آئی ایم ایف سے توقعات اور ملکی معیشت

ہمیں ملکی معیشت کی بہتری اور ڈالر کے بحران پر قابو پانے کے لیے درآمد ات پر انحصار کو کم کرنا ہوگا


Editorial June 22, 2022
ہمیں ملکی معیشت کی بہتری اور ڈالر کے بحران پر قابو پانے کے لیے درآمد ات پر انحصار کو کم کرنا ہوگا (فوٹو فائل)

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ امید ہے آئی ایم ایف پروگرام ایک آدھ دن میں بحال ہوجائے گا ، معاہدے کے بعد پاکستان کے لیے قسط جاری ہوجائے گی۔

حکومتی کاوشوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہتر اور خوش آیند خبر ہے ، لیکن دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل تیسری بار اضافہ کر دیا گیا ہے ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اثر براہ راست عوام پر منتقل ہوتا ہے۔ اشیائے خورونوش سمیت دیگر اشیاء کی قیمتیں اب روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہیں۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ کسی پریس کانفرنس میں نمودار ہوتے ہیں اور پھر پاکستان کو درپیش معاشی و مالیاتی مشکلات بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ ویسے کبھی کبھی زبان کا ذائقہ بدلنے کی خاطر عوام کو اچھے دنوں کی امید دکھا دی جاتی ہے۔

پاکستان میں سیاست ، سیاسی مخالفین کے خلاف نعرے بازی اور بحث و مباحثے کے مقابلے میں تبدیل ہوچکی ہے جب کہ عوام کی خدمت اور ان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیاں اور منصوبہ بندی کے اصل مقصد پر پردہ پڑگیا ہے۔ اس وقت بھی وزراء حضرات اپنے اپنے انداز میں کبھی دیوالیہ ہونے کا خطرہ ظاہر کردیتے ہیں اور کبھی اچھے مستقبل کی نوید سنا دیتے ہیں، جب تک صورتحال واضح نہ ہو، یہ سب کچھ عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے کے مترادف ہے ۔

ملکی معیشت میں بہتری لانا آسان تو نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ بلاشبہ یوکرین کی جنگ ، سپلائی چین میں خلل اور عالمی طلب میں بحالی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کو مزید تقویت ملی ہے۔ اشیا کی بین الاقوامی قیمتیں نہ صرف مہنگائی کو بلند رکھتی ہیں بلکہ یہ پاکستان کے بیرونی کھاتے اور اس وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ ہیں۔ وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ اخراجات میں زیادہ سبسڈیز اور گرانٹس مالیاتی کھاتوں پر نمایاں بوجھ ڈال رہے ہیں۔ ہمارا تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جوں جوں درآمدات بڑھ رہی ہیں ، درآمدات کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ افراطِ زر بھی بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں شرح سود میں اضافہ ہوا ہے، اب اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

ٹریژری بلز کی نیلامی نے واضح کردیا ہے کہ موجودہ شرح سود کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا، معیشت سست روی کا شکار ہوگی۔ معاشی شرح نمو متاثر ہوگی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ معاشی ماہرین نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرنٹ اکائونٹ خسارہ ، بلند مالیاتی خسارہ اور اقتصادی ترقی کے امکانات کو کم کرنے سمیت غیر معینہ دورانیے تک جاری رہنے والی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے امتزاج کے پیش نظر آنے والے مشکل دنوں کی پیشگوئی کی ہے۔

ملکی اور بین الاقوامی منظر نامے بدل رہے ہیں جو معاشی بحالی کے لیے مضمرات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افراطِ زر اور بیرونی شعبے کے دبائو سے معیشت میں مائیکرو اکنامک عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ سی پی آئی (کنزیومر پرائس انڈیکس) میں مجموعی طور پر اضافہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان ایسی اشیا خاص طور پر خام تیل، دالوں اور خوردنی تیل کا خالص درآمد کنندہ ہے جو بالاخر مقامی قیمتوں میں منتقل ہوتا ہے۔ بہت سے دوسرے ممالک کو اشیا کی بلند اور غیر مستحکم قیمتوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کے مجموعی سپلائی سائیڈ کو مضبوط بنانے سے اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اسے برآمدات کے لیے زیادہ پیداوار اور درآمد کی حوصلہ شکنی کا موقع دے گا۔

یہ امکانات بیرونی رکاوٹوں میں نرمی کریں گے جو تاریخی طور پر پاکستان کی معیشت پر بوجھ رہا ہے اور جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا رہا۔ گزشتہ پونے چار برس کے عرصے میں وزارتِ خزانہ میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں۔ مشیر اور وزیر بدلے تو سیکریٹری بھی تبدیل ہوتے رہے۔ ایف بی آر اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ذمے دار بھی بار بار بدلے گئے، کسی کو چین سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات بڑھیں، لیکن وہ بھی کرنٹ اکائونٹ کا توازن برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ برآمدات میں اضافہ ہو یا غیرملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں، اسی طرح زرمبادلہ کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

حکومت کو لیے گئے قرضوں پر زیادہ رقم سود کی مد میں ادا کرنا پڑے گی، نتیجتاً مشکلات میں گھری نئی حکومت کی جیب پر اخراجات کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ جب تک ملک کی رولنگ کلاس اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتی ، حکومت غیرترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کرتی ، آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ ہمارے لیے یہ مسائل رہیں گے ۔ ہمیں بجلی، گیس اور دوسری پیداواری چیزوں کی قیمت بڑھانی پڑیں گی ۔لامحالہ پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے۔

ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی گئی، لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل تو بڑھا لیکن ہمارا ایکسپورٹ بل نہیں بڑھ سکا۔ لہٰذا ہمیں روپے کی قیمت میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے، اس سے ہماری معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت کو ہر درآمد کردہ شے پر ٹیکس نہیں لگانا چاہیے بلکہ ایسے ٹیکسز ٹارگٹڈ ہونے چاہئیں جو خام مال ہماری صنعتی پیداوار میں معاون ثابت ہوتا ہے، ان پر ٹیکس کم کیا جانا چاہیے تاکہ ہماری پیداواری لاگت کم ہو۔ حکومت نے ساری درآمدات پر ٹیکسز لگائے جس کی وجہ سے خام مال کی قیمت بڑھی اور اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور معیشت کو نقصان پہنچا۔

ہمیں ملکی معیشت کی بہتری اور ڈالر کے بحران پر قابو پانے کے لیے درآمد ات پر انحصار کو کم کرنا ہوگا ، ڈالر کی کمی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، اقتصادیات میں حقیقی اور بیرونی دو قسم کے سیکٹرز ہوتے ہیں معیشت میں جی ڈی پی سب سے بڑا عنصر ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ہماری معیشت کی شرح نمو 5.7 فیصد بڑھی جب کہ اب پانچ فیصد کی شرح سے بڑھی جو بہتر اعشاریہ ہے۔ ہمارے ملک کی شرح نمو دنیا کے کئی ممالک سے بہتر ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ میں جولائی سے فروری 2022 تک ہماری صنعت تقریباً8 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور برآمدات جو 30 ارب ڈالر ہے ، جب کہ ترسیلات زر اس سال تقریباً 30 ، 31ارب ڈالر ہونگی۔ اتنا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا یہ قابل تعریف ہے۔

ہم برآمدات اور زرمبادلہ کے ذریعے 60 ارب ڈالر کما رہے ہیں لیکن لیکجز کی وجہ سے درآمدات کے تحت ڈالر کو ہم ضایع کر رہے ہیں۔ ہمیں ڈالر بچانے کے لیے درآمدات کم کرنی ہیں۔ ہمیں پاکستانی بن کر اس ملک کے لیے سوچنا ہوگا۔ اس ملک کی قدر کرنا ہو گی ہمیں غیر ضروری درآمدات کو بند کرنا ہو گا۔ صرف دو تین برس کے لیے اسے روک کر قوم کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ گاڑیاں بڑی اور مہنگی کے بجائے چھوٹی اور سستی منگوانی ہونگی۔ ہم دو ارب ڈالر سے زائد کے موبائل فون درآمد کرتے ہیں۔ مہنگے موبائل فون کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔

گورننس کے چند اہم چیلنجز کا حل غیر ضروری سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے عوام پر مبنی پالیسیاں اور نقطہ نظر تیار کرنے میں مضمر ہے، پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی والا ملک ہے، اس لیے گورننس کے بنیادی ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کو انسانی وسائل خصوصاً نوجوانوں کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو ترجیح دینی ہوگی۔

گورننس کو درپیش چیلنجز غربت کے خاتمے، ترقی، تعلیم اور معیشت سمیت کئی شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لیے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک اجتماعی سیاسی عزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر خرابی کی ذمے داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ اسے یہی کچھ ورثہ میں ملا ہے، مگر ایک مربوط حکمت عملی تیار کر کے وہ معاشی و اقتصادی معاملات کو درست ضرور کر سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں