وفاق المدارس کے وفد کی وزیر اعظم سے ملاقات
حالیہ ملاقات کے مثبت نتائج بجٹ کے فوری بعد نظر آجائیں گے
وطن عزیز میں دینی مدارس کے سب سے بڑے بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے وفد نے چند روز قبل وزیراعظم میاں شہباز شریف سے ملاقات کی، جس میں دینی مدارس کے حوالے سے درپیش مسائل و مشکلات خصوصاً گزشتہ دور حکومت میں کیے گئے اقدامات اور قانون سازیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے دینی مدارس کو درپیش تمام مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے جو کہ نہایت خوش آیند بات ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد میں صدر وفاق مفتی محمد تقی عثمانی، سرپرست وفاق المدارس و امیر جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس برادر عزیز قاری محمد حنیف جالندھری، ان کے صاحبزادے مولانا احمد حنیف جالندھری اور دیگرشامل تھے۔ اس موقعے پر وفاق المدارس کے قائدین نے مدارس کے حوالے سے درپیش مسائل پر مشتمل ایک جامع عرض داشت بھی وزیر اعظم کو پیش کی جس میں مدارس سے متعلق جملہ امور کی تفصیلات اور پس منظر کے ساتھ ساتھ اس کا حل بھی تجویز کیا گیاہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے مدارس کو درپیش مسائل ومشکلات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز اور متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لے کر ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کا وعدہ کیاہے۔
اس بات میں قطعی شک کی گنجائش نہیں کہ مدارس کی تنظیمات نے ہر دور حکومت میں مدارس کے مسائل کو بات چیت اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وفاق المدارس ہو یا کوئی اور وفاق یا پھر تمام وفاقوں کا مشترکہ پلیٹ فارم تنظیمات مدارس دینیہ، آیندہ بھی ان کی حکمت عملی یہی رہے گی۔ بد قسمتی سے ماضی میں بعض حکومتوں کا رویہ مدارس کے ساتھ اچھا نہیں رہا، ان میں مشرف اور عمران خان کے دور کے حوالے پورے وثوق کے ساتھ پیش کیے جاسکتے ہیں۔
اہل علم و دانش عمرانی دور کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بدترین دور قرار دیتے ہیں، اس ساڑھے تین سالہ دور میں ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہوا، ہم نے ہر وہ کام دیکھا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اگر ایک لمحے کے لیے فرض کر بھی لیں کہ سابقہ رجیم کو '' پلانٹ'' نہیں کیا گیا تھا یا وہ کسی ایجنڈے پر نہیں تھے تب بھی اس دور کے حکمرانوں کی نا اہلی، نا لائقی اور خودغرضی نے ملک کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔
پاکستان کی منجھی ہوئی سیاسی قیادت بھی" ریورس گیئر'' لگانے میں شدید مشکلات کا شکار نظر آرہی ہے۔ ہم وقتاً فوقتاً ان تباہ کاریوں کا ذکر اسی کالم میں کرکے اہل علم و دانش اور عوام الناس کو حقائق سے آگاہ رکھنے کی اپنے تئیں کماحقہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ میرا پس منظر اور پیش منظر مدارس کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور میں نے خود کو ہمیشہ مدارس دینیہ اور دینی قوتوں کا وکیل سمجھا ہے۔
اس لیے جب کبھی مدارس و مساجد پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی میں نے اسی کالم میں مدارس کے حق میں آواز حق بلند کی۔ سابقہ دور میں بھی جب مدارس کے خلاف کئی ایک اقدامات اٹھائے گئے جن پر ہم نے بروقت قوم کو حقائق سے ناصرف آگاہ کیا بلکہ مدارس کے خلاف اٹھنے والے ہر اقدام کی شدید مخالفت بھی کی۔
میں سمجھتا ہوں کہ مدارس دینیہ کی بقا اور ان کا تحفظ صرف میرے ذمہ نہیں ہے بلکہ ہر کلمہ گو مسلمان کے ذمہ ہے، آگے اللہ کی مرضی ہے وہ جس سے جتناکام لے لے۔ مدارس کا دفاع اور تحفظ پاکستانی معاشرے اور یہاں کی جمہوری و آ ئینی قدروں کے لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ پاکستان ریاست مدینہ کے بعد واحد اسلامی ریاست ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آئی۔
ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ مدارس نے ہر دور میں انسانی خدمت اور بقائے باہم کو رواج دیا ہے۔ معاشرتی حقوق وآداب سے واقف کرایا ہے۔ ملک میں امن وامان اور سکون واطمینان کی فضا ہموار کرنے کے لیے انھی مدارس اور ان سے جڑی شخصیات نے کردار ادا کیا ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود سابقہ دور میں مدارس کو کئی طرح کی قدغنوں اور چیلنجز کا سامنا رہا۔ اس دور میں سب سے بڑا چیلنج وہ تبدیلیاں تھیں جنہیں انقلابی اصلاحات کے نام پر مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔
اس کے بعد نئے سرے سے رجسٹریشن کا عمل بھی کسی پل صراط سے کم نہ رہا، نئے مدارس کی رجسٹریشن تو ایک خواب بن گیا تھا دہائیوں سے چلنے والے مدارس کو بھی رجسٹریشن کے نام پر ستایا جاتا رہا، عجیب و غریب سوالنامے، مختلف ایجنسیز کی اسکروٹنی ایسے معاملات نے اہل مدارس کی راہ میں کانٹے بچھانے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ مدارس کی آزادی و خود مختاری پر سب سے بڑی تلوار وقف املاک ایکٹ کی صورت میں لٹکا دی گئی۔
جس سے پورے ملک میں خوف و ہراس کی لہر پھیل گئی۔ اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان اقدامات کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بلڈوز کیا اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لائے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ملک بھر کے طول و ارض میں پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس کا نیٹ ورک سب سے بڑی این جی او ہے۔
جن میں 31لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں۔ اتنے بڑے نیٹ ورک کو بغیر کسی حکومتی سرپرستی یا سرکاری فنڈز کے، اپنی مدد آپ کے تحت چلایا جاتا ہے۔ مدارس میں پڑھنے والے ان بچوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر ان کے قیام و طعام تک پر آنے والے کروڑوں روپے میں ایک پائی سرکاری خزانے سے نہیں لی جاتی۔
ہر سال لاکھوں طلبا و طالبات ان مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور معاشرے کی دینی ضروریات کو کماحقہ پورا کرتے ہیں۔ ہمارا ایک بیرسٹر بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک ڈاکٹر بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک انجینئر بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک زمیندار بھی مسلمان ہوتا ہے، ہمارا ایک سرکاری ملازم بھی مسلمان ہوتا ہے اور وہ اپنی شریعت کے بارے میں بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دین یہ کہتا ہے، لیکن اس کے پاس سند نہیں ہے، اگر اس بیچارے مسلمان کو بھی اپنے اس مسئلے کی حقانیت اور اس دین کی حقانیت کی سند کوئی مہیا کررہا ہے تو وہ دینی مدرسہ ہے۔ اس لحاظ سے اس مدرسہ کا پوری امت پر احسان ہے، یہ پوری امت کے لیے ایک روشنی مہیا کررہا ہے۔
اس لیے مدارس کے حوالے سے ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ کہیں روشنی کی یہ شمعیں بجھ نہ جائیں۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومت نے مدارس کی رجسٹریشن، اس کے نصاب اور اس کی خود مختاری کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ان پر ساڑھے تین برس تک درد دل رکھنے والے علماء اور مسلمان شدید اضطراب کا شکار رہے لیکن قانون قدرت تو یہی ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ مدارس کے لیے ایک مشکل دور ختم ہوگیا ملک میں نئی حکومت آچکی ہے، جو ہر بگڑے ہوئے کام کو سنوارنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایسے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے وفد کی وزیر اعظم سے ملاقات اور انھیں مدارس کے مسائل و مشکلات سے آگاہ کرنا ازحد ضروری تھا۔
یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ مدارس کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مختلف حکومتوں کے ساتھ اہل مدارس اور مدارس کی تنظیمات کے مذاکرات ہوتے رہے ہیں، حالیہ ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن بدقسمتی سے مذاکرات برائے مذکرات سے مسئلے حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوجاتے ہیں۔ مزہ تو تب ہے جب ان مذاکرات کا عملی اور ٹھوس حل قوم کے سامنے لایا جائے جس سے فریقین بھی مطمئن ہوں اور عوام بھی خوش ہوں۔
اب تک تو ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا، موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وفاق المدارس العربیہ کے وفد کو ناصرف مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی ہے بلکہ اس بات کی بھی تسلی دی ہے کہ حالیہ ملاقات کے مثبت نتائج بجٹ کے فوری بعد نظر آجائیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو، وزیر اعظم کا وعدہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہو، تاکہ ان مدارس سے جڑے لاکھوں علماء، طلباء و طالبات خوف کی فضا سے نکل کر آزادی کے ساتھ علوم نبوت کی کرنیں بکھیرتے رہیں۔