کبوتر کی تلاش میں…
کشمیر کی کنٹرول لائن پر عبدالصمد کا واقعہ پہلا نہیں ہے، اس طرح کے واقعات مسلسل ہوتے ہیں
پاکستانی کشمیر کو کنٹرول لائن بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر سے جدا کرتی ہے۔ اس کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کئی لاکھ افراد آباد ہیں اور دونوں اطراف رشتہ داریاں ہیں۔
عید الفطر اور عیدالاضحی کے تہواروں پر دریائے نیلم کے دونوں کناروں پر بہت سے افراد جمع ہوتے ہیں اور وہاں کھڑے عزیزوں کا دیدار کرتے ہیں۔یہ سلسلہ سورج غروب ہونے تک جاری رہتا ہے۔ جب کنٹرول لائن گرم ہوتی ہے تو دونوں طرف سے گولیوں کے علاوہ توپ کے گولے داغے جاتے ہیں۔ مویشی اور معصوم افراد ان گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ دونوں طرف گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں مسلمان ہی ہوتے ہیں۔
15 سالہ نوجوان عبدالصمد کو کبوتر پالنے کا شوق اپنے بزرگوں سے ملا ہے۔ اس کے بزرگ اپنے کبوتروں کی تلاش میں کنٹرول لائن عبور کرتے تھے اور کبوتر پکڑ کر اپنے گھروںکے دڑبوں میں مقید کرتے ہیں۔ عبدالصمد گزشتہ سال 28 نومبر کو اپنے کبوتر اڑا رہا تھا۔ اس کا کوئی قیمتی کبوتر کنٹرول لائن کی دوسری طرف چلا گیا۔ عبدالصمد نے اپنے کبوتر کا پیچھا کرنا شروع کیا۔ وہ اپنی تیز رفتاری میں یہ بات فراموش کرگیا کہ وہ تو بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں داخل ہوچکا ہے۔
بھارتی فوجیوں نے عبدالصمد کو پکڑ لیا۔ عبدالصمد نے دھائی دی کہ وہ تو اپنے کبوتر کی تلاش میں آیا ہے مگر ظالم فوجیوں نے اس کو پاکستانی جاسوس سمجھا اور جس طرح دشمن جاسوس کو تھرڈ ڈگری تشدد سے گزارا جاتا ہے عبدالصمد پر بھی یہ تشدد ہوا ، مگر عبدالصمد کے پاس گاؤں کا نام بتانے اور کبوتروں کی تلاش کا بار بار ذکرکرنے کے سوا دوسرا کوئی بہانہ نہ تھا۔ عبدالصمد کو کچھ مہینوں تک بھارتی فوج کے ٹارچر کیمپوں کی سیر کرائی گئی۔ جب عبدالصمد سے کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کو پہلے جموں میں بچوں کی جیل میں اور پھر امرتسر جیل منتقل کیا گیا۔
جب سے مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے اور بھارتی یونین کے آئین کی شق 360 کو پارلیمنٹ میں اکثریتی آمریت کی بنیاد پر حذف کیا ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات منفی سطح پر آگئے ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمشنرز کو واپس بلالیا ہے۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں دونوں ممالک کے ہائی کمیشن کے اہلکاروں کی تعداد محدود ہوگئی ہے۔ یوں دونوں ممالک کے سفارت کاروں پر کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ بھارت میں موجودہ حکومت کا پیدا کردہ مذہبی جنون عروج پر ہے مگر وہاں کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس جنون کے خلاف صف آراء ہیں۔
انسانی حقوق کی تحریک کے ایک کارکن راہول کپور کو پتہ چلا کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والاایک بچہ ناکردہ گناہوں کی سزا پا رہا ہے تو انھوں نے اس کی رہائی کے لیے ایک عرض داشت تیار کی اور اب تک آن لائن عرض داشت پر ہزاروں لوگ دستخط کرچکے ہیں۔ یوں بھارتی ذرایع ابلاغ پر کبوتر کی تلاش میں آنے والے عبدالصمد کی اسیری کی داستانیں چھپیں۔ اسی بناء پر نئی دہلی میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو اپنے فرائض کا احساس ہوا۔
پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں نے بھارتی حکومت سے درخواست کی کہ انھیں عبدالصمد سے ملاقات کے لیے سفارتی رسائی دی جائے تاکہ پاکستانی سفارت کار عبدالصمد سے براہِ راست مل کر حالات اور واقعات کا پتہ چلا سکیں۔ پاکستانی سفارت کاروں کی اس عرضداشت کے بعد عبدالصمد کو امرتسر جیل منتقل کیا گیا اور پاکستانی سفارت کار کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد عبدالصمد سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
بظاہر تو عبدالصمد کے کشمیر میں اپنے وطن جانے میں رکاوٹ ختم ہوئی مگر کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ عبدالصمد کا کیس اسلام آباد وزارت خارجہ کو بھیج دیا ہے۔ وزارت خارجہ اس کیس کو وزارت داخلہ کو بھیجے گا۔
وزارت داخلہ کے متعلقہ افسران میں رحم دلی کی کوئی رمق ہوگی تو عبدالصمد کے پاکستانی کشمیری شہری ہونے کی تصدیق کے لیے نادرا کے پاس یہ کیس بھیجا جائے گا، یوں اگر پاکستان کی تمام وزارتوں اور خفیہ ایجنسیوں نے تصدیق کی کہ عبدالصمد کے والدین کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے اور نادرا کے ب فارم میں عبدالصمد کا اندراج ہے اور اس کی تصدیق تمام متعلقہ افسران کررہے ہیں تو نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن عبدالصمد کو پاسپورٹ جاری کرے گا۔
بھارت کی وزارت خارجہ اس کے پاسپورٹ پر ویزا دے گی تو عبدالصمد کی اپنے گھر میں واپسی ممکن ہوگی۔ یہ پورا پروسیس چند ہفتوں سے لے کر چند مہینوں یا پھر ایک سال یا زیادہ پر محیط ہوسکتا ہے۔ یوں اب کچھ معاملہ پاکستان کی حکومت کی توجہ کا منتظر ہے۔
مسلم لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے گزشتہ حکومت کے دور میں ایک پاکستانی طلاق یافتہ خاتون کی بھارت میں مسلسل نظربندی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ یہ خاتون مہینوں اس لیے جیل میں بند رہیں کہ اسلام آباد کی حکومت نے اپنے نئی دہلی میں قائم ہائی کمیشن کے متعلقہ افسر کو اس خاتون کی پاکستانی شہریت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا تھا، یوں سینیٹر عرفان صدیقی کی مسلسل کوششوں سے وزارت داخلہ نے اس خاتون کے پاکستانی شہری ہونے کی تصدیق کی۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر عبدالصمد کا واقعہ پہلا نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات مسلسل ہوتے ہیں، جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کی آخری سمت کو عبور کرلیتے ہیں تو پھر بھارتی فوجی اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں۔ بعض افراد تو کنٹرول لائن کے قریب ہونے کے باوجود ان گولیوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ کچھ شہری ساری زندگی کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔
دونوں اطراف کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے اراکین مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے تاکہ بے گناہ افراد کی جانیں ضایع نہ ہوں اور ان کی زندگی جیلوں میں نہ گزرے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں مظفرآباد سے سری نگر تک بس سروس شروع ہوئی تھی، اس سروس کو بحال ہونا چاہیے اور اب کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے شہریوں کی آرزوؤں کے مطابق اس مسئلہ کا حل تلاش کرلینا چاہیے۔
عید الفطر اور عیدالاضحی کے تہواروں پر دریائے نیلم کے دونوں کناروں پر بہت سے افراد جمع ہوتے ہیں اور وہاں کھڑے عزیزوں کا دیدار کرتے ہیں۔یہ سلسلہ سورج غروب ہونے تک جاری رہتا ہے۔ جب کنٹرول لائن گرم ہوتی ہے تو دونوں طرف سے گولیوں کے علاوہ توپ کے گولے داغے جاتے ہیں۔ مویشی اور معصوم افراد ان گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ دونوں طرف گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں مسلمان ہی ہوتے ہیں۔
15 سالہ نوجوان عبدالصمد کو کبوتر پالنے کا شوق اپنے بزرگوں سے ملا ہے۔ اس کے بزرگ اپنے کبوتروں کی تلاش میں کنٹرول لائن عبور کرتے تھے اور کبوتر پکڑ کر اپنے گھروںکے دڑبوں میں مقید کرتے ہیں۔ عبدالصمد گزشتہ سال 28 نومبر کو اپنے کبوتر اڑا رہا تھا۔ اس کا کوئی قیمتی کبوتر کنٹرول لائن کی دوسری طرف چلا گیا۔ عبدالصمد نے اپنے کبوتر کا پیچھا کرنا شروع کیا۔ وہ اپنی تیز رفتاری میں یہ بات فراموش کرگیا کہ وہ تو بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں داخل ہوچکا ہے۔
بھارتی فوجیوں نے عبدالصمد کو پکڑ لیا۔ عبدالصمد نے دھائی دی کہ وہ تو اپنے کبوتر کی تلاش میں آیا ہے مگر ظالم فوجیوں نے اس کو پاکستانی جاسوس سمجھا اور جس طرح دشمن جاسوس کو تھرڈ ڈگری تشدد سے گزارا جاتا ہے عبدالصمد پر بھی یہ تشدد ہوا ، مگر عبدالصمد کے پاس گاؤں کا نام بتانے اور کبوتروں کی تلاش کا بار بار ذکرکرنے کے سوا دوسرا کوئی بہانہ نہ تھا۔ عبدالصمد کو کچھ مہینوں تک بھارتی فوج کے ٹارچر کیمپوں کی سیر کرائی گئی۔ جب عبدالصمد سے کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کو پہلے جموں میں بچوں کی جیل میں اور پھر امرتسر جیل منتقل کیا گیا۔
جب سے مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے اور بھارتی یونین کے آئین کی شق 360 کو پارلیمنٹ میں اکثریتی آمریت کی بنیاد پر حذف کیا ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات منفی سطح پر آگئے ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمشنرز کو واپس بلالیا ہے۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں دونوں ممالک کے ہائی کمیشن کے اہلکاروں کی تعداد محدود ہوگئی ہے۔ یوں دونوں ممالک کے سفارت کاروں پر کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ بھارت میں موجودہ حکومت کا پیدا کردہ مذہبی جنون عروج پر ہے مگر وہاں کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس جنون کے خلاف صف آراء ہیں۔
انسانی حقوق کی تحریک کے ایک کارکن راہول کپور کو پتہ چلا کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والاایک بچہ ناکردہ گناہوں کی سزا پا رہا ہے تو انھوں نے اس کی رہائی کے لیے ایک عرض داشت تیار کی اور اب تک آن لائن عرض داشت پر ہزاروں لوگ دستخط کرچکے ہیں۔ یوں بھارتی ذرایع ابلاغ پر کبوتر کی تلاش میں آنے والے عبدالصمد کی اسیری کی داستانیں چھپیں۔ اسی بناء پر نئی دہلی میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو اپنے فرائض کا احساس ہوا۔
پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں نے بھارتی حکومت سے درخواست کی کہ انھیں عبدالصمد سے ملاقات کے لیے سفارتی رسائی دی جائے تاکہ پاکستانی سفارت کار عبدالصمد سے براہِ راست مل کر حالات اور واقعات کا پتہ چلا سکیں۔ پاکستانی سفارت کاروں کی اس عرضداشت کے بعد عبدالصمد کو امرتسر جیل منتقل کیا گیا اور پاکستانی سفارت کار کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد عبدالصمد سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
بظاہر تو عبدالصمد کے کشمیر میں اپنے وطن جانے میں رکاوٹ ختم ہوئی مگر کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ عبدالصمد کا کیس اسلام آباد وزارت خارجہ کو بھیج دیا ہے۔ وزارت خارجہ اس کیس کو وزارت داخلہ کو بھیجے گا۔
وزارت داخلہ کے متعلقہ افسران میں رحم دلی کی کوئی رمق ہوگی تو عبدالصمد کے پاکستانی کشمیری شہری ہونے کی تصدیق کے لیے نادرا کے پاس یہ کیس بھیجا جائے گا، یوں اگر پاکستان کی تمام وزارتوں اور خفیہ ایجنسیوں نے تصدیق کی کہ عبدالصمد کے والدین کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے اور نادرا کے ب فارم میں عبدالصمد کا اندراج ہے اور اس کی تصدیق تمام متعلقہ افسران کررہے ہیں تو نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن عبدالصمد کو پاسپورٹ جاری کرے گا۔
بھارت کی وزارت خارجہ اس کے پاسپورٹ پر ویزا دے گی تو عبدالصمد کی اپنے گھر میں واپسی ممکن ہوگی۔ یہ پورا پروسیس چند ہفتوں سے لے کر چند مہینوں یا پھر ایک سال یا زیادہ پر محیط ہوسکتا ہے۔ یوں اب کچھ معاملہ پاکستان کی حکومت کی توجہ کا منتظر ہے۔
مسلم لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے گزشتہ حکومت کے دور میں ایک پاکستانی طلاق یافتہ خاتون کی بھارت میں مسلسل نظربندی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ یہ خاتون مہینوں اس لیے جیل میں بند رہیں کہ اسلام آباد کی حکومت نے اپنے نئی دہلی میں قائم ہائی کمیشن کے متعلقہ افسر کو اس خاتون کی پاکستانی شہریت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا تھا، یوں سینیٹر عرفان صدیقی کی مسلسل کوششوں سے وزارت داخلہ نے اس خاتون کے پاکستانی شہری ہونے کی تصدیق کی۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر عبدالصمد کا واقعہ پہلا نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات مسلسل ہوتے ہیں، جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کی آخری سمت کو عبور کرلیتے ہیں تو پھر بھارتی فوجی اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں۔ بعض افراد تو کنٹرول لائن کے قریب ہونے کے باوجود ان گولیوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ کچھ شہری ساری زندگی کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔
دونوں اطراف کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے اراکین مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے تاکہ بے گناہ افراد کی جانیں ضایع نہ ہوں اور ان کی زندگی جیلوں میں نہ گزرے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں مظفرآباد سے سری نگر تک بس سروس شروع ہوئی تھی، اس سروس کو بحال ہونا چاہیے اور اب کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے شہریوں کی آرزوؤں کے مطابق اس مسئلہ کا حل تلاش کرلینا چاہیے۔