ایک گمنام ہیرو کی کہانی
ان دو دہائیوں میں پاکستان میں اربنائزیشن اپنے عروج پر تھی
June 19, 2022
SYDNEY:
ستر کی دہائی کی بات ہے کہ جب ملک میں شرح خواندگی مجموعی طور پر تیس سے پینتیس فیصد تھی جس میں خواتین کا حصہ صرف دس فیصد تک تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب شہروں میں بھی شرح خواندگی تو چلو کچھ بہتر تھی مگر دیہاتوں میں تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسے میں جنوبی پنجاب کے بڑے شہر ملتان میں رہائش پذیر ایک شخص نے مظفر گڑھ کی پسماندہ ترین تحصیل جتوئی کے دریا کنارے علاقے میں منتقلی کا فیصلہ کیا، اگر اعدادوشمار کو اٹھاکر دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان دو دہائیوں میں پاکستان میں اربنائزیشن اپنے عروج پر تھی۔ لوگ شہروں کی چکاچوند سے متاثر ہوکر شہروں کو منتقل ہو رہے تھے۔ ایسے میں اہل خانہ سمیت عزیز و اقارب کو اس شخص کا یہ فیصلہ عجیب ہی لگا۔ مگر یہ شخص جو پہلے فیصل آباد سے ملتان منتقل ہوا تھا، اس چھوٹے سے علاقے میں نہ صرف منتقل ہوا بلکہ ایسے اقدامات بھی اٹھائے جس سے اس علاقے کی قسمت بدل ڈالی۔
بڑے شہروں میں موجو د میرے قارئین کی ایک بڑی تعداد نے تو شائد جتوئی کا نام بھی نہ سنا ہو، اس کے دریا کنارے واقع علاقے لنڈی پتافی میں منتقل ہوتے ہی اس شخص نے جاکر حکومت کو عرضی ڈالی اور اس علاقے کے لیے پرائمری سکول کی ضرورت و اہمیت کو بیان کیا۔ علاقے کے سرداروں نے نہ صرف اس شخص کے اس فیصلے کی تحسین کی بلکہ اس کارہائے خیر کے لیے اپنا سیاسی اثرورسوخ بھی استعمال کیا، اپنی لگن کے پکے اس شخص نے کرتے کراتے اس اسکول کی منظوری کروائی، اراضی کا معاملہ درپیش ہوا تو اپنی زمین پیش کردی۔
دنیا کی یہ ریت چلی آرہی ہے کہ ہر اچھے کام کے لیے رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں تو اسکول کی منظوری اور زمین کے بعدیہاں انفرا اسٹرکچر کا مسئلہ درپیش آیا توفنڈز کی کمی اور منظوری جیسے طویل پراسس کا مرحلہ درپیش آیا۔ مگر اس شخص نے سرکنڈے سے عارضی دیواریں بناکر درختوں کے نیچے ہی پڑھانے کا فیصلہ کیا۔یہ تمام رکاوٹیں دور ہوئیں اسکول کاعارضی ڈھانچہ تیار ہوگیا ۔
اب جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں بیان کیا کہ شہروں میں بھی شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی، ایسے میں دیہاتوں میں توتعلیم سے دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔دیہات میں لوگ اپنے بچوں کو یا تو مویشی چرانے پر لگا دیتے تھے اور تھوڑا بڑے ہوئے تو کھیتی باڑی پر کولہو کے بیل کی طرح جوت دیتے تھے۔اس شخص نے اس علاقے کے گھر گھر میں جاکر بچوں کو اسکول بھیجنے کی درخواست کرنا شروع کردی۔مگر کوئی بھی اپنے بچوں کوا سکول بھیجنے پر تیار نہ ہوا،ہر ایک شخص کا سوالات ہوتے تھے کہ یہ پڑھ لکھ کر کیا کرلیں گے؟کونسی نوکری لگ جائے گی؟اگر یہ اسکول چلے گئے تو پیچھے مویشی کون چرائے گا؟ہماری کھیتی باڑی کون کروائے گا؟آپ تو ہماری روزی روٹی کو ختم کرنے چلے آئے ہیں ہمیں معافی دے دیں۔مساجد میں بھی اعلان کروائے گئے،علاقے کے سردار کی جانب سے لوگوں کو تلقین کی گئی مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔
ایسے میں بجائے ہمت ہارنے کے اس شخص نے اپنے بیٹوں،بھتیجے،بھتیجیوں،بھانجیوں کو اکٹھاکیا اورا سکول میں جاکر پڑھانا شروع کردیا۔یہاں میں دوبارہ بتاتا چلوں کہ اس وقت بچیوں کو سکول بھیجنے کی روائت بڑے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے خاندانوں میں موجود تھی۔ایسے میں جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاوں میں موجود اس شخص کا یہ جرات مندانہ اقدام ہی بارش کی پہلا قطرہ ثابت ہوا۔بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ اس شخص نے اپنے بچوں کوا سکول کو بٹھا لیا تو آہستہ اپنی اپنی ذات کے دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ گاؤں کے دیگر لوگوں نے بھی اپنے بچے اسکول بھیجنے شروع کردئیے۔یوں یہ علاقہ تعلیم سے بہرہ ور ہونا شروع ہوگیا،اس شخص کے شاگرد بتاتے ہیں کہ جب لوگوں کو اپنے نام تک لکھنے نہیں آتے تھے یہ شخص سرکنڈوں کے کانوں سے لوگ کو قلم اور اپنے خرچے سے سیاہی لے کر آتا تھا یوں بچوں کو قلم دوات کی فکر نہیں ہوتی تھی۔بچوں کو انگلش پڑھانے کے لیے اے،بی سی کے سانچے بنا کر دریا کی گیلی مٹی منگوا کر مٹی کے انگریزی حروف تہجی بنوائے جاتے تھے۔اس سارے عمل میںا سکول کے بچے ہمراہ ہوتے تھے۔یہ وہ طریقہ تھا جو کہ آج کل کے مہنگے اسکولوں میں اپنایا جاتا ہے۔اس وقت جب انگلش چھٹی کلاس میں پڑھانا شروع کی جاتی تھی مگر اس چھوٹے گاوں کے بچے پرائمری تک پہنچنے پہنچتے نہ صرف حروف تہجی یاد کرچکے ہوتے تھے بلکہ انگلش کی اچھی خاصی شدبدھ ہوتی تھی۔
قارئین کرام! یہ کہانی ہے جدوجہد آزادی پاکستان میں بطور طالب عالم اور مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے فعال کارکن غلام مصطفی خان کی جنہیں ان کے شاگرد اور جتوئی کے اس چھوٹے سے گاؤں کے لوگ آج بھی استاد صاحب اور ماسٹر صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آج ان کے شاگرد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور پائلٹ ہیں اور وہ لوگ اس شخص کو اپنا مسیحا مانتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو شائد آج وہ یا تو مویشی چرا رہے ہوتے یا پھر کسی کھیت میں کام کررہے ہوتے۔
آج والد سے محبت اور والد کی عظمت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔اس موقع پر میں نے یہ تحریر لکھ کر اس ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے کی ادنی سے کوشش کی ہے۔شائد یہ ایک عام سی کہانی لگے مگر ایسا کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو اس شخص کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا اور سراہا جاتا لیکن پاکستان میں تو جو ہاتھ آیا وہ بس تئیس سو روپے کی پنشن تھی۔
میرے مرحوم والد مکی مغفرت کے لیے دعاؤں کی اپیل ہے۔والدکے عالمی دن پر ایک شعر کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کالم کا اختتام کرررہا ہوں
مجھ کو چھاؤں میں رکھااور خودبھی وہ جلتارہا
میں نے دیکھااک فرشتہ باپ کی پرچھائی میں