انتخابات کی آمد۔۔۔بھارتی مسلمانوں سے مصنوعی ہم دردیوں کا موسم

پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں سے یہ جعلی ہمدردیاں صرف بی جے پی کی جانب سے نہیں۔

کانگریس ، بی جے پی، سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے لیڈر انتخابی جیت کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں مصرو ف ہیں۔ فوٹو : فائل

لاہور:
بھارتی لوک سبھا کے سولہویں چناؤ(انتخابات) کے لیے بڑے بڑے سیاسی پنڈت اپنی اپنی انتخابی مہمات شروع کر چکے ہیں۔

فی الوقت کسی دائیں ، بائیں جماعت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں رائے زنی قبل از وقت ہوگی،کیونکہ بھارتی سیاست اس وقت چوں چوں کا مربہ معلوم ہوتی ہے۔ البتہ کم سے کم موجودہ حکمراں نیشنل کانگریس ، بھارتیہ جنتا پارٹی ، سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے منہ زور سیاسی لیڈر اپنی جسمانی قوت کو مجتمع کر کے انتخابی جیت کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں مصرو ف ہیں۔ انتخابات سے قبل مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ نرمی، چاپلوسی اور'' منافقانہ رواداری'' بھارتی سیاست کا اہم ترین عنصر سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں رہنے اور وہاں کے حالات سے بخوبی آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ مسلمانوں سے جعلی ہمدردی جتانے کے دن ایک مرتبہ پھر آگئے ہیں۔

سونیا گاندھی، ان کے فرزند ارجمند راہول گاندھی، چشم بددور من موہن سنگھ، بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی ، پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ اور دیگر کے بیانات اٹھا کر دیکھیں تو ایسے لگ رہا ہے کہ ان کی ہار جیت مسلم ووٹ بنک پر منحصر ہے۔ خاص طورپر یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس نے ماضی میں مسلمان اقلیت کے حقوق کے لیے ہونے والی کسی بھی کوشش کو ہمیشہ ناکام بنایا ۔ یہ پارٹی نہ صرف مسلمانوں کو بنیادی شہری حقوق دینے کی کھلی مخالف رہی بلکہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے قتل عام میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ آج اگر نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ مسلمانوں سے معافی کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی مسلمانوں کے قتل عام کے بعد انتخابات کے موقع پر اس جماعت کے سورماؤں کا یہی طرز عمل رہا ہے۔

بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں کہا کہ اگر ان کی جماعت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں تو وہ معافی مانگتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی معافی کی بات کو''اگر'' کے لفظ سے مشروط کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو ''بے جے پی'' کے مظالم اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے واقعات آج بھی یاد ہیں۔ یہی وہ پارٹی ہے جس نے ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے اپنے غنڈوں کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کو ا ب بھی یاد ہے۔ یہ مذہبی دہشت گردی بھی بی جے پی کی کارستانی تھی۔ ریاست آسام میں ایک ہی دن میں پانچ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا کانگریس نے کرایا تھا؟۔ کیا جنتا پارٹی وہ قتل عام بھول گئی۔ ریاست اتر پردیش اور بہار میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی نے مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کی ۔ اترپردیش میں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام جھوٹا نہیں۔

خود بھارتی میڈیا اور عدالتیں مسلمانوں کے کشت وخون میں بی جے پی کی رہ نما سنگیت سوم کو قصور وار قرار دے چکی ہیں۔ سب کو یاد ہے کہ پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے مسلمانوں کی اس قاتل کو ''ہیرو'' قرار دیا تھا۔کانگریس کی حکومت لوک سبھا کے الوداعی اجلاس تک چارسال کے دوران انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کئی بار کی کوشش میں بی جے پی ہی حائل رہی اور مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا یہ بل منظور نہ کیا جا سکا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی تو ہرحکومت کے دور میں رہی ہے لیکن بی جے پی جب بھی برسراقتدارآئی اس نے کشمیر میں جارحیت میں اضافہ کیا۔ انسانی حقو ق کی تنظیمیں آج بھی گواہ ہیں کہ وادی جنت نظیر میں گمنام قبریں اس دور میں بنیں جب مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی اورشری اٹل بہاری واجپائی جیسے امن دشمن لوگ مقتدر تھے۔

پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں سے یہ جعلی ہمدردیاں صرف بی جے پی کی جانب سے نہیں بلکہ دوسرے سیاست دان اور جماعتیں بھی مسلمانوں کے حقوق کی کھل کربات کرنے سے کتراتے ہیں ۔ ہاں اس میدان میں اگر بھارت کے مسلمانوں کو کچھ امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں تو عام آدمی پارٹی سے ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ نئی جماعت کم سے کم قومی خزانے کی لوٹ مار پر یقین نہیں رکھتی ۔ رہی کانگریس تو اس نے 55 سال ہندوستان میں حکومت کی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسے لوگ اس پارٹی میں رہے لیکن مسلمان اقلیت کے بارے میں جو طرز عمل جواہر لعل نہرو نے اختیار کیا تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔کانگریس اگر اتنی ہی مسلم نواز ہوتی توکشمیر میں سات لاکھ فوج کے ذریعے نہتے شہریوں کا قتل عام نہ کراتی اور بی جے پی جیسی انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی شفاف تحقیقات کی جاتیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔



سعودی ولی عہد کا دورہ بھارت

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان، جاپان اور بھارت کے دورے پر ہیں۔

تادم تحریر وہ دہلی میں ہیں تاہم امکان ہے کہ وہ اس کے بعد چین کے دورے پر بھی جائیں گے۔ انہوں نے اپنے دورے کا آغاز پاکستان سے کیا ۔ سعودی ولی عہد کا یہ دورہ وقت کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ دورے کی خبر کے اندر کی خبروں اور تجزیہ نگاروں کے خیالات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سعودی عرب شام کے تنازع کے حل اور ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی ڈیل کے تناظرمیں ایک نئی پیش بندی کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولی عہد نے سب سے پہلے اپنے دیرینہ اتحادی ممالک کا دورہ کرنا مناسب سمجھا ہے۔ غیرملکی اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کے بعد اب بھارت کا دورہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے لیے خوش آئند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ذریعے کی اطلاع یہ ہے کہ پاکستان نے سعودی ولی عہد سے کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ اسلام آباد کے معاملات کو بہتر بنانے میں مدد کریں بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سعودی عرب بھارتی سرکار پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

بھارتی اخبارات نے بھی دبے لفظوں میں اس جانب اشارہ کیا ہے ۔ ولی عہد شہزادہ سلمان نے نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے باہمی تنازعات ختم کرکے ایک ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ اس ضمن میں سعودی عرب دونوں ملکوں کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔ ولی عہد کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بھارتی سرکار سے پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل میں مدد فراہم کرنے کی بھی بات کی ہوگی ۔ بھارت چونکہ پاکستان کے معاملات میں زیادہ حساس واقع ہوا ہے۔ اس لیے سعودی ولی عہد کی جانب سے بھی کسی مفاہمتی پیشکش پر کا ن دھرنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔

مصر میں حماس کو ''دہشت گرد'' تنظیم قرا ر دینے کی کوشش
مصرکی زیرعتاب اعتدال پسند مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کی فکری و نظریاتی ہم خیال فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) بھی اب قاہرہ کی انتقامی سیاست کے نشانے پر ہے۔ مصرکی ایک عدالت نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششیں شروع کردی ہیں ۔ یہ عین ممکن کے ان سطور کی اشاعت تک مصری عدالت کوئی ایسا فیصلہ صادر کر سکتی ہے۔ مصر کی جانب سے حماس کے خلاف پروپیگنڈہ مشینری اس وقت ہی حرکت میں آئی تھی جب اخوان کے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو برطرف کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ مصر کی موجودہ فوجی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ فلسطینی تنظیم 2011ء کے فسادات کے دوران قاہرہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے۔ حماس اور اخوان کارکنوں نے مل کر ایک جیل توڑ دی تھی جس میں سابق صدر محمد مرسی بھی اس وقت قید تھے۔ ان کے ہمراہ سکیورٹی اداروں کو مطلوب سیکڑوں ایسے قیدی بھی فرار ہوگئے تھے جن کی رہائی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

حماس کے خلاف جاری چارج شیٹ میں تین درجن کے قریب افراد کے نام جاری کیے گئے ہیں جن پر جیل توڑنے میں معاونت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حماس کی جانب سے سامنے آنے والے موقف میں بتایا گیا ہے کہ قاہرہ کی فراہم کردہ فہرست میں کئی ایسے نام شامل ہیں جو 2011ء کے مصری انقلاب سے قبل انتقال کر چکے ہیں یا انہیں اسرائیل نے شہید کردیا تھا۔ کئی ایسے ہیں جو کئی سال سے اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں۔ کچھ افراد سرے سے غزہ کی پٹی یا فلسطین کے دوسرے کسی شہر سے باہر بھی نہیں گئے جبکہ اسی فہرست میں شامل کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جن کا فلسطینی سرکاری اداروں میں کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ ایسے میں قاہرہ کی جانب سے حماس پر بے سروپا الزام تراشی خود مصری حکومت کے لیے پریشانی کا باعث تو بنے گی لیکن اس سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ ایسے کسی بھی فیصلے سے اسرائیل تو خوش ہوسکتا ہے لیکن فلسطینی یا مصری عوام کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے باوجود مصری حکومت حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔

''جم او نیل'' کی معنی خیز پیش گوئی
یہ درست ہے کہ ارباب اختیار کی غلط معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی میدان میں مسلسل زوال پذیر ہے۔ موجودہ حالات میں فوری بہتری کی توقع بھی کم ہی کی جا رہی ہے لیکن برطانیہ کے ماہر معیشت''جم اونیلJim O Naill '' کی تازہ پیش گوئی کسی صورت میں نظرانداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ اونیل کو عالمی معیشت کا ''گرو'' اور اسٹاک مارکیٹوں کے اتار چڑھاؤ کا جادو گر مانا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2050ء میں پاکستان دنیا کی اٹھارہویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس وقت پاکستان معاشی طو ر پر 44 نمبر پر ہے۔

اگلے 35 برسوں میں غیرمعمولی معاشی ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچنا ناممکن بھی نہیں ہے۔ جم اونیل صرف برطانیہ ہی کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے ممتاز ماہر معیشت مانے جاتے ہیں۔ آج تک ان کی تقریبا تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔ 2001ء میں انہوں نے BRIC(برازیل، روس، انڈیا اور چین) کے بارے میں پیش گوئی کہ 2008ء تک یہ ممالک معاشی میدان میں تیز رفتار ترقی کرتے ہوئے عالمی معیشت پر چھا جائیں گے۔ اس کی یہ پیش گوئی سو فی صد درست ثابت ہوئی۔2011ء میں اس نےMINT یعنی میکسیکو، انڈونیشیا، نائیجیریا اور ترکی کو2025 ء کی بڑ ی عالمی معاشی طاقتیں قرار دیا جبکہ 2050ء تک پاکستان دنیا کی اٹھارہویں بڑی معاشی طاقت ہوگا۔ اونیل کے بہ قول اس وقت پاکستان کا کل ''جی ڈی پی'' 225.14 بلین ڈالر ہے جو کہ 2050ء میں بڑھ کر جرمنی کے موجودہ جی ڈی پی کے مساوی یعنی 3.33 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے گا۔ تب پاکستان کا شمار دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کے گروپ اول میں ہوگا۔

جیم اونیل نے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے جو اہم نکات اور تجاویز پیش کی ہیں وہ کوئی مشکل نہیں ہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان امن وامان کے مسائل پرقابو پانے کے ساتھ ساتھ ، چین سے معاشی تعلقات بہتر کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرے تو وہ با آسانی اپنے معاشی اہداف حاصل کر سکتا ہے۔ برطانوی ماہر معیشت کی اس پیشین گوئی کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ پاکستانی قوم اور ارباب اختیار کے لیے ایک خوش کن خبر سے کم نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اونیل نے پیشین گوئی کر دی ہے اس لیے اب ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہیں۔ اس نے اہداف کے حصول کے لیے جن عناصر اربعہ کو لازمی قرار دیا ہے ان پر ہرصورت میں عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ لا ء اینڈ آرڈر ترقی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے لیکن اونیل نے جتنا امن وامان کا قیام لازمی قراردیا ہے اتنا ہی چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بہتری پر بھی زور دیا ہے۔
Load Next Story