بلدیاتی نظام بن گئے مذاق
جنرل مشرف کے بااختیار ضلع نظام جیسا بلدیاتی نظام ملک کو پہلی بار ملا تھا جس میں اسمبلی ارکان کی کوئی مداخلت نہیں تھی
لاہور:
اٹھارویں ترمیم سے قبل ملک بھر میں ایک جیسا بلدیاتی نظام ہوا کرتا تھا جو وفاق کے ماتحت اور جنرل پرویز مشرف کے ضلع نظام سے قبل وفاقی وزارت بلدیات و دیہی ترقی کا محکمہ بھی ہوا کرتا تھا مگر جنرل پرویز مشرف نے 2001 میں ملک کو ایک بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام دیا تھا جو ملک میں 2009 تک نافذ رہا جس میں منتخب بلدیاتی نمایندوں کو بیورو کریسی پر ہی نہیں بلکہ مالی و انتظامی طور پر بھی اختیارات دیے گئے تھے اور کمشنری نظام ختم کردیا گیا تھا۔
جنرل مشرف کے بااختیار ضلع نظام جیسا بلدیاتی نظام ملک کو پہلی بار ملا تھا جس میں اسمبلی ارکان کی کوئی مداخلت نہیں تھی اور ملک بھر کے منتخب ناظمین سیاسی دباؤ سے آزاد اور خودمختار تھے اس بااختیار ضلع نظام کے سب سے شدید مخالف ملک کی بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی تھے جن کی حیثیت ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ جنرل مشرف سے قبل جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق نے بھی اپنی مرضی کے بلدیاتی نظام دیے تھے جو بیورو کریسی کے ماتحت محدود اختیارات کے حامل تھے۔
جنرل مشرف کے صدارت چھوڑنے کے بعد 2009 تک یہ نظام اسی لیے محفوظ رہا کہ اسے آئینی تحفظ حاصل تھا جس کی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت نے ناظمین کے اختیارات کم کر دیے تھے اور بعد میں چاروں صوبائی حکومتوں نے جنرل ضیا کا 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا جو بااختیار نہیں تھا۔
2008 کے انتخابات میں پنجاب میں (ن) لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی، کے پی اور بلوچستان میں پی پی اور اے این پی کی حکومتیں بنی تھیں جنھوں نے اپنے صوبوں میں مرضی کے بلدیاتی ادارے بنائے اور 18 ویں ترمیم میں وفاقی وزارت بلدیات ختم کرکے بلدیات مکمل طور پر صوبوں کے ماتحت کردی گئی تھی اور صوبائی حکومتوں نے 2015 تک بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے اور اپنی اسمبلیوں میں مرضی کی بلدیاتی قانون سازی کی اور بلدیاتی نظام صوبائی وزرائے اعلیٰ کے ماتحت ہی نہیں آیا بلکہ بلدیاتی ادارے بے اختیار ہو کر مکمل طور پر وزرائے اعلیٰ کے محتاج ہوکر رہ گئے جو اپنے وزرائے بلدیات کے ذریعے بلدیاتی ادارے چلاتے آ رہے ہیں اور ملک بھر میں بلدیاتی نظام مذاق بنا ہوا ہے۔
دنیا بھر میں تین سطح حکومتیں ہوتی ہیں وفاقی، صوبائی اور اضلاع ، جن کے اپنے اپنے اختیارات ہوتے ہیں اور وفاقی یا صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کو بااختیار بناتی ہیں ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں کیونکہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے جن کے وقت پر باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں اور وہ آئین کے مطابق خدمات انجام دیتے ہیں۔
2013 میں کے پی میں پی ٹی آئی کی مخلوط صوبائی حکومت بنی جس میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی جس کے پاس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بلدیاتی سربراہی رہی ہے اور جماعت اسلامی بااختیار بلدیاتی نظام کی حامی رہی ہے۔
کے پی میں عمران خان کی صوبائی حکومت کا بلدیاتی نظام سندھ، بلوچستان اور پنجاب سے مختلف تھا جو حقیقی طور پر بااختیار نہیں تھا اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی پشاور اور متعدد شہروں میں برائے راست انتخابات میں اپنے میئر منتخب نہ کرا سکی تو حال ہی میں پی ٹی آئی کی دوسری صوبائی حکومت نے عمران خان کے کیے گئے دعوؤں کے برعکس بلدیاتی اداروں، میئروں اور چیئرمینوں کے اختیارات کم کردیے کیونکہ پی ٹی آئی کو اپنی حکومت ہوتے ہوئے کے پی میں وہ بلدیاتی کامیابی نہیں ملی جتنی اس کو توقع تھی۔
کے پی میں ساڑھے 8 سال سے پی ٹی آئی کی اپنی بااختیار حکومت ہے جس کی کارکردگی بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جے یو آئی صوبے میں پی ٹی آئی پر برتری لے گئی تھی جس پر عمران خان نے برہم ہو کر وزیر اعظم ہوتے ہوئے دوسرے بلدیاتی مرحلے میں خود مہم چلائی، جلسے کیے اور خود امیدوار مقرر کیے تھے۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مصروف رہنے کے باعث دوسرے بلدیاتی مرحلے میں پہلے جیسی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اب کے پی حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات خود سلب کرلیے ہیں جس پر جے یو آئی کے نومنتخب میئر پشاور کی صدارت میں صوبے کے بلدیاتی عہدیداروں کا اجلاس ہوا جس میں بلدیاتی اختیارات کم کیے جانے پر کے پی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
کے پی سمیت کوئی بھی صوبائی حکومت آئین کے مطابق بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دے رہی۔ سندھ میں سیاسی جماعتیں نئے بلدیاتی قانون پر متفق ہی نہیں ہوئیں کیونکہ پی پی حکومت بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت اختیارات نہیں دینا چاہتی اس لیے معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں ہے۔ سندھ اور پنجاب میں جلد بلدیاتی انتخابات کا امکان نہیں ہے۔
بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے۔ سندھ میں یہ انتخابات عدالتی فیصلے کے بعد ہی ہو سکیں گے اور جاری بلدیاتی الیکشن مہم ملتوی ہو جائے گی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت نے کے پی طرز کے بلدیاتی انتخابات کے لیے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری کرایا تھا اسے اسمبلی سے منظور نہیں کرایا گیا اور حکومت ختم ہوگئی اور پنجاب کی نئی حکومت نے 2021کا آرڈیننس غیر موثر ہونے پر 2019 کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ بحال کردیا ہے اور باقی ماندہ مدت کے لیے سرکاری افسروں کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا ہے اور بلدیاتی الیکشن کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ چاروں صوبوں کے مختلف بلدیاتی نظام سیاسی حکومتوں نے مذاق بنا کر رکھ دیے ہیں جو یکساں ہیں نہ بااختیار اور عوام ہیں پریشان۔
اٹھارویں ترمیم سے قبل ملک بھر میں ایک جیسا بلدیاتی نظام ہوا کرتا تھا جو وفاق کے ماتحت اور جنرل پرویز مشرف کے ضلع نظام سے قبل وفاقی وزارت بلدیات و دیہی ترقی کا محکمہ بھی ہوا کرتا تھا مگر جنرل پرویز مشرف نے 2001 میں ملک کو ایک بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام دیا تھا جو ملک میں 2009 تک نافذ رہا جس میں منتخب بلدیاتی نمایندوں کو بیورو کریسی پر ہی نہیں بلکہ مالی و انتظامی طور پر بھی اختیارات دیے گئے تھے اور کمشنری نظام ختم کردیا گیا تھا۔
جنرل مشرف کے بااختیار ضلع نظام جیسا بلدیاتی نظام ملک کو پہلی بار ملا تھا جس میں اسمبلی ارکان کی کوئی مداخلت نہیں تھی اور ملک بھر کے منتخب ناظمین سیاسی دباؤ سے آزاد اور خودمختار تھے اس بااختیار ضلع نظام کے سب سے شدید مخالف ملک کی بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی تھے جن کی حیثیت ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ جنرل مشرف سے قبل جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق نے بھی اپنی مرضی کے بلدیاتی نظام دیے تھے جو بیورو کریسی کے ماتحت محدود اختیارات کے حامل تھے۔
جنرل مشرف کے صدارت چھوڑنے کے بعد 2009 تک یہ نظام اسی لیے محفوظ رہا کہ اسے آئینی تحفظ حاصل تھا جس کی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت نے ناظمین کے اختیارات کم کر دیے تھے اور بعد میں چاروں صوبائی حکومتوں نے جنرل ضیا کا 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا جو بااختیار نہیں تھا۔
2008 کے انتخابات میں پنجاب میں (ن) لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی، کے پی اور بلوچستان میں پی پی اور اے این پی کی حکومتیں بنی تھیں جنھوں نے اپنے صوبوں میں مرضی کے بلدیاتی ادارے بنائے اور 18 ویں ترمیم میں وفاقی وزارت بلدیات ختم کرکے بلدیات مکمل طور پر صوبوں کے ماتحت کردی گئی تھی اور صوبائی حکومتوں نے 2015 تک بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے اور اپنی اسمبلیوں میں مرضی کی بلدیاتی قانون سازی کی اور بلدیاتی نظام صوبائی وزرائے اعلیٰ کے ماتحت ہی نہیں آیا بلکہ بلدیاتی ادارے بے اختیار ہو کر مکمل طور پر وزرائے اعلیٰ کے محتاج ہوکر رہ گئے جو اپنے وزرائے بلدیات کے ذریعے بلدیاتی ادارے چلاتے آ رہے ہیں اور ملک بھر میں بلدیاتی نظام مذاق بنا ہوا ہے۔
دنیا بھر میں تین سطح حکومتیں ہوتی ہیں وفاقی، صوبائی اور اضلاع ، جن کے اپنے اپنے اختیارات ہوتے ہیں اور وفاقی یا صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کو بااختیار بناتی ہیں ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں کیونکہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے جن کے وقت پر باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں اور وہ آئین کے مطابق خدمات انجام دیتے ہیں۔
2013 میں کے پی میں پی ٹی آئی کی مخلوط صوبائی حکومت بنی جس میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی جس کے پاس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بلدیاتی سربراہی رہی ہے اور جماعت اسلامی بااختیار بلدیاتی نظام کی حامی رہی ہے۔
کے پی میں عمران خان کی صوبائی حکومت کا بلدیاتی نظام سندھ، بلوچستان اور پنجاب سے مختلف تھا جو حقیقی طور پر بااختیار نہیں تھا اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی پشاور اور متعدد شہروں میں برائے راست انتخابات میں اپنے میئر منتخب نہ کرا سکی تو حال ہی میں پی ٹی آئی کی دوسری صوبائی حکومت نے عمران خان کے کیے گئے دعوؤں کے برعکس بلدیاتی اداروں، میئروں اور چیئرمینوں کے اختیارات کم کردیے کیونکہ پی ٹی آئی کو اپنی حکومت ہوتے ہوئے کے پی میں وہ بلدیاتی کامیابی نہیں ملی جتنی اس کو توقع تھی۔
کے پی میں ساڑھے 8 سال سے پی ٹی آئی کی اپنی بااختیار حکومت ہے جس کی کارکردگی بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جے یو آئی صوبے میں پی ٹی آئی پر برتری لے گئی تھی جس پر عمران خان نے برہم ہو کر وزیر اعظم ہوتے ہوئے دوسرے بلدیاتی مرحلے میں خود مہم چلائی، جلسے کیے اور خود امیدوار مقرر کیے تھے۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مصروف رہنے کے باعث دوسرے بلدیاتی مرحلے میں پہلے جیسی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اب کے پی حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات خود سلب کرلیے ہیں جس پر جے یو آئی کے نومنتخب میئر پشاور کی صدارت میں صوبے کے بلدیاتی عہدیداروں کا اجلاس ہوا جس میں بلدیاتی اختیارات کم کیے جانے پر کے پی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
کے پی سمیت کوئی بھی صوبائی حکومت آئین کے مطابق بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دے رہی۔ سندھ میں سیاسی جماعتیں نئے بلدیاتی قانون پر متفق ہی نہیں ہوئیں کیونکہ پی پی حکومت بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت اختیارات نہیں دینا چاہتی اس لیے معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں ہے۔ سندھ اور پنجاب میں جلد بلدیاتی انتخابات کا امکان نہیں ہے۔
بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے۔ سندھ میں یہ انتخابات عدالتی فیصلے کے بعد ہی ہو سکیں گے اور جاری بلدیاتی الیکشن مہم ملتوی ہو جائے گی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت نے کے پی طرز کے بلدیاتی انتخابات کے لیے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری کرایا تھا اسے اسمبلی سے منظور نہیں کرایا گیا اور حکومت ختم ہوگئی اور پنجاب کی نئی حکومت نے 2021کا آرڈیننس غیر موثر ہونے پر 2019 کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ بحال کردیا ہے اور باقی ماندہ مدت کے لیے سرکاری افسروں کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا ہے اور بلدیاتی الیکشن کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ چاروں صوبوں کے مختلف بلدیاتی نظام سیاسی حکومتوں نے مذاق بنا کر رکھ دیے ہیں جو یکساں ہیں نہ بااختیار اور عوام ہیں پریشان۔