عباس علی بیگ وہ ہندوستانی ٹیسٹ کرکٹر تنگ نظری جس کا کیرئیر نگل گئی

عباس علی بیگ پر الزام لگا کہ مسلمان ہونے کے باعث وہ پاکستان کے خلاف اپنی وکٹ جلد گنوا دیتے ہیں

عباس علی بیگ پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے سب سے کم عمربھارتی کھلاڑی بھی بنے فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
1959ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈکے دوران وجے منجریکر کے ان فٹ ہونے پر بیس سالہ عباس علی بیگ کو ٹیسٹ کیپ مل گئی۔

نوجوان نے کیرئیرکا عمدہ آغازکیا۔ انگلینڈ کے بہترین بولروں کا سامنا جی داری سے کرتے ہوئے،دوسری اننگز میںسنچری بناڈالی۔وہ پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے سب سے کم عمربھارتی کھلاڑی بھی بنے اور غیرملکی سرزمین پریہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے ہندوستانی بیٹسمین بھی۔دوران اننگز ہیرلڈ رھوڈز کا گیند کنپٹی پرلگنے سے انھیں ریٹائرڈہرٹ ہونا پڑا۔ دوبارہ میدان میں اترے توفوراًہی انھیں زخمی کرنے والے فاسٹ بولرکولگادیا گیا، جس نے باؤنسرز کے ذریعے دھمکانا چاہا مگرعباس علی بیگ اپنے انداز میں ہک ، پل کھیلتے رہے اور سنچری مکمل کرلی۔مایہ نازفاسٹ بولرٹرومین کا سامنا بھی اعتماد سے کیا۔ اس دورے میں بھارتی ٹیم کی خوب درگت بنی ، جیساکہ غیرملکی دوروں پراب بھی بنتی ہے،مگرعباس علی بیگ کے نام کا ڈنکا بج گیا۔بھارتی تاریخ دان مہیربوس اپنی کتاب "A Maidan View: The Magic of Indian Cricket" میں لکھتے ہیں کہ عباس علی بیگ کی کارکردگی نے انھیں فوراً ہیرو کا درجہ دلادیا،اوروہ ایسے کرکٹرکے طور پرمتعارف ہوگئے،جو اینٹ کا جواب پتھرسے دے سکتا، یعنی بولراگرباؤنسرپھینکے گا تو جواباًاسے ہک کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عباس علی بیگ کو جب بھارتی ٹیم میں شامل کیا گیا ،وہ انگلینڈ میں موجود تھے، جہاں وہ آکسفرڈ کی طرف سے شاندار کھیل کے ذریعے اپنا لوہا منوا کر سمرسٹ کاؤنٹی کرکٹ کلب کا حصہ بننے جارہے تھے۔کیتھ ملر نے بھی ان کو بھارتی ٹیم میں شامل کرنے پرزوردیا ۔ انگلینڈ کے بعد بھارتی ٹیم نے ہوم سیریز میں آسٹریلیاکے مدمقابل ہوناتھا۔ رچی بینو کی قیادت میں بہترین بولروں سے لیس آسٹریلین ٹیم کے خلاف بھی عباس علی بیگ نے اچھا کھیل پیش کیا۔بمبئی میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں انھوں نے نصف سنچری بنائی اورمیچ ڈرا کرنے میں نمایاں کرداراداکیا۔عباس علی بیگ کی اٹھان کی بنا پرماہرین ان کے تابندہ مستقبل کی گواہی دے رہے تھے، مگرپھراچانک سب کچھ پلٹ گیا ۔وہ ہیرو سے زیرو بن گئے۔ 1960ء میں انڈیا پاکستان ٹیسٹ سیریز میں خراب کارکردگی نے ان کی منزل کھوٹی کردی۔بند دماغوں اور تنگ نظروں نے عباس علی بیگ کے جلد آؤٹ ہونے کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے مہمان ٹیم سے ان کی درپردہ ہمدردی کا شاخسانہ قراردیا۔

ان پرخوب لے دے ہوئی۔ہرچند کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان 1965ء کی جنگ سے پانچ برس پہلے کی بات ہے، لیکن اس وقت بھی تقسیم کے وقت کی مسموم فضا کے اثرات باقی تھے۔اس ماحول سے کھلاڑی بھی دباؤ میں رہتے۔ ہار کے خوف سے دونوں ٹیمیں دفاعی حکمت عملی اپناتیں، اور ٹیسٹ میچ ڈرا ہوتے، نتیجتاًبیچارے شائقین کوبیزارکن کرکٹ دیکھنے کو ملتی۔ 1955ء میں پاکستان میں سیریز ہوئی تو بے نتیجہ اور ایسا ہی بھارت میں ہونے والی1960ء کی سیریز میں ہوتا ہے۔اس عرصے میں ہندوستانی مسلمان کھلم کھلاپاکستانی کرکٹ ٹیم کی سپورٹ کرتے، جس پرہندو برافروختہ ہوتے۔ہندوستانی مسلمانوں کے رویے میں1971ء کے بعد تبدیلی آئی، جب وہ پاکستان سے مایوس ہوگئے اور ہماری کرکٹ ٹیم کے لیے ان کی طرف سے ہمدردی کے ماضی جیسے مظاہردیکھنے میں نہ آئے، گوکہ حمایتی افراد بعدازاں بھی موجود رہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم جو 1979ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے، اپنی کتاب ''اقبال قاسم اور کرکٹ''میں ہندوستان سے ہارنے کے بعد وہاں کے مسلمانوں میں پائی جانے والی مایوسی کے بارے میں لکھتے ہیں''انڈیا کے بڑے بڑے شہروں کے لوگ ہم سے ملتے اور ہماری شکست پرحیرت کا اظہار کرتے، خاص طورپرانڈین مسلمانوں کو اس شکست کا کافی ملال تھا۔اس شکست سے ان کو بڑی شرمندگی ہوئی،اس کی وجہ پاکستان سے ان کی جذباتی وابستگی ہے، اس لیے ان سب کو گہرا صدمہ ہواخصوصاًاس وقت جب ہندؤوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں،اور مسلمانوں کے علاقہ میں جلوس نکالے، بہت سے مسلمان اس شکست پرروپڑے۔مجھ سے جس انڈین مسلمان کی ملاقات ہوئی اس نے بس یہی درخواست کی کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو سمجھائیں آپ لوگ ہماری عزت رکھیں، ہاریں نہیں، جیتیں۔میں ان کو بہت سمجھاتا کہ ہارجیت تو کھیل کا حصہ ہے،مگر وہ اتنے جذباتی ہوا کرتے کہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔''

پاکستان ٹیم کے بہی خواہ مسلمان اب بھی موجود ہوں گے مگرایک توان کی تعداد بہت کم ہوگی، اوردوسرے ان کے لیے اپنے جذبات کاسرعام اظہاربھی ممکن نہ ہوگا۔یہ اور بات کہ ہندؤوں کی جانب سے مسلمانوں پرپاکستان کی حمایت کے الزام کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔کچھ دن قبل ہی تو ندا کرمانی اپنی کتاب Questioning the 'Muslim Woman': Space, Identity and Insecurity in an Urban Locality کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتارہی تھیں کہ تحقیق کے لیے دہلی کے جس خاص علاقے ذاکرنگر کو انھوں نے فوکس کیا، وہاں کے مسلمانوں نے انھیں بتایا کہ ان پر پاکستانی ٹیم کوسپورٹ کرنے کا الزام لگتا ہے۔اب توخیر حالات ہی اور ہیں مگرجس زمانے میں ہندوستانی مسلمان پاکستانی ٹیم کی حمایت کرتے ہوں گے، اس وقت بھی یہ قرین قیاس نہیں کہ بھارتی ٹیم کا کوئی مسلمان کھلاڑی پاکستان کے خلاف جان بوجھ کرخراب کھیل پیش کرنے کا تصورکرے۔



کسی پروفیشنل کھلاڑی سے ایسی توقع عبث ہے۔اور بالفرض محال اگرکوئی ایسا کربھی گزرے توبھی کسی کا کیا لے گا،اپنے پاؤں پرخود ہی کلہاڑی مارے گا، کہ ٹیم میں بقاکا انحصارتوکارکردگی پر ہوتا ہے۔لیکن نام نہاد قوم پرستی کے ماروں کو اس قدر فرصت کہاں کہ وہ غوروفکرسے کسی نتیجے پرپہنچیں،انھیں تو بس الزام دھرنا ہوتا ہے۔افسوس!عباس علی بیگ جیسا باصلاحیت بیٹسمین اندھی قوم پرستی کی بھینٹ چڑھااورصرف دس ٹیسٹ میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرسکا۔ بیمارذہن رکھنے والوں کو کون سمجھاتا کہ بڑے بڑے بیٹسمین بھی ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔کتنے ہی ہندوکھلاڑی ایسے رہے ہیں، جن کا چراغ پاکستانی ٹیم کے آگے نہ جل سکا، توپھران کی اس ناکامی کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔زہریلے خطوط اورتاروں کے ذریعے عباس علی بیگ کی حب الوطنی کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے۔اس پروہ دباؤ میں آگئے۔کلکتہ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں حسیب احسن کے ہاتھوں آؤٹ ہونے پرتنقیدکا کوڑاان پرخوب برسا۔وہ ٹیم سے ڈراپ کردیے گئے، اور ان کا کیرئیرایک طرح سے انجام کو پہنچ ہی گیا۔آنے والے برسوں میں وہ رانجی ٹرافی اور دلیپ ٹرافی میں رنزوں کا انبارلگاتے رہے ،مگرسلیکٹروں کا دھیان ان کی طرف نہ گیا۔ 1966ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کی بنا پرآخرکار ویسٹ انڈیزکے خلاف سیریزمیں عباس علی بیگ کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔دوٹیسٹ میچ وہ کھیلے مگرکچھ خاص نہ کرسکے، اور پھراس کے بعد کبھی دوبارہ ٹیسٹ نہ کھیل سکے ۔ 1971ء میں انگلنیڈ کا دورہ کرنے والی بھارتی ٹیم کا وہ حصہ تھے، مگرانھیں فائنل الیون کا حصہ نہ بنایا گیااور اشوک منکڈ کو مسلسل ناکامی کے باوجود ان پرترجیح دی گئی۔ دراصل عباس علی بیگ کا کیرئیر پاکستان کے خلاف سیریز میں اسکورنہ کرنے پر ہونے والی تنقید کے بعد سنبھل نہ سکا۔۔عباس علی بیگ کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی، اس کی بنیاد پرکرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفوانھیں انڈین کرکٹ کے tragic figuresمیں شمارکرتی ہے۔

چھوٹی سوچ جیت گئی اور عباس علی بیگ ہارگئے۔ عباس علی بیگ کے ساتھ اس ناانصافی کے بعد نواب منصورعلی خان بھارتی ٹیم کا حصہ بنے۔جلد ہی ان کو کپتان بنادیا گیا۔چھیالیس ٹیسٹ میچ جو وہ کھیلے، ان میں سے چالیس میںبھارتی ٹیم کی کپتان رہے۔سلیم درانی بارہ تیرہ سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے۔یہ دونوں عباس علی بیگ کے برعکس نام نہاد حب الوطنی کی چھلنی سے اس لیے آساں گزرگئے، کہ اپنے کیرئیرکے دوران ان کے پاکستان سے کھیلنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئی،کیوں کہ اس عرصے میںدونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤکے باعث کرکٹ سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ سترہ برس کے تعطل کے بعد1978میں دونوں ٹیموں کا سامنا ہوا تومذکورہ دونوں کرکٹرریٹائرڈ ہوچکے تھے اور یوں بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، مگرپھربھی1979ء میں پاکستان ٹیم کے دورہ بھارت کے دوران بمبئی ٹیسٹ میں وکٹ کیپرسید کرمانی کی کارکردگی کو بھی تنگ نظری کی عینک سے دیکھنے کی کوشش ہوئی ضرور مگربات چلی نہیں۔


اس کے بعد بھی بھارتی ٹیم میں مسلمان کھلاڑی آتے رہے، اور اس وقت جب یہ سطوررقم کی جارہی ہیں، بھارتی ٹیم میں ظہیرخان اور محمد شامی شامل ہیں۔مسلمان کھلاڑیوں میں اظہرالدین کانام نمایاں تررہا، جو دس برس بھارتی ٹیم کے کپتان رہے۔ ان کا تعلق بھی عباس علی بیگ کی طرح حیدرآباد دکن سے ہے۔کرکٹ کے حوالے سے اس زرخیزسرزمین نے ہندوستان کی طرح پاکستان کو بھی آصف اقبال کی صورت میں ٹیسٹ کپتان دیا،جو ساٹھ کی دہائی میں ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ آصف اقبال اور عباس علی بیگ دونوں فرسٹ کلاس کرکٹ میں ساتھی رہے۔1960ء میں آصف اقبال ساؤتھ زون کی طرف سے پاکستانی ٹیم کے خلاف سائیڈ میچ بھی کھیلے۔

بات ہورہی تھی متعصبانہ اورتنگ سوچ کی، بھلا تواسی میں ہے کہ ایسی علتوں کو کھیل سے دورہی رکھا جائے مگرنفرت پسند اپنا گند ڈالنے سے کہاں بازآتے ہیں۔ انتہا پسند اور متعصب بال ٹھاکرے،جن کا مسلمانوں پربرسنا شیوہ رہا۔ ان موصوف نے ایک بارفرمایا'' یہ مسلمانوں کی ڈیوٹی ہے ، وہ ثابت کریں کہ وہ پاکستانی نہیں۔بھارت جب کبھی بھی ہارے ، میں ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھناچاہتا ہوں۔''البتہ ایک دفعہ اس کٹرپنتھی نے اظہرالدین کی کارکردگی سے خوش ہوکرانھیں نیشنلسٹ مسلمان قراردیا۔1998ء میں لال کرشن ایڈوانی نے انتخابی جلسے میں مسلمان نوجوانوں کو محمد اظہرالدین اور اے آررحمان کے نقش قدم پرچلنے کا مشورہ دیا۔ اظہرالدین پرجب میچ فکسنگ کے الزامات لگے تب انھیں بھی لگاکہ مسلمان ہونے کے باعث وہ نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے جنوری 2001 میں پہلی بارمیچ فکسنگ کے الزامات کے حوالے سے گفتگوکی تو کہا کہ بمبئی لابی حسد کی وجہ سے ان کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔

بھارت کے اس سابق کپتان نے یہ سوال اٹھایا''کوئی بمبئی جم خانہ کلب کے لاکرزسے مختلف کرنسیوںمیں ملنے والے سنیل گواسکرکے سترلاکھ روپے کی بات نہیں کرتا۔'' خیریہ معاملہ ہندومسلم کا نہیں تھابلکہ اظہرالدین اپنی کھال بچانے کے لیے ایسی باتیں کررہے تھے، آخردس برس وہ مسلمان ہوکرکپتان بھی تو رہے،جو ہندوستانی معاشرے کی کشادہ ظرفی کی دلیل ہے۔ ممتازکرکٹراور مبصر سنیل گواسکر کا1992ء کے ورلڈ کپ کے دوران اپنے تبصروں میں بڑھ چڑھ کرپاکستانی ٹیم کی حمایت کرنا پاکستانی عوام کے دل میں گھرکرگیا تھا۔ورلڈ کپ کی خوشی منانے کے حوالے سے کراچی میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے سنیل گواسکرکو مدعو کیا گیا تو شیو سینا نے انھیں پاکستان جانے سے منع کیا لیکن وہ مانے نہیں۔ ان کا موقف تھا کہ وہ پاکستان ایک ایشین اور کرکٹرکی حیثیت سے جارہے ہیں۔

ہندوستان کی طرح ہمارے ہاں بھی بعض اوقات معاملات کوتنگ نظری سے دیکھا جاتا ہے۔بہت سی مثالوں میں سے صرف ایک کا ہم ذکرکردیتے ہیں۔2011ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل سے قبل عظیم کرکٹر عمران خان نے بھارتی ٹیم کو پاکستان کے مقابلے میں فیورٹ قراردیا۔اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پران کا یہ دیانت دارانہ تجزیہ تھا، اوریقیناً پاکستانی ہونے کے ناتے وہ دل سے توپاکستان کی کامیابی کے خواہاںہی ہوں گے۔کسی ایک کوفیورٹ ٹیم کہنے سے مراد یہ تھوڑی ہوتی ہے کہ وہ ٹیم ہی لازماً جیتے گی بلکہ یہاں زیادہ امکان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔میچ کے نتیجے نے ثابت بھی کردیا کہ عمران خان کا تجزیہ درست تھا۔ہمارے ہاں چونکہ عقل کے بجائے جذبات پرزور زیادہ ہوتا ہے، اس لیے عمران خان نے بھارتی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا توان پرتنقید کا در کھل گیا۔ اور تو اور ان کے سیاسی مخالفین بھی پیچھے نہ رہے،اوران کی حب الوطنی کو معرض بحث میں لائے، جو نہایت غیرمناسب بات تھی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر پرویز رشید نے، جو ان دنوں وزیراطلاعات کے منصب پرفائز ہیں، بیان جاری فرمایا:

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھارتی ٹیم کو فیورٹ قرار دینا افسوسناک اور سمجھ سے بالاتربات ہے، مزنگ چونگی کی ریلی میں پاکستانی عوام سے جیت کی دعا کرنے کی اپیل کرنے والے عمران خان کو ہندوستان پہنچتے ہی اب کیسے بھارتی فتح نظرآنا شروع ہوگئی ہے۔ایک پاکستانی سیاسی رہنما کو بھارت کی فتح کی پیشگوئی کرنا ہرگززیب نہیں دیتا، کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نے اپنی ٹیم اور موجودہ کپتان پرعدم اعتماد کرکے 16کروڑ پاکستانی عوام کے جذبات کی توہین کی ہے۔ عمران خان میڈیا میں'ان'رہنے کے لیے ایسی توتا فالیں نہ نکالیں، پاکستان ٹیم انشاء اللہ جیتے گی۔ عمران خان بھارت جاکرپاکستانیت کا لبادہ کیوں اتاردیتے ہیں، وہ گنگا کے دیس میں ہی الٹی گنگا بہانے کی کوشش کررہے ہیں۔'' ان دنوں پرویزرشید کی پارٹی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کے سلسلے میں دبلی ہوئی جارہی ہے لیکن جب تک اس عامیانہ سوچ کا، جس کا حوالہ ہم نے اوپردیا ہے، اظہارہوتارہے گا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نارمل نہیں ہوں گے۔قصہ مختصریہ کہ مبنی برتعصب رویہ سرحد کے اس پار ہو یا اس پار اس کی بہرصورت مذمت کی جانی چاہیے، کہ دونوں معاشروں کا بھلا اسی میں ہے ، متعصب آدمی ، کسی دوسرے گروہ یا قبیلے کی بعد میں مگر پہلے اپنی جڑ کاٹتا ہے۔ علامہ اقبال کا سبق ہے:

شجرہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمراس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

٭ پاکستان کے سابق کپتان جاوید برکی آکسفرڈ کرکٹ ٹیم میں عباس علی بیگ کے ساتھی رہے۔کرک انفو کو 2002 ء میں اپنے انٹرویو میں انہوں نے عباس علی بیگ سے متعلق اپنی ایک یاد کا ذکریوں کیا: ''یارکشائرکے ساتھ ایک میچ میں آکسفرڈ کے سترہ رنز پردوکھلاڑی آؤٹ ہوگئے اورعباس علی بیگ میرے پارٹنر کی حیثیت سے کھیلنے میدان میں اترے،توٹرومین نے دومتواتر باؤنسروں سے ان کا استقبال کیا،جن کو عباس علی بیگ نے باؤنڈری کی راہ دکھائی۔تیسری گیندجو اندرآتا ہوا یارکرتھا،اس کے ساتھ بھی پہلی دو گیندوں جیسا سلوک ہوا۔بیگ نے اس میچ میں 130 رنز اسکور کیا۔اس سیزن میں اس نے دو عظیم فاسٹ بولروںبرائن سٹیتھم اور کیتھ ملرکا سامنا کرتے ہوئے دو خوبصورت نصف سنچریاں بھی اسکور کیں۔ملر نے اپنے اخباری کالم میں لکھا کہ انھوں نے عباس علی بیگ جیسی عمدہ بیٹنگ طویل عرصے کے بعد دیکھی ہے۔ اگلے سیزن میںوہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی بھارتی ٹیم کا حصہ تھے۔زبردست سنچری کے ساتھ انھوں نے اپنے کیریئر کا بڑا دھماکہ خیزآغازکیا۔ ''

آل ٹائم حیدرآباد الیون:٭ حید رآباد کی کرکٹ کے حوالے سے بڑی منفرد پہچان رہی ہے اور بڑے نامی گرامی کرکٹرزاس خطۂ زمیں نے پیدا کئے۔ممتاز بھارتی تاریخ دان رام چندر گوہا نے اپنی کتاب"The States of Indian Cricket" میں آل ٹائم حیدرآباد الیون کے لیے جن کھلاڑیوں کو چنا، ان کے نام سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیسے کیسے نامورانِ کرکٹ حیدرآباد کی ٹیم میں شامل رہے۔ ایم ایل جیسمہا،عباس علی بیگ،منصورعلی خان پٹودی،وی وی ایس لکشمن، محمد اظہرالدین،آصف اقبال،سید عابد علی،کرشنا مورتی،این ایس یادو،وینکٹا پاتھی راجو، غلام احمد۔



پرستار خاتون کی بے باکی:٭ 1960ء میں آسٹریلیا کے خلاف بمبئی ٹیسٹ کی دوسری اننگزکے دوران عجب واقعہ پیش آیا۔چائے کا وقفہ ہونے پرعباس علی بیگ پویلین لوٹ رہے تواچانک فراک پہنے بیس ایک سال کی لڑکی نارتھ اسٹینڈسے برآمد ہوئی ، اور جنگلہ پھلانگ کر فرط جذبات سے عباس علی بیگ کا گال چوم لیا۔لڑکی کی اس بیباکی نے وہاں موجود افراد کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔وجے مرچنٹ جو اس وقت کمنٹری باکس میں موجود تھے، کہنے لگے کہ انھوں نے اس گراؤنڈ پررنزوں کا ڈھیرلگایا لیکن کبھی کسی خاتون نے ان کی جناب میں ایسے التفات کا مظاہرہ نہ کیا۔اس واقعہ نے عباس علی بیگ کی مقبولیت کا دائرہ وسیع کردیا۔اس قصے کا ذکربعد میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی یہ تحریروں میں کبھی کبھار جگہ بنالیتا ہے۔کچھ ہی عرصہ قبل نواب منصور علی خان پٹودی کے بارے میں''نواب آف کرکٹ''کے نام سے کتاب چھپی تواس میں کرکٹ کے رسیا ممتاز اداکارنصیرالدین شاہ نے پٹودی پرمضمون میں بچپن میں کرکٹ سے اپنے عشق کی داستان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ عباس علی بیگ کی خاتون کے ساتھ اتری یادگارتصویرکاٹ کرانھوں نے اپنی اسکریپ بک میں جڑ لی تھی۔
Load Next Story