ہم پتھر یا لکڑی کے انسان نہیں ہیں
ہمارے ملک کے سماج میں ابتدا ہی سے جن وحشت ناک جراثیموں نے جنم لیا
ALMATY:
ہنرک ابسن انیسویں صدی کا روایت شکن، باغی، سوسائٹی کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کرنے والا ڈرامہ نگار تھا۔ جارج برنارڈشا اور چیخوف نے اس سے بہت اثر قبول کیا۔ اس کے ڈرامے "A Dolls House" نے ڈرامے کی دنیا میں ہلچل مچادی جب یہ ڈرامہ چھپا تو اس پر بہت اعتراضات ہوئے لیکن پھر اس کے موضوع اور اس کی اہمیت کو سمجھا گیا اور کالجوں اور اسکولوں کے نصاب میں شامل کر دیا گیا اور اسے پہلا حقیقی Feminist Play قرار دے دیا گیا۔ اس ڈرامے کی اشاعت سے نیچرل موومنٹ کا آغاز ہوا۔ فلم اور ٹی وی والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس ڈرامے پر کئی بار فلمیں بنیں۔
ڈراما'' گڑیا گھر'' ایک شادی شدہ عورت Nora کی کہانی ہے جسے اس کا خاوند Torvala ایک سست، ناکارہ اور کٹھ پتلی عورت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر ناچتی رہے اس کی اپنی کوئی مرضی نہ ہو۔ اپنے خاوند کے حکم پر چلتی پھرتی نظر آئے۔ ہنرک ابسن نے اس ڈرامے کے ذریعے سماج میں مردوں کی خود ساختہ حکمرانی کو چیلنج کیا۔ عورتوں کو ان زنجیروں کو توڑنے کی جرأت عطا کی مصلحت اور منافقت کو بے نقاب کیا۔ ہم اگر اپنے سماج پر آج باریکی کے ساتھ نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنا سماج ایک بہت بڑا"Dolls House" نظر آئے گا۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر شخص میں آپ کو "Torvala" چھپا ہوا مل جائے گا۔
وہ "Torvala" آپ کو ایوانوں میں، آفسوں میں، محلوں میں، گھروں میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے اشاروں پر نچوا رہا ہے۔ اپنے علاوہ سب کو سست، ناکارہ، کاہل اور بے عقل انسان سمجھتا ہے۔ ہمارے ملک کے سماج میں ابتدا ہی سے جن وحشت ناک جراثیموں نے جنم لیا۔ ان میں یہ جراثیم سب سے زیادہ طاقتور تھا کہ عام انسان سست، ناکارہ، کاہل، بے عقل ہیں اس لیے انھیں بے اختیار اور بے حقوق رکھا جائے۔
اور ساتھ ہی ساتھ بدحال بھی ان کے دل دماغ سے ان کی ہر مرضی ، رضا، خواہش کو نوچ لیا جائے۔ انھیں سوچنے کا کوئی موقع نہ دیا جائے اور انھیں غربت و افلاس، بیماریوں، جہالت میں مبتلا کر دیا جائے۔ ان کے ذہنوں پر بار بار یہ سو چ مسلط کرتے رہا جائے کہ تم کمتر، نااہل، جاہل اور کم عقل ہو اور صرف ہم ہی عقل و دانش رکھتے ہیں صرف ہم ہی اہل ہیں۔ صرف ہم ہی سمجھ دار ہیں اور تم اختیار، حقوق اور خوشحالی کا بوجھ کبھی بھی اٹھا نہیں سکتے ہو۔ اس لیے کبھی بھی ملک پر حکمرانی کرنے کا نہیں سو چنا۔ تم صرف اورصرف کام کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔
ان جراثیموں نے آہستہ آہستہ تمام ایوانوں، اداروں اور دفاتر پر قبضہ کر لیا عام لوگوں کے لیے صرف معمولی نوکریوں مخصوص کردی گئیں اور تمام اعلیٰ عہدوں، رتبوں اور نوکریوں پر مخصو ص طبقے کے لوگ قابض ہوتے چلے گئے۔ اس وجہ سے ایک ایسے ٹولے نے جنم لیا جو اشرافیہ کہلاتا ہے۔ پھر ایک پاکستان سے دوسرے پاکستان نے جنم لیا۔ دوسرا پاکستان عام پاکستانیوں کا پاکستان تھا، جہاں ہر قسم کی جہالت، گندگیاں، بیماریاں، غربت، پریشانیاں اور مصیبتیں تھیں۔ اس پاکستان سے دوسرے خوشحال، ہر قسم کی جہالت بد حالی اور گندگیو ں سے پاک پاکستان میں عام لوگوں کا جانا حرام قرار دے دیا گیا۔
نتیجہ آج آپ سب کے سامنے ہے۔ ملک کے اصل مالک بدحال، ہر قسم کی جہالت اور گندگیوں میں غرق آپ کو ہر جگہ کروڑوں کی تعداد میں بآسانی نظر آجائیں گے۔ سولہویں صدی کے شیکسپیئر سے کہیں پہلے، چھٹی صدی کے بھر تری ہری نے کہا تھا کہ دنیا رنگ بھومی یعنی ڈرامے کا اسٹیج ہے۔ لیکن یہ بھی دبیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں سیمو ئیل بیکٹ، یو جین آئنسیکو، آرتھر ایڈا موف کی وساطت سے کھلا کہ دنیا کی اسٹیج پر جوڈرامہ کھیلا جا رہا ہے وہ اصل میں ابسرڈ ہے۔ لغو، معنی و مقصد سے تہی اور مضحکہ خیز ہے بلکہ جس کے بارے میں کوئی رائے دینا اس لیے مشکل ہے کہ رائے ایک معنیٰ ہے اور یہ معنی سے تہی ہے یہ کوئی سیدھے سادے پلاٹ کا، سادگی سے پیچیدگی اور کلائمیکس کی طرف بڑھتا ڈراما اور کہانی نہیں ہے۔
اس کی کہانی کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے اور کہیں بھی ختم ہوسکتی یا کبھی ختم نہ ہونے کا اعلان کرسکتی ہے ۔ المیہ اور طربیہ ڈراموں کے برعکس ابسرڈ کہانیوں کے کرداروں کا کوئی ایک چہرہ ہے نہ شروع سے اختتام تک ایک ہی قسم کا کردار ہے ۔ ایک لمحے میں آقا و غلام نظر آنے والے ، اگلے ہی کسی لمحے میں غلام و آقا دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ یہ ہی نہیں کچھ وقت کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں واقعی کون حاکم اور کون اس پر کلی اختیار رکھنے والا ہے ۔ یہ کردار آدمی سے گینڈے ، بندر یا حشرات یاعفریت کچھ بھی بن سکتے ہیں اور سامنے کی سیدھی سادی سچائیوں کو فریب و التباس کے سو پردوں میں یوں لپیٹ دیتے ہیں کہ لوگوں کا یقین ہی اٹھ جاتا ہے کہ سچائی نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے ۔
عظیم مصنف Any Randکا ناولٹ "Anthem" کا مرکزی کردار عہد مستقبل کے اندھیروں میں رہتا ہے ۔ محبت سے محروم اس دیار میں ، جہاں ایک فرد کا دوسرے فرد کی طرف پسند یدگی کی نظر سے دیکھنا بھی گنا ہ ہے ۔یہ کہانی ایک ایسے بھیانک دور کی پیش بینی ہے جس میں انسان ایک بار پھر جہالت اور تاریکی میں کھوچکا ہے ۔ علم ودانش ، تہذیب و فن سب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور ماضی وہ زمانہ ہے جس کا نام بھی نہیں لیاجاسکتا ۔ ایک ایسے سماج میں جہاں نظام حکومت سے وفاداری لازمی شر ط ہے اورجہاں سرکاری تعلیمات کے علاوہ کسی اور حقیقت کا تصور بھی ممکن نہیں ۔ وہ سوچنے اور سوال کرنے والا ذہن لے کر پیدا ہوا جس نے اس سماج کی اقدار کو چیلنج کیا اور اپنی جستجو کے صلے میں گم شدہ افرادیت کو حاصل کیا یہ افرادیت اس کی منزل بھی تھی اور وسیلہ ظفر بھی ۔ یکسانیت پر جبر کی حد تک اصرار کرنے والے اس سماج نے اس کا سب سے بڑا جرم جس بات کو گردانا وہ یہ تھی کہ بے نام چہروں اور بے ذہن جسموں کے ہجوم میں وہ اکیلا سر اٹھائے کھڑا رہا۔ تمام تر مخالفت سے بیگانہ ہو کر آپ اپنا متلاشی اور آپ منزل کی جانب گامزن وہ تنہا آدمی تھا اس نے اپنی ہستی اور اس کی یکتا ئی کو تقدیر سے حاصل کیا ۔
یہ کہانی دراصل اس اجتماعیت کے خلاف صدائے احتجاج ہے جو ہر انسان کو دوسروں کا جیسا ہونے پر مجبور کرتی ہے اور ایسا سماج تعمیر کرتی ہے جس میں دوسروں سے مختلف ہونا جرم ہے، اس سماج میں انسانی زبان سے شخص واحد کے لیے الفاظ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ اس سماج میں ایک شخص ہے جس کے اندر ''میں'' مرنہ سکا وہ لفظ اور معنی کا بازیافت کرتا ہے اور"Anthem" میں وہ ہی ہم سے خطاب کرتاہے۔
آئیں !ہم سب بھی خاموش ہوجائیں اور اس کے خطاب کو بغور سنتے ہیں وہ ہم سے بھی مخاطب ہے ۔ وہ ہم سب سے بھی کہہ رہا ہے کہ آؤ اپنے بدبودار اورغلیظ سماج کی تمام اقدار کو چیلنج کردو۔ ہم سب پتھر یالکڑی کے انسان نہیں ہیں جیسا کہ ہومر نے کہا تھا ۔ ہم سب بھی دل اور ذہن رکھتے ہیں ۔ خوشحالی ، کامیابی، اختیار اور حقوق پر ہمارا ابھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے پاکستان کے انسانوں کا ہے ، سکون ،خوشیوں اور دل کھول کر ہنسنے اور گانے کو ہمارا دل بھی چاہتا ہے ۔ پیٹ بھر کے روٹی کھانے پر ہمارا بھی حق ہے اپنے اور اپنے پیاروں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو ہم بھی پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ زندگی جی بھر کر جینا ہم بھی چاہتے ہیں ۔ آئیں !اپنی لوٹی گئی خوشیاں لٹیروں سے لوٹ لیں ۔اس سماج کو آگ لگاکر ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھیں جہاں سب بااختیار اور باحقوق ہوں ، خوشیوں ، خوشحالی ، ترقی اور کامیابی پر سب کا برابر کا حق ہو ۔
ہنرک ابسن انیسویں صدی کا روایت شکن، باغی، سوسائٹی کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کرنے والا ڈرامہ نگار تھا۔ جارج برنارڈشا اور چیخوف نے اس سے بہت اثر قبول کیا۔ اس کے ڈرامے "A Dolls House" نے ڈرامے کی دنیا میں ہلچل مچادی جب یہ ڈرامہ چھپا تو اس پر بہت اعتراضات ہوئے لیکن پھر اس کے موضوع اور اس کی اہمیت کو سمجھا گیا اور کالجوں اور اسکولوں کے نصاب میں شامل کر دیا گیا اور اسے پہلا حقیقی Feminist Play قرار دے دیا گیا۔ اس ڈرامے کی اشاعت سے نیچرل موومنٹ کا آغاز ہوا۔ فلم اور ٹی وی والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس ڈرامے پر کئی بار فلمیں بنیں۔
ڈراما'' گڑیا گھر'' ایک شادی شدہ عورت Nora کی کہانی ہے جسے اس کا خاوند Torvala ایک سست، ناکارہ اور کٹھ پتلی عورت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر ناچتی رہے اس کی اپنی کوئی مرضی نہ ہو۔ اپنے خاوند کے حکم پر چلتی پھرتی نظر آئے۔ ہنرک ابسن نے اس ڈرامے کے ذریعے سماج میں مردوں کی خود ساختہ حکمرانی کو چیلنج کیا۔ عورتوں کو ان زنجیروں کو توڑنے کی جرأت عطا کی مصلحت اور منافقت کو بے نقاب کیا۔ ہم اگر اپنے سماج پر آج باریکی کے ساتھ نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنا سماج ایک بہت بڑا"Dolls House" نظر آئے گا۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر شخص میں آپ کو "Torvala" چھپا ہوا مل جائے گا۔
وہ "Torvala" آپ کو ایوانوں میں، آفسوں میں، محلوں میں، گھروں میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے اشاروں پر نچوا رہا ہے۔ اپنے علاوہ سب کو سست، ناکارہ، کاہل اور بے عقل انسان سمجھتا ہے۔ ہمارے ملک کے سماج میں ابتدا ہی سے جن وحشت ناک جراثیموں نے جنم لیا۔ ان میں یہ جراثیم سب سے زیادہ طاقتور تھا کہ عام انسان سست، ناکارہ، کاہل، بے عقل ہیں اس لیے انھیں بے اختیار اور بے حقوق رکھا جائے۔
اور ساتھ ہی ساتھ بدحال بھی ان کے دل دماغ سے ان کی ہر مرضی ، رضا، خواہش کو نوچ لیا جائے۔ انھیں سوچنے کا کوئی موقع نہ دیا جائے اور انھیں غربت و افلاس، بیماریوں، جہالت میں مبتلا کر دیا جائے۔ ان کے ذہنوں پر بار بار یہ سو چ مسلط کرتے رہا جائے کہ تم کمتر، نااہل، جاہل اور کم عقل ہو اور صرف ہم ہی عقل و دانش رکھتے ہیں صرف ہم ہی اہل ہیں۔ صرف ہم ہی سمجھ دار ہیں اور تم اختیار، حقوق اور خوشحالی کا بوجھ کبھی بھی اٹھا نہیں سکتے ہو۔ اس لیے کبھی بھی ملک پر حکمرانی کرنے کا نہیں سو چنا۔ تم صرف اورصرف کام کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔
ان جراثیموں نے آہستہ آہستہ تمام ایوانوں، اداروں اور دفاتر پر قبضہ کر لیا عام لوگوں کے لیے صرف معمولی نوکریوں مخصوص کردی گئیں اور تمام اعلیٰ عہدوں، رتبوں اور نوکریوں پر مخصو ص طبقے کے لوگ قابض ہوتے چلے گئے۔ اس وجہ سے ایک ایسے ٹولے نے جنم لیا جو اشرافیہ کہلاتا ہے۔ پھر ایک پاکستان سے دوسرے پاکستان نے جنم لیا۔ دوسرا پاکستان عام پاکستانیوں کا پاکستان تھا، جہاں ہر قسم کی جہالت، گندگیاں، بیماریاں، غربت، پریشانیاں اور مصیبتیں تھیں۔ اس پاکستان سے دوسرے خوشحال، ہر قسم کی جہالت بد حالی اور گندگیو ں سے پاک پاکستان میں عام لوگوں کا جانا حرام قرار دے دیا گیا۔
نتیجہ آج آپ سب کے سامنے ہے۔ ملک کے اصل مالک بدحال، ہر قسم کی جہالت اور گندگیوں میں غرق آپ کو ہر جگہ کروڑوں کی تعداد میں بآسانی نظر آجائیں گے۔ سولہویں صدی کے شیکسپیئر سے کہیں پہلے، چھٹی صدی کے بھر تری ہری نے کہا تھا کہ دنیا رنگ بھومی یعنی ڈرامے کا اسٹیج ہے۔ لیکن یہ بھی دبیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں سیمو ئیل بیکٹ، یو جین آئنسیکو، آرتھر ایڈا موف کی وساطت سے کھلا کہ دنیا کی اسٹیج پر جوڈرامہ کھیلا جا رہا ہے وہ اصل میں ابسرڈ ہے۔ لغو، معنی و مقصد سے تہی اور مضحکہ خیز ہے بلکہ جس کے بارے میں کوئی رائے دینا اس لیے مشکل ہے کہ رائے ایک معنیٰ ہے اور یہ معنی سے تہی ہے یہ کوئی سیدھے سادے پلاٹ کا، سادگی سے پیچیدگی اور کلائمیکس کی طرف بڑھتا ڈراما اور کہانی نہیں ہے۔
اس کی کہانی کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے اور کہیں بھی ختم ہوسکتی یا کبھی ختم نہ ہونے کا اعلان کرسکتی ہے ۔ المیہ اور طربیہ ڈراموں کے برعکس ابسرڈ کہانیوں کے کرداروں کا کوئی ایک چہرہ ہے نہ شروع سے اختتام تک ایک ہی قسم کا کردار ہے ۔ ایک لمحے میں آقا و غلام نظر آنے والے ، اگلے ہی کسی لمحے میں غلام و آقا دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ یہ ہی نہیں کچھ وقت کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں واقعی کون حاکم اور کون اس پر کلی اختیار رکھنے والا ہے ۔ یہ کردار آدمی سے گینڈے ، بندر یا حشرات یاعفریت کچھ بھی بن سکتے ہیں اور سامنے کی سیدھی سادی سچائیوں کو فریب و التباس کے سو پردوں میں یوں لپیٹ دیتے ہیں کہ لوگوں کا یقین ہی اٹھ جاتا ہے کہ سچائی نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے ۔
عظیم مصنف Any Randکا ناولٹ "Anthem" کا مرکزی کردار عہد مستقبل کے اندھیروں میں رہتا ہے ۔ محبت سے محروم اس دیار میں ، جہاں ایک فرد کا دوسرے فرد کی طرف پسند یدگی کی نظر سے دیکھنا بھی گنا ہ ہے ۔یہ کہانی ایک ایسے بھیانک دور کی پیش بینی ہے جس میں انسان ایک بار پھر جہالت اور تاریکی میں کھوچکا ہے ۔ علم ودانش ، تہذیب و فن سب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور ماضی وہ زمانہ ہے جس کا نام بھی نہیں لیاجاسکتا ۔ ایک ایسے سماج میں جہاں نظام حکومت سے وفاداری لازمی شر ط ہے اورجہاں سرکاری تعلیمات کے علاوہ کسی اور حقیقت کا تصور بھی ممکن نہیں ۔ وہ سوچنے اور سوال کرنے والا ذہن لے کر پیدا ہوا جس نے اس سماج کی اقدار کو چیلنج کیا اور اپنی جستجو کے صلے میں گم شدہ افرادیت کو حاصل کیا یہ افرادیت اس کی منزل بھی تھی اور وسیلہ ظفر بھی ۔ یکسانیت پر جبر کی حد تک اصرار کرنے والے اس سماج نے اس کا سب سے بڑا جرم جس بات کو گردانا وہ یہ تھی کہ بے نام چہروں اور بے ذہن جسموں کے ہجوم میں وہ اکیلا سر اٹھائے کھڑا رہا۔ تمام تر مخالفت سے بیگانہ ہو کر آپ اپنا متلاشی اور آپ منزل کی جانب گامزن وہ تنہا آدمی تھا اس نے اپنی ہستی اور اس کی یکتا ئی کو تقدیر سے حاصل کیا ۔
یہ کہانی دراصل اس اجتماعیت کے خلاف صدائے احتجاج ہے جو ہر انسان کو دوسروں کا جیسا ہونے پر مجبور کرتی ہے اور ایسا سماج تعمیر کرتی ہے جس میں دوسروں سے مختلف ہونا جرم ہے، اس سماج میں انسانی زبان سے شخص واحد کے لیے الفاظ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ اس سماج میں ایک شخص ہے جس کے اندر ''میں'' مرنہ سکا وہ لفظ اور معنی کا بازیافت کرتا ہے اور"Anthem" میں وہ ہی ہم سے خطاب کرتاہے۔
آئیں !ہم سب بھی خاموش ہوجائیں اور اس کے خطاب کو بغور سنتے ہیں وہ ہم سے بھی مخاطب ہے ۔ وہ ہم سب سے بھی کہہ رہا ہے کہ آؤ اپنے بدبودار اورغلیظ سماج کی تمام اقدار کو چیلنج کردو۔ ہم سب پتھر یالکڑی کے انسان نہیں ہیں جیسا کہ ہومر نے کہا تھا ۔ ہم سب بھی دل اور ذہن رکھتے ہیں ۔ خوشحالی ، کامیابی، اختیار اور حقوق پر ہمارا ابھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے پاکستان کے انسانوں کا ہے ، سکون ،خوشیوں اور دل کھول کر ہنسنے اور گانے کو ہمارا دل بھی چاہتا ہے ۔ پیٹ بھر کے روٹی کھانے پر ہمارا بھی حق ہے اپنے اور اپنے پیاروں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو ہم بھی پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ زندگی جی بھر کر جینا ہم بھی چاہتے ہیں ۔ آئیں !اپنی لوٹی گئی خوشیاں لٹیروں سے لوٹ لیں ۔اس سماج کو آگ لگاکر ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھیں جہاں سب بااختیار اور باحقوق ہوں ، خوشیوں ، خوشحالی ، ترقی اور کامیابی پر سب کا برابر کا حق ہو ۔