مہنگائی اور فرعونی رویے
غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے والے خود ریاست کی طرف سے فراہم کردہ تمام مراعات کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں
کراچی:
پچھلے دونوں سوشل میڈیا پر ایک کلپ بہت وائرل ہوا، جس میں مشہور زمانہ امریکی ٹی وی شو "فیملی فیوڈ'' کے میزبان اسٹیو ہاروی دبئی کے شیخوں سے سوال کرتے نظر آئے کہ 50 سال میں دبئی جیسی بنجر زمین نے جو ترقی حاصل کی، وہ کیسے ممکن ہوئی؟ صرف پیسہ اس کی وجہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے ذاتی تجزیے میں دبئی کی ترقی کا راز وہاں کے حکمرانوں کا اپنے عوام سے کی جانے والی محبت میں پوشیدہ ہے۔
دبئی شہر آج دنیا کے جدید ترین سہولتوں والی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ جہاں ضروریات زندگی مہنگی ضرور ہیں لیکن وہاں عوام کی قوت خرید قدرے بہتر ہے۔ بنیادی سہولیات اور ان کے حصول کےلیے عوام دھکے نہیں کھاتے۔
دوسری طرف پاکستان کے عوام ہیں، جو نہایت ہی کم قوت خرید کے ساتھ بنیادی سہولتوں کےلیے دھکے تو کھا ہی رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی وجہ سے جو حالیہ مہنگائی کا بم اس عوام پر گرایا گیا، اس نے خاص کر نوکری پیشہ، مڈل کلاس عوام کی کمر توڑ دی ہے۔
مہنگائی کا یہ سفر شاید پاکستانیوں کےلیے بھی اتنا کٹھن نہ ہوتا اگر دبئی کی طرح پچاس یا پچھلے چھہتر سال سے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اپنے عوام سے محبت ہوتی اور وہ انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے بارے میں اس حد تک فکرمند ہوتے کہ آج عوام ان کی بددیانتی سے تنگ آکر دھرنے اور ریلیاں نکالنے پر مجبور نہ ہوتے۔
لیکن یہ حکمران، ان چھہتر برسوں میں نہ ہی پورے ملک میں عوام کو معیاری اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ کا ایسا مستحکم نیٹ ورک دے سکے کہ آج پٹرول مہنگی ترین سطح پر پہنچنے کے بعد، عوام اس سستی اور معیاری پبلک ٹرانسپورٹ میں آرام سے سفر کرسکے، جوکہ ٹیکس بھرنے کے بعد ان کا حق بھی تھا۔
اگر ان سیاستدانوں کو عوام سے پیار ہوتا تو ماضی میں ہی ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر یہ سوچ کر دستخط نہ کرتے کہ اس ایندھن کو بنانے کےلیے جو تیل درکار ہے وہ سعودیہ، قطر، ایران وغیرہ کی طرح ہمارے پاس زیر زمین کثیر مقدار میں موجود نہیں ہے اور جو ہے اسے نکالنے کے لیے ہمارے پاس وسائل دستیاب نہیں ہیں، جس کے باعث ہمیں دوسرے ممالک سے تیل کو ڈالرز کے عوض خریدنا پڑتا ہے۔ اور آج عوام مہنگے بجلی کے بل بھرنے کے باوجود بھی لوڈشیڈنگ کا قہر صرف اس لیے سہہ رہے ہیں کیونکہ وافر مقدار میں ڈالرز دے کر تیل خریدنے کی سکت اس وقت پاکستان میں نہیں۔
اگر بروقت ملک میں ڈیم بنوائے جاتے تو ہر سال بارشوں کی وجہ سے جو سیلابی ریلا غریب عوام کے گھر بار اور جانور بہا لے جاتا ہے، اس پانی کو ضائع کرنے کے بجائے ڈیمز میں بھر لیا جاتا، اور ملک میں خشک سالی کی سی کیفیت نہ ہوتی۔ پانی کی رسائی آسانی سے تھر جیسے ریگستان تک بھی ہوتی اور وہاں کوئی معصوم بچہ بھوک اور پیاس سے اپنی جان نہ گنواتا۔ اور نہ ہی کراچی جیسے دنیا کے تیسرے بڑے شہر کے عوام کو پانی خرید کر پینا پڑتا۔ اگر یہ سیاستدان میرٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تمام حکومتی محکموں میں سفارشیوں کی بھرتیاں نہ کرتے تو آج کا نوجوان یوں نوکریوں کےلیے در در کی ٹھوکریں نہ کھا رہا ہوتا۔
یہ وہ حکمران ہیں جو آج تک قومی بجٹ میں تعلیم کا حصہ 2 فیصد سے زیادہ نہ رکھ سکے، جس کی بدولت آج پاکستان کے اکثر سرکاری اسکولوں کی حالت ابتر ہوچکی ہے۔ اساتذہ کی اسکولوں سے غیر حاضری اور اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے کم ازکم نوکری پیشہ، مڈل کلاس طبقہ، جس کا خواب اپنی اولاد کو بہتر تعلیم دلوا کر اعلیٰ افسر بنوانا ہے، تاکہ وہ اس کی طرح بسوں کے دھکے نہ کھائے، اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ نجی اسکولوں کو اپنے بچوں کی فیسوں کی صورت پر دینے پر مجبور ہے۔
صرف یہی نہیں، رواں مالی سال قومی بجٹ میں سے صحت کے کم ترین بجٹ میں سے بھی آدھے پر یہ کہہ کر کٹ لگا دیا گیا کہ ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے اور معیشت اس وقت مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ پچھلے دو سال میں جہاں غریب کی قوت خرید مزید کم ہوئی وہاں اودیہ دو سو فیصد مہنگی ہوگئیں۔ سالہاں سال سے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار نے ٹیکس بھرنے والے مڈل کلاس طبقے کو مجبور کیے رکھا کہ وہ اپنا رخ مہنگے بل چارج کرنے والے نجی اسپتالوں کی طرف کرے، کیونکہ حق حلال کمانے کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کو بہتر مواقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔
ان حکمرانوں کی خودغرضی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی، جو اس ملک کو 68 فیصد آمدنی کما کر دیتا ہے، وہاں پچھلے مہینے تک کوئی سرکاری ریسکیو ایمبولنس سسٹم موجود نہیں تھا۔ عوام کو ایمرجنسی کی صورت میں کوئی ایک فون نمبرنہیں معلوم تھا، جہاں وہ کال کرسکیں۔
اور پھر اس حالیہ مہنگائی کی لہر نے نہ صرف غریب کے منہ سے روٹی چھینی، بلکہ اس مڈل کلاس طبقے کو، جو ایک ایک روپیہ جوڑ کر معاشرے میں ایک معزز شہری سمجھے جانے کے خواب دیکھا کرتا تھا، اسے بھی غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ پھر جب عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے کے بعد ہمارے حکمران عوام کو دنیا میں بڑھنے والی مہنگائی کی مثال دے کر صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود ریاست کی طرف سے فراہم کردہ تمام مراعات کا بے دریغ استعمال کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے، تو یقین ہوجاتا ہے کہ عوام سے محبت تو دور کی بات انہیں عوام سے ہمدردی بھی نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پچھلے دونوں سوشل میڈیا پر ایک کلپ بہت وائرل ہوا، جس میں مشہور زمانہ امریکی ٹی وی شو "فیملی فیوڈ'' کے میزبان اسٹیو ہاروی دبئی کے شیخوں سے سوال کرتے نظر آئے کہ 50 سال میں دبئی جیسی بنجر زمین نے جو ترقی حاصل کی، وہ کیسے ممکن ہوئی؟ صرف پیسہ اس کی وجہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے ذاتی تجزیے میں دبئی کی ترقی کا راز وہاں کے حکمرانوں کا اپنے عوام سے کی جانے والی محبت میں پوشیدہ ہے۔
دبئی شہر آج دنیا کے جدید ترین سہولتوں والی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ جہاں ضروریات زندگی مہنگی ضرور ہیں لیکن وہاں عوام کی قوت خرید قدرے بہتر ہے۔ بنیادی سہولیات اور ان کے حصول کےلیے عوام دھکے نہیں کھاتے۔
دوسری طرف پاکستان کے عوام ہیں، جو نہایت ہی کم قوت خرید کے ساتھ بنیادی سہولتوں کےلیے دھکے تو کھا ہی رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی وجہ سے جو حالیہ مہنگائی کا بم اس عوام پر گرایا گیا، اس نے خاص کر نوکری پیشہ، مڈل کلاس عوام کی کمر توڑ دی ہے۔
مہنگائی کا یہ سفر شاید پاکستانیوں کےلیے بھی اتنا کٹھن نہ ہوتا اگر دبئی کی طرح پچاس یا پچھلے چھہتر سال سے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اپنے عوام سے محبت ہوتی اور وہ انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے بارے میں اس حد تک فکرمند ہوتے کہ آج عوام ان کی بددیانتی سے تنگ آکر دھرنے اور ریلیاں نکالنے پر مجبور نہ ہوتے۔
لیکن یہ حکمران، ان چھہتر برسوں میں نہ ہی پورے ملک میں عوام کو معیاری اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ کا ایسا مستحکم نیٹ ورک دے سکے کہ آج پٹرول مہنگی ترین سطح پر پہنچنے کے بعد، عوام اس سستی اور معیاری پبلک ٹرانسپورٹ میں آرام سے سفر کرسکے، جوکہ ٹیکس بھرنے کے بعد ان کا حق بھی تھا۔
اگر ان سیاستدانوں کو عوام سے پیار ہوتا تو ماضی میں ہی ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر یہ سوچ کر دستخط نہ کرتے کہ اس ایندھن کو بنانے کےلیے جو تیل درکار ہے وہ سعودیہ، قطر، ایران وغیرہ کی طرح ہمارے پاس زیر زمین کثیر مقدار میں موجود نہیں ہے اور جو ہے اسے نکالنے کے لیے ہمارے پاس وسائل دستیاب نہیں ہیں، جس کے باعث ہمیں دوسرے ممالک سے تیل کو ڈالرز کے عوض خریدنا پڑتا ہے۔ اور آج عوام مہنگے بجلی کے بل بھرنے کے باوجود بھی لوڈشیڈنگ کا قہر صرف اس لیے سہہ رہے ہیں کیونکہ وافر مقدار میں ڈالرز دے کر تیل خریدنے کی سکت اس وقت پاکستان میں نہیں۔
اگر بروقت ملک میں ڈیم بنوائے جاتے تو ہر سال بارشوں کی وجہ سے جو سیلابی ریلا غریب عوام کے گھر بار اور جانور بہا لے جاتا ہے، اس پانی کو ضائع کرنے کے بجائے ڈیمز میں بھر لیا جاتا، اور ملک میں خشک سالی کی سی کیفیت نہ ہوتی۔ پانی کی رسائی آسانی سے تھر جیسے ریگستان تک بھی ہوتی اور وہاں کوئی معصوم بچہ بھوک اور پیاس سے اپنی جان نہ گنواتا۔ اور نہ ہی کراچی جیسے دنیا کے تیسرے بڑے شہر کے عوام کو پانی خرید کر پینا پڑتا۔ اگر یہ سیاستدان میرٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تمام حکومتی محکموں میں سفارشیوں کی بھرتیاں نہ کرتے تو آج کا نوجوان یوں نوکریوں کےلیے در در کی ٹھوکریں نہ کھا رہا ہوتا۔
یہ وہ حکمران ہیں جو آج تک قومی بجٹ میں تعلیم کا حصہ 2 فیصد سے زیادہ نہ رکھ سکے، جس کی بدولت آج پاکستان کے اکثر سرکاری اسکولوں کی حالت ابتر ہوچکی ہے۔ اساتذہ کی اسکولوں سے غیر حاضری اور اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے کم ازکم نوکری پیشہ، مڈل کلاس طبقہ، جس کا خواب اپنی اولاد کو بہتر تعلیم دلوا کر اعلیٰ افسر بنوانا ہے، تاکہ وہ اس کی طرح بسوں کے دھکے نہ کھائے، اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ نجی اسکولوں کو اپنے بچوں کی فیسوں کی صورت پر دینے پر مجبور ہے۔
صرف یہی نہیں، رواں مالی سال قومی بجٹ میں سے صحت کے کم ترین بجٹ میں سے بھی آدھے پر یہ کہہ کر کٹ لگا دیا گیا کہ ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے اور معیشت اس وقت مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ پچھلے دو سال میں جہاں غریب کی قوت خرید مزید کم ہوئی وہاں اودیہ دو سو فیصد مہنگی ہوگئیں۔ سالہاں سال سے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار نے ٹیکس بھرنے والے مڈل کلاس طبقے کو مجبور کیے رکھا کہ وہ اپنا رخ مہنگے بل چارج کرنے والے نجی اسپتالوں کی طرف کرے، کیونکہ حق حلال کمانے کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کو بہتر مواقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔
ان حکمرانوں کی خودغرضی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی، جو اس ملک کو 68 فیصد آمدنی کما کر دیتا ہے، وہاں پچھلے مہینے تک کوئی سرکاری ریسکیو ایمبولنس سسٹم موجود نہیں تھا۔ عوام کو ایمرجنسی کی صورت میں کوئی ایک فون نمبرنہیں معلوم تھا، جہاں وہ کال کرسکیں۔
اور پھر اس حالیہ مہنگائی کی لہر نے نہ صرف غریب کے منہ سے روٹی چھینی، بلکہ اس مڈل کلاس طبقے کو، جو ایک ایک روپیہ جوڑ کر معاشرے میں ایک معزز شہری سمجھے جانے کے خواب دیکھا کرتا تھا، اسے بھی غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ پھر جب عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے کے بعد ہمارے حکمران عوام کو دنیا میں بڑھنے والی مہنگائی کی مثال دے کر صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود ریاست کی طرف سے فراہم کردہ تمام مراعات کا بے دریغ استعمال کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے، تو یقین ہوجاتا ہے کہ عوام سے محبت تو دور کی بات انہیں عوام سے ہمدردی بھی نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔