صنعتی بنیاد پر تجارتی پالیسی کیوں ضروری ہے
پاکستان میں درآمدات پر انحصار بڑھ رہا ہے، نتیجتاً تجارتی خسارہ قابو میں نہیں آرہا
کراچی:
لاہور میں اورنج لائن ٹرین ٹریک کے دونوں اطراف میں، قائد اعظم انٹرچینج سے داروغہ والا چوک تک، قدیم انڈسٹریل ایریا قائم ہے۔ یہاں قریباً ڈیڑھ ہزار چھوٹے بڑے صنعتی ادارے موجود ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد ہنرمند کام کرتے ہیں ۔ یہ ہنرمند اپنا اور ملک و قوم کا مقام و مرتبہ بلند کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں، وہ روزانہ سینکڑوں ٹن لوہے کی فورجنگ اور مشیننگ کرکے اسے عالمی معیار کے قابل برآمد پرزہ جات میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہاں ایسی انجینئرنگ کمپنیاں بھی ہیں جہاں دس سے بیس افراد کام کرتے ہیں۔یہاں جدید تقاضوں کے عین مطابق سی این سی مشینیں اور روبوٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ آٹا ملوں اور سریا ملوں کے رولز بنانے والی پاکستان کی واحد فیکٹری بھی اسی ایریا میں واقع ہے جس کی مصنوعات کا معیار بھارت ، تائیوان ، چین ، کوریا ، ترکی اور ایران کی مصنوعات سے بھی بہتر ہے۔
آپ یہ جان کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوں گے کہ صرف ایک داروغہ والا انڈسٹریل ایریا سے پاکستان میں عمارتی سریا کی ایک تہائی ضرورت پوری کی جاتی ہے۔ پورے ملک میں بننے والی موٹرسائیکل کے 25فیصد پرزہ جات بھی یہاں پر بنائے جاتے ہیں۔ ٹریکٹرز کے تیس فیصد پرزہ جات بنانے کی ذمہ داری بھی یہاں کی چھوٹی بڑی صنعتوں نے اٹھا رکھی ہے۔
یہاں ڈھلائی کے کارخانے بھی ہیں، موٹریں، پمپ، ربڑ، لکڑی، کپڑا اور اس کی مصنوعات بنانے کی فیکٹریاں، شیشہ، پلاسٹک اور بجلی کا سامان بنانے والے ادارے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں قائم کپڑا، کھاد، چینی، گھی اور بسکٹ وغیرہ بنانے کے کارخانوں کے لئے عالمی معیار کی مشینیں اور پرزہ جات بھی بنائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار پرزہ جات یہاں پر بنتے ہیں جو دفاع سمیت زندگی کے ہر شعبے میں کام آنے والے سامان میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس قدر اہم خدمات فراہم کرنے والے اس علاقے میں سہولیات زندگی پتھر کے دور کی ہیں۔ یہاں نہ سڑکیں ہیں نہ ہی پانی، سیوریج ہے نہ ہی گیس۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس قدر اہم ترین علاقے کو آج تک باقاعدہ صنعتی علاقے کا درجہ نہیں دیا گیا۔ یہ ہے وہ موضوع جس پر ہمیں اور پاکستان کے تمام موثر افراد کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔
میاں شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے حالیہ بجٹ میں سابقہ حکومت کے بعض پروگراموں کو جاری رکھا ہے، ان کے لئے بجٹ مختص کیا ہے۔ یہ قابل ستائش رویہ ہے ورنہ ہمارے ہاں چلن یہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کے پروگرامات کو ختم کرکے اپنے پروگرامات شروع کرتی ہے۔ یوں ملک اور قوم گھوم پھر کر صفر پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف جب اپوزیشن لیڈر تھے، انھوں نے اس وقت کی عمران خان حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی، تاہم تحریک انصاف کی حکومت نے اس پیشکش پر غور نہیں کیا تھا حالانکہ میثاق معیشت پاکستان کے لئے ناگزیر ضرورت ہے۔
اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ گزشتہ پون صدی کا تجربہ اور نتائج یہی رہے ہیں۔ چونکہ میاں شہباز شریف ' میثاق معیشت' کے علمبردار ہیں، اس لیے وہ چارٹر آف اکانومی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان حکومت کے منصوبوں کو جاری رکھنا ان کی اسی سوچ کا آئینہ دار ہے۔
جب میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالی تھی، ہم نے بھی انہی صفحات پر میثاق معیشت کی بات کی تھی اور وہ بنیادیں بھی تجویز کی تھیں جن پر میثاق معیشت ہونا چاہیے۔ خوشی کی بات ہے شہباز شریف حکومت نے عین انہی بنیادوں پر پالیسی سازی شروع کر دی ہے۔ اب ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا چاہیے کہ پاکستان میں امپورٹ بیس ٹریڈ پالیسی پر چلتے رہنا ہے یا پھر لوکل پروڈکشن بیس انڈسٹریل پالیسی کی راہ اختیار کرنی ہے؟
یہ بات ایک طفل مکتب بھی جانتا ہے کہ ہم اپنے گھر کی ضروریات دو انداز میں پوری کرتے ہیں۔ گھر میں اشیائے ضروریہ تیار کرتے ہیں یا پھر بازار، منڈی سے خرید کر لے آتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جو چیز گھر میں تیار ہوتی ہے، وہ بازار یا منڈی سے ملنے والی مصنوعات کی نسبت زیادہ معیاری ہوتی ہیں اور سستی بھی۔ ہے کوئی اس بات سے انکار کرنے والا؟
اسی طرح معاشرے اور ملک کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے اشیائے ضروریہ اپنے ہی ملک میں تیار کی جاتی ہیں یا پھر درآمد (امپورٹ) یعنی بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کی اقوام بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ وہ مصنوعات اپنے ہاں تیار کریں، ان سے گھر کی ضروریات بھی پوری کریں اور بیرونی دنیا کو بھی فروخت کریں۔ ترقی اور خوشحالی حاصل کرنے کا یہ سب سے اچھا راستہ ہے۔ چنانچہ کوشش کی جاتی ہے کہ درآمدات کم سے کم ہوں اور برآمدات زیادہ سے زیادہ۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں درآمدات زیادہ ہوتی ہیں۔
پاکستان کی درآمدات
پاکستان سب سے زیادہ معدنی ایندھن بشمول تیل درآمد کرتا ہے۔ یہ کل درآمدات کا 26.5% فیصد ہوتا ہے، اس کی مالیت 19.4 ارب ڈالر امریکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد الیکٹریکل مشینری ، سامان8.2 فیصد ( مالیت چھ ارب ڈالر ) ، مشینری بشمول کمپیوٹرز8.1 فیصد ( مالیت پانچ اعشاریہ نو ارب ڈالر ) ، فولاد ، سٹیل 6.3 فیصد ( مالیت چار اعشاریہ چھ ارب ڈالر ) فارماسیوٹیکل 5.2 فیصد ( تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر )، مویشیوںاور سبزیوں سے بننے والی فیٹ ، خوردنی تیل ، موم وغیرہ 4.9 فیصد (مالیت تین اعشاریہ چھ ارب ڈالر، وہیکلز 4.6 فیصد ( تین اعشاریہ تین ارب ڈالر )، پلاسٹک اور پلاسٹک کا سامان 4.1 فیصد (تین اعشاریہ دو ارب ڈالر )، آرگینک کیمیکلز 4.1 فیصد (تین اعشاریہ ایک ارب ڈالر ) اور روغنی بیج 2.7 فیصد (ایک اعشاریہ ننانوے ارب ڈالر )۔ ان سب میں فارماسوٹیکل درآمدات سب سے تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں، اس کے بعد گاڑیاں، موٹرسائیکلز وغیرہ ۔
یہ پاکستانی درآمدات کی فہرست میں دس بڑی درآمدات کی داستان ہے جو کہ پاکستان کی مجموعی درآمدات کا 74.7 فیصد بنتی ہیں۔ پاکستان اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں درآمد کرتا ہے جوکل درآمدات کا25 فیصد بنتی ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی درآمدات کی مالیت 73.1 ارب ڈالر ہے۔ سب سے زیادہ درآمدات چین سے (28.3%) آتی ہیں، اس کے بعد بالترتیب متحدہ عرب امارات (10.1%) ، انڈونیشیا (5.8%) ، امریکا (5.3%) ، سعودی عرب (5.2%)، قطر (3.7%)، کویت (3.1%)، جاپان (3%)، جنوبی افریقہ (2.4%)، تھائی لینڈ (2.3%)، جنوبی کوریا (2.1%) اور برازیل(2%) ۔ 72.9 فیصد درآمدات ایشیائی ممالک سے اور 11.3 فیصد یورپی ممالک سے آتی ہیں ۔
ہماری درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم درآمدات پر انحصار زیادہ سے زیادہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک فرد یا ایک معاشرے اور قوم کے لئے نہایت خطرناک امر ہوتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز بعض معاملات میں دنیا سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سیکھنے سے قاصر ہیں کہ معاشی ترقی کی بنیادوں میں لوکل پروڈکشن بیس انڈسٹریل پالیسی ازحد ضروری ہے۔ بالخصوص انڈسٹریل را میٹیریل کی لوکل پروڈکشن کی۔ یہ بات بھی نہایت عام فہم ہے کہ انڈسٹریل را میٹیریل کی لوکل پروڈکشن ، 'میڈ ان پاکستان' کی منزل حاصل کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر یہ دروازہ کھولا جائے تو پاکستان میں ایسا بڑا انقلاب رونما ہو سکتا ہے جس کا تصور ہی مسحور کن ہے۔ یہ تصور ناقابل عمل نہیں۔ اگر دنیا کی باقی اقوام یہ راہ اختیار کر سکتی ہیں تو پاکستانی قوم کیوں نہیں؟
دنیا میں جہاں بھی ترقی ہوئی ہے، وہاں انڈسٹریل بیس پالیسی اختیار کی گئی۔ پاکستان میں انڈسٹریل بیس پالیسی کبھی نہیں بنائی گئی۔ پاکستان میں یہ کام کیسے ہوگا؟ اس کے لئے ' انڈسٹری لگاؤ، امپورٹ گھٹاؤ' کا نعرہ لگا کر، ایک مکمل منصوبے کے ساتھ کم از کم دس برس تک کام کرنا ہوگا ۔
انڈسٹریل بیس پالیسی کیسے؟
اگر ہمارے حکمران صنعتی بنیادوں پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیں تو انھیں سب سے پہلے درآمد کنندگان (امپورٹرز) کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ درآمد کنندگان سے کہا جائے کہ آپ جو مصنوعات درآمد کرتے ہیں، انہیں یہاں تیار کرنے کا منصوبہ بنائیں اور اس پر کام شروع کریں ۔ اگر وہ خود پروڈکشن کی استطاعت اور صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو وہ جس کمپنی کی مصنوعات درآمد کرتے ہیں، اس کے ساتھ مل کر یہاں فیکٹری لگا کر پروڈکشن شروع کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ سب سے کامیاب ثابت ہوتے ہیں جو پہلے کسی پراڈکٹ کے درآمد کنندگان ہوں اور پھر اسے مقامی سطح پر تیار کرنا شروع کر دیں۔
مزید حکومتی کردار
ہر ایک فرد کا خواب ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا کارخانہ لگائے جو ملک بھر کی ضروریات بھی پورے کرے اور باقی دنیا میں بھی اس کی مصنوعات فروخت ہوں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے حکومت کی سرپرستی اور تعاون از حد ضروری ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں ایسے افراد کا بھرپور ساتھ دیتی ہیں ۔ پاکستان میں بھی ایسے حکومتی کردار کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شاندار قسم کے انڈسٹریل زونز بنائے جائیں، وہاں کم قیمت پر پلاٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔ پاکستان میں سندر انڈسٹریل زون ایک مثال ہے، اسی قسم کے صنعتی زونز بننے چاہئیں۔ چین نے بھی ایسے ہی زون بنائے ہیں۔
الائیڈ انڈسٹری
جو شخص بھی انڈسٹری لگانے کا فیصلہ کرے، وہ الائیڈ انڈسٹری کو پیش نظر رکھے۔ الائیڈ انڈسٹری کی اصطلاح کو صنعتی پالیسی ساز تو خوب سمجھتے ہیں تاہم عام قارئین کو سمجھانے کیلئے عرض ہے کہ ایک موٹرسائیکل الائیڈ انڈسٹری ہی سے تیار ہوتی ہے ۔ وہ مختلف پارٹس کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر پارٹ کی الگ انڈسٹری ہوتی ہے۔ موٹرسائیکل سے متعلقہ تمام انڈسٹریوں کو الائیڈ انڈسٹری کہا جائے گا۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی ایک چیز سے متعلقہ ساری انڈسٹریز ساتھ ہی ساتھ موجود ہوں ۔
انڈسٹریل را میٹیریل کی پاکستان میں تیاری
انڈسٹریل را میٹریل نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ را میٹریل نہیں ہوگا تو انڈسٹری لگانے کا خیال ہی نہایت سادہ لوحی پر مبنی ہے۔ چنانچہ ہر انڈسٹری سے متعلقہ را میٹریل کی پاکستان میں دستیابی یقینی اور آسان ہونی چاہیے ۔ اگر کسی قسم کا کوئی خام مال پاکستان میں دستیاب نہ ہو، جب بھی پاکستان میں اس کی تیاری کا کوئی منصوبہ بنے تو حکومت اور بنکوں کا فرض ہے کہ وہ فی الفور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کریں۔ اسے اولین ترجیحات میں شامل کرنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، انھیں سہولیات فراہم کی جائیں، ان کے لئے سرمایہ کاری کا ماحول بھی بہتر بنایا جائے۔ خام مال کی انڈسٹری کو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے آسان کیا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ خام مال تیار کرنے والی ہر انڈسٹری کو مشینری اور پرزوں سمیت جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، پہلی بار انھیں مکمل طور پر ڈیوٹی فری کرے۔ اسی طرح دیگر پرکشش آفرز کی جائیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ خام مال کی انڈسٹری لگانے کی طرف آئیں۔ خام مال کی انڈسٹری لگانے والوں کو پانچ یا دس سال تک مختلف ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے۔ ایسے لوگوں کو سب سے زیادہ پروٹوکول دیا جائے۔
انڈسٹریل قرضہ جات پرکم سے کم مارک اپ
یہ بات نہایت عام فہم ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی کے لئے انڈسٹریل قرضہ جات پر مارک اپ کم سے کم ہونا بہت ضروری ہے! اس پر زیادہ شرائط نہ ہوں اور کم ازکم وقت میں منظوری ہو۔ اس حوالے سے قانون سازی کرنا پڑے تو کی جائے۔ بنکوں کو حکم دیا جائے کہ وہ انڈسٹری کے لئے قرضہ لینے والوں کو سب سے زیادہ پروٹوکول دیں۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا ، صنعتی بنیاد پر مضبوط معیشت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ کوئی فرد بھی دیکھ سکتا ہے کہ جن اقوام نے ترقی حاصل کی ہے، وہ مارک اپ کو مسلسل کم سے کم تر کرتی چلی گئیں حتیٰ کہ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ انھوں نے مارک اپ صفر کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں ان کی معیشت خوب برگ و بار لائی۔
لاہور میں اورنج لائن ٹرین ٹریک کے دونوں اطراف میں، قائد اعظم انٹرچینج سے داروغہ والا چوک تک، قدیم انڈسٹریل ایریا قائم ہے۔ یہاں قریباً ڈیڑھ ہزار چھوٹے بڑے صنعتی ادارے موجود ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد ہنرمند کام کرتے ہیں ۔ یہ ہنرمند اپنا اور ملک و قوم کا مقام و مرتبہ بلند کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں، وہ روزانہ سینکڑوں ٹن لوہے کی فورجنگ اور مشیننگ کرکے اسے عالمی معیار کے قابل برآمد پرزہ جات میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہاں ایسی انجینئرنگ کمپنیاں بھی ہیں جہاں دس سے بیس افراد کام کرتے ہیں۔یہاں جدید تقاضوں کے عین مطابق سی این سی مشینیں اور روبوٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ آٹا ملوں اور سریا ملوں کے رولز بنانے والی پاکستان کی واحد فیکٹری بھی اسی ایریا میں واقع ہے جس کی مصنوعات کا معیار بھارت ، تائیوان ، چین ، کوریا ، ترکی اور ایران کی مصنوعات سے بھی بہتر ہے۔
آپ یہ جان کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوں گے کہ صرف ایک داروغہ والا انڈسٹریل ایریا سے پاکستان میں عمارتی سریا کی ایک تہائی ضرورت پوری کی جاتی ہے۔ پورے ملک میں بننے والی موٹرسائیکل کے 25فیصد پرزہ جات بھی یہاں پر بنائے جاتے ہیں۔ ٹریکٹرز کے تیس فیصد پرزہ جات بنانے کی ذمہ داری بھی یہاں کی چھوٹی بڑی صنعتوں نے اٹھا رکھی ہے۔
یہاں ڈھلائی کے کارخانے بھی ہیں، موٹریں، پمپ، ربڑ، لکڑی، کپڑا اور اس کی مصنوعات بنانے کی فیکٹریاں، شیشہ، پلاسٹک اور بجلی کا سامان بنانے والے ادارے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں قائم کپڑا، کھاد، چینی، گھی اور بسکٹ وغیرہ بنانے کے کارخانوں کے لئے عالمی معیار کی مشینیں اور پرزہ جات بھی بنائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار پرزہ جات یہاں پر بنتے ہیں جو دفاع سمیت زندگی کے ہر شعبے میں کام آنے والے سامان میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس قدر اہم خدمات فراہم کرنے والے اس علاقے میں سہولیات زندگی پتھر کے دور کی ہیں۔ یہاں نہ سڑکیں ہیں نہ ہی پانی، سیوریج ہے نہ ہی گیس۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس قدر اہم ترین علاقے کو آج تک باقاعدہ صنعتی علاقے کا درجہ نہیں دیا گیا۔ یہ ہے وہ موضوع جس پر ہمیں اور پاکستان کے تمام موثر افراد کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔
میاں شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے حالیہ بجٹ میں سابقہ حکومت کے بعض پروگراموں کو جاری رکھا ہے، ان کے لئے بجٹ مختص کیا ہے۔ یہ قابل ستائش رویہ ہے ورنہ ہمارے ہاں چلن یہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کے پروگرامات کو ختم کرکے اپنے پروگرامات شروع کرتی ہے۔ یوں ملک اور قوم گھوم پھر کر صفر پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف جب اپوزیشن لیڈر تھے، انھوں نے اس وقت کی عمران خان حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی، تاہم تحریک انصاف کی حکومت نے اس پیشکش پر غور نہیں کیا تھا حالانکہ میثاق معیشت پاکستان کے لئے ناگزیر ضرورت ہے۔
اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ گزشتہ پون صدی کا تجربہ اور نتائج یہی رہے ہیں۔ چونکہ میاں شہباز شریف ' میثاق معیشت' کے علمبردار ہیں، اس لیے وہ چارٹر آف اکانومی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان حکومت کے منصوبوں کو جاری رکھنا ان کی اسی سوچ کا آئینہ دار ہے۔
جب میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالی تھی، ہم نے بھی انہی صفحات پر میثاق معیشت کی بات کی تھی اور وہ بنیادیں بھی تجویز کی تھیں جن پر میثاق معیشت ہونا چاہیے۔ خوشی کی بات ہے شہباز شریف حکومت نے عین انہی بنیادوں پر پالیسی سازی شروع کر دی ہے۔ اب ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا چاہیے کہ پاکستان میں امپورٹ بیس ٹریڈ پالیسی پر چلتے رہنا ہے یا پھر لوکل پروڈکشن بیس انڈسٹریل پالیسی کی راہ اختیار کرنی ہے؟
یہ بات ایک طفل مکتب بھی جانتا ہے کہ ہم اپنے گھر کی ضروریات دو انداز میں پوری کرتے ہیں۔ گھر میں اشیائے ضروریہ تیار کرتے ہیں یا پھر بازار، منڈی سے خرید کر لے آتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جو چیز گھر میں تیار ہوتی ہے، وہ بازار یا منڈی سے ملنے والی مصنوعات کی نسبت زیادہ معیاری ہوتی ہیں اور سستی بھی۔ ہے کوئی اس بات سے انکار کرنے والا؟
اسی طرح معاشرے اور ملک کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے اشیائے ضروریہ اپنے ہی ملک میں تیار کی جاتی ہیں یا پھر درآمد (امپورٹ) یعنی بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کی اقوام بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ وہ مصنوعات اپنے ہاں تیار کریں، ان سے گھر کی ضروریات بھی پوری کریں اور بیرونی دنیا کو بھی فروخت کریں۔ ترقی اور خوشحالی حاصل کرنے کا یہ سب سے اچھا راستہ ہے۔ چنانچہ کوشش کی جاتی ہے کہ درآمدات کم سے کم ہوں اور برآمدات زیادہ سے زیادہ۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں درآمدات زیادہ ہوتی ہیں۔
پاکستان کی درآمدات
پاکستان سب سے زیادہ معدنی ایندھن بشمول تیل درآمد کرتا ہے۔ یہ کل درآمدات کا 26.5% فیصد ہوتا ہے، اس کی مالیت 19.4 ارب ڈالر امریکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد الیکٹریکل مشینری ، سامان8.2 فیصد ( مالیت چھ ارب ڈالر ) ، مشینری بشمول کمپیوٹرز8.1 فیصد ( مالیت پانچ اعشاریہ نو ارب ڈالر ) ، فولاد ، سٹیل 6.3 فیصد ( مالیت چار اعشاریہ چھ ارب ڈالر ) فارماسیوٹیکل 5.2 فیصد ( تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر )، مویشیوںاور سبزیوں سے بننے والی فیٹ ، خوردنی تیل ، موم وغیرہ 4.9 فیصد (مالیت تین اعشاریہ چھ ارب ڈالر، وہیکلز 4.6 فیصد ( تین اعشاریہ تین ارب ڈالر )، پلاسٹک اور پلاسٹک کا سامان 4.1 فیصد (تین اعشاریہ دو ارب ڈالر )، آرگینک کیمیکلز 4.1 فیصد (تین اعشاریہ ایک ارب ڈالر ) اور روغنی بیج 2.7 فیصد (ایک اعشاریہ ننانوے ارب ڈالر )۔ ان سب میں فارماسوٹیکل درآمدات سب سے تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں، اس کے بعد گاڑیاں، موٹرسائیکلز وغیرہ ۔
یہ پاکستانی درآمدات کی فہرست میں دس بڑی درآمدات کی داستان ہے جو کہ پاکستان کی مجموعی درآمدات کا 74.7 فیصد بنتی ہیں۔ پاکستان اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں درآمد کرتا ہے جوکل درآمدات کا25 فیصد بنتی ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی درآمدات کی مالیت 73.1 ارب ڈالر ہے۔ سب سے زیادہ درآمدات چین سے (28.3%) آتی ہیں، اس کے بعد بالترتیب متحدہ عرب امارات (10.1%) ، انڈونیشیا (5.8%) ، امریکا (5.3%) ، سعودی عرب (5.2%)، قطر (3.7%)، کویت (3.1%)، جاپان (3%)، جنوبی افریقہ (2.4%)، تھائی لینڈ (2.3%)، جنوبی کوریا (2.1%) اور برازیل(2%) ۔ 72.9 فیصد درآمدات ایشیائی ممالک سے اور 11.3 فیصد یورپی ممالک سے آتی ہیں ۔
ہماری درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم درآمدات پر انحصار زیادہ سے زیادہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک فرد یا ایک معاشرے اور قوم کے لئے نہایت خطرناک امر ہوتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز بعض معاملات میں دنیا سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سیکھنے سے قاصر ہیں کہ معاشی ترقی کی بنیادوں میں لوکل پروڈکشن بیس انڈسٹریل پالیسی ازحد ضروری ہے۔ بالخصوص انڈسٹریل را میٹیریل کی لوکل پروڈکشن کی۔ یہ بات بھی نہایت عام فہم ہے کہ انڈسٹریل را میٹیریل کی لوکل پروڈکشن ، 'میڈ ان پاکستان' کی منزل حاصل کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر یہ دروازہ کھولا جائے تو پاکستان میں ایسا بڑا انقلاب رونما ہو سکتا ہے جس کا تصور ہی مسحور کن ہے۔ یہ تصور ناقابل عمل نہیں۔ اگر دنیا کی باقی اقوام یہ راہ اختیار کر سکتی ہیں تو پاکستانی قوم کیوں نہیں؟
دنیا میں جہاں بھی ترقی ہوئی ہے، وہاں انڈسٹریل بیس پالیسی اختیار کی گئی۔ پاکستان میں انڈسٹریل بیس پالیسی کبھی نہیں بنائی گئی۔ پاکستان میں یہ کام کیسے ہوگا؟ اس کے لئے ' انڈسٹری لگاؤ، امپورٹ گھٹاؤ' کا نعرہ لگا کر، ایک مکمل منصوبے کے ساتھ کم از کم دس برس تک کام کرنا ہوگا ۔
انڈسٹریل بیس پالیسی کیسے؟
اگر ہمارے حکمران صنعتی بنیادوں پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیں تو انھیں سب سے پہلے درآمد کنندگان (امپورٹرز) کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ درآمد کنندگان سے کہا جائے کہ آپ جو مصنوعات درآمد کرتے ہیں، انہیں یہاں تیار کرنے کا منصوبہ بنائیں اور اس پر کام شروع کریں ۔ اگر وہ خود پروڈکشن کی استطاعت اور صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو وہ جس کمپنی کی مصنوعات درآمد کرتے ہیں، اس کے ساتھ مل کر یہاں فیکٹری لگا کر پروڈکشن شروع کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ سب سے کامیاب ثابت ہوتے ہیں جو پہلے کسی پراڈکٹ کے درآمد کنندگان ہوں اور پھر اسے مقامی سطح پر تیار کرنا شروع کر دیں۔
مزید حکومتی کردار
ہر ایک فرد کا خواب ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا کارخانہ لگائے جو ملک بھر کی ضروریات بھی پورے کرے اور باقی دنیا میں بھی اس کی مصنوعات فروخت ہوں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے حکومت کی سرپرستی اور تعاون از حد ضروری ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں ایسے افراد کا بھرپور ساتھ دیتی ہیں ۔ پاکستان میں بھی ایسے حکومتی کردار کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شاندار قسم کے انڈسٹریل زونز بنائے جائیں، وہاں کم قیمت پر پلاٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔ پاکستان میں سندر انڈسٹریل زون ایک مثال ہے، اسی قسم کے صنعتی زونز بننے چاہئیں۔ چین نے بھی ایسے ہی زون بنائے ہیں۔
الائیڈ انڈسٹری
جو شخص بھی انڈسٹری لگانے کا فیصلہ کرے، وہ الائیڈ انڈسٹری کو پیش نظر رکھے۔ الائیڈ انڈسٹری کی اصطلاح کو صنعتی پالیسی ساز تو خوب سمجھتے ہیں تاہم عام قارئین کو سمجھانے کیلئے عرض ہے کہ ایک موٹرسائیکل الائیڈ انڈسٹری ہی سے تیار ہوتی ہے ۔ وہ مختلف پارٹس کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر پارٹ کی الگ انڈسٹری ہوتی ہے۔ موٹرسائیکل سے متعلقہ تمام انڈسٹریوں کو الائیڈ انڈسٹری کہا جائے گا۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی ایک چیز سے متعلقہ ساری انڈسٹریز ساتھ ہی ساتھ موجود ہوں ۔
انڈسٹریل را میٹیریل کی پاکستان میں تیاری
انڈسٹریل را میٹریل نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ را میٹریل نہیں ہوگا تو انڈسٹری لگانے کا خیال ہی نہایت سادہ لوحی پر مبنی ہے۔ چنانچہ ہر انڈسٹری سے متعلقہ را میٹریل کی پاکستان میں دستیابی یقینی اور آسان ہونی چاہیے ۔ اگر کسی قسم کا کوئی خام مال پاکستان میں دستیاب نہ ہو، جب بھی پاکستان میں اس کی تیاری کا کوئی منصوبہ بنے تو حکومت اور بنکوں کا فرض ہے کہ وہ فی الفور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کریں۔ اسے اولین ترجیحات میں شامل کرنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، انھیں سہولیات فراہم کی جائیں، ان کے لئے سرمایہ کاری کا ماحول بھی بہتر بنایا جائے۔ خام مال کی انڈسٹری کو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے آسان کیا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ خام مال تیار کرنے والی ہر انڈسٹری کو مشینری اور پرزوں سمیت جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، پہلی بار انھیں مکمل طور پر ڈیوٹی فری کرے۔ اسی طرح دیگر پرکشش آفرز کی جائیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ خام مال کی انڈسٹری لگانے کی طرف آئیں۔ خام مال کی انڈسٹری لگانے والوں کو پانچ یا دس سال تک مختلف ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے۔ ایسے لوگوں کو سب سے زیادہ پروٹوکول دیا جائے۔
انڈسٹریل قرضہ جات پرکم سے کم مارک اپ
یہ بات نہایت عام فہم ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی کے لئے انڈسٹریل قرضہ جات پر مارک اپ کم سے کم ہونا بہت ضروری ہے! اس پر زیادہ شرائط نہ ہوں اور کم ازکم وقت میں منظوری ہو۔ اس حوالے سے قانون سازی کرنا پڑے تو کی جائے۔ بنکوں کو حکم دیا جائے کہ وہ انڈسٹری کے لئے قرضہ لینے والوں کو سب سے زیادہ پروٹوکول دیں۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا ، صنعتی بنیاد پر مضبوط معیشت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ کوئی فرد بھی دیکھ سکتا ہے کہ جن اقوام نے ترقی حاصل کی ہے، وہ مارک اپ کو مسلسل کم سے کم تر کرتی چلی گئیں حتیٰ کہ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ انھوں نے مارک اپ صفر کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں ان کی معیشت خوب برگ و بار لائی۔