یہ ہے بھارت کا اصل چہرہ مسلم کش فسادات کے الزام میں مسلمان ہی ملزم قرار
بھارت میں انتظامیہ مسلمانوں کو تعصب کی عینک لگا کر دیکھتی ہے اورہرمعاملے میں مسلمان ہی کو پھنسانے کی کوشش کی جاتی ہے
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کے دعویدار بھارت میں ہر کوئی مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرتاہے لیکن درحقیقیت سب ہی ان کےخلاف متحد نظرآتے ہیں، اسی طرح کی ایک مثال اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کے فسادات میں بھی سامنے آئی ہے جہاں ایک جانب مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا وہیں مقدمات بھی ان ہی کے خلاف قائم کئے گئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ برس بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے چیف جوڈیشنل میجسٹریٹ کی عدالت میں رپورٹ پیش کی۔ جس میں ریاستی اسمبلی کے ارکان اسمبلی قادر رانا، نور سلیم رانا، مولانا جمیل، مقامی رہنما سعید زمان اور ان کے بیٹے سلمان سعید سمیت 10 افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے علاقے میں اپنی تقاریر کے ذریعے اشتعال پھیلاکر علاقے میں فساد کی آگ کوہوادی۔
یہ ہے بھارت اوراس کا اصل چہرہ جو اپنے ہی ملک میں رہنے والوں مسلمانوں کی تعصب کی عینک لگا کردیکھتا ہے اورملک میں کوئی بھی واقعہ پیش آجائے اس میں مسلمانوں کو ہی پھنسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس مظفر نگر میں فسادات کے دوران 70 مسلمانوں کو قتل اور درجنوں کوخواتین کی عصمت دری کی گئی تھی۔ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود ہزاروں مسلمان اب بھی اپنے آبائی علاقے میں نہیں جاسکتے اور کسمپرسی کی حالت میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ برس بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے چیف جوڈیشنل میجسٹریٹ کی عدالت میں رپورٹ پیش کی۔ جس میں ریاستی اسمبلی کے ارکان اسمبلی قادر رانا، نور سلیم رانا، مولانا جمیل، مقامی رہنما سعید زمان اور ان کے بیٹے سلمان سعید سمیت 10 افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے علاقے میں اپنی تقاریر کے ذریعے اشتعال پھیلاکر علاقے میں فساد کی آگ کوہوادی۔
یہ ہے بھارت اوراس کا اصل چہرہ جو اپنے ہی ملک میں رہنے والوں مسلمانوں کی تعصب کی عینک لگا کردیکھتا ہے اورملک میں کوئی بھی واقعہ پیش آجائے اس میں مسلمانوں کو ہی پھنسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس مظفر نگر میں فسادات کے دوران 70 مسلمانوں کو قتل اور درجنوں کوخواتین کی عصمت دری کی گئی تھی۔ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود ہزاروں مسلمان اب بھی اپنے آبائی علاقے میں نہیں جاسکتے اور کسمپرسی کی حالت میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔