صحرائے تھر جہاں زندگی کی تہمت لیے خلق خدا سسکتی ہے
صحرائے تھر کے بارے میں کچھ حقائق
لاہور:
صحرائے تھر، جہاں زندگی کی تہمت لیے خلق خدا سسکتی ہے۔ جہاں زمینی خداؤں کی بادشاہت قائم ہے، اور انسان کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت رکھتے ہیں۔
یہاں کے باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں، سہولیات کا تو تصور ہی نہیں کہ بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہوتیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں، روزگار، علاج معالجہ اور مناسب رہائش کو ترستے ہیں۔ یہاں زندگی بوجھ ہے، بلاشبہہ بوجھ۔
ضلع تھرپارکر کا صدر مقام مٹھی ہے۔ تھر پارکر کا رقبہ 19638 مربع کلومیٹر اور 1998 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 955812 ہے۔ اس میں سے صرف 4.54 فی صد شہروں میں مقیم ہے۔ ڈیپلو، چھاچھرو، مٹھی، ننگرپارکر تھرپارکر کی چار تحصیلیں ہیں۔ اس کے شمال میں میرپور خاص اور عمرکوٹ کے اضلاع، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر کے اضلاع، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا علاقہ ہے۔
اس ضلع کا بیش تر علاقہ صحرا پر مشتمل ہے جب کہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں۔ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے اور بذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔
تھر پار کر کا موسم خشک اور گرم ہے۔ یہاں ہر طرف ریت ہی ریت نظر آتی ہے، جو گرمی کے موسم اور تیز ہواؤں میں صحرا کے باسیوں کی زندگی کو مزید مشکل بناتی ہے۔ تھرپارکر کے صحرائی علاقوں سے ملحقہ سرسبز علاقوں میں نقل مکانی معمول کی بات ہے۔ یہ اپنے مویشیوں کے ساتھ ان علاقوں میں قدرت کی نعمتوں کا فائدہ اٹھانے چلے جاتے ہیں۔ یہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور جب بوندیں برسنے لگیں تو جیسے تھر مست و بے خود ہو جاتا ہے۔ ہر طرف خوشی کا رقص ہوتا ہے مگر خوشی کے یہ لمحے کم ہی تھری عوام کی زندگی میں آتے ہیں۔
تھر پارکر کو ماضی میں کئی مرتبہ آفت زدہ قرار دیا گیا۔ یہاں اقوام متحدہ اور دیگر غیرسرکاری تنظیمیں بھی خشک سالی سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لیے متحرک رہی ہیں۔ مگر مقامی منتخب نمائندے کبھی یہاں کے لوگوں کی زندگی بدلنے میں سنجیدہ نہیں رہے۔ تھر پر ارباب خاندان کا راج رہا ہے۔ ارباب خاندان کے نمائندے ہر عام الیکشن میں مقامی عوام کے ووٹوں سے کام یاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ مگر سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے تھر آج بھی پسماندہ ہے۔
صحرائے تھر، جہاں زندگی کی تہمت لیے خلق خدا سسکتی ہے۔ جہاں زمینی خداؤں کی بادشاہت قائم ہے، اور انسان کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت رکھتے ہیں۔
یہاں کے باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں، سہولیات کا تو تصور ہی نہیں کہ بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہوتیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں، روزگار، علاج معالجہ اور مناسب رہائش کو ترستے ہیں۔ یہاں زندگی بوجھ ہے، بلاشبہہ بوجھ۔
ضلع تھرپارکر کا صدر مقام مٹھی ہے۔ تھر پارکر کا رقبہ 19638 مربع کلومیٹر اور 1998 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 955812 ہے۔ اس میں سے صرف 4.54 فی صد شہروں میں مقیم ہے۔ ڈیپلو، چھاچھرو، مٹھی، ننگرپارکر تھرپارکر کی چار تحصیلیں ہیں۔ اس کے شمال میں میرپور خاص اور عمرکوٹ کے اضلاع، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر کے اضلاع، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا علاقہ ہے۔
اس ضلع کا بیش تر علاقہ صحرا پر مشتمل ہے جب کہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں۔ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے اور بذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔
تھر پار کر کا موسم خشک اور گرم ہے۔ یہاں ہر طرف ریت ہی ریت نظر آتی ہے، جو گرمی کے موسم اور تیز ہواؤں میں صحرا کے باسیوں کی زندگی کو مزید مشکل بناتی ہے۔ تھرپارکر کے صحرائی علاقوں سے ملحقہ سرسبز علاقوں میں نقل مکانی معمول کی بات ہے۔ یہ اپنے مویشیوں کے ساتھ ان علاقوں میں قدرت کی نعمتوں کا فائدہ اٹھانے چلے جاتے ہیں۔ یہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور جب بوندیں برسنے لگیں تو جیسے تھر مست و بے خود ہو جاتا ہے۔ ہر طرف خوشی کا رقص ہوتا ہے مگر خوشی کے یہ لمحے کم ہی تھری عوام کی زندگی میں آتے ہیں۔
تھر پارکر کو ماضی میں کئی مرتبہ آفت زدہ قرار دیا گیا۔ یہاں اقوام متحدہ اور دیگر غیرسرکاری تنظیمیں بھی خشک سالی سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لیے متحرک رہی ہیں۔ مگر مقامی منتخب نمائندے کبھی یہاں کے لوگوں کی زندگی بدلنے میں سنجیدہ نہیں رہے۔ تھر پر ارباب خاندان کا راج رہا ہے۔ ارباب خاندان کے نمائندے ہر عام الیکشن میں مقامی عوام کے ووٹوں سے کام یاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ مگر سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے تھر آج بھی پسماندہ ہے۔