ملک کے وسیع تر مفاد میں …
روس یوکرین کی جنگ میں نیوٹرل ہونا ،یہ تو حالاتِ حاضرہ کی مثالیں ہیں
عدم اعتماد کا پیش ہونا، کامیا ب ہونا، ناکام ہونا، IMF سے قرضہ لینا نا لینا، بھارت سے تعلقات بہتر رکھنا یا خراب کرلینا، روس یوکرین کی جنگ میں نیوٹرل ہونا ،یہ تو حالاتِ حاضرہ کی مثالیں ہیں ورنہ بہت کچھ اور ہے جسے یہ عنوان دے کر کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ جیسے جمہوری نظام ،ایمرجنسی کا نفاذ،مارشل لاء ،غیر جماعتی الیکشن ،BDسسٹم ،ڈالر کا اوپر جانا ،نیچے آنا ، ملک کے مفاد میں ہی کیا جاتا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ وسیع تر مفاد ہے کیا جو دنیا بھر میں صرف پاکستان کو ہی لاحق رہتا ہے اور سال کے 365دن رہتا ہے اور یہ کام وہ سب حضرات انجام دیتے ہیں جن کے لیے اپنا مفاد سب کچھ ہے، گویا آج کی تاریخ میں ہر بے ایمانی،جھوٹ اور کرپشن کا نام ملک کا مفاد ہے ہر unconstitutional کام کا عنوان یہی ہے ۔
اس میں سیاست دان سب ہی شامل ہیں۔ اب مفاد کی صحیح تعریف کیا ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانے ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ عوام کا غریب طبقہ اس بری طرح پس چکا ہے کہ الامان۔مثال کے طور پر سابقہ حکومت کے دور میں کی گئی مہنگائی بھی عوامی مفاد میں تھی اور موجودہ حکومت کا دعویٰ بھی عوامی بھلائی کا ہے، پہلے انڈیا سے جنگ ملکی مفاد میں تھی اب ان سے تجارت ملک کے لیے نا گزیر ہے۔ کہتے ہیں بس بہت ہوچکا معاملے کو اعتدال پر آنا چاہیے۔ ملک میں ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے کبھی مارشل لا، پھر این آر او دے دیا جاتا ہے اور کچھ آدھی ادھوری سی جمہوریت بحال کردی جاتی ہے لیکن ملکی مفاد جاری رہتا ہے ۔
ہمیں اس وسیع تر مفاد جو دراصل ذاتی مفاد کی ایک بد ترین شکل ہے کو ترک کرنا ہوگا ملک آزاد ہوئے 74سال ہوگئے ہمیں کب عقل آئے گی؟ کب ہم اس حقیقت کو جان پائیں گے کہ جو آگ ہم اپنے ملک میں لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا گھر اس کی دست برد سے محفوظ ہے، ایک دن اس کی لپٹیں ہم تک ضرور پہنچیں گی خاکستر ہم بھی ہوں گے۔ وطن بھی گھر ہوتا ہے اور اس کے باسی گھر کے افراد میرے علاقے میں ایک ضعیف العمر شخص آٹو رکشہ چلاتے ہیں بڑے محنتی ہیں گھر میں کئی افراد کھانے والے ہیں بچے زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے دو لڑکے جو بڑے ہیں وہ ٹیلرنگ کی ایک دکان پر معمولی سے معاوضے پر کام کرتے ہیں بیگم بھی سلائی کرتی ہیں، ایک بچی علاقے کے کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہے غرض کہ بڑی دقت سے نظامِ زندگی چل رہا ہے ۔
ایک دن میرے پاس آئے اور بڑے ادب سے سوال کیا کہ ''مجھے بیس سال ہوگئے، رکشہ چلاتے ہوئے اس سے پہلے میں مزدوری کیا کرتا تھا لیکن میں کبھی اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہ کھلا سکا نہ ان کے اخراجات آسانی سے اٹھا سکا آخر کیوں، میرے حالات کیوں نہیں بدلے؟ جب کے میرے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ جو میرے ہم عمر تھے ترقی کرگئے۔'' میں کچھ دیر خاموش رہا حالانکہ مجھے ان کے سوال کے جواب کا علم تھا وہ دراصل ایک ایماندار ،جفاکش،اور خوددار شخص تھے جو ''وسیع تر مفاد '' کے معانی سے واقف نہیں تھے ورنہ وہ بھی ترقی پر ہوتے، لہٰذا میں ان سے بس اتنا ہی کہہ سکا کہ '' بھائی، کیا اللہ نے کبھی آپ کو بھوکا سلایا ہے ؟'' کہنے لگے ''نہیں کبھی نہیں، اس مالک کا شکر ہے جس نے لاکھوں نعمتیں مجھے عطا کی ہیں'' پھر کہنے لگے'' اللہ مجھے معاف فرمائے میں بھی کتنا نا شکرا ہوں کہ اس رب کا گلہ آپ سے کرنے لگا ۔''
مجھے یاد ہے کہ وسیع تر مفاد والے، ملک آزاد ہونے کے بس کچھ ہی عرصے کے بعد سے ملک کے خلاف سازشی عنصر سننے کو ملنے لگا، جس وقت ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید ہوئے اور خواجہ ناظم الدین نے ان کی جگہ سنبھالی، ایک بیورو کریٹ محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا اور کچھ مدت بعد محمد علی نے خواجہ صاحب کو استعفیٰ پر مجبور کردیا، حالانکہ محمد علی بوگرہ، خواجہ صاحب کے وزیر تھے اور انھی کی کوششوں سے پاکستان امریکا کی غلامی میں جانے کے لیے تیار ہوا، محمد علی بوگرہ جب بیمار ہوئے تو بغرضِ علاج برطانیہ جاتے ہوئے اپنی جگہ اسکندر مرزا کو عارضی مدت کے لیے ملک کا قائم مقام گورنر جنرل نامزد کیا جو بعد میں ملک کے صدر بنا دیے گئے اور پہلا مارشل لا نافذ کیا۔
لیکن جب محمد علی بوگرہ لوٹے تو اسکندر مرزا وسیع تر مفاد کو سمجھ چکے تھے سو حکومت واپس نہ کی اور ملک غلام محمد کو وسیع تر مفاد کا مطلب سمجھایا اور برطرف کر دیا، وہ جنرل ایوب خان کو آرمی چیف کے عہدے پر لائے اور خود انھوں نے اپنے عہد اقتدار میں فیروز خان نون سمیت پانچ وزرائے اعظم کو چھ اور تین ماہ کی مدت کے بعد ملک کے وسیع تر مفاد میں برطرف کیا اور خود بھی جنرل ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار کو داغِ مفارقت دے کر لندن سدھار گئے پھر جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، سقوطِ ڈھاکا غرضیکہ ایک کے بعد ایک، میں سیاسی مفادات کی آڑ میں ملک کا وسیع تر مفاد جاری رہا اور جو آج تک اپنے پورے شدومد سے جاری ہے۔
پچھلے دنوں پی ٹی آئی حکومت میں جو بھی اقدامات کیے گئے ان کے سبب عوام پر مہنگائی کا پہاڑ ٹوٹ گیا لیکن خان صاحب اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں کہتے رہے کہ میں عوام کے وسیع تر مفاد میں یہ سب کچھ کررہا ہوں اگر نہ کروں تو تباہی آجائے گی۔ پھر وہ چلے گئے اور پی ڈی ایم جو عمران خان کو ایک ناکام وزیرِ اعظم کی حیثیت سے موردِ الزام ٹھہراتی رہی حکومت میں آگئی اور آتے ہی سابق حکومت کی کرپشن کا راگ الاپنا شروع کردیا اور ابتدائی کچھ دنوں میں اُسے سنا بھی گیا لیکن کب تک ،صرف دو ماہ کی قلیل مدت میں پٹرول85روپے فی لیٹر ،بجلی،گیس،اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور یہ سب کچھ وہی روایتی جملہ دہراتے ہوئے کیا جارہا ہے کہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں کیا جارہا ہے ،اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا سری لنکا بن جائے گا ۔سوال یہ ہے کہ ملک اس حالت تک پہنچا کیسے؟ ظاہر ہے کہ اداروں اور حکمرانوں المعروف سیاستدانوں کی کرپشن سے ،ملکی دولت کو بری طرح لوٹا گیا ملکی وسائل کو گھر کی لونڈی سمجھ کر بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آج تک کسی پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی !کیس چلے سالوں تک چلتے رہے کوئی گواہ نہ ملا نہ ثبوت ملا اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ۔پھر وہی حکمران وہی عوام وہی دن، وہی رات اورملک و قوم کا وسیع تر مفاد ۔
اس میں سیاست دان سب ہی شامل ہیں۔ اب مفاد کی صحیح تعریف کیا ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانے ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ عوام کا غریب طبقہ اس بری طرح پس چکا ہے کہ الامان۔مثال کے طور پر سابقہ حکومت کے دور میں کی گئی مہنگائی بھی عوامی مفاد میں تھی اور موجودہ حکومت کا دعویٰ بھی عوامی بھلائی کا ہے، پہلے انڈیا سے جنگ ملکی مفاد میں تھی اب ان سے تجارت ملک کے لیے نا گزیر ہے۔ کہتے ہیں بس بہت ہوچکا معاملے کو اعتدال پر آنا چاہیے۔ ملک میں ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے کبھی مارشل لا، پھر این آر او دے دیا جاتا ہے اور کچھ آدھی ادھوری سی جمہوریت بحال کردی جاتی ہے لیکن ملکی مفاد جاری رہتا ہے ۔
ہمیں اس وسیع تر مفاد جو دراصل ذاتی مفاد کی ایک بد ترین شکل ہے کو ترک کرنا ہوگا ملک آزاد ہوئے 74سال ہوگئے ہمیں کب عقل آئے گی؟ کب ہم اس حقیقت کو جان پائیں گے کہ جو آگ ہم اپنے ملک میں لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا گھر اس کی دست برد سے محفوظ ہے، ایک دن اس کی لپٹیں ہم تک ضرور پہنچیں گی خاکستر ہم بھی ہوں گے۔ وطن بھی گھر ہوتا ہے اور اس کے باسی گھر کے افراد میرے علاقے میں ایک ضعیف العمر شخص آٹو رکشہ چلاتے ہیں بڑے محنتی ہیں گھر میں کئی افراد کھانے والے ہیں بچے زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے دو لڑکے جو بڑے ہیں وہ ٹیلرنگ کی ایک دکان پر معمولی سے معاوضے پر کام کرتے ہیں بیگم بھی سلائی کرتی ہیں، ایک بچی علاقے کے کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہے غرض کہ بڑی دقت سے نظامِ زندگی چل رہا ہے ۔
ایک دن میرے پاس آئے اور بڑے ادب سے سوال کیا کہ ''مجھے بیس سال ہوگئے، رکشہ چلاتے ہوئے اس سے پہلے میں مزدوری کیا کرتا تھا لیکن میں کبھی اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہ کھلا سکا نہ ان کے اخراجات آسانی سے اٹھا سکا آخر کیوں، میرے حالات کیوں نہیں بدلے؟ جب کے میرے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ جو میرے ہم عمر تھے ترقی کرگئے۔'' میں کچھ دیر خاموش رہا حالانکہ مجھے ان کے سوال کے جواب کا علم تھا وہ دراصل ایک ایماندار ،جفاکش،اور خوددار شخص تھے جو ''وسیع تر مفاد '' کے معانی سے واقف نہیں تھے ورنہ وہ بھی ترقی پر ہوتے، لہٰذا میں ان سے بس اتنا ہی کہہ سکا کہ '' بھائی، کیا اللہ نے کبھی آپ کو بھوکا سلایا ہے ؟'' کہنے لگے ''نہیں کبھی نہیں، اس مالک کا شکر ہے جس نے لاکھوں نعمتیں مجھے عطا کی ہیں'' پھر کہنے لگے'' اللہ مجھے معاف فرمائے میں بھی کتنا نا شکرا ہوں کہ اس رب کا گلہ آپ سے کرنے لگا ۔''
مجھے یاد ہے کہ وسیع تر مفاد والے، ملک آزاد ہونے کے بس کچھ ہی عرصے کے بعد سے ملک کے خلاف سازشی عنصر سننے کو ملنے لگا، جس وقت ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید ہوئے اور خواجہ ناظم الدین نے ان کی جگہ سنبھالی، ایک بیورو کریٹ محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا اور کچھ مدت بعد محمد علی نے خواجہ صاحب کو استعفیٰ پر مجبور کردیا، حالانکہ محمد علی بوگرہ، خواجہ صاحب کے وزیر تھے اور انھی کی کوششوں سے پاکستان امریکا کی غلامی میں جانے کے لیے تیار ہوا، محمد علی بوگرہ جب بیمار ہوئے تو بغرضِ علاج برطانیہ جاتے ہوئے اپنی جگہ اسکندر مرزا کو عارضی مدت کے لیے ملک کا قائم مقام گورنر جنرل نامزد کیا جو بعد میں ملک کے صدر بنا دیے گئے اور پہلا مارشل لا نافذ کیا۔
لیکن جب محمد علی بوگرہ لوٹے تو اسکندر مرزا وسیع تر مفاد کو سمجھ چکے تھے سو حکومت واپس نہ کی اور ملک غلام محمد کو وسیع تر مفاد کا مطلب سمجھایا اور برطرف کر دیا، وہ جنرل ایوب خان کو آرمی چیف کے عہدے پر لائے اور خود انھوں نے اپنے عہد اقتدار میں فیروز خان نون سمیت پانچ وزرائے اعظم کو چھ اور تین ماہ کی مدت کے بعد ملک کے وسیع تر مفاد میں برطرف کیا اور خود بھی جنرل ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار کو داغِ مفارقت دے کر لندن سدھار گئے پھر جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، سقوطِ ڈھاکا غرضیکہ ایک کے بعد ایک، میں سیاسی مفادات کی آڑ میں ملک کا وسیع تر مفاد جاری رہا اور جو آج تک اپنے پورے شدومد سے جاری ہے۔
پچھلے دنوں پی ٹی آئی حکومت میں جو بھی اقدامات کیے گئے ان کے سبب عوام پر مہنگائی کا پہاڑ ٹوٹ گیا لیکن خان صاحب اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں کہتے رہے کہ میں عوام کے وسیع تر مفاد میں یہ سب کچھ کررہا ہوں اگر نہ کروں تو تباہی آجائے گی۔ پھر وہ چلے گئے اور پی ڈی ایم جو عمران خان کو ایک ناکام وزیرِ اعظم کی حیثیت سے موردِ الزام ٹھہراتی رہی حکومت میں آگئی اور آتے ہی سابق حکومت کی کرپشن کا راگ الاپنا شروع کردیا اور ابتدائی کچھ دنوں میں اُسے سنا بھی گیا لیکن کب تک ،صرف دو ماہ کی قلیل مدت میں پٹرول85روپے فی لیٹر ،بجلی،گیس،اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور یہ سب کچھ وہی روایتی جملہ دہراتے ہوئے کیا جارہا ہے کہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں کیا جارہا ہے ،اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا سری لنکا بن جائے گا ۔سوال یہ ہے کہ ملک اس حالت تک پہنچا کیسے؟ ظاہر ہے کہ اداروں اور حکمرانوں المعروف سیاستدانوں کی کرپشن سے ،ملکی دولت کو بری طرح لوٹا گیا ملکی وسائل کو گھر کی لونڈی سمجھ کر بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آج تک کسی پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی !کیس چلے سالوں تک چلتے رہے کوئی گواہ نہ ملا نہ ثبوت ملا اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ۔پھر وہی حکمران وہی عوام وہی دن، وہی رات اورملک و قوم کا وسیع تر مفاد ۔