عمران خان کی مہنگائی پر احتجاج کی کال
عمران خان نے مہنگائی کے خلاف احتجاج میں خود کہیں بھی شرکت نہیں کی
LONDON:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی، جس کی توقع تھی۔ تحریک انصاف کے معیار اور مقبولیت کے تناظر میں یہ احتجاج بہت کمزور تھا۔
کسی بھی شہر میں شٹرڈاؤن یا پہیہ جام نہیں ہوا اور نہ ہزاروں لاکھوں کی ریلی یا جلسہ ہوا یعنی یہ ایسا احتجاج نہیں تھا کہ حکومت کی ٹانگیں کانپ جاتی بلکہ اتنے کمزور احتجاج نے حکومت کا حوصلہ بلند کیا ہے۔ حکمران اس کال کے بعد یہ سوچنے لگے ہیں کہ عمران خان کے سیاسی غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور اب انھیں عمران خان کے احتجاج سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ایسے احتجاج ہی کرنے ہیں توعمران خان چاہے روز احتجاج کریں، جتنے مرضی کریں۔
عمران خان نے مہنگائی کے خلاف احتجاج میں خود کہیں بھی شرکت نہیں کی۔ وہ چاہتے تو کم از کم پشاور میں ہی احتجاج کی قیادت کر سکتے تھے لیکن سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انھوں نے بنی گالہ کی پہاڑی سے وڈیو لنک پر اس احتجاج سے خطاب کیا ہے۔ جب عمران خان خود وڈیو لنک سے شریک تھے تو لگتا ہے کہ لوگوں نے بھی گھر بیٹھ کر وڈیو سے شرکت ہی مناسب سمجھی ہے۔ لوگ بھی اس طرح نہیں آتے ہیں۔ پنجاب تو مسلسل عمران خان کو نا امید کر رہا ہے۔
میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر کی بات نہیں کر رہا۔ میں حقیقی بات کر رہاہوں۔ حقیقت میں پنجاب میں کہیں بھی ایسا کوئی احتجاج نہیں ہوا جسے بڑا احتجاج کہا جا سکے۔ اتنے لوگ تو چھوٹی چھوٹی تنظیمیں اپنے احتجاج میں اکٹھے کر لیتی ہیں۔ اتنے لوگوں کا آنا سیاسی مینجمنٹ سمجھا جاتا ہے، لیکن ایسا کوئی احتجاج نہیں ہوا کہ کہا جا ئے کہ لوگ خود بخود نکل آئے۔یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے مختلف رہنما عمران خان کی جان کو خطرہ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔
فیاض الحسن چوہان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ افغانستان میں ایک ٹارگٹ کلر دہشت گرد کوچی کو عمران خان کو مارنے کی سپاری دے دی گئی ہے۔ اسی خطرہ کی وجہ سے وہ بنی گالہ سے باہر نہیں آرہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بنی گالہ میں بیٹھ کر احتجاجی کال کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خود بنی گالہ میں محفوظ بیٹھے رہیں اور عوام کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کی کال دی جائے۔ بہر حال عمران خان کو خود عوام میں آنا ہوگا، لوگ انھیں اپنے درمیان ہی دیکھنا چاہیں گے۔ ریموٹ کنٹرول سے احتجاجی تحریکیں چلانا ممکن نہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ یہ کمزور احتجاج اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت عوام کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گئی ہے موجودہ مہنگائی عمران خان کی وجہ سے ہے۔ آج پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عمران خان کے آئی ایم ایف کے معاہدہ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس معاہدہ پر عمران خان کی حکومت کے دستخط ہیں۔ اس لیے لوگوں نے عمران خان کی مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال کو مسترد کر دیا۔عمران خان کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد ان کی احتجاجی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ حکومت میں عمران خان کے احتجاج کا ڈر ختم ہو گیا ہے۔
عمران خان کی سیاسی طاقت کا سب کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہے۔ ویسے تو عمران خان کو لانگ مارچ کی کال اتنی جلدی دینی ہی نہیں چاہیے تھی لیکن اگر دے دی تھی تو پھر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے تھا۔ انھیں اول تو ڈی چوک آنا ہی نہیں چاہیے تھا لیکن اگر وہ تمام پابندیاں توڑ کر ڈی چوک پہنچ ہی گئے تھے ، پھر اس طرح گھر نہیں جانا چاہیے تھا۔ پشاور کو قلعہ بنانے کی سیاسی حکمت عملی بھی کامیاب نہیں رہی ہے۔اس سے عمران خان کی کمزوری ظاہر ہوئی ہے۔ ایک رائے بنی ہے کہ وہ گرفتاری سے ڈر کر وہاں بیٹھ گئے تھے۔
سیاست میں آپ کی کمزوری ظاہر ہو جائے تو بہت نقصان ہوتا ہے۔ یہی عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔ عمران خان کو گرفتاری سے بچنے کے بجائے گرفتار ہونے کی کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ پنجاب سے دوری بھی عمران خان کو لے بیٹھی ہے۔ پشاور اور کے پی میں بیٹھ کر مرکزی حکومت کو گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔ پنجاب کے عوام کی مدد کے بغیر حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا۔ اگر پنجاب کے عوام نہیں نکلیں گے تو کے پی سے لوگوں کے نکلنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔
کے پی میں مکمل حکومتی سرپرستی کے باوجود بھی لوگوں کی وہ تعداد نہیں نکلی ہے جس کی توقع تھی۔ مہنگائی کے خلاف حالیہ ا حتجاج میں بھی خیبر پختونخوا کے کسی شہر میں بڑا اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا۔ دوسر ا پنجاب نے انھیں بہت ناامید کیا ہے۔ شاید عمران خان نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کہ پاکستان میں پنجاب کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔
اب ایسا لگنے لگا ہے کہ وہ عمران خان بہت مقبول ہیں کا نعرہ دم توڑنے لگا ہے۔ وہ ماحول کہ اگر آج الیکشن ہو جائیں تو عمران خان دو تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے، اب سیاسی موت مرتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ اگر وہ احتجاج کی کال نہیں دیتے تو نقصان ہوتا ہے، اگر کال دینے کے بعد ناکام ہو جاتی ہے تو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔شاید انھوں نے شروع میں غلط سیاسی اہداف سیٹ کر لیے تھے، اگر صورتحال یہی رہی تو پی ٹی آئی کا ووٹر ہی نہیں بلکہ سپورٹر اور ورکر بھی مایوس ہوجائے گا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی، جس کی توقع تھی۔ تحریک انصاف کے معیار اور مقبولیت کے تناظر میں یہ احتجاج بہت کمزور تھا۔
کسی بھی شہر میں شٹرڈاؤن یا پہیہ جام نہیں ہوا اور نہ ہزاروں لاکھوں کی ریلی یا جلسہ ہوا یعنی یہ ایسا احتجاج نہیں تھا کہ حکومت کی ٹانگیں کانپ جاتی بلکہ اتنے کمزور احتجاج نے حکومت کا حوصلہ بلند کیا ہے۔ حکمران اس کال کے بعد یہ سوچنے لگے ہیں کہ عمران خان کے سیاسی غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور اب انھیں عمران خان کے احتجاج سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ایسے احتجاج ہی کرنے ہیں توعمران خان چاہے روز احتجاج کریں، جتنے مرضی کریں۔
عمران خان نے مہنگائی کے خلاف احتجاج میں خود کہیں بھی شرکت نہیں کی۔ وہ چاہتے تو کم از کم پشاور میں ہی احتجاج کی قیادت کر سکتے تھے لیکن سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انھوں نے بنی گالہ کی پہاڑی سے وڈیو لنک پر اس احتجاج سے خطاب کیا ہے۔ جب عمران خان خود وڈیو لنک سے شریک تھے تو لگتا ہے کہ لوگوں نے بھی گھر بیٹھ کر وڈیو سے شرکت ہی مناسب سمجھی ہے۔ لوگ بھی اس طرح نہیں آتے ہیں۔ پنجاب تو مسلسل عمران خان کو نا امید کر رہا ہے۔
میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر کی بات نہیں کر رہا۔ میں حقیقی بات کر رہاہوں۔ حقیقت میں پنجاب میں کہیں بھی ایسا کوئی احتجاج نہیں ہوا جسے بڑا احتجاج کہا جا سکے۔ اتنے لوگ تو چھوٹی چھوٹی تنظیمیں اپنے احتجاج میں اکٹھے کر لیتی ہیں۔ اتنے لوگوں کا آنا سیاسی مینجمنٹ سمجھا جاتا ہے، لیکن ایسا کوئی احتجاج نہیں ہوا کہ کہا جا ئے کہ لوگ خود بخود نکل آئے۔یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے مختلف رہنما عمران خان کی جان کو خطرہ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔
فیاض الحسن چوہان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ افغانستان میں ایک ٹارگٹ کلر دہشت گرد کوچی کو عمران خان کو مارنے کی سپاری دے دی گئی ہے۔ اسی خطرہ کی وجہ سے وہ بنی گالہ سے باہر نہیں آرہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بنی گالہ میں بیٹھ کر احتجاجی کال کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خود بنی گالہ میں محفوظ بیٹھے رہیں اور عوام کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کی کال دی جائے۔ بہر حال عمران خان کو خود عوام میں آنا ہوگا، لوگ انھیں اپنے درمیان ہی دیکھنا چاہیں گے۔ ریموٹ کنٹرول سے احتجاجی تحریکیں چلانا ممکن نہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ یہ کمزور احتجاج اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت عوام کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گئی ہے موجودہ مہنگائی عمران خان کی وجہ سے ہے۔ آج پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عمران خان کے آئی ایم ایف کے معاہدہ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس معاہدہ پر عمران خان کی حکومت کے دستخط ہیں۔ اس لیے لوگوں نے عمران خان کی مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال کو مسترد کر دیا۔عمران خان کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد ان کی احتجاجی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ حکومت میں عمران خان کے احتجاج کا ڈر ختم ہو گیا ہے۔
عمران خان کی سیاسی طاقت کا سب کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہے۔ ویسے تو عمران خان کو لانگ مارچ کی کال اتنی جلدی دینی ہی نہیں چاہیے تھی لیکن اگر دے دی تھی تو پھر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے تھا۔ انھیں اول تو ڈی چوک آنا ہی نہیں چاہیے تھا لیکن اگر وہ تمام پابندیاں توڑ کر ڈی چوک پہنچ ہی گئے تھے ، پھر اس طرح گھر نہیں جانا چاہیے تھا۔ پشاور کو قلعہ بنانے کی سیاسی حکمت عملی بھی کامیاب نہیں رہی ہے۔اس سے عمران خان کی کمزوری ظاہر ہوئی ہے۔ ایک رائے بنی ہے کہ وہ گرفتاری سے ڈر کر وہاں بیٹھ گئے تھے۔
سیاست میں آپ کی کمزوری ظاہر ہو جائے تو بہت نقصان ہوتا ہے۔ یہی عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔ عمران خان کو گرفتاری سے بچنے کے بجائے گرفتار ہونے کی کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ پنجاب سے دوری بھی عمران خان کو لے بیٹھی ہے۔ پشاور اور کے پی میں بیٹھ کر مرکزی حکومت کو گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔ پنجاب کے عوام کی مدد کے بغیر حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا۔ اگر پنجاب کے عوام نہیں نکلیں گے تو کے پی سے لوگوں کے نکلنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔
کے پی میں مکمل حکومتی سرپرستی کے باوجود بھی لوگوں کی وہ تعداد نہیں نکلی ہے جس کی توقع تھی۔ مہنگائی کے خلاف حالیہ ا حتجاج میں بھی خیبر پختونخوا کے کسی شہر میں بڑا اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا۔ دوسر ا پنجاب نے انھیں بہت ناامید کیا ہے۔ شاید عمران خان نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کہ پاکستان میں پنجاب کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔
اب ایسا لگنے لگا ہے کہ وہ عمران خان بہت مقبول ہیں کا نعرہ دم توڑنے لگا ہے۔ وہ ماحول کہ اگر آج الیکشن ہو جائیں تو عمران خان دو تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے، اب سیاسی موت مرتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ اگر وہ احتجاج کی کال نہیں دیتے تو نقصان ہوتا ہے، اگر کال دینے کے بعد ناکام ہو جاتی ہے تو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔شاید انھوں نے شروع میں غلط سیاسی اہداف سیٹ کر لیے تھے، اگر صورتحال یہی رہی تو پی ٹی آئی کا ووٹر ہی نہیں بلکہ سپورٹر اور ورکر بھی مایوس ہوجائے گا۔