اب جوڈیشل ایکٹوازم کا دور نہیں رہا ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کرپشن کیس میں نیب سے توہین عدالت کرنے والے ملزمان اور ٹرائل کی تفصیلات طلب کرلیں
لاہور:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب جوڈیشل ایکٹوازم کا دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔
سپریم کورٹ میں ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) میں خلاف ضابطہ بھرتیوں اور میگا کرپشن کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جنوری 2011 میں ای او بی آئی میں بھرتیاں روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد ستمبر 2011 سے مئی 2012 کے درمیان ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئیں، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جن افراد نے بھرتیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ان کا نام نیب رپورٹ میں موجود ہے، سید خورشید شاہ کا نام بھی ای او بی آئی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد میں شامل ہے۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ خورشید شاہ اس وقت وزیر نہیں تھے جب یہ بھرتیاں ہوئیں، نیب کیس میں توہین عدالت کیسے ہو سکتی ہے، خورشید شاہ کا اس سے تعلق نہیں، ان کے سر پر توہین عدالت کی تلوار کیوں لٹک رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر توہین عدالت ہوئی ہے تو ذمہ داری ڈالنی ہے، عدالتی حکم کے برعکس تقرریاں تو ہوئی ہیں، دیکھنا ہے کس نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی، سب کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے صرف ذمہ داروں کے خلاف ہی کارروائی کرنا چاہتے ہیں، نیب تفصیلی طور پر رپورٹ دے کس ملزم کا کیا کردار ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کو تفصیلات جمع کرانے کا آخری موقع دے رہے ہیں، یہ کیس اس دور کا ہے جب ایکٹوازم اپنے عروج پر تھا، اب وہ دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا۔
سپریم کورٹ نے نیب سے توہین عدالت کرنے والے ملزمان اور ٹرائل کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب جوڈیشل ایکٹوازم کا دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔
سپریم کورٹ میں ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) میں خلاف ضابطہ بھرتیوں اور میگا کرپشن کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جنوری 2011 میں ای او بی آئی میں بھرتیاں روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد ستمبر 2011 سے مئی 2012 کے درمیان ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئیں، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جن افراد نے بھرتیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ان کا نام نیب رپورٹ میں موجود ہے، سید خورشید شاہ کا نام بھی ای او بی آئی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد میں شامل ہے۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ خورشید شاہ اس وقت وزیر نہیں تھے جب یہ بھرتیاں ہوئیں، نیب کیس میں توہین عدالت کیسے ہو سکتی ہے، خورشید شاہ کا اس سے تعلق نہیں، ان کے سر پر توہین عدالت کی تلوار کیوں لٹک رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر توہین عدالت ہوئی ہے تو ذمہ داری ڈالنی ہے، عدالتی حکم کے برعکس تقرریاں تو ہوئی ہیں، دیکھنا ہے کس نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی، سب کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے صرف ذمہ داروں کے خلاف ہی کارروائی کرنا چاہتے ہیں، نیب تفصیلی طور پر رپورٹ دے کس ملزم کا کیا کردار ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کو تفصیلات جمع کرانے کا آخری موقع دے رہے ہیں، یہ کیس اس دور کا ہے جب ایکٹوازم اپنے عروج پر تھا، اب وہ دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا۔
سپریم کورٹ نے نیب سے توہین عدالت کرنے والے ملزمان اور ٹرائل کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔