سندھ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب طلب
الیکشن کمیشن بتا سکتا ہے کہ وہ انتخابات کرانے میں کیوں بضد ہے، وکیل ایم کیو ایم بیرسٹر فروخ نسیم
ISLAMABAD:
سندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی بلدیاتی انتخابات کے لئے حلقہ بندیوں اور قانون سازی سے متعلق درخواست پر الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کو 23 جون کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں اور قانون سازی سے متعلق ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے بیرسٹر فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیے کہ سندھ حکومت اس کیس میں جواب جمع کرا چکی۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن ملتوی کرانے پر رضا مند ہیں۔ سلیکٹ کمیٹی کے منٹس بھی جمع کرائے جاچکے ہیں۔ سپریم کورٹ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کا حکم دے چکی ہے۔ حالیہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے بالکل خلاف ہے۔
جسٹس محمد جنید غفار نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو سن لیتے ہیں اسے تو نوٹس ہی نہیں ہوئے۔ الیکشن سے متعلق طریقہ کار تو بہت آگے جا چکا ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف دیا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے قانون کو بھی دیکھ لیا جائے۔ حلقہ بندیوں کی کمیٹی نے بھی اختیارات سے تجاوز کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ فیصلہ آپ لوگوں نے تاخیر سے کیوں کیا؟ اتنی تاخیر سے منٹس کیوں آئے؟ الیکشن طریقہ کار تو اپریل سے چل رہا ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کو 23 جون کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے سماعت کے بعد غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک سلیکٹ کمیٹی بنائی گئی تھی۔ ان لوگوں نے آپس میں بیٹھ کر منٹس بنائے تھے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 140 A پر جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوا تھا، جب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوگا اور الیکشن لاز میں ریفارم میں نہیں ہوگا تو الیکشن نہیں ہوسکتا۔
ایک سوال پر بیرسٹر فروخ نسیم نے کہا کہ اس کا جواب تو الیکشن کمیشن بتا سکتا ہے کہ وہ کیوں بضد ہے انتخابات کرانے میں۔ جبکہ حلقہ بندیاں درست نہیں ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی بلدیاتی انتخابات کے لئے حلقہ بندیوں اور قانون سازی سے متعلق درخواست پر الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کو 23 جون کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں اور قانون سازی سے متعلق ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے بیرسٹر فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیے کہ سندھ حکومت اس کیس میں جواب جمع کرا چکی۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن ملتوی کرانے پر رضا مند ہیں۔ سلیکٹ کمیٹی کے منٹس بھی جمع کرائے جاچکے ہیں۔ سپریم کورٹ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کا حکم دے چکی ہے۔ حالیہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے بالکل خلاف ہے۔
جسٹس محمد جنید غفار نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو سن لیتے ہیں اسے تو نوٹس ہی نہیں ہوئے۔ الیکشن سے متعلق طریقہ کار تو بہت آگے جا چکا ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف دیا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے قانون کو بھی دیکھ لیا جائے۔ حلقہ بندیوں کی کمیٹی نے بھی اختیارات سے تجاوز کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ فیصلہ آپ لوگوں نے تاخیر سے کیوں کیا؟ اتنی تاخیر سے منٹس کیوں آئے؟ الیکشن طریقہ کار تو اپریل سے چل رہا ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کو 23 جون کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے سماعت کے بعد غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک سلیکٹ کمیٹی بنائی گئی تھی۔ ان لوگوں نے آپس میں بیٹھ کر منٹس بنائے تھے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 140 A پر جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوا تھا، جب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوگا اور الیکشن لاز میں ریفارم میں نہیں ہوگا تو الیکشن نہیں ہوسکتا۔
ایک سوال پر بیرسٹر فروخ نسیم نے کہا کہ اس کا جواب تو الیکشن کمیشن بتا سکتا ہے کہ وہ کیوں بضد ہے انتخابات کرانے میں۔ جبکہ حلقہ بندیاں درست نہیں ہیں۔