پاکستانی افواج جوہری طاقت اور سیاسی غیر ذمے داری

ہماری سیاسی لیڈر شپ اداروں پر اس وقت زیادہ تنقید کرتی نظر آتی ہے جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہے


فہمیدہ یوسفی June 21, 2022
نیوکلیئر پالیسی اور جوہری پروگرام پر بہت ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

MELBOURNE: حالیہ چند مہینوں میں پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں جاری سیاسی رسہ کشی سب کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جب بھی پاکستان میں سیاسی کشیدگی عروج کی طرف ہوتی ہے سب نظریں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ جو بھی اقتدار سے باہر جاتا ہے اسے اپنے خلاف سازش میں بیرونی ہاتھ کے ساتھ ساتھ نادیدہ قوتوں اور نیوٹرل کا کردار نظر آتا ہے۔

بڑی دلچسپ صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ اداروں پر اس وقت زیادہ تنقید کرتی نظر آتی ہے جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بقول ان کے بیرونی سازش کے تحت لائی جانے والی امپورٹڈ حکومت کو وہ کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور اس کے خلاف جہاد کرتے رہیں گے۔ جبکہ وہ کبھی براہ راست تو کبھی دبے لفظوں میں اداروں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

تاہم ان کے ایک بیان نے سب کو چونکادیا جب انہوں نے نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس وقت صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ یہ بھی تباہ ہوں گے، ملک بھی تباہ ہوگا اور فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی، ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔

ان کے اس بیان پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے کہا کہ پاکستان اپنے نیوکلیئر پروگرام پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستان ذمے دار اور پراعتماد نیوکلیئر ملک ہے۔ پاکستان کی پالیسی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس ہے جو کہ قابل اعتماد ایٹمی توازن کے دائرہ کار میں ہے۔ ہمارا قومی سیکیورٹی اور سیفٹی میکنزم ہر قسم کے خطرے کے خلاف بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق ہے۔

پاکستان کی پالیسی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کیا ہے؟


اس اصطلاح کے بارے میں دفاعی تجزیہ کار میجر (ر) فواد صدیقی نے بتایا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جب اپنی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرئن اسٹریٹجی بنائی (جس کے مطابق بھارت کی مسلح افواج بیک وقت یلغار کرے اور آٹھ مختلف محاذوں پر پاکستان کی افواج مصروف کرے تاکہ پاکستان اپنا ایٹمی آپشن استعمال نہ کرسکے)۔ تب پاکستان نے اس کے جواب میں روایتی جنگ کےلیے بھی اپنے نیوکلیئر ہتھیار (جس کو ٹیکٹیکل نیوکلئیر ہتھیار کہتے ہیں) جو چھوٹے پیمانے پر بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پورے خطے یا زیادہ بڑے رقبے پر اس کی تباہ کاری نہیں ہوگی، بنالیے ہیں۔

جس کی بہترین مثال زمین سے زمین تک مار کرنے والے محدود فاصلے والا پاکستان کا بیلسٹک میزائل نصر ہے۔ جبکہ اس کی دوسری مثال چھوٹے جوہری ہتھیاروں کے ساتھ اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنانے والے تیز پرواز والا میزائل ابابیل ہے۔ ان بیلسٹک میزائل کو بنانے کا مقصد دراصل پاکستان کے بڑے جوہری ہتھیاروں کےلیے ڈیٹرنس کو مزید مضبوط بنانا ہے۔

سادہ اور عام فہم زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان روایتی غیر روایتی جنگ (کنوینشنل وارفیئر اور نان کنوینشنل وارفیئر) اور سب کنوینشنل وارفیئر کے دوران پاکستان اپنے روایتی حریف کو روکنے (ڈیٹر) کےلیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گا۔ کیونکہ ہمارے حریف کو روایتی جنگ میں عددی لحاظ سے ہم پر سبقت حاصل ہے اور اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی یا جب بھی یہ محسوس کیا جائے گا کہ ہماری سلامتی کو خطرہ ہے تو ہم اپنے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

پاکستان کی ذمہ دار اٹامک پالیسی


پاکستان کے اٹامک اثاثوں کا کنٹرول نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے پاس ہے اور اس پر رسپانس اور تبصرے کی مجاز صرف نیشنل کمانڈ اتھارٹی ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر نبیل حسین نے کہا کہ پاکستان بہت ہی ذمہ دار اٹامک طاقت ہے، جس کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے تسلیم کیا ہے۔

پاکستان یو این سیکیورٹی کونسل کے 1540 کے دستخط کنندگان میں شامل ہے۔ بنیادی طور پر یہ قرارداد جوہری کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور ان کی ترسیل کو روکنے کےلیے موثر قانون سازی اور ان کی اسمگلنگ کو روکنے کے بارے میں ہے۔

اس سلسلے میں کیے جانے والے پاکستان کے بھرپور اقدامات کو نہ صرف IAEA بلکہ انٹرنیشنل اٹامک ایجنسی فورم نے بھی سراہا ہے۔ جبکہ پاکستان CPPNM (کنونشن آن فزیکل پروٹیکشن آف نیوکلیئر مٹیریل) 2005 کی توثیق بھی کرتا ہے۔

بھارت کی غیر ذمے دارانہ اٹامک پالیسی


اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر نبیل حسین نے بتایا کہ سال 2014 میں بی جے پی نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ ہم NFU (نو فرسٹ یوز) کو کالعدم قرار دے کر فرسٹ یوز FU آف نیوکلیئر ویپن استعمال کریں گے۔ بھارت کی نیوکلیئر ڈاکٹرائن دیکھیں تو اس میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اگر بھارت پر حملہ ہوا حیاتیاتی یا کیمیائی تو بھارت جوابی کارروائی میں اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال کرسکتا ہے۔

تو ویسے بھی نو فرسٹ یوز کی پالیسی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، جس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کو مغربی دنیا میں سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔

جبکہ بھارت کی اس پالیسی پر بات ہونی چاہیے اور یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ بھارت نو فرسٹ یوز پالیسی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ نیوکلیئر ہتھیاروں کو لے کر بھارت فرسٹ یوز پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔

یہ پالیسی اس وقت انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے جب بھارت کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے اور ماضی اور حال میں بھی بھارتی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے چوری اور لیکیج کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔

انہوں نے ابھی پاکستان میں براہموس میزائل گرنے کے واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیکنیکل فالٹ ثابت کرتا ہے بھارت کس قدر غیر ذمے دار نیوکلیئر طاقت ہے۔

جبکہ جواب میں پاکستان کا صبر وتحمل یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک بہت ذمے دار نیوکلیئر طاقت ہے۔ یہ میزائل ٹیسٹ بھارت کی ایف یو پالیسی کو بھی ثابت کرتا ہے کہ بھارت کے خطرناک جارحانہ عزائم ہیں اور بھارت کسی صورت بھی ایک ذمے دار نیوکلیئر اسٹیٹ نہیں ہے۔

نیوکلیئر پروگرام پر ہمارے سیاستدانوں کی بیان بازیاں


اس حوالے سے ممتاز صحافی اور سینئر تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی کا کہنا ہے کہ میں نے کسی بھی ملک کے سیاستدان کو اس طرح ایٹمی اثاثوں، فوجی حکومت اور طیاروں کے بارے میں بات کرتے نہیں دیکھا سوائے بھارت میں جو رفال پر جو کمیشن اسکینڈل سامنے آیا تھا، جس میں امبانی گروپ اور بی جے پی پر تنقید کی گئی تھی۔ لیکن اس کو بھی اس قدر نہیں اچھالا گیا جتنا اس پر بات ہونی چاہیے تھی۔

ہمارے ہاں تو اس طرح بات ہوتی ہے ایٹمی پروگرام کی، اللہ نہ کرے پاکستان کی تباہی کی، ہماری فوج کی تباہی کی اور دیوالیہ ہونے کی، جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ جیسے ہم آم کے بعد جامن کھا رہے ہوں۔

انہوں نے عمران خان کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان انتہائی غیر ضروری بلکہ غیر ذمے داری کا مظاہرہ ہے۔ جبکہ انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے بھی بتایا کہ عمران خان نے تو یہ حال میں کہا ہے، اس سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے کہا۔ دوسرے سیاستدانوں نے بھی عجیب و غریب قسم کے بیان دیے ہیں۔ خواجہ آصف، زرداری، نواز شریف، مریم نواز، بے نظیر بھٹو، سب نے فوج کے خلاف باتیں کیں تاہم ایٹم بم کے بارے میں کسی نے کوئی غیر ذمے دارانہ بیان نہیں دیا، جو اب ہورہا ہے۔

ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں نے پرزے پرزے جمع کیے ہیں۔ ہمارے جانے کتنے لوگ، کتنے مجاہد، ہمارے کتنے فوجی جوان اس مشن میں غائب ہوگئے، لاپتہ ہوگئے، کام آگئے۔ ہم پر سخت پابندیاں تھیں اس میں بڑی قربانیاں ہیں۔ اس میں قوم نے گھاس کھائی ہے۔ اس میں لوگوں نے اپنا لہو دیا ہے اور جس کے بعد آپ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سیاستدانوں کو حساس اور ذمے دار ہونا چاہیے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ ترین ہے۔ فخر کریں اس پر۔ یہ ہماری دولت ہمارا سرمایہ ہے۔

پروفیسر نبیل حسین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہمارے سیاستدان زیادہ تر جب بھی پاکستان نیوکلیئر پروگرام پر کوئی بیان دیتے ہیں بہت غیر ذمے دارانہ ہوتے ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ مناسب نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر ہمارے سیاستدانوں کو نیوکلیئر لرننگ کے تصور سے وافقیت نہیں ہے۔ اگر ان سے پوچھا جائے Credible Minimum or Minimum Credible Deterrence اور Full Spectrum Deterrence، جو اصل میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی پالیسی کیا ہے تو ان کے علم میں نہیں ہوگا۔

سب سے پہلے اپنے سیاستدانوں کےلیے ورک شاپس کا انعقاد کرنا چاہیے جہاں ہم اپنے پارلیمینٹرینز اور سیاستدانوں کو اپنی نیوکلیئر پالیسی اور این سی اے (نیشنل کمانڈ اتھارٹی) کے بارے میں بنیادی تصور کو سمجھائیں اور ان کی رہنمائی کریں۔ تاکہ ان کے علم میں ہو یہ کیا ہے اور نو فرسٹ یوز کا مطلب کیا ہے۔ کیونکہ اس بارے میں ابھی بھی ایک عام سیاستدان کو علم نہیں ہوگا اور اسی لیے ہوتا یہ ہے کہ اکثر سیاستدانوں کی جانب سے غیر ذمے دارانہ بیانات سامنے آجاتے ہیں۔ نیوکلیئر پالیسی اور جوہری پروگرام پر بہت ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں