ہی نہیں کیا مگر ان پر کسی قسم کی قانونی کارروائی بھی نہیں کی گئی بلکہ اس کے بجائے این آر او قسم کی کوئی اسکیم ایجاد کرکے ان کے قرضے معاف کر دیے گئے لیکن اگر کسی غریب نے دو مہینے بھی بجلی یا گیس کا بل ادا نہیں کیا تو اس کے گھر کے بجلی اور گیس کے کنکشن ہی منقطع کر دیے گئے۔ ملک میں یہ دہرا معیار آج سے نہیں شروع سے ہی چل رہا ہے اور شاید آگے بھی چلتا ہی رہے گا۔ آج بھی کئی سیاستدانوں، صنعت کاروں اور کاروباری حضرات پر اربوں روپوں کے بجلی اور گیس کے بل واجب الادا ہیں مگر ان سے اب بھی رعایت کی روایت قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بجلی اور گیس کے مہنگے ہونے کی دوسری کئی وجوہات میں سے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

اس وقت نئی حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ایک ٹیڑھی کھیر والا معاملہ بن چکا ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض کی مطلوبہ قسط جاری کرنے سے پہلے ایسی کئی سخت شرائط پر عمل درآمد لازمی قرار دے دیا ہے جنھیں عوام پر لاگو کرنا حکومت کے لیے آسان نہیں ہے۔ عمران حکومت ان پر عمل درآمد نہ کرسکی کیونکہ پیٹرول کے نرخ میں اتنا زیادہ اضافہ کرنا غریب عوام پر بم گرانے کے مترادف تھا۔ مگر اس سے اجتناب کرنے کا مطلب ملک کو مشکل میں ڈالنا ہے۔

شہباز حکومت بھی پہلے ایسا کرنے سے ہچکچاتی رہی مگر اس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے یہ بم آخر عوام پر گرا دیا۔ لگ تو یہ رہا تھا کہ اس کے خلاف عوامی سطح پر زبردست احتجاج کیا جائے گا مگر ہمارے عوام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے انھوں نے محض ملک کی خاطر پٹرول کے نرخ میں ہوش ربا اضافے کو برداشت کرلیا ہے تاہم عوام کی مشکلات اور امتحان ابھی ختم نہیں ہوا ہے ابھی پٹرول کے مزید مہنگے ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ساتھ ہی بجلی کے ریٹ میں بھی اضافے کی خوش خبری ابھی سے سنا دی گئی ہے حالانکہ یہ اضافہ یکم جولائی سے کیا جائے گا۔


اس میں شک نہیں کہ آئی ایم ایف سے عمران حکومت نے جتنا سخت معاہدہ کیا ویسا کسی سابقہ حکومت نے نہیں کیا تھا۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے خود اس معاہدے کو عوام کش قرار دیا تھا۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت نے عوام کو جیتے جی مار دیا اس نے پٹرول اور بجلی کے ریٹ میں ایسے ہولناک اضافے کو کیوں مان لیا تھا؟ کئی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ نئی حکومت نے عمران حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے گئے عوام دشمن معاہدے پر نظرثانی کیوں نہیں کرائی؟ اسے اپنے تمام ذرایع استعمال کرکے آئی ایم ایف کو معاہدے میں نظر ثانی کرنے پر مجبور کرنا چاہیے تھا۔ بہر حال اب عوام کو نئی حکومت نے مہنگائی کی بھٹی میں جھونک دیا ہے تاہم نئی حکومت کا اب بھی یہ کہنا ہے کہ اسے غریبوں کا بہت خیال ہے۔ کیا یہ عوام کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟

اگر ہمارے ہاں مہنگائی کا ذمے دار تیل کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جا رہا ہے تو عالمی سطح پر بھی ہر ملک اپنے ہاں مہنگائی کا ذمے دار تیل کی قیمتوں میں اضافے کو ہی قرار دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا حتیٰ کہ امریکا اور یورپی ممالک میں بھی مہنگائی عروج پر ہے کئی ماہرین دنیا میں نئی مہنگائی کی لہر کا ذمے دار یوکرین جنگ کو بھی قرار دے رہے ہیں۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی ایک بیان میں یوکرین جنگ روکنے کی اپیل کی ہے اس لیے کہ اس سے دنیا عدم استحکام اور غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ اب کئی مہینوں سے جاری ہے۔ روس نے اس جنگ کو طویل کرکے پوری دنیا کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

یوکرین کا صرف اتنا قصور تھا کہ اس نے نیٹو کا ممبر بننے کی خواہش ظاہر کی تھی ، تاہم کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک پر کسی بھی جارحانہ حملے کو کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یوکرین پہلے ضرور روس کا حصہ تھا مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وہ ایک آزاد ملک بن چکا ہے۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں معاشی طور پر ایک مستحکم ملک کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ یوکرین میں ہر سال وافر مقدار میں گندم پیدا ہوتی ہے جس سے پوری دنیا مستفید ہوتی ہے مگر اب روسی حملے کے بعد کئی ممالک گندم کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ اس سال کہا جا رہا ہے کہ یوکرین میں گندم کی بمپر پیداوار ہوئی ہے مگر اس کی تمام بندرگاہوں کے روس کے کنٹرول میں جانے کی وجہ سے وہ کسی کی بھی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ جوں جوں یوکرین کی جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے دنیا میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ روس کی اس جارحیت سے یوکرین میں ہزاروں شہری اب تک ہلاک ہو چکے ہیں اور کئی شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔ روس کے یوکرین پر بغیر کسی الٹی میٹم یا عذر کے حملے نے دنیا کے چھوٹے ممالک کے لیے بہت سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ اس جارحیت نے دنیا کے چھوٹے ممالک کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

اب اگر دنیا میں ایسے ہی حالات رہے تو کوئی بھی طاقتور ملک کسی بھی وقت کسی بھی چھوٹے ملک پر بغیر کسی جواز کے حملہ کرکے اسے تہس نہس کرسکتا ہے۔ پاکستان شروع سے ہی اس جنگ میں نیوٹرل ہے مگر وہ اسے ختم کرانے کے لیے روس سے اپیل کرچکا ہے۔ لگتا ہے روس اپنی فوجی قوت کا مظاہرہ کرکے دراصل یوکرین کی آڑ میں مغربی ممالک کو مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اس وقت مغربی ممالک اپنی معاشی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے روس پر کئی معاشی پابندیاں عائد کرچکے ہیں جو روس کو بھاری مالی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مانا کہ اس وقت روس کی معاشی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے مگر جس طرح افغان جنگ نے اس کی معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کا بھی شیرازہ بکھیر دیا تھا اسی طرح یوکرین پر اس کی جارحیت بھی اس کے لیے تباہی کا باعث نہ بن جائے۔
Load Next Story