حکومتی ناکامیوں کے ذمے دار عوام نہیں
موجودہ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ بجلی کے بلوں کی وصولی میں سقم ہے
PESHAWAR:
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ڈھائی ارب روپے کی گیس کہاں جا رہی ہے؟ یہ چوری ہو رہی ہے یا ہوا میں اڑ رہی ہے پتا نہیں چل رہا۔ جب حکومت کو ضایع جانے والی اس گیس کی مالیت کا پتا ہے تو اس گیس کے ضیاع کا بھی حکومت کو پتا ہونا چاہیے مگر حکومت گیس چوری یا ضایع ہونے کا پتا چلانے میں ناکام ہے۔
گیس مسلسل مہنگی ہونے کی سزا عوام بھگت رہے ہیں ، اس لیے محض ڈھائی ارب روپے چوری کا راگ الاپ کر حکومت اور متعلقہ ادارے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ملک میں گیس کے ساتھ بجلی کی چوری کا بھی یہی حال ہے مگر حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ بجلی کہیں ضایع ہو رہی ہے کیونکہ حکومت بجلی کمپنیوں اور صارفین سب کو پتا ہے کہ بجلی چوری ہو رہی ہے۔
حکومت بجلی چوری کے انکشافات اور بجلی بلوں کی عدم ادائیگی کا رونا ضرور روتی ہے مگر بجلی چوری کی وجوہات اور بلوں کی عدم ادائیگی کی باتیں ضرور کرتی ہے اور یہ کام ماضی کی ہر حکومت میں ہوا ہے، جس کی ذمے داری کسی بھی حکومت نے قبول نہیں کی اور بجلی اور گیس چوری کی مالیت سے بھی زیادہ رقم عوام سے ضرور وصول کرتو لی جاتی ہے مگر چوری روکنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ اگر یہ چوری رک جائے تو نرخ بڑھانے کا حکومتی جواز ختم ہو جائے گا اور اس بہانے کے خاتمے کے بعد حکومت عوام کو ریلیف پھر بھی نہیں دے گی کیونکہ کوئی حکومت ایسا نہیں چاہے گی۔
موجودہ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ بجلی کے بلوں کی وصولی میں سقم ہے اور حکومت بجلی کے سلسلے میں عوام کو گیارہ سو ارب روپے کی سبسڈی دینے کے دعوے بھی کر رہی ہے تو اصل سوال یہ ہے کہ بجلی وگیس کی چوری کیوں نہیں روکی جاتی اور بلوں کی وصولی میں سقم کیوں دور نہیں کیا جاتا۔
کراچی الیکٹرک کمپنی کے مطابق وہ گیس کے اربوں روپے کے بقایا جات اس لیے ادا نہیں کر رہی کہ اس کے سرکاری اداروں پر اربوں روپے کے واجبات ہیں جو ادا نہیں کیے جا رہے، گیس کمپنی کا موقف ہے کہ کے ای چونکہ گیس بقایا جات ادا نہیں کر رہی تو کے ای کو گیس کی سپلائی کم کی جا رہی ہے جس کے جواب میں گیس کم ملنے پر بجلی کم پیدا ہونے کو جواز بنا کر، کے ای نے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کردیا ہے جس کی سزا عوام کو مل رہی ہے۔
ملک میں کے ای کے علاوہ بجلی کی تمام کمپنیاں سرکاری ہیں اور کے الیکٹرک نجی کمپنی ہے ۔ نجی ادارہ ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی کی حکومتیں آئیں مگر سب کے ای کے آگے بے بس رہیں اور اپنی پارٹی کے کے ای کے خلاف احتجاج اور مطالبات کے باوجود کسی حکومت نے کے ای کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ کے ای کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔
جماعت اسلامی کے ای کے خلاف احتجاج کرتی رہی مگر کچھ نہ ہوا۔ اب اتحادی حکومت بھی کراچی میں شدید لوڈ شیڈنگ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور کے ای معاہدے کے مطابق اپنی بجلی نہیں بنا رہی اور نرخ بڑھا کر سرکاری بجلی کو بھی کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے اور سندھ کے وزیر توانائی عوام سے ثبوت مانگ رہے ہیں کہ ثبوت دیں، کے ای معاہدے کے مطابق اپنی بجلی نہیں بنا رہی۔ سارا زور کمائی اور لوڈ شیڈنگ بڑھانے پر ہے۔
وزیر خزانہ کے مطابق بلوں کی وصولیابی میں سقم ہے جو حکومت اس لیے دور نہیں کر رہی کہ گیس اور بجلی کی مد میں واجبات عوام پر برائے نام اور وفاقی و صوبائی اداروں کی طرف اربوں روپے کے واجبات سرکاری افسر اس لیے ادا نہیں کر رہے کہ انھیں پتا ہے کہ ان کی گیس و بجلی منقطع نہیں ہوگی اور بجٹ میں یوٹیلیٹی بلوں کی رقم مختص ہونے کے باوجود اس لیے ادا نہیں کرتے کہ ٹھیکیداروں کی طرح گیس و بجلی کمپنیاں انھیں کمیشن بطور رشوت نہیں ادا کرتیں۔
گیس چوری بظاہر ناممکن ہے اور گھریلو صارفین گیس کی چوری نہیں کرتے یہ چوری صنعتی ادارے کرتے ہیں ، جن کا گیس بل لاکھوں کروڑوں میں ہوتا ہے گیس چوری بڑے منظم طریقے سے ہوتی ہے جب کہ بجلی چوری بہت آسان ہے۔ گھروں ، دکانوں اور صنعتوں ہر جگہ بجلی کی کھلے عام تاریں موجود ہیں اور کنڈے باآسانی ڈال لیے جاتے ہیں۔ ڈھائی ارب روپے کی گیس بھی چوری ہی ہو رہی ہوگی اور یہ چوری گھریلو صارفین کر ہی نہیں سکتا صرف کارخانوں و فیکٹریوں یا بڑے ہوٹلوں میں ہو رہی ہے تو حکومت اس چوری کا سراغ کیوں نہیں لگا پا رہی اور گیس مسلسل مہنگی کرکے بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور گیس و بجلی کے نرخ بڑھنے سے ملک میں مسلسل مہنگائی بڑھ رہی ہے۔
پٹرول پمپس مالکان کبھی پٹرولیم مصنوعات کی چوری کی شکایت نہیں کرتے بلکہ عوام کو شکایت ہے کہ پمپ مالکان انھیں پورا پٹرول نہیں دیتے اور مہنگا پٹرول بھی انھیں پورا نہیں ملتا اور گیس و پٹرولیم مصنوعات کم مقدار میں عوام کو دی جاتی ہیں اور عوام لٹ رہے ہیں۔
نیپرا کے ایک چیئرمین جب کراچی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ مہنگی بجلی چوری کی اہم وجہ ہے۔ اگر بجلی کی چوری روکی جائے تو لاسز کم ہو جائیں گے اور بجلی کی چوری نہیں ہوگی۔ بجلی چوری روکنے کے بجائے حکومت کا زور بجلی مہنگی کرنے اور بجلی کمپنیاں یہ نقصان پورا کرنے کے لیے صارفین کو اضافی بل بھیجتی آ رہی ہیں اور زائد بلوں کی شکایت ملک بھر میں ہے اور یہ اضافی بل درست نہیں کیے جاتے اور بل ادا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور ہزاروں روپے کے اضافی بلوں کی عدم ادائیگی پر بجلی منقطع، گرفتاریاں کی جاتی ہیں۔
گیس کمپنیوں نے صارفین پر مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں ان کے گیس میٹر بھی بجلی کے میٹروں کی طرح تیز دوڑتے ہیں اور شکایت پر اگر گیس میٹر تبدیل کردیے جائیں تو نئے میٹر کے بعد پرانا میٹر سلو قرار دے کر ہزاروں روپے کا اضافی بل بھیجا جاتا ہے کیونکہ لیبارٹری ان کی اپنی ہے جو چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ عوام صرف سزا بھگتنے اور حکومتیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتیں اور قصور وار ہر جگہ صارفین کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ڈھائی ارب روپے کی گیس کہاں جا رہی ہے؟ یہ چوری ہو رہی ہے یا ہوا میں اڑ رہی ہے پتا نہیں چل رہا۔ جب حکومت کو ضایع جانے والی اس گیس کی مالیت کا پتا ہے تو اس گیس کے ضیاع کا بھی حکومت کو پتا ہونا چاہیے مگر حکومت گیس چوری یا ضایع ہونے کا پتا چلانے میں ناکام ہے۔
گیس مسلسل مہنگی ہونے کی سزا عوام بھگت رہے ہیں ، اس لیے محض ڈھائی ارب روپے چوری کا راگ الاپ کر حکومت اور متعلقہ ادارے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ملک میں گیس کے ساتھ بجلی کی چوری کا بھی یہی حال ہے مگر حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ بجلی کہیں ضایع ہو رہی ہے کیونکہ حکومت بجلی کمپنیوں اور صارفین سب کو پتا ہے کہ بجلی چوری ہو رہی ہے۔
حکومت بجلی چوری کے انکشافات اور بجلی بلوں کی عدم ادائیگی کا رونا ضرور روتی ہے مگر بجلی چوری کی وجوہات اور بلوں کی عدم ادائیگی کی باتیں ضرور کرتی ہے اور یہ کام ماضی کی ہر حکومت میں ہوا ہے، جس کی ذمے داری کسی بھی حکومت نے قبول نہیں کی اور بجلی اور گیس چوری کی مالیت سے بھی زیادہ رقم عوام سے ضرور وصول کرتو لی جاتی ہے مگر چوری روکنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ اگر یہ چوری رک جائے تو نرخ بڑھانے کا حکومتی جواز ختم ہو جائے گا اور اس بہانے کے خاتمے کے بعد حکومت عوام کو ریلیف پھر بھی نہیں دے گی کیونکہ کوئی حکومت ایسا نہیں چاہے گی۔
موجودہ حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ بجلی کے بلوں کی وصولی میں سقم ہے اور حکومت بجلی کے سلسلے میں عوام کو گیارہ سو ارب روپے کی سبسڈی دینے کے دعوے بھی کر رہی ہے تو اصل سوال یہ ہے کہ بجلی وگیس کی چوری کیوں نہیں روکی جاتی اور بلوں کی وصولی میں سقم کیوں دور نہیں کیا جاتا۔
کراچی الیکٹرک کمپنی کے مطابق وہ گیس کے اربوں روپے کے بقایا جات اس لیے ادا نہیں کر رہی کہ اس کے سرکاری اداروں پر اربوں روپے کے واجبات ہیں جو ادا نہیں کیے جا رہے، گیس کمپنی کا موقف ہے کہ کے ای چونکہ گیس بقایا جات ادا نہیں کر رہی تو کے ای کو گیس کی سپلائی کم کی جا رہی ہے جس کے جواب میں گیس کم ملنے پر بجلی کم پیدا ہونے کو جواز بنا کر، کے ای نے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کردیا ہے جس کی سزا عوام کو مل رہی ہے۔
ملک میں کے ای کے علاوہ بجلی کی تمام کمپنیاں سرکاری ہیں اور کے الیکٹرک نجی کمپنی ہے ۔ نجی ادارہ ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی کی حکومتیں آئیں مگر سب کے ای کے آگے بے بس رہیں اور اپنی پارٹی کے کے ای کے خلاف احتجاج اور مطالبات کے باوجود کسی حکومت نے کے ای کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ کے ای کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔
جماعت اسلامی کے ای کے خلاف احتجاج کرتی رہی مگر کچھ نہ ہوا۔ اب اتحادی حکومت بھی کراچی میں شدید لوڈ شیڈنگ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور کے ای معاہدے کے مطابق اپنی بجلی نہیں بنا رہی اور نرخ بڑھا کر سرکاری بجلی کو بھی کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے اور سندھ کے وزیر توانائی عوام سے ثبوت مانگ رہے ہیں کہ ثبوت دیں، کے ای معاہدے کے مطابق اپنی بجلی نہیں بنا رہی۔ سارا زور کمائی اور لوڈ شیڈنگ بڑھانے پر ہے۔
وزیر خزانہ کے مطابق بلوں کی وصولیابی میں سقم ہے جو حکومت اس لیے دور نہیں کر رہی کہ گیس اور بجلی کی مد میں واجبات عوام پر برائے نام اور وفاقی و صوبائی اداروں کی طرف اربوں روپے کے واجبات سرکاری افسر اس لیے ادا نہیں کر رہے کہ انھیں پتا ہے کہ ان کی گیس و بجلی منقطع نہیں ہوگی اور بجٹ میں یوٹیلیٹی بلوں کی رقم مختص ہونے کے باوجود اس لیے ادا نہیں کرتے کہ ٹھیکیداروں کی طرح گیس و بجلی کمپنیاں انھیں کمیشن بطور رشوت نہیں ادا کرتیں۔
گیس چوری بظاہر ناممکن ہے اور گھریلو صارفین گیس کی چوری نہیں کرتے یہ چوری صنعتی ادارے کرتے ہیں ، جن کا گیس بل لاکھوں کروڑوں میں ہوتا ہے گیس چوری بڑے منظم طریقے سے ہوتی ہے جب کہ بجلی چوری بہت آسان ہے۔ گھروں ، دکانوں اور صنعتوں ہر جگہ بجلی کی کھلے عام تاریں موجود ہیں اور کنڈے باآسانی ڈال لیے جاتے ہیں۔ ڈھائی ارب روپے کی گیس بھی چوری ہی ہو رہی ہوگی اور یہ چوری گھریلو صارفین کر ہی نہیں سکتا صرف کارخانوں و فیکٹریوں یا بڑے ہوٹلوں میں ہو رہی ہے تو حکومت اس چوری کا سراغ کیوں نہیں لگا پا رہی اور گیس مسلسل مہنگی کرکے بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور گیس و بجلی کے نرخ بڑھنے سے ملک میں مسلسل مہنگائی بڑھ رہی ہے۔
پٹرول پمپس مالکان کبھی پٹرولیم مصنوعات کی چوری کی شکایت نہیں کرتے بلکہ عوام کو شکایت ہے کہ پمپ مالکان انھیں پورا پٹرول نہیں دیتے اور مہنگا پٹرول بھی انھیں پورا نہیں ملتا اور گیس و پٹرولیم مصنوعات کم مقدار میں عوام کو دی جاتی ہیں اور عوام لٹ رہے ہیں۔
نیپرا کے ایک چیئرمین جب کراچی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ مہنگی بجلی چوری کی اہم وجہ ہے۔ اگر بجلی کی چوری روکی جائے تو لاسز کم ہو جائیں گے اور بجلی کی چوری نہیں ہوگی۔ بجلی چوری روکنے کے بجائے حکومت کا زور بجلی مہنگی کرنے اور بجلی کمپنیاں یہ نقصان پورا کرنے کے لیے صارفین کو اضافی بل بھیجتی آ رہی ہیں اور زائد بلوں کی شکایت ملک بھر میں ہے اور یہ اضافی بل درست نہیں کیے جاتے اور بل ادا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور ہزاروں روپے کے اضافی بلوں کی عدم ادائیگی پر بجلی منقطع، گرفتاریاں کی جاتی ہیں۔
گیس کمپنیوں نے صارفین پر مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں ان کے گیس میٹر بھی بجلی کے میٹروں کی طرح تیز دوڑتے ہیں اور شکایت پر اگر گیس میٹر تبدیل کردیے جائیں تو نئے میٹر کے بعد پرانا میٹر سلو قرار دے کر ہزاروں روپے کا اضافی بل بھیجا جاتا ہے کیونکہ لیبارٹری ان کی اپنی ہے جو چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ عوام صرف سزا بھگتنے اور حکومتیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتیں اور قصور وار ہر جگہ صارفین کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔