کیا آپ کی یادداشت کمزور ہو رہی ہے

لوگ روز مرہ معمولات میں کچھ ایسے کام بھول جاتے ہیں کہ جو کرنا ضروری ہوتے ہیں اور بعدازاں پریشانی کا باعث بنتے ہیں

بہتر خوراک یاداشت کو قائم رکھنے اور دماغ کے خلیوں کی آپس میں پیغام رسانی کے عمل کو تیز کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہےفوٹو : فائل

یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ روز مرہ معمولات میں کچھ ایسے کام بھول جاتے ہیں کہ جو کرنا ضروری ہوتے ہیں اور بعدازاں پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

کچھ لوگ تو اتنے بھلکڑ ہوتے ہیں کہ بار بار یاددہانی کے باوجود بھی بھول جاتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ''نسیان'' کی بیماری میں اضافہ ہوتا ہے یہاں تک روزمرہ کے معمولات حتیٰ کہ تھوڑی دیر پہلے کہی ہوئی باتیں بھی بھول جاتی ہیں۔ بعض اوقات ''نسیان'' کا یہ عارضہ سخت خفت اور پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔آخر کار لوگ اس عارضہ سے نجات کیلئے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں۔ آیئے آج ہم آپ کو ایسی خوراک کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جس کے استعمال سے نہ صرف آپ کی دماغی قوت میں اضافہ ہو گا بلکہ ڈاکٹر کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ نسیان کا مرض بھی نہیں ہو گا اور آپ ادویات کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہیں گے۔

اخروٹ:۔بغور دیکھیں تواخروٹ کی بناوٹ بھی انسانی دماغ کی ساخت سے ملتی جلتی ہے۔ اس میں وٹا من ای کی بہتات ہوتی ہے جو الزائمر جیسی خطرناک بیماری کے خلاف بھی مدافعت فراہم کرتی ہے۔



''شکاگو رش یونیورسٹی'' میں 6000 تندرست افراد پر کی گئی تحقیق کے مطابق یہ لوگ صرف اس لئے نسیان اور الزائمر جیسے امراض سے محفوظ رہے کہ انہوں نے زندگی بھر وٹا من ای سے بھرپور خوراک کا استعمال کیا۔

انڈے:۔انڈے کی افادیت سے کس کو انکار ہے۔ یہ ایک مکمل غذا ہے۔انڈے کی زردی میں ایک مادہ ''کولائن'' ہوتا ہے جو دماغی طاقت کے لئے مفید ہے۔



یہ یاداشت کو قائم رکھنے اور دماغ کے خلیوں کی آپس میں پیغام رسانی کے عمل کو تیز کرنے میں ممدو و معاون ثابت ہوتا ہے۔ روزانہ ایک انڈہ کھانے والے افراد کا آئی کیو لیول بھی دیگر افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

سبزپتوں والی سبزیاں:۔کسے معلوم نہیں کہ سبزیاں صحت و قوت کا خزانہ ہیں۔



عمر رسیدہ عورتوں پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ عورتیں جنہوں نے زندگی بھر سبزپتوں والی سبزیوں کا متواتر استعمال کیا' ان کی یادداشت اور ذہنی استعداد کار ان خواتین کی نسبت بہتر تھی کہ جنہوں نے سبزیاں کھانے سے اعراض برتا۔ ان سبزیوں میں بند گوبھی' گوبھی' پالک' کھیرے' سبز پیاز اور سبز لہسن وغیرہ شامل ہیں۔

مچھلی:۔دماغی طاقت کے لئے اومیگا۔3 سے بڑھ کر شاید ہی کوئی چیز کارآمد ہے۔



اگر جسم میں اومیگا۔3 کی مقدار کم ہو تو یہ دماغ کی خراب کارکردگی پر منتج ہوتی ہے۔ اومیگا۔ 3 سرد پانی کی مچھلیوں کی مخصوص اقسام میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً سلیمون اور ٹراؤٹ ایسی مچھلیاں ہیں کہ جن میں اومیگا ۔3 پایا جاتا ہے۔ یہ دماغی استعداد کار اور دماغ کے باہم متصل افعال کو بہترین بناتا ہے۔

پروٹین سے بھرپور غذا صحت کی ضامن
موٹاپا ایک ایسا مرض ہے کہ جو دیگر امراض کو دعوت دیتا ہے مثلاً شوگر' بلڈ پریشر' تھکاوٹ اور دل کے امراض وغیرہ۔ ہر مردو زن موٹاپے سے خوفزدہ رہتا ہے اور خاص طور پر خواتین کو احساس ہو جائے کہ ان کا وزن بڑھ رہا ہے تو ڈائٹنگ کے نام پر فاقے شروع کر دیئے جاتے ہیں اور پروٹین اور فیٹس فراہم کرنے والی خوراک پر بھی لمبی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔



مگر اس حقیقت کا ادراک چند افراد کو ہی ہے کہ پروٹین ہمارے جسمانی و ذہنی افعال کے تسلسل کے لئے بے حد ضروری ہے ورنہ جسم مضمحل ہوجاتا ہے اور اس کے افعال میں سستی در آتی ہے۔ آیئے آج ہم کو کچھ ایسے ٹپس دیتے ہیں کہ جن پر عمل کر کے آپ کا وزن بھی نہیں بڑھے گا اور آپ کے جسم کو مناسب پروٹین اور فیٹس بھی ملتے رہیں گے۔

سوپ میں پھلیاں استعمال کریں
پھلیوں سے مراد وہ تمام خوردنی اشیاء ہیں جن میں پھلیاں موجود ہوتی ہیں۔ مثلاً لوبیا' مٹر' رواں وغیرہ یہ بازار سے ڈبوں میں بآسانی دستیاب ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر پھلیوں کی جگہ گوشت استعمال کیا جاتا ہے جو کہ موٹاپا پیدا کرتا ہے اور دیر سے ہضم ہوتا ہے۔



آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ اپنے سوپ میں گوشت کی جگہ پھلیاں استعمال کریں۔ ایک تو اس سے آپ کے جسم کی پروٹین سے متعلق غذائی ضروریات بھی پوری ہوں گی جبکہ یہ زود ہضم بھی ہیں اور جسم کو موٹاپے کی طرف بھی مائل نہیں کرتیں۔

دلیے میں دودھ استعمال کریں
اگر آپ کم کیلوریز کے حصول کی خاطر دلیے کو پانی میں بناتے ہیں تو ہماری نصیحت ہے کہ پانی کی جگہ دلیے میں دودھ استعمال کریں۔




اس سے نہ صرف آپ کی خوراک میں صحتمند پروٹین شامل ہو گی بلکہ آپ کا کھانا بھی ذائقہ بخش ہو جائے گا۔ اگر آپ کو یہ منظور نہیں تو آدھا دودھ اور آدھا پانی استعمال کرلیں۔ یقین مانیے یہ ایک صحت بخش اور متوازن کھانا ہے۔

سلاد میں انڈھ شامل کریں
ایک انڈے میں عمومی طور پر 6 گرام پروٹین شامل ہوتی ہے۔ اگر آپ سلاد میں ایک انڈا بھی شامل کر لیں تو ایک مکمل صحت بخش غذا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آپ اسے ابال کر' فرائی کرکے غرضیکہ اپنی منشاء اور پسند کے مطابق ڈھال کر سلاد میں شامل کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کے جسم کو مطلوبہ صحت بخش پروٹین بھی فراہم کر ے گا جبکہ سلاد کا ذائقہ بھی لذیز ہو جائے گا۔

فروٹ اور پنیر
اگر آپ پھل کھانا چاہتے ہیں تو اس میں کم فیٹس کی حامل پنیر بھی مناسب مقدار میں شامل کر لیں۔ کم فیٹس والی پنیر بازار سے بآسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر آپ سیب کھانا چاہتے ہیں تو اس میں پنیر شامل کر لیں۔ اس سے ذائقہ بھی بہتر ہو گا جبکہ آپ کا وزن بھی قابو میں رہے گا اور آپ کے جسم کو مطلوبہ صحت بخش پروٹین بھی مل جائے گی۔

ناشتے کے ساتھ پی نٹ بٹر
اگر آپ کاناشتہ آپ کے پسندیدہ پھلوں پر تو مشتمل ہے مگر اس میں پروٹین شامل نہیں ہے تو پھر یقیناً دوپہر کے کھانے سے قبل ہی آپ کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگیں گے۔ آپ کو شدید بھوک کا احساس ہو گا جو آپ کے معمولات کو متاثر کرے گا۔



اس لئے بہتر ہے کہ آپ ناشتے میں دو چمچ پی نٹ بٹر(Peanut Butter) بھی استعمال کریں جو آپ کو 8 گرام کے قریب صحت بخش پروٹین فراہم کرے گا ۔ اس طرح آپ کو لنچ سے پہلے شدید بھوک کا احساس بھی نہیں ہو گا اور آپ اپنے معمولات بھی چستی اور مستعدی سے سرانجام دے سکیں گے۔

کھانوں میں بیج استعمال کریں
سورج مکھی' خربوزے' حلوہ کدو وغیرہ کے بیج اور تل پروٹین کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اگر آپ کھانے کی ڈشز بنانے کے بعد ان پر مناسب مقدار میں بیج ڈال دیں تو اس سے کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک تو کھنے کا ذائقہ بہتر ہو جائے گا' پھر آپ کے بدن کو مطلوبہ صحت بخش پروٹین مل جائے گی جبکہ آپ کو موٹاپے کا خوف بھی تنگ نہیں کر ے گا۔

بادام
بادام کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔



آپ انہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی کھانے کے ساتھ ملا کر کھا سکتے ہیں جبکہ اکیلے بادام کھانا بھی دماغ اور صحت کے لئے بہترین ہیں۔ انھیں لازماً اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔

دہی
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کی ایک غالب تعداد کھانے کے بعد میٹھے کو پسند کرتی ہے۔ اس مقصد کے لئے کیک' بسکٹ' پیسٹری اور دیگر چینی سے بنی اشیاء استعمال کی جاتی ہیں جو موٹاپے اور امراض کو دعوت دیتی ہیں۔



بہتر ہے کہ میٹھے کے شوقین افراد دیگر مضر صحت میٹھی اشیا کی جگہ میٹھا دہی استعمال کریں۔ بازار میں کئی مختلف ذائقوں میں میٹھا دہی بآسانی دستیاب ہے۔ اس طرح میٹھا کھانے کی طلب بھی پوری ہو جائے گی، جسم کو پروٹین بھی مل جائے گی جبکہ وزن بڑھنے کا خوف بھی جاتا رہے گا۔

برقی آلات:بچوں کے بولنے میں تاخیر کی وجہ
سائنس داں کہتے ہیں کہ الیکٹرونک مصنوعات کا بڑھتا ہوا استعمال بچوں میں دیر سے بولنے اور بات کرنے میں دقت محسوس کرنے کا ذمہ دار ہے۔

تحقیق دانوں کے مطابق بچے کے لیے ماں کی گود پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ یہیں سے وہ ماں کی مسکراہٹ کے ساتھ مسکرانا اور اس کے ہنسنے پر قلقاریاں مارنا سیکھتا ہے۔ یہ فطری تعلق اسے ماں کی ذات کا اس قدر عادی بنا دیتا ہے کہ وہ ماں کے نزدیک ہونے پر خوش اور دور جانے پر غمگین دکھائی دیتا ہے۔بچے کا فطری مطالبہ تو آج بھی وہی ہے، مگر معاشی مسائل میں الجھے ہوئے والدین کی ترجیحات پہلے کی نسبت بدل چکی ہیں۔ا ن کے پاس اپنے بچے سے باتیں کرنے اور اس کے معصوم سوالوں کا جواب دینے کے لیے وقت نہیں بچتا۔گذشتہ برس برطانوی ادارہ برائے تعلیم کی جانب سے اسکول کے بچوں میں زبان سیکھنے کی صلاحیت اوربات چیت کرنے کی اہلیت جاننے کے حوالے سے ایک تحقیق کی گئی۔

تحقیق دانوں کے مطابق گذشتہ چھ برسوں کے دوران بات کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچوں کی تعداد میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسے بچوں کو اسکول میں ایک ماہر زبان دان کی ضرورت پڑتی ہے۔تحقیق دانوں نے بچوں میں دیر سے بولنے اور بات کرنے میں دقت محسوس کرنے کا الزام گھروں میں الیکڑونک مصنوعات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو دیا ہے۔اسکرین بیسڈ الیکٹرونک مصنوعات کو ہر بچے والے گھر میں ایک سستے 'بے بی سٹر' کی حیثیت حاصل ہے، جہاں بچوں کو گھنٹوں ٹی وی، کمپیوٹر، ویڈیو گیم کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ مگر ا ن کا حد سے بڑھتا ہوا استعمال بچوں کے معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، خصوصاً کمسن بچے جن کے سیکھنے کے لیے ابتدائی دو سال بہت اہم ہوتے ہیں۔''بیٹر کمیونیکیشن ریسرچ'' پروگرام کے نام سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کلاس میں بات چیت کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچے جن کی عمریں پانچ سے16 سال کے درمیان ہے، کی تعداد ایک لاکھ پینتیس ہزار سات سو ہے لہٰذا ایسے بچوں کو اسکول میں زبان کی مشقیں کرائی جاتی ہیں، جبکہ ان بچوں میں سیکھنے کا عمل بھی عام بچوں کی نسبت سست ہوتا ہے۔



تجزیہ کاروں کے نزدیک ابتدا میں بچے کے گھرکا ماحول اسے زبان سیکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے،جس میں بچے کے ساتھ ماں کا برتا ؤ، اہل خانہ کا بچے کے ساتھ لگاؤ اور گھر کا سماجی ماحول شامل ہے۔ برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ' آئی کین' نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بچوں میں دیر سے بات شروع کرنے کے مسئلے کی کئی اور وجوہات بھی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مثلاً بچے کی مخصوص ذہنی کیفیت، عادت اور اس کے اطراف کا ماحول بھی بچے کی بولنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔کام پر جانے والے والدین جن کے پاس بچوں کے ساتھ پارک جانے یا سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے وقت نہیں ہوتا وہ خود کو سماجی حلقے کی گہماگہمی سے دور کرلیتے ہیں۔ان تھکے ماندے والدین کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔

ایسی صورتحال میں، بچوں کو ٹی وی پر ان کا پسندیدہ کارٹون شو کئی کئی گھنٹے دکھایا جاتا ہے۔اسی طرح کچھ والدین اپنے سات آٹھ سال کے بچوں کے ہاتھوں میں ویڈیو گیم اور اسمارٹ فون تک تھما دیتے ہیں۔لہذا تنہائی کے زیراثر پلنے والے بچے بڑے ہونے کے بعد بھی بات چیت کرنے میں گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح بچوں والے گھروں میں مل کر دستر خوان پر کھانا کھانے، سردیوں کی راتوں میں ایک ہی کمرے میں جمع ہو کر لوڈو یا کیرم کی بازیاں کھیلنے جیسی خاندانی روایات بھی ختم ہوتی جارہی ہیں اور یہی عوامل بچوں کے بولنے کی صلاحیت پر منفی انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
Load Next Story