آصو امرایا گینگ تہس نہس
دو پولیس اہل کار بھائیوں کی جاں بازی
کچھ لوگ معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں اور ان ناسوروں کو ختم کرنے والوں کو سورما کہتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ سورماؤں نے معاشرے کے ایسے ناسوروں کو ختم کیا، جنہوں نے کئی گھر اجاڑے، کئی خواتین کو بیوہ کیا، کئی بچوں کو یتیم کیا اور کئی لڑکیوں کی زندگیاں اجاڑ دیں۔ یہ قصہ ہے ایک پولیس مقابلے کا۔ تاندلیانوالہ کے قریبی علاقے موضع امرایا کا رہائشی آصف عرف آصو امرایا، چک نمبر چار سو اٹھارہ کا رہائشی مصطفی اور پنڈی شیخ موسیٰ کا رہائشی امجد اس گینگ کے سرکردہ ارکان ہیں، جنہوںنے فیصل آباد، ساہیوال، قصور، اوکاڑہ اور لاہور کے علاقوں میں گھروں میں ڈکیتی کی مختلف وارداتیں کیں، کئی گھروں میں ڈکیتیوں کے دوران ریپ کیے، کئی گھروں میں ڈکیتیوں کے دوران مزاحمت کا سامنا کرنے پر قتل کیے۔ غرض اس گینگ نے، کوئی ایسا جرم نہیں، جو نہ کیا ہو۔ قبضے کرنا، بھتے لینا، ڈکیتیاں کرنا، کرائے پر قتل کرنا، زنا بالجبر، الغرض ہر جرم اس گینگ نے کیا اور اگر کوئی ان کے خلاف مقد مہ درج کروا دیتا تو اسے بھی بے دریغ قتل کیا۔
آصف عرف آصو امرایا کا قد چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا تھا۔ آصو امرایا کا گینگ کئی اضلاع میں دہشت کی علامت بنا ہوا تھا۔ پولیس نے موقع ملتے ہی آصو امرایا کو پکڑ لیا اور ساہیوال جیل میں بند کر دیا۔ آصو امرایا کو 2 دسمبر 2013 کو ایک مقدمے کی پیشی کے لیے فیصل آباد لایا گیا اور واپسی پر ضلع اوکاڑہ کے علاقے بنگلہ گوگیرہ کے قریب اس کے ساتھیوں نے پولیس وین پر فائرنگ کر دی، جس سے دو پولیس اہل کار شدید زخمی ہو کر بے بس ہو گئے تو اپنے گینگ کے سرغنہ آصو امرایا کو چھڑوا کر لے گئے۔
پولیس ایک بار پھر اس گینگ کے پیچھے لگ گئی، جگہ جگہ چھاپے مارے اور کوئی حربہ نہ چھوڑا تاہم آصو ان کے ہاتھ نہ آیا۔ پولیس نے کوشش جاری رکھی۔ اسی دوران پولیس کو اطلاع ملی کہ یہ گینگ جڑانوالہ میں تھانہ روڈالہ کے علاقے میں موجود ہے، جس پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور امکان کے مطابق گینگ کے ساتھ مڈبھیڑ ہوہی گئی۔ دونوں طرف سے فائرنگ کا سلسلہ انیس گھنٹے تک جاری رہا لیکن اس بار بھی چالاک ملزم رات کے پچھلے پہر میں گہرے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے۔ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصل ّباد پولیس نے آصو امرایا کے سر پر دو لاکھ روپے انعام مقرر کر دیا اُدھر اوکاڑ پولیس نے بھی اس کے سر کی اتنی ہی قیمت لگا دی۔
سی پی او فیصل آباد ڈاکٹر حیدر اشرف نے آصو امرایا کو پکڑے کے لیے کئی ٹیمیں تشکیل دیں مگر کوئی بھی آصو امرایا تک نہ پہنچ سکی۔ پھر سی پی او نے یہ ٹاسک سی آئی اے پولیس کو دے دیا۔ ایس پی سی آئی اے فاروق ہندل نے ایک روز اپنے دفتر میں سی آئی اے پورے اسٹاف کو طلب کیا اور اس عزم کا اظہار کیا ''ہم نے یہ ٹاسک ہر صورت پورا کرنا ہے، آصو امرایا اور اس کا گینگ شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن چکا ہے''۔
سیر حاصل صلاح مشورے کے بعد سی آئی اے جڑانوالہ ٹاؤن کے انچارج ایوب ساہی کو آصو امرایا گینگ کو پکڑنے کا ٹاسک دیا گیا۔ انسپکٹر ایوب ساہی اس گینگ کو پکڑنے کے لیے اپنے تمام تر سورسز بروئے کار لایا مگر ادھر گینگ بھی بھرپور پلاننگ کرتا تھا۔ کافی دن تک جب گینگ کا کوئی سراغ نہ لگا تو ایس پی سی آئی اے فاروق ہندل نے ایک بار پھر اجلاس طلب کیا اور آصو گینگ کو پکڑنے والی ٹیم میں اضافہ کیا۔ یہ اضافہ دو بہادر پولیس اہل کار بھائیوں کا تھا۔ سی آئی اے لائلپور ٹاؤن کے انچارج منصور بلال چیمہ اور سی آئی اے انٹی کار لفٹنگ سکواڈ کے انچارج صدیق چیمہ کی بہادری بے باکی اور کرائم فائٹنگ کے قصے شہر بھر میں پہلے ہی سے زبان زد عام ہیں، ان کی بہادری کی وجہ سے ہی ان کو آصو امرایا گینگ کو پکڑنے والی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ ان دونوں بھائیوں سے آپ وردی کے بغیر ملیں تو اندازہ نہیں لگا سکیں گے کہ یہ واقعی پولیس والے ہیں۔ دونوں انتہائی ہنس مکھ، پیار اور اخلاق سے بات کرنے والے، چہرے سے انتہائی معصوم لیکن پڑھے لکھے ہیں۔ دونوں بھائی آصو امرایا کو پکڑنے والی ٹیم میں شامل ہوئے اور ثابت کر دیا کہ ایس پی سی آئی اے فاروق ہندل کا فیصلہ بر وقت اور صحیح تھا۔
ٹیم میں شامل ہونے کے بعد سے دونوں بھائیوں کو سونا کھانا پینا اور آرام کرنا بھول ہی گیا۔ یہ دو رکنی ٹیم دن رات اس گینگ کے پیچھے رہی اور معلومات اکٹھی کرتے رہے۔ 21 فروری کی رات آصو امرایا کو پکڑنے والی اس ٹیم کو اطلاع ملی کہ آصو امرایا اپنے کچھ ساتھیوں کے ہم راہ روڈالہ روڈ پر چک نمبر تین سو سڑسٹھ کے قریب نارنگ دی کوٹھی میں چھپے ہیں اور کسی ڈکیتی کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ دو راتوں سے مسلسل جاگ رہی اس ٹیم کو یوں لگا جیسے منزل قریب آ لگی ہے۔
انہوں نے بے تاخیر ملزمان پر ریڈ کرنے کی تیاری کر لی اور پولیس نفری کے ساتھ چک نمبر تین سو سڑسٹھ میں 'نارنگ دی کوٹھی' پہنچی۔ ملزموں نے پولیس کی گاڑیاں دیکھں توفائرنگ شروع کر دی، پولیس نے بھی اپنے تحفظ میں جوابی کارروائی شروع کر دی۔ آصو امرایا گینگ کے پاس اس قدر جدید اسلحہ تھا کہ پولیس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ملزموں سے مقابلہ کر رہے ہیں یا کسی ملک کی فوج سے، ملزمان کے پاس گولیوں کا خزانہ بھی بہت زیادہ تھا، انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے تک فائرنگ جاری رکھی۔
اس دوران پولیس ملزموں کو با آواز بلند متنبہ بھی کرتی رہی کہ وہ پولیس ٹیم ہے اور وہ اپنے ہتھیار پھینک دیں مگر آصو امرایا گینگ نے ہتھیار پھینکنا تو سیکھا ہی نہیں تھا، انہوں نے فائرنگ جاری رکھی اور اسی دوران فرار ہونے کی بھی کوشش کی مگر اب بھاگنا ممکن نہیں رہا تھا کیوں کہ انسپکٹر منصور بلال چیمہ نے اس طرح منصوبہ بندی کر کے گھیرا ڈال رکھا تھا کہ فرار کا ہر رستہ مسدود ہو کر رہ گیا تھا، بس ایک ہی راستہ کھلا تھا کہ گینگ ہتھیار پھینک دے۔ یہ رات کا ایسا پہر تھا جب ان ملزموں کے شکار شہری اور ان سے خوف زدہ لوگ اپنے گھروں میں بستروں میں آرام کی نیند سو رہے تھے اور ماؤں کے یہ بہادر بیٹے جان ہتھیلی پر لیے اس خطرناک گینگ سے نبرد آزما تھے، جن کے لئے کسی کی جاں لے لینا کھیل سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا، جو کئی بار پولیس پر فائرنگ کر چکے تھے، درجنوں لوگوں کو قتل کر چکے تھے۔
ڈیڑھ گھنٹے یہ 'چور سپاہی مقابلہ' جاری رہا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس دوران جڑانوالہ کی ضلعی پولیس موقع پر نہ آئی، غالباً وہ بھی نہتے شہریوں کی طرح آصو امرایا سے خوف زدہ تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا اور پھر اچانک فائرنگ بند ہو گئی، پولیس نے قریب جا کر دیکھا تو تین اشتہاری ملزم ہلاک ہو چکے تھے اور جب روشنی کر کے دیکھا گیا تو یہ خوف کی علامت آصف عرف آصو امرایا ، مصطفیٰ اور امجد تھے۔ مرنے کے بعد بھی آصو امرایا کے چہرے سے وحشت عیاں تھی۔ آصو امرایا واردات کرتا اور سندھ میں کچے کے علاقے میں چلا جاتا، جہاں اس نے اپنا مکان بنایا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اس علاقے میں پولیس داخل نہیں ہوتی۔
اب ذرا ان اشتہاریوں کے کارنامے بھی سن لیجے! پولیس ریکارڈ کے مطابق آصو امرایا پر کل ڈکیتی راہ زنی، قتل اور دیگر وارداتوں کے اکیاون مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات کے مطابق آصو امرایا نے بارہ افراد کو قتل کیا ہے، جن میں ضلع اوکاڑہ کے تحریک انصاف کے پانچ افراد بھی شامل ہیں، اسی طرح مصطفیٰ پر ڈکیتی، راہ زنی کے علاوہ قتل کے چار مقدمات ہیں، امجد پر بھی ڈکیتی، راہ زنی سمیت دیگر سنگین واداتوں کے متعدد مقدمات ہیں۔ یہ محض وہ ریکارڈ ہے، جو مقدمات کی صورت میں آنریکارڈ ہے، شہریوں نے درجنوں واقعات کے مقدمات درج ہی نہیں کروائے کیوں کہ جس نے مقدمہ درج کرایا، موت اس کے سر پر آصو امرایا کی صورت میں منڈلانے لگتی تھی۔یہ گینگ ابھی ختم نہیں ہوا، گینگ کے بہت سے ارکان ابھی باقی ہیں البتہ سرغنے آصو امرایا اور دیگر دو ساتھیوں کی ہلاکت نے گینگ کی کمر ضرور توڑ دی ہے۔ ان کے مرنے سے شہریوں نے بھی اس کارنامے پر دل و جان سے پولیس کو داد دی، شہر میں جگہ جگہ پولیس کے حق میں تعریفی بینرز لگائے۔
آصو امرایا گینگ سے مقابلہ کرنے والے پولیس اہل کاروں کو انعامات بھی دیے گئے اور گورنر پنجاب نے خاص طور پر اس ٹیم کو انعام دیا اور ان کی کارکردگی کو سراہا۔ سربراہ یا کپتان اس قدر اہم ہوتا ہے کہ اسی کے سر پر تمام ٹیم کا مورال ہوتا ہے۔ وہ ہی سی آئی اے تھی مگر آصو امرایا گینگ نہیں پکڑا جا رہا تھا۔ سی آئی اے کے سربراہ کو بدلا گیا اور ایس پی فاروق ہندل کو اس سی آئی اے کا ہیڈ لگا دیا گیا تو ایک مہینے کے اندر اندر اتنی بڑی کام یابی سی آئی اے کا مقدر بن گئی۔ اسی طرح آصو امرایا کو پکڑنے والی ٹیم وہی تھی بس دو شیر دل بھائی اس میںشامل کر لیے گئے اور آصو اپنے دو ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ اب تو شہریوں کے دل سے یہ ہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ ماں کے ان بہادر بیٹوں کو سلامت رکھے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس معاشرے کو ناسوروں سے پاک کرنے کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسر ان دونوں بھائیوں کو میڈل بھی دلواتے ہیں یا صرف لولی پاپ ہی دیں گے۔
ایسے ہی کچھ سورماؤں نے معاشرے کے ایسے ناسوروں کو ختم کیا، جنہوں نے کئی گھر اجاڑے، کئی خواتین کو بیوہ کیا، کئی بچوں کو یتیم کیا اور کئی لڑکیوں کی زندگیاں اجاڑ دیں۔ یہ قصہ ہے ایک پولیس مقابلے کا۔ تاندلیانوالہ کے قریبی علاقے موضع امرایا کا رہائشی آصف عرف آصو امرایا، چک نمبر چار سو اٹھارہ کا رہائشی مصطفی اور پنڈی شیخ موسیٰ کا رہائشی امجد اس گینگ کے سرکردہ ارکان ہیں، جنہوںنے فیصل آباد، ساہیوال، قصور، اوکاڑہ اور لاہور کے علاقوں میں گھروں میں ڈکیتی کی مختلف وارداتیں کیں، کئی گھروں میں ڈکیتیوں کے دوران ریپ کیے، کئی گھروں میں ڈکیتیوں کے دوران مزاحمت کا سامنا کرنے پر قتل کیے۔ غرض اس گینگ نے، کوئی ایسا جرم نہیں، جو نہ کیا ہو۔ قبضے کرنا، بھتے لینا، ڈکیتیاں کرنا، کرائے پر قتل کرنا، زنا بالجبر، الغرض ہر جرم اس گینگ نے کیا اور اگر کوئی ان کے خلاف مقد مہ درج کروا دیتا تو اسے بھی بے دریغ قتل کیا۔
آصف عرف آصو امرایا کا قد چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا تھا۔ آصو امرایا کا گینگ کئی اضلاع میں دہشت کی علامت بنا ہوا تھا۔ پولیس نے موقع ملتے ہی آصو امرایا کو پکڑ لیا اور ساہیوال جیل میں بند کر دیا۔ آصو امرایا کو 2 دسمبر 2013 کو ایک مقدمے کی پیشی کے لیے فیصل آباد لایا گیا اور واپسی پر ضلع اوکاڑہ کے علاقے بنگلہ گوگیرہ کے قریب اس کے ساتھیوں نے پولیس وین پر فائرنگ کر دی، جس سے دو پولیس اہل کار شدید زخمی ہو کر بے بس ہو گئے تو اپنے گینگ کے سرغنہ آصو امرایا کو چھڑوا کر لے گئے۔
پولیس ایک بار پھر اس گینگ کے پیچھے لگ گئی، جگہ جگہ چھاپے مارے اور کوئی حربہ نہ چھوڑا تاہم آصو ان کے ہاتھ نہ آیا۔ پولیس نے کوشش جاری رکھی۔ اسی دوران پولیس کو اطلاع ملی کہ یہ گینگ جڑانوالہ میں تھانہ روڈالہ کے علاقے میں موجود ہے، جس پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور امکان کے مطابق گینگ کے ساتھ مڈبھیڑ ہوہی گئی۔ دونوں طرف سے فائرنگ کا سلسلہ انیس گھنٹے تک جاری رہا لیکن اس بار بھی چالاک ملزم رات کے پچھلے پہر میں گہرے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے۔ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصل ّباد پولیس نے آصو امرایا کے سر پر دو لاکھ روپے انعام مقرر کر دیا اُدھر اوکاڑ پولیس نے بھی اس کے سر کی اتنی ہی قیمت لگا دی۔
سی پی او فیصل آباد ڈاکٹر حیدر اشرف نے آصو امرایا کو پکڑے کے لیے کئی ٹیمیں تشکیل دیں مگر کوئی بھی آصو امرایا تک نہ پہنچ سکی۔ پھر سی پی او نے یہ ٹاسک سی آئی اے پولیس کو دے دیا۔ ایس پی سی آئی اے فاروق ہندل نے ایک روز اپنے دفتر میں سی آئی اے پورے اسٹاف کو طلب کیا اور اس عزم کا اظہار کیا ''ہم نے یہ ٹاسک ہر صورت پورا کرنا ہے، آصو امرایا اور اس کا گینگ شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن چکا ہے''۔
سیر حاصل صلاح مشورے کے بعد سی آئی اے جڑانوالہ ٹاؤن کے انچارج ایوب ساہی کو آصو امرایا گینگ کو پکڑنے کا ٹاسک دیا گیا۔ انسپکٹر ایوب ساہی اس گینگ کو پکڑنے کے لیے اپنے تمام تر سورسز بروئے کار لایا مگر ادھر گینگ بھی بھرپور پلاننگ کرتا تھا۔ کافی دن تک جب گینگ کا کوئی سراغ نہ لگا تو ایس پی سی آئی اے فاروق ہندل نے ایک بار پھر اجلاس طلب کیا اور آصو گینگ کو پکڑنے والی ٹیم میں اضافہ کیا۔ یہ اضافہ دو بہادر پولیس اہل کار بھائیوں کا تھا۔ سی آئی اے لائلپور ٹاؤن کے انچارج منصور بلال چیمہ اور سی آئی اے انٹی کار لفٹنگ سکواڈ کے انچارج صدیق چیمہ کی بہادری بے باکی اور کرائم فائٹنگ کے قصے شہر بھر میں پہلے ہی سے زبان زد عام ہیں، ان کی بہادری کی وجہ سے ہی ان کو آصو امرایا گینگ کو پکڑنے والی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ ان دونوں بھائیوں سے آپ وردی کے بغیر ملیں تو اندازہ نہیں لگا سکیں گے کہ یہ واقعی پولیس والے ہیں۔ دونوں انتہائی ہنس مکھ، پیار اور اخلاق سے بات کرنے والے، چہرے سے انتہائی معصوم لیکن پڑھے لکھے ہیں۔ دونوں بھائی آصو امرایا کو پکڑنے والی ٹیم میں شامل ہوئے اور ثابت کر دیا کہ ایس پی سی آئی اے فاروق ہندل کا فیصلہ بر وقت اور صحیح تھا۔
ٹیم میں شامل ہونے کے بعد سے دونوں بھائیوں کو سونا کھانا پینا اور آرام کرنا بھول ہی گیا۔ یہ دو رکنی ٹیم دن رات اس گینگ کے پیچھے رہی اور معلومات اکٹھی کرتے رہے۔ 21 فروری کی رات آصو امرایا کو پکڑنے والی اس ٹیم کو اطلاع ملی کہ آصو امرایا اپنے کچھ ساتھیوں کے ہم راہ روڈالہ روڈ پر چک نمبر تین سو سڑسٹھ کے قریب نارنگ دی کوٹھی میں چھپے ہیں اور کسی ڈکیتی کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ دو راتوں سے مسلسل جاگ رہی اس ٹیم کو یوں لگا جیسے منزل قریب آ لگی ہے۔
انہوں نے بے تاخیر ملزمان پر ریڈ کرنے کی تیاری کر لی اور پولیس نفری کے ساتھ چک نمبر تین سو سڑسٹھ میں 'نارنگ دی کوٹھی' پہنچی۔ ملزموں نے پولیس کی گاڑیاں دیکھں توفائرنگ شروع کر دی، پولیس نے بھی اپنے تحفظ میں جوابی کارروائی شروع کر دی۔ آصو امرایا گینگ کے پاس اس قدر جدید اسلحہ تھا کہ پولیس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ملزموں سے مقابلہ کر رہے ہیں یا کسی ملک کی فوج سے، ملزمان کے پاس گولیوں کا خزانہ بھی بہت زیادہ تھا، انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے تک فائرنگ جاری رکھی۔
اس دوران پولیس ملزموں کو با آواز بلند متنبہ بھی کرتی رہی کہ وہ پولیس ٹیم ہے اور وہ اپنے ہتھیار پھینک دیں مگر آصو امرایا گینگ نے ہتھیار پھینکنا تو سیکھا ہی نہیں تھا، انہوں نے فائرنگ جاری رکھی اور اسی دوران فرار ہونے کی بھی کوشش کی مگر اب بھاگنا ممکن نہیں رہا تھا کیوں کہ انسپکٹر منصور بلال چیمہ نے اس طرح منصوبہ بندی کر کے گھیرا ڈال رکھا تھا کہ فرار کا ہر رستہ مسدود ہو کر رہ گیا تھا، بس ایک ہی راستہ کھلا تھا کہ گینگ ہتھیار پھینک دے۔ یہ رات کا ایسا پہر تھا جب ان ملزموں کے شکار شہری اور ان سے خوف زدہ لوگ اپنے گھروں میں بستروں میں آرام کی نیند سو رہے تھے اور ماؤں کے یہ بہادر بیٹے جان ہتھیلی پر لیے اس خطرناک گینگ سے نبرد آزما تھے، جن کے لئے کسی کی جاں لے لینا کھیل سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا، جو کئی بار پولیس پر فائرنگ کر چکے تھے، درجنوں لوگوں کو قتل کر چکے تھے۔
ڈیڑھ گھنٹے یہ 'چور سپاہی مقابلہ' جاری رہا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس دوران جڑانوالہ کی ضلعی پولیس موقع پر نہ آئی، غالباً وہ بھی نہتے شہریوں کی طرح آصو امرایا سے خوف زدہ تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا اور پھر اچانک فائرنگ بند ہو گئی، پولیس نے قریب جا کر دیکھا تو تین اشتہاری ملزم ہلاک ہو چکے تھے اور جب روشنی کر کے دیکھا گیا تو یہ خوف کی علامت آصف عرف آصو امرایا ، مصطفیٰ اور امجد تھے۔ مرنے کے بعد بھی آصو امرایا کے چہرے سے وحشت عیاں تھی۔ آصو امرایا واردات کرتا اور سندھ میں کچے کے علاقے میں چلا جاتا، جہاں اس نے اپنا مکان بنایا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اس علاقے میں پولیس داخل نہیں ہوتی۔
اب ذرا ان اشتہاریوں کے کارنامے بھی سن لیجے! پولیس ریکارڈ کے مطابق آصو امرایا پر کل ڈکیتی راہ زنی، قتل اور دیگر وارداتوں کے اکیاون مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات کے مطابق آصو امرایا نے بارہ افراد کو قتل کیا ہے، جن میں ضلع اوکاڑہ کے تحریک انصاف کے پانچ افراد بھی شامل ہیں، اسی طرح مصطفیٰ پر ڈکیتی، راہ زنی کے علاوہ قتل کے چار مقدمات ہیں، امجد پر بھی ڈکیتی، راہ زنی سمیت دیگر سنگین واداتوں کے متعدد مقدمات ہیں۔ یہ محض وہ ریکارڈ ہے، جو مقدمات کی صورت میں آنریکارڈ ہے، شہریوں نے درجنوں واقعات کے مقدمات درج ہی نہیں کروائے کیوں کہ جس نے مقدمہ درج کرایا، موت اس کے سر پر آصو امرایا کی صورت میں منڈلانے لگتی تھی۔یہ گینگ ابھی ختم نہیں ہوا، گینگ کے بہت سے ارکان ابھی باقی ہیں البتہ سرغنے آصو امرایا اور دیگر دو ساتھیوں کی ہلاکت نے گینگ کی کمر ضرور توڑ دی ہے۔ ان کے مرنے سے شہریوں نے بھی اس کارنامے پر دل و جان سے پولیس کو داد دی، شہر میں جگہ جگہ پولیس کے حق میں تعریفی بینرز لگائے۔
آصو امرایا گینگ سے مقابلہ کرنے والے پولیس اہل کاروں کو انعامات بھی دیے گئے اور گورنر پنجاب نے خاص طور پر اس ٹیم کو انعام دیا اور ان کی کارکردگی کو سراہا۔ سربراہ یا کپتان اس قدر اہم ہوتا ہے کہ اسی کے سر پر تمام ٹیم کا مورال ہوتا ہے۔ وہ ہی سی آئی اے تھی مگر آصو امرایا گینگ نہیں پکڑا جا رہا تھا۔ سی آئی اے کے سربراہ کو بدلا گیا اور ایس پی فاروق ہندل کو اس سی آئی اے کا ہیڈ لگا دیا گیا تو ایک مہینے کے اندر اندر اتنی بڑی کام یابی سی آئی اے کا مقدر بن گئی۔ اسی طرح آصو امرایا کو پکڑنے والی ٹیم وہی تھی بس دو شیر دل بھائی اس میںشامل کر لیے گئے اور آصو اپنے دو ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ اب تو شہریوں کے دل سے یہ ہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ ماں کے ان بہادر بیٹوں کو سلامت رکھے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس معاشرے کو ناسوروں سے پاک کرنے کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسر ان دونوں بھائیوں کو میڈل بھی دلواتے ہیں یا صرف لولی پاپ ہی دیں گے۔