بُک شیلف
ثالث کے تا زہ شما رے میں گیارہ افسانے شامل ہیں۔
کچھ لکھ نہ سکے' کچھ لکھ بھی گئے (طنز و مزاح)
مصنف:ایس ایچ جعفری
ناشر:الحمد پبلی کیشنز G-42 گلشن اردو بازار، گلشن اقبال کراچی
صفحات: 176،قیمت200:روپے
ایس ایچ جعفری، بنیادی طور پر ایک بینکر ہیں۔ طویل عرصہ بینکنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ انھیں ادب سے گہرا شغف ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ان کی دوسری نثری تصنیف ہے جس کے مطالعے کے بعد پہلی بات جو مشاہدے میں آتی ہے یہ ہے کہ ان کو لکھنے کا شوق ہے اور وہ اپنے مشاہدات، تجربات اور کیفیات کو نثر میں رقم کرتے رہتے ہیں۔ ''عشق بیماری'' سے لے کر ''شگوفے'' تک اس کتاب میں مختلف طرز فکر کے 27 مضامین سمیت ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور صاحب تصنیف ایس ایچ جعفری کے مضامین شامل ہیں۔ زیرنظر کتاب پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایس ایچ جعفری پختہ لکھاری نہیں ہیں اور ان کے مضامین میں جھول ملتا ہے۔ کچھ میں منظر کشی کرتے ہوئے غیرحقیقی بھی ہوجاتے ہیں، جیسے مضمون ''پہلی کار'' میں جیسا ماحول انھوں نے کھینچا ہے۔
یہ حقیقت سے دور بھی لگا اور پیدا کردہ مزاح پر ہنسی بھی نہیں آئی۔ بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پاکستان سے باہر بھی تعیناتی رہی۔ چناںچہ سفر نامے مضامین ''ہند یاترا''، ''لندن'' اور ''لکسمبرگ'' میں ملتے ہیں جو معلومات افزا ہیں۔ کچھ مضامین اس کتاب میں ایسے ہیں جن میں ایس ایچ جعفری کا قلم روانی سے چلتا محسوس ہوا اور ان کا یہ طرز تحریر کافی مضبوطی اور شگفتگی لیے ملا، ان مضامین میں ''شریک حیات''،''انجمن انسداد قبض''، ''پھنے خان''، ''ضابطہ اخلاق''، اور ''شگوفے'' شامل ہیں۔ ایس ایچ جعفری نے طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ جس کرب کے ساتھ ماحول کی کثافت کو محسوس کیا اسے بھی کھلے دل سے لکھا ہے۔ مجموعی طور پر صرف اتنی رائے دی جاسکتی ہے کہ ''کچھ لکھ نہ سکے، کچھ لکھ بھی گئے'' ایس ایچ جعفری کے محسوسات، خیالات اور لفظوں کا اجتماع ہے اور یہ بھی بڑی بات ہے کہ وہ لکھنا جانتے ہیں اور انھوں نے اپنے مشاہدات، خیالات، احساسات، محسوسات کو لفظوں میں پرو کر کتابی شکل عطا کردی۔
خواب دان (شعری مجموعہ)
شاعر : اختر رضا سیلمی
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز 46/2 فرنگ روڈ لاہور
سال اشاعت2013:ء ،صفحات:124، قیمت : 200 روپے
جواں سال شاعر اختر رضا سیلمی نے اپنے ا شعار کی بدولت بہت کم وقت میں دنیائے ادب میں ایک اہم مقام بنایا ہے۔ نیا اور معتبر لفظ تخلیق کرنے والے تخلیق کاروں کی فہرست میں ان کے نام کا شامل ہونا یقیناً ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ زیر نظر برائے تبصرہ مجموعہ ''خواب دان،، مجموعی طورپر 57 نظموں پر مشتمل شعری تخلیق ہے۔ اپنی غزلوں کی طرح نظموں میں بھی اختر رضا نے کمال دکھائے ہیں اور بڑی متاثر کن نظمیں تخلیق کی ہیں۔ خاص کر ''منظر اک بلندی پر''، ''کیا بشارت کے زمانے جاچکے ہیں''، ''ناوقت میں اثبات کا وجود''، ''اپنے آبائی مکان کے دروازے پر''،''پرومیتھیں کے حضور میں''، ''نظم دکھ تو نہیں ہے''، ''ایک نظم درختوں کے لیے''، ''البیر کا میو کے لیے''، ''ایک تصویر''، ''البلاغ دو منظر''، ''تعبیر''، ''دوسرا جنم'' وغیرہ۔ اپنی غزلوں کی طرح اپنی نظموں میں بھی اختر رضا نے ماحول کی گھٹن، منافقانہ رویے اور زندگی میں پیش آنے والے مشاہدات و تجربات کو سمیٹا ہے، اس کا مطالعہ اور اس کا مشاہدہ دونوں اس کی نظموں کا خاصہ ہیں، مثلاً ''نظم دکھ تو نہیں ہے،، کے درج ذیل لائنیں ملاحظہ ہوں:
نظم تو خواب ہے:
ایک شاعر کا خواب
جسے بس وہی آدمی دیکھ سکتا ہے
جو صبح دم خشک ٹہنی پہ لرزیدہ شبنم کے قطرے کا دکھ جانتا ہے
ضیاء المصطفیٰ ترک نے اپنی رائے میں لکھا ہے،''مجھے اختر رضا سیلمی بطور نظم گو، اپنی غزل پر حاوی آتا دکھائی دے رہا ہے۔'' میں اس رائے سے اختلاف کروں گا۔ کوئی شک نہیں کہ اختر رضا سیلمی نے اچھی نظمیں تخلیق کی ہیں، مگر اس کی بنیاد شناخت اس کی غزل ہے اور وہ کسی بھی طرح غزل سے دامن نہیں چھڑاسکتا، اس کا واضح ثبوت ''خواب دان،، میں شامل چند نظمیں ہیں، جہاں غزل مکمل طور پر حاوی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
بہر حال نظم ہو یا غزل، ہر جگہ اختر رضا نے اپنے ڈکشن کو برقرار رکھا ہے اور اپنی شاعری سے دوسروں کو مایوس نہیں کرتا۔ کتاب معروف مصور وصی حیدر کے خوب صورت معنی خیز ٹائیٹل سے آراستہ ہے اور اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔
ھک وک جو سفر (افسانے)
افسانہ نگار : نسیم انجم
مترجم :ذوالفقار گادھی
ناشر:ادام پبلی کیشن، دادو
صفحات:175
قیمت : 300 روپے
ھک وک جو سفر، پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کتاب کے ہمیں دو نام ملتے ہیں، ٹائیٹل پر ''ھک وک جو سفر (ایک قدم کا سفر) لکھا ملتا ہے جب کہ اندر مرکزی ٹائیٹل کے صفحے پر، ان سائیڈ صفحہ حتیٰ کہ مضامین میں بھی کتاب کا نام ''سوا نیزی سج،، یعنی سوا نیزے پر سورج ملتا ہے۔ مصنف کس نام پہ زور دیتا ہے یہ الگ بات ہے، لیکن کتاب کے اندر صفحات پر موجود تفصیلات سے اسے ہم ''سوا نیزی سج،، ہی کہیں گے، بنیادی طور پر یہ نسیم انجم کے اردو کے 18افسانوں کا سندھی زبان میں ترجمہ ہے، جسے خیرپور ناتھن شاہ دادو کے معروف سندھی لکھاری، شاعر، ذوالفقار گادھی نے ترتیب دیا ہے۔ نسیم انجم معروف افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نگار ہیں۔ ان کی تحریروں میں پختگی، ندرت آمیزی نے کم و قت میں انھیں مضبوط مقام پر ادب میں لاکھڑا کیا ہے۔ ذوالفقار گادھی کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کتاب کو دیکھ کر سب سے پہلی خوشی یہ ہوتی ہے کہ ایک سندھی ادیب نے اردو ادیب کے افسانوں کو سندھی زبان کا پیراہن عطا کیا اور اسے سندھی کے ان قارئین تک پہنچایا جو اردو پڑھ نہیں سکتے۔ ذوالفقار گادھی نے 18افسانے ترجمہ کیے ہیں اور نہایت باریک بینی اور مشاہدے کے ساتھ کہ نسیم انجم کے اصل افسانے کی روح متاثر نہیں ہوئی اور مترجم نے مترجم کا حق بھی ادا کردیا۔ ذوالفقار گادھی نے اس کتاب کا انتساب اپنے دو گہرے دوستوں ''مشتاق گرگڑی'' اور ''اختر ملاح،، کے نام کیا ہے۔
ثالث (ادبی رسالہ)
رسالہ ''ثالث'' (۲) جنوری 2014 تا مارچ 2014زندہ اور متحرک تخلیق کی تمام آہٹوں، دھڑکنوں اور لہروں کا حسین استعارہ ہے۔ ثالث کے تا زہ شما رے میں گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اقبال حسن خاں، قاضی طاہر حیدر، قرب عباس، ابرارمجیب، سلمیٰ جیلانی، طلعت زہرا، زین سالک، ثناء غوری، امین بھایانی، فرحین جمال، نوشابہ خاتون، سب ہی کے افسانے عمدہ اور معیاری ہیں اور حالات، حادثات، المیے اور وقوعے کو آئینہ عطا کرتے ہیں۔عصری منظر ناموں کو بڑے دل کش اور پرکشش طرز ادا کے سا تھ پیش کر نے کی سعی کی گئی ہے۔
مہمان اداریہ شفیق احمد شفیق کا ہے۔ انہوں نے ادب میں عصری آگہی اور ادیب کے عصری عرفان کی اہمیت کو مختلف تمثیلوں سے سپرد قلم کیا ہے۔ آج کے ادبی منظر نا موں کے حوالے سے یہ اداریہ کا فی اہمیت کا حا مل ہے۔اس رسالے میں تنقید اور خصوصی مطالعہ کے باب میں پانچ مضامین شامل ہیں۔ اس شمارے میں ایک انٹرویو اور کچھ تبصرے بھی شامل ہیں۔ یہ انٹرویو ''راشد اشرف سے فرزانہ اعجاز کا لیا ہوا ہے، جو محض رسمی نہیں بلکہ بہت سی معلومات کو اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہے ۔
رسالے کے مدیران ''اقبال حسن آزاد اور ثالث آفاق صالح '' بجا طور پر مستحق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس رسالے کے ذریعے ادب کو نئی تازگی اور نئی توانائی عطا کر نے کا حوصلہ کیا ہے۔
مصنف:ایس ایچ جعفری
ناشر:الحمد پبلی کیشنز G-42 گلشن اردو بازار، گلشن اقبال کراچی
صفحات: 176،قیمت200:روپے
ایس ایچ جعفری، بنیادی طور پر ایک بینکر ہیں۔ طویل عرصہ بینکنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ انھیں ادب سے گہرا شغف ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ان کی دوسری نثری تصنیف ہے جس کے مطالعے کے بعد پہلی بات جو مشاہدے میں آتی ہے یہ ہے کہ ان کو لکھنے کا شوق ہے اور وہ اپنے مشاہدات، تجربات اور کیفیات کو نثر میں رقم کرتے رہتے ہیں۔ ''عشق بیماری'' سے لے کر ''شگوفے'' تک اس کتاب میں مختلف طرز فکر کے 27 مضامین سمیت ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور صاحب تصنیف ایس ایچ جعفری کے مضامین شامل ہیں۔ زیرنظر کتاب پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایس ایچ جعفری پختہ لکھاری نہیں ہیں اور ان کے مضامین میں جھول ملتا ہے۔ کچھ میں منظر کشی کرتے ہوئے غیرحقیقی بھی ہوجاتے ہیں، جیسے مضمون ''پہلی کار'' میں جیسا ماحول انھوں نے کھینچا ہے۔
یہ حقیقت سے دور بھی لگا اور پیدا کردہ مزاح پر ہنسی بھی نہیں آئی۔ بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پاکستان سے باہر بھی تعیناتی رہی۔ چناںچہ سفر نامے مضامین ''ہند یاترا''، ''لندن'' اور ''لکسمبرگ'' میں ملتے ہیں جو معلومات افزا ہیں۔ کچھ مضامین اس کتاب میں ایسے ہیں جن میں ایس ایچ جعفری کا قلم روانی سے چلتا محسوس ہوا اور ان کا یہ طرز تحریر کافی مضبوطی اور شگفتگی لیے ملا، ان مضامین میں ''شریک حیات''،''انجمن انسداد قبض''، ''پھنے خان''، ''ضابطہ اخلاق''، اور ''شگوفے'' شامل ہیں۔ ایس ایچ جعفری نے طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ جس کرب کے ساتھ ماحول کی کثافت کو محسوس کیا اسے بھی کھلے دل سے لکھا ہے۔ مجموعی طور پر صرف اتنی رائے دی جاسکتی ہے کہ ''کچھ لکھ نہ سکے، کچھ لکھ بھی گئے'' ایس ایچ جعفری کے محسوسات، خیالات اور لفظوں کا اجتماع ہے اور یہ بھی بڑی بات ہے کہ وہ لکھنا جانتے ہیں اور انھوں نے اپنے مشاہدات، خیالات، احساسات، محسوسات کو لفظوں میں پرو کر کتابی شکل عطا کردی۔
خواب دان (شعری مجموعہ)
شاعر : اختر رضا سیلمی
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز 46/2 فرنگ روڈ لاہور
سال اشاعت2013:ء ،صفحات:124، قیمت : 200 روپے
جواں سال شاعر اختر رضا سیلمی نے اپنے ا شعار کی بدولت بہت کم وقت میں دنیائے ادب میں ایک اہم مقام بنایا ہے۔ نیا اور معتبر لفظ تخلیق کرنے والے تخلیق کاروں کی فہرست میں ان کے نام کا شامل ہونا یقیناً ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ زیر نظر برائے تبصرہ مجموعہ ''خواب دان،، مجموعی طورپر 57 نظموں پر مشتمل شعری تخلیق ہے۔ اپنی غزلوں کی طرح نظموں میں بھی اختر رضا نے کمال دکھائے ہیں اور بڑی متاثر کن نظمیں تخلیق کی ہیں۔ خاص کر ''منظر اک بلندی پر''، ''کیا بشارت کے زمانے جاچکے ہیں''، ''ناوقت میں اثبات کا وجود''، ''اپنے آبائی مکان کے دروازے پر''،''پرومیتھیں کے حضور میں''، ''نظم دکھ تو نہیں ہے''، ''ایک نظم درختوں کے لیے''، ''البیر کا میو کے لیے''، ''ایک تصویر''، ''البلاغ دو منظر''، ''تعبیر''، ''دوسرا جنم'' وغیرہ۔ اپنی غزلوں کی طرح اپنی نظموں میں بھی اختر رضا نے ماحول کی گھٹن، منافقانہ رویے اور زندگی میں پیش آنے والے مشاہدات و تجربات کو سمیٹا ہے، اس کا مطالعہ اور اس کا مشاہدہ دونوں اس کی نظموں کا خاصہ ہیں، مثلاً ''نظم دکھ تو نہیں ہے،، کے درج ذیل لائنیں ملاحظہ ہوں:
نظم تو خواب ہے:
ایک شاعر کا خواب
جسے بس وہی آدمی دیکھ سکتا ہے
جو صبح دم خشک ٹہنی پہ لرزیدہ شبنم کے قطرے کا دکھ جانتا ہے
ضیاء المصطفیٰ ترک نے اپنی رائے میں لکھا ہے،''مجھے اختر رضا سیلمی بطور نظم گو، اپنی غزل پر حاوی آتا دکھائی دے رہا ہے۔'' میں اس رائے سے اختلاف کروں گا۔ کوئی شک نہیں کہ اختر رضا سیلمی نے اچھی نظمیں تخلیق کی ہیں، مگر اس کی بنیاد شناخت اس کی غزل ہے اور وہ کسی بھی طرح غزل سے دامن نہیں چھڑاسکتا، اس کا واضح ثبوت ''خواب دان،، میں شامل چند نظمیں ہیں، جہاں غزل مکمل طور پر حاوی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
بہر حال نظم ہو یا غزل، ہر جگہ اختر رضا نے اپنے ڈکشن کو برقرار رکھا ہے اور اپنی شاعری سے دوسروں کو مایوس نہیں کرتا۔ کتاب معروف مصور وصی حیدر کے خوب صورت معنی خیز ٹائیٹل سے آراستہ ہے اور اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔
ھک وک جو سفر (افسانے)
افسانہ نگار : نسیم انجم
مترجم :ذوالفقار گادھی
ناشر:ادام پبلی کیشن، دادو
صفحات:175
قیمت : 300 روپے
ھک وک جو سفر، پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کتاب کے ہمیں دو نام ملتے ہیں، ٹائیٹل پر ''ھک وک جو سفر (ایک قدم کا سفر) لکھا ملتا ہے جب کہ اندر مرکزی ٹائیٹل کے صفحے پر، ان سائیڈ صفحہ حتیٰ کہ مضامین میں بھی کتاب کا نام ''سوا نیزی سج،، یعنی سوا نیزے پر سورج ملتا ہے۔ مصنف کس نام پہ زور دیتا ہے یہ الگ بات ہے، لیکن کتاب کے اندر صفحات پر موجود تفصیلات سے اسے ہم ''سوا نیزی سج،، ہی کہیں گے، بنیادی طور پر یہ نسیم انجم کے اردو کے 18افسانوں کا سندھی زبان میں ترجمہ ہے، جسے خیرپور ناتھن شاہ دادو کے معروف سندھی لکھاری، شاعر، ذوالفقار گادھی نے ترتیب دیا ہے۔ نسیم انجم معروف افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نگار ہیں۔ ان کی تحریروں میں پختگی، ندرت آمیزی نے کم و قت میں انھیں مضبوط مقام پر ادب میں لاکھڑا کیا ہے۔ ذوالفقار گادھی کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کتاب کو دیکھ کر سب سے پہلی خوشی یہ ہوتی ہے کہ ایک سندھی ادیب نے اردو ادیب کے افسانوں کو سندھی زبان کا پیراہن عطا کیا اور اسے سندھی کے ان قارئین تک پہنچایا جو اردو پڑھ نہیں سکتے۔ ذوالفقار گادھی نے 18افسانے ترجمہ کیے ہیں اور نہایت باریک بینی اور مشاہدے کے ساتھ کہ نسیم انجم کے اصل افسانے کی روح متاثر نہیں ہوئی اور مترجم نے مترجم کا حق بھی ادا کردیا۔ ذوالفقار گادھی نے اس کتاب کا انتساب اپنے دو گہرے دوستوں ''مشتاق گرگڑی'' اور ''اختر ملاح،، کے نام کیا ہے۔
ثالث (ادبی رسالہ)
رسالہ ''ثالث'' (۲) جنوری 2014 تا مارچ 2014زندہ اور متحرک تخلیق کی تمام آہٹوں، دھڑکنوں اور لہروں کا حسین استعارہ ہے۔ ثالث کے تا زہ شما رے میں گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اقبال حسن خاں، قاضی طاہر حیدر، قرب عباس، ابرارمجیب، سلمیٰ جیلانی، طلعت زہرا، زین سالک، ثناء غوری، امین بھایانی، فرحین جمال، نوشابہ خاتون، سب ہی کے افسانے عمدہ اور معیاری ہیں اور حالات، حادثات، المیے اور وقوعے کو آئینہ عطا کرتے ہیں۔عصری منظر ناموں کو بڑے دل کش اور پرکشش طرز ادا کے سا تھ پیش کر نے کی سعی کی گئی ہے۔
مہمان اداریہ شفیق احمد شفیق کا ہے۔ انہوں نے ادب میں عصری آگہی اور ادیب کے عصری عرفان کی اہمیت کو مختلف تمثیلوں سے سپرد قلم کیا ہے۔ آج کے ادبی منظر نا موں کے حوالے سے یہ اداریہ کا فی اہمیت کا حا مل ہے۔اس رسالے میں تنقید اور خصوصی مطالعہ کے باب میں پانچ مضامین شامل ہیں۔ اس شمارے میں ایک انٹرویو اور کچھ تبصرے بھی شامل ہیں۔ یہ انٹرویو ''راشد اشرف سے فرزانہ اعجاز کا لیا ہوا ہے، جو محض رسمی نہیں بلکہ بہت سی معلومات کو اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہے ۔
رسالے کے مدیران ''اقبال حسن آزاد اور ثالث آفاق صالح '' بجا طور پر مستحق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس رسالے کے ذریعے ادب کو نئی تازگی اور نئی توانائی عطا کر نے کا حوصلہ کیا ہے۔