پی ٹی آئی کا جھکاوا

امریکا ایک ایسی جماعت کی صوبائی حکومت کو مالی امداد کیوں فراہم کرے گا جس کی وفاقی حکومت کا اس نے خاتمہ کیا ہے؟


فاروق عادل June 20, 2022
[email protected]

بجٹ آ گیا، اب بجٹ کے نتائج کا سامنا ہے۔ اس قضیے کے تین پہلو ایسے ہیں جن پر باربار توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان تین معاملات میں وفاقی بجٹ اہم ترین ہے لیکن دیگر دو باتیں تمہید کا درجہ رکھتی ہیں۔

فخر کاکاخیل خیبر پختونخوا کے ان قابل فخر فرزندوں میں سے ایک ہیں جو ظاہر پر نہیں جاتے، بات کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محمود خان اور ان کے وزیر خزانہ جب اپنے بجٹ کی تعریف میں رطب اللسان تھے، فخر نے ایک سوال اٹھایا کہ اس بجٹ میں عوامی مفاد میں کتنے ترقیاتی منصوبے شامل کیے گئے ہیں؟ ان کا دوسرا سوال تھا کہ کیا اس حکومت نے عوامی مفاد میں کوئی میگا پروجیکٹ اس بجٹ میں شامل کیا؟خیبرپختونخوا کے بجٹ کو کھنگال کر دیکھ لیجیے ، ایسی کوئی چیز اس دستاویز سے دستیاب نہیں ہوگی۔

ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب بھی خیبر پختونخوا کی پیچیدہ سیاست میں درک رکھنے والے فخر ہی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو بات بتائی، ریاست و سیاست کو سنجیدگی سے سمجھنے والے ہی اس کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وفاق اور صوبے علیحدہ علیحدہ بجٹ پیش کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کی ان تمام اکائیوں کے آیندہ مالی سال کی منصوبہ بندی کی تیاری بہت حد تک ایک ساتھ ہوتی ہے۔

بجٹ سے قبل وفاق، صوبے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے منتخب حکمران مل بیٹھتے ہیں اور اپنے وسائل ، مسائل اور آیندہ برس کی مالیاتی حکمت عملی تشکیل دیتے ہیں ۔ یہی فورم ہے جہاں صوبائی اکائیاں وفاق کو اپنی ضروریات اور منصوبوں سے آگاہ کر کے ان سے اپنے حصے کے فنڈ لیتی ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے جب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے اس فورم میں شریک ہو کر صوبے کی نمایندگی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اگر نیشنل اکنامک فورم کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تو وہ اس وقت کہاں تھے؟ تو جواب یہ ہے کہ محمود خان اس وقت عمران خان کے جلسوں میں شریک تھے۔اگر کسی صوبے میں ایک خاص سیاسی جماعت کی حکومت ہو اور اس جماعت کی مرکزی قیادت کسی سیاسی سرگرمی میں شریک ہو تو صوبے کی منتخب قیادت کا اس میں شریک ہونا فطری ہے لیکن صوبے کے مفاد کی قیمت پر نہیں۔ وزیر اعلیٰ کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ صوبے کی معیشت کو چلانے اور ترقیاتی عمل کو جاری رکھنے کے لیے اپنی تمام آئینی اور قانونی ذمے داری پوری کرے۔ ملک کے ہر صوبے کی آمدنی کا بڑا ذریعہ وفاق سے ملنے والے فنڈ ہیں جن کے حصول کے لیے صوبہ پروجیکٹ بنا کر وفاقی حکومت کو پیش کرتا ہے ۔

خیبرپختونخوا حکومت نے اس دفعہ ایسا نہیں کیا۔ میری معلومات کے مطابق وفاق نے اپنے طور پر خیبر پختونخوا کو فنڈ فراہم کر دیے ہیں لیکن صوبے کو خودجو ذمے داری انجام دینی ہوتی ہے، اس سے اس نے مجرمانہ طور پر گریز کیا ہے۔ ایک اور اطلاع یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے اس بار بجٹ خود تیار ہی نہیں کیا بلکہ یہ بجٹ پی ٹی آئی کے لوگوں نے اسلام آباد میں تیار کیا ہے۔ اتنی غیر سنجیدگی کے ساتھ تیار کیے گیے بجٹ کا نتیجہ سامنے ہے، اس میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شامل ہی نہیں ۔

اس بجٹ کا ایک اور پہلو بھی بڑا دلچسپ ہے۔ صوبائی بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے کی تقریبا ایک کھرب روپے کی آمدنی غیر ملکی امداد سے پوری ہو گی۔ مالیات کے شعبے سے دلچسپی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس قسم کی امداد امریکا سے ملتی ہے یا امریکی خوش نودی کے نتیجے میں عالمی مالیاتی اداروں سے یا اس کے کچھ دیگر دوست ملکوں سے جیسے جاپان وغیرہ۔ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے اتنی خطیر آمدنی کی توقع چند سوالات پیدا کرتی ہے۔عمران خان اور پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ امریکا نے اس کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا ایک ایسی جماعت کی صوبائی حکومت کو مالی امداد کیوں فراہم کرے گا جس کی وفاقی حکومت کا اس نے خاتمہ کیا ہے؟ امریکا اس کے باوجود پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو امداد فراہم کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا سازش والا بیانیہ غلط ہے یا خیبر پختونخوا کی حکومت عمران خان سے باغی ہو گئی ہے ۔ حکومت کے باغی ہونے کا تو کوئی ثبوت میسر نہیں ہے اور اس کا کوئی جواز بھی نہیں ہے تو اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ سازش والا بیانیہ بے بنیاد ہے اور پی ٹی آئی اور امریکا کے تعلقات مثالی ہیں۔ یہ منظر نامہ اب صرف ایک ہی کہانی بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے کھانے کے دانت اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور اگر ذرا توجہ دی جائے تو اصل کہانی چھپی نہیں رہ سکتی۔

کے پی کے بعد پنجاب کے بجٹ کے معاملات اہم ہیں۔ بجٹ پیش ہو گیا ہے۔ اس کی منظوری کی آئینی ضرورت بھی کسی نہ کسی طرح پوری ہو جائے گی لیکن پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ناپسندیدہ ہے۔ اس طرح کا طرز عمل جمہوریت کی بساط لپیٹ کر آمریت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے ۔

آخر میں کچھ ذکر وفاقی بجٹ اور قومی معیشت کے تناظر میں عوام کی درگت کا۔ اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ موجودہ اقتصادی صورت حال میں عوام جن مسائل سے دوچار ہیں جیسا وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس صورت حال سے نمٹنے کاایک ہی طریقہ ہے،بچت۔ توانائی کے ذخائر کی بچت، زرمبادلہ کی بچت اور بجلی کا کم سے کم استعمال۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں نہ صرف عوام کو اعتماد میں لے بلکہ خود مثال بن کر بچت کی تحریک کو کامیاب بنائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں