وفاقی حکومت نے مشکل حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا
جی ڈی پی کی نمو، برآمدات، ترسیلاتِ زر اور ریونیو کے اہداف قابل حصول حد میں ہیں
توقعات کے برعکس مالی سال 2022-23 کا وفاقی بجٹ حقیقت پسندانہ ہے اور ہدف بھی معروضی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کیے گئے ہیں۔
بڑے اہداف جیسے جی ڈی پی کی 5 فیصد نمو، برآمدات 35ارب ڈالر، ترسیلاتِ زر 33.2 ارب ڈالر اور ریونیو کا 70کھرب کا ہدف قابل حصول حد میں ہے۔ تاہم کچھ اہداف کا حصول چیلنجنگ ہوسکتا ہے۔ ان میں افراطِ زر کی شرح 11.5 فیصد اور تجارتی خسارہ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد رکھنا، پٹرولیم لیوی سے 3کھرب روپے اور نجکاری کے ذریعے 96.41 ارب روپے حاصل کرنا شامل ہیں۔
سب سے زیادہ یہ انتظار کیا جارہا تھا کہ کون سا شعبہ نئے ٹیکسوں سے، اورکتنا متاثر ہوگا۔ تاہم نئے ٹیکس صرف 440 ارب کے لگائے گئے ہیں اور ان میں سے دو تہائی ڈائریکٹ ٹیکس ہوں گے جو بنیادی طور پر امیر طبقے پر لگائے گئے ہیں۔ سولر پینلز، اسپتالوں کو سپلائی، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز کی درآمدات وغیرہ پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ آئندہ مالی سال میں ختم کردی گئی ہے۔ بیجوں، ٹریکٹر اور دیگر زرعی سامان اور آلات پر سے سیلز ٹیکس کے خاتمے سے زرعی شعبے کو فائدہ ہوگا۔
کسٹمز ڈیوٹی کے ضمن میں 400 ٹیرف ہیڈنگز کو ریشنلائز کیا گیا ہے، اسی طرح ریگولیٹری رجیم میں اصلاحات کی گئی ہیں اور فارماسیوٹیکل کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کی گئی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں انکم ٹیکس میں بھی ریلیف دیا گیا ہے۔ بینکنگ سیکٹر پر ٹیکس 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کردیا گیا ہے۔ ٹیکس دہندگان کو ہراسانی سے بچانے کے لیے بھی متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے لیے مختص رقم 30 ارب روپے سے کم کر 50کروڑ روپے کردی گئی ہے۔
تفریحی صنعت کو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ ہمیں کم برآمدات اور محدود بیرونی سرمایہ کاری اور غیرپیداواری شعبوں میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی صورت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات میں جی ڈی پی میں تجارت کا تناسب بڑھانا اور بڑی مقدار میں بیرونی سرمایہ کاری کا حصول محض ایک خواب ہی رہے گا۔ بدقسمتی سے بجٹ میں ان مشکلات کے حل کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔
بڑے اہداف جیسے جی ڈی پی کی 5 فیصد نمو، برآمدات 35ارب ڈالر، ترسیلاتِ زر 33.2 ارب ڈالر اور ریونیو کا 70کھرب کا ہدف قابل حصول حد میں ہے۔ تاہم کچھ اہداف کا حصول چیلنجنگ ہوسکتا ہے۔ ان میں افراطِ زر کی شرح 11.5 فیصد اور تجارتی خسارہ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد رکھنا، پٹرولیم لیوی سے 3کھرب روپے اور نجکاری کے ذریعے 96.41 ارب روپے حاصل کرنا شامل ہیں۔
سب سے زیادہ یہ انتظار کیا جارہا تھا کہ کون سا شعبہ نئے ٹیکسوں سے، اورکتنا متاثر ہوگا۔ تاہم نئے ٹیکس صرف 440 ارب کے لگائے گئے ہیں اور ان میں سے دو تہائی ڈائریکٹ ٹیکس ہوں گے جو بنیادی طور پر امیر طبقے پر لگائے گئے ہیں۔ سولر پینلز، اسپتالوں کو سپلائی، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز کی درآمدات وغیرہ پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ آئندہ مالی سال میں ختم کردی گئی ہے۔ بیجوں، ٹریکٹر اور دیگر زرعی سامان اور آلات پر سے سیلز ٹیکس کے خاتمے سے زرعی شعبے کو فائدہ ہوگا۔
کسٹمز ڈیوٹی کے ضمن میں 400 ٹیرف ہیڈنگز کو ریشنلائز کیا گیا ہے، اسی طرح ریگولیٹری رجیم میں اصلاحات کی گئی ہیں اور فارماسیوٹیکل کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کی گئی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں انکم ٹیکس میں بھی ریلیف دیا گیا ہے۔ بینکنگ سیکٹر پر ٹیکس 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کردیا گیا ہے۔ ٹیکس دہندگان کو ہراسانی سے بچانے کے لیے بھی متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے لیے مختص رقم 30 ارب روپے سے کم کر 50کروڑ روپے کردی گئی ہے۔
تفریحی صنعت کو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ ہمیں کم برآمدات اور محدود بیرونی سرمایہ کاری اور غیرپیداواری شعبوں میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی صورت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات میں جی ڈی پی میں تجارت کا تناسب بڑھانا اور بڑی مقدار میں بیرونی سرمایہ کاری کا حصول محض ایک خواب ہی رہے گا۔ بدقسمتی سے بجٹ میں ان مشکلات کے حل کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔