دُکھوں کی روٹی کانٹوں کا سالن
قہقہوں میں جگمگاتی ’’محترم‘‘ دنیا کے بیچ تیسرے درجے کی موت کا ایک منظر
تھرپارکر سندھ کا دور افتادہ وہ ضلع ہے، جہاں اگر قدرتی آفات میں کمی آئے تو انسان کے ہاتھوں تباہ کاری کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا۔
ان دنوں قدرتی آفات کے بعد وہاں جو المیہ درپیش ہے اس سے نمٹنے کا خیال حکومتِ سندھ حکومت ایک سو اکیس معصوم بچوں کی نعشوں کو دیکھنے کے بعد ہی آیا ہے۔ ضلع تھرپارکر وہی ضلع ہے، جہاں محض ایک ماہ پہلے پورے پاکستان کو روشن کرنے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے تھر کول پروجیکٹ کا افتتاح کیا تھا۔
اس بار بھی نہ تو صوبائی حکومت نے اور نہ ہی وفاقی حکومت نے اس طرف توجہ دی کہ تھر پارکر میں بارشیں کم ہوئی ہیں اور وہاں روایتی انداز میں قحط سالی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ تھر کول پروجیکٹ کے لیے آنے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی روایات سے ہٹ کر تھر کی امداد کے لیے کوئی بھی اعلان نہیں کیا، اپنے دوست آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کے وعدے کیے اور بھاری سیکوریٹی میں واپس چلے گئے۔ پروجیکٹ کے افتتاح کا میلہ چھٹا تو تھر کی بھوک اور بیماری نے جیسے گھر گھر کا رخ کرلیا۔ ہر دن تھرپارکر کے واحد پچاس بیڈ کے سرکاری سول اسپتال میں غذائی قلت سے متاثرہ ادھ موئے معصوم بیماروں کی آمد بڑھ گئی، جنہیں روایتی انداز میں ٹریٹ کیا گیا، یعنی دو دو تین تین ننھے بیماروں کو ایک بیڈ پر جگہ دی گئی، اور دوائی کے لیے ہاتھ میں پرچی تھما دی گئی کہ جاؤ، اپنا بچہ بچانا ہے تو میڈیکل اسٹور سے دوائی خرید لاؤ۔
پرچی لینے والے أنسو بہاتے کہ خشک سالی کی وجہ سے اور اپنی بے روزگاری کے سبب ان کی جیب خالی ہے، لیکن ان کی کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے اپنے معصوم بچوں کو بچانے کے لیے انہوں نے یا تو بھیک مانگی یا پھر اپنے مویشی، جو ان کے روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں، اونے پونے داموں فروخت کرکے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کوشش میں سول اسپتال مٹھی کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ماہ دسمبر میں ایک سے پانچ سال تک کی عمر کے 42 معصوم بچے، جنوری میں 40 بچے اور فروری کے اٹھائیس دنوں میں 36 بچے اور مارچ کے ابتدائی ہفتے میں پانچ بچے لقمۂ اجل بن گئے۔
ایکسپریس نیوز نے جب پہلی بار یہ خبر نشر کی کہ صرف ماہ فروری کے دوران اب تک سول اسپتال مٹھی میں علاج معالجے کے لیے لائے جانے والے 178 بچوں میں سے 36 بچے چل بسے تو حکومتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آ گیا۔ ایک ماہ میں تیس سے زائد معصوم بچوں کی ہلاکت کا پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نوٹس لیا اور انھوں نے سندھ حکومت کو فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے اور اسپیشل ریلیف کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی، جس کے بعد محسوس ہوا کہ سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے پاس عوامی مسائل پر نظر ڈالنے کے لیے بھی وقت ہے۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے مٹھی آئے تو ضلعی انتظامیہ کے افسران،نہایت مطمئن تھے اور اتنے سارے بچوں کے ایک ماہ میں فوت ہوجانے کو تقریباً معمول کی کارروائی قرار دے رہے تھے۔
ضلع تھرپارکر میں قحط سالی اور خوراک کی کمی کے باعث ایک ماہ میں چھتیس بچوں کی ہلاکت کی خبر ایکسپریس نیوز پر نشر ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر تھرپارکر اور پی پی پی کے ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی نے سول اسپتال کا دورہ کیا اور ڈاکٹروں سے صورت حال کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔ پھر مہیش کمار ملانی نے اطلاع دی کہ گذشتہ ماہ ساٹھ ہزار گندم کی بوریاں تھرپارکر پہنچ چکی تھیں اور ایک ہفتہ کے اندر نصف قیمت پر ان کی فراہمی شروع کر دی جائے گی۔ انھوں نے بچوں کی ہلاکت کو صرف قحط سالی نہیں بلکہ مختلف بیماریوں کا شاخسانہ۔ ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ تھرپارکر کو قحط زدہ علاقہ قرار دلانے کے لیے سندھ کو حکومت کو سفارشات بھیج چکے ہیں۔
ڈی سی اور ایم پی اے کی باتیں سننے کے بعد ڈی ایچ او تھرپارکر ڈاکٹر عبدالجلیل بھرگڑی نے فوری طور پر مرنے والے بچوں کی تعداد 36 سے کم کر کے پہلے 32 اور پھر مزید کم کر کے صرف 23 بچوں کی موت کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال سے کم عمر کے تئیس بچوں کی موت واقع ہوئی ہے، جس کے مختلف اسباب ہیں، کچھ بچے وقت سے پہلے پیدا ہوئے تھے اور کچھ بچے ایک بیماری لیونٹی سیپسس انفیکشن کا شکار ہوئے۔ کچھ بچوں میں پیدائشی دل کی بیماریاں تھی۔
وجوہات کچھ بھی ہوں، لیکن ایک ماہ میں بڑی تعداد میں ننھی کلیوں کا مرجھانا تشویش ناک بات ہے۔ مٹھی میں افسران کی جانب سے اس پر بھی سب ٹھیک ہے اور معمول کے مطابق ہے کی رٹ جاری تھی کہ ملک کے معمر ترین وزیر اعلی سید قائم علی شاہ، پارٹی کی قیادت کی ہدایات پر کراچی سے مٹھی کے لیے چل پڑے۔ مٹھی کے سرکٹ ہاؤس میں انہوں نے بریفنگ لی، جہاں تھرپارکر سے منتخب ہونے والے پی پی پی کے ایم پی ایز کا اصرار تھا کہ بچے کسی قحط سالی کی وجہ سے نہیں بلکہ دسمبر جنوری میں پڑنے والی شدید سردی کی وجہ سے، گرم کپڑے نہ ہونے کے باعث بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرے ہیں۔ شاہ جی نے سب کی سنی اور پھر پہلے سرکٹ ہاؤس میں اور پھر سول اسپتال مٹھی میں زیرعلاج بچوں کی عیادت کرنے اور ان کے تیمارداروں کو پندرہ سو اور کسی کو دو ہزار کے بند لفافے دینے کے بعد انھوں نے جو گفتگو کی اس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ کم بارشوں اور شدید سردی کی وجہ سے بچوں اور مویشیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ انھوں نے سول اسپتال کے ایم ایس، لائیو اسٹاف کے دو افسران کو معطل کرنے کا اعلان کیا اور سول اسپتال کے ایک کروڑ سالانہ کے بجٹ کو دو کروڑ کرنے کا بھی اعلان کیا اور چلے گئے، ساتھ ہی یہ بھی فرما گئے کہ بیماری سے متاثرہ مال مویشی خصوصاً بھیڑوں کو کراچی اور دیگر اضلاع میں جانے نہ دیا جائے۔
مٹھی کا سول اسپتال گندگی اور غلاظت کا ڈھیر تھا، لیکن جیسے ہی وزیراعلیٰ سندھ کی آمد کی اطلاع ملی تو انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں اور پورے اسپتال کا نقشہ بدل دیا گیا۔ ہفتوں کے بعد اسپتال کے اندر باہر کچرے کے ڈھیر ہٹادیے گئے، اسپتال کے اطراف اور آنے والی سڑکوں کو جھاڑو دے کر چمکانے کے بعد چونا بھی لگا دیا گیا اور اسپتال میں جن بیڈز پر بغیر چادر کے مریض پڑے ہوئے تھے، ان پر نئی چادریں بچھا کر مریضوں کو لٹا دیا گیا۔ تعفن کو دور کرنے کے لیے اسپتال کی راہ داریوں کو دھویا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ اسپتال کے ڈاکٹرز نے نئے کلف لگے ایپرن پہن لیے۔ دوسری طرف اسپتال کے اندر اور باہر پولیس اہلکار تعینات کرنے کے ساتھ وزیراعلیٰ کی آمد سے کئی گھنٹے قبل دوپہر ایک بجے ہی تیمارداروں کو اسپتال سے باہر نکال دیا گیا، جو شام سات بجے بھی اسپتال میں داخل ہو سکے۔ تھر کے عوام برسوں سے دوا کے لیے ترس رہے تھے، لیکن وزیر اعلیٰ کی آمد سے افسران کو ہوش آگیا اور فوری طور پر ادویات سے بھری گاڑی اسپتال پہنچادی گئی۔ انتظامیہ نے حکومت کو سب اچھا دکھانے کے لیے یہ انتظامات تو کردیے لیکن اسپتال کے ایم ایس کی پھرتیاں کسی بھی کام نہیں آسکیں اور وہ مریضوں کی شکایات پر معطل ہو ہی گئے۔
وزیراعلیٰ نے اپنے دورۂ مٹھی کے دوران اس بات کا بھی نوٹس لیا کہ حکومت نے تھر کے بھوک سے متاثرہ عوام میں تقسیم کرنے کے لیے ساٹھ ہزار گندم کی بوریاں، 12فروری 2014 تک بھجوادی تھیں پھر بھی وہ نصف قیمت میں عوام کو نہیں دی گئیں۔ پتا چلا کہ مٹھی سے دیگر متاثرہ علاقوں میں گندم پہنچانے کے لیے کرائے کی مد میں تیس لاکھ روپے نہیں تھے اور یہ تیس لاکھ روپے ریلیف کمشنر کو فراہم کرنے تھے۔ بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ تھرپارکر میں افسران پر سے حکومت کی رٹ ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے یا پھر حکومت نے اُن افسران کے بااثر ہونے کی وجہ سے اپنی گورنینس ہی کھو دی ہے۔
بہرحال دبے دبے الفاظ میں شاہ جی نے افسران کی بات ماننے سے انکار بھی کیا اور کہا کہ ویسے تو صحرا میں قحط سالی آتی رہتی ہے، لیکن بچوں اور مویشیوں سے متعلق تھر کے صحافی جو کہیں گے وہ حقیقت کے قریب تر ہو گا۔ یہ بات درجنوں چینلز کے رپورٹرز سے آن کیمرا کہہ کر وزیراعلیٰ سندھ نے دراصل بیٹی کو ڈانٹ کر بہو کو سنانے کے محاورے کے مصدق اپنے منتخب نمائندوں کو کہہ دیا ہے کہ اب جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو وہ کم سے کم اس وقت تک تھرپارکر کے عوام کے درمیان رہیں۔ شاہ جی سے صحافیوں نے یہ بھی سوال کرڈالا کہ کیا سردی صرف پاکستانی تھر میں پڑی جو بچے اس کی وجہ سے مرے، یا سردی بھارتی صحرا میں بھی پڑی، اگر سردی نے سرحدوں کا لحاظ نہیں کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف پاکستانی صحرائے تھر ہی میں ہلاکتیں ہوئیں۔ بھارتی صحرا سے اب تک مرنے والوں کے عزیز و اقارب کی آوازیں کیوں نہیں آ رہی ہیں۔ وہاں پر اب تک قحط سالی کا نعرہ کیوں نہیں لگا ہے۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہاں گڈ گورنینس ہے۔ اس سوال کو شاہ جی نے سن کر جواب دینے کے بجائے دوسرے سوال کا مختصر جواب دے دیا کہ صحرا تھر میں تو قحط سالی آتی رہتی ہے۔ یہ معمول کی بات ہے، ہم حالات پر نظر رکھیں گے۔
اب آئیے، دیکھتے ہیں صحرائے تھر میں کب کب قحط سالی ہوئی۔ قیام پاکستان سے اب تک چودہ بار قحط نے ڈیرے ڈالے، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاتعداد مویشی ہلاک ہوئے۔ صحرائے تھر میں بارشیں نہ ہوں تو وہاں موت کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔ انیس سو اکسٹھ، انیس سو چھیاسٹھ، انیس سو انہتر، انیس سو چوہتر، انیس سو چوراسی، انیس سو ستاسی، انیس سو اکیانوے، انیس سو چورانونے، انیس سو ننانوے، دو ہزار دو، دو ہزار چار، دو ہزار سات ، دو ہزار نو اور اب دو ہزار چودہ میں بارشیں نہ ہونے کے باعث قحط آیا۔ ہر بار قحط کے باعث صحرائی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ بیراجی علاقوں میں نقل مکانی کرجاتے ہیں، جو رہ جاتے ہیں ان کے گھروں پر بھوک اور پیاس کے ساتھ موت ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق قحط کے ان سالوں میں صرف انیس سو ستاسی میں اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے دل کھول کر متاثرین کی بھرپور مدد کی تھی اور ان میں گھی، گندم، دالیں اور دیگر اشیائے ضرورت وافر مقدار میں تقسیم کی تھیں، اس کے علاوہ کسی بھی دور میں تھر میں قحط کے مارے عوام کی مدد نہیں کی گئی، اگر کبھی ہوا بھی تو مدد کے نام پر نصف قیمتوں پر گندم فراہم کی گئی۔
وزیر اعلی سندھ نے معصوم ننھی کلیوں کے مرجھا جانے پر ان کے بے روزگار والدین کے لیے کسی بھی قسم کی امداد دینے کا اعلان کرنے سے بھی انکار کیا لیکن دوسرے روز کراچی میں پریس کانفرنس میں ایسے مرنے والے بچوں کے والدین کے لیے دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کر ہی دیا۔ ساتھ ہی گوداموں میں رکھی ساٹھ ہزار گندم کی بوریوں میں ساٹھ ہزار بوریوں کا مزید اضافہ کر کے ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ساتھ ہی اپنی مجبوری بیان کرتے ہوئے سندھ حکومت کو بروقت صورت حال سے مطلع نہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر اور ایس پی تھرپارکر کا ٹرانسفر کرنے کے احکامات بھی دیے، اور ڈپٹی کمشنر بھی وہ جن کے ایک بھائی تھرپارکر سے صوبائی اسمبلی کے رکن، ایک بھائی مٹیاری سے منتخب ہو کر صوبائی وزیر اور والد اور چچا بھی منتخب نمائندے۔ شاہ جی نے کہا کہ بہت دباؤ تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایکشن لیا ہے۔ ویسے بھی سول اسپتال مٹھی میں قحط کے باعث ایک ماہ میں بتیس بچوں کی ہلاکت کی خبر نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وزیر اعلی بڑے اقدامات کے باعث نہایت سادگی سے بتا گئے کہ انہیں کتنے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک ماہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد تین ماہ میں ایک سو اکیس بنتی ہے تاہم یہ اعداد و شمار صرف سرکاری اسپتال میں لائے جانے والے بچوں کے ہیں، دور دراز کے علاقوں میں پنجے گاڑے قحط کے عفریت نے کیا تباہی پھیلائی ہے اس سے فی الحال کوئی واقف نہیں۔ ضلع تھرپارکر کے ہیڈ کوارٹر مٹھی کے سول اسپتال کے نیوٹریشن وارڈ میں مٹھی اور قریب کے دیہی علاقوں سے روزانہ درجنوں بچوں کو داخل کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر بچے قے، اسہال کے علاوہ کم خوراکی کے باعث وزن کی کمی، قوت مدافعت کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث لائے گئے ہیں۔ اسپتال ذرائع کے مطابق نیوٹریشن وارڈ میں روزانہ کم و بیس دس بچے لائے جاتے ہیں، جن میں سے ایک دو بچے ہی اسپتال میں ٹھہر پاتے ہیں، باقی کو ان کے والدین وسائل نہ ہونے کے باعث واپس اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتال کا ریکارڈ سامنے آنے پر لوگوں کو صورتحال معلوم ہوئی، لیکن اصل صورت حال اس سے زیادہ خراب ہے، کیوں کہ بچوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہو سکتی ہے جو دور دراز ہونے یا وسائل نہ ہونے کے باعث اسپتال نہ پہنچ سکی ہو اور اگر ایسا ہے تو یہ صورت حال زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، کیونکہ ہر گاؤں میں دو سے چار بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان میں ہیپاٹائٹس کی بیماری بھی پھیل رہی ہے، جب کہ قحط سالی کے باعث ان کی ماؤں کو مناسب غذا اور پانی نہیں مل رہا، جس سے بچوں کی بھی غذائی ضرورت پوری نہیں ہو رہی۔ بڑی تعداد میں مویشیوں کی ہلاکت کے باعث بچے مویشیوں کے دودھ سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
یہاں مختلف این جی اوز سے تعلق رکھنے والے بڑے واضح انداز میں کہتے ہیں کہ بائیس ہزار مربع میل پر پھیلے سندھ کے اس ضلع میں 2365 ریوینیو دیہات رجسٹرڈ جبکہ چھوٹے چھوٹے دیہات کی تعداد بھی دو سے تین ہزار ہے جو بطور ریوینیو دیہات رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اب یہ نمائندگان یہ بات بھی کرتے ہیں کہ دور دراز علاقوں سے لوگ پیسے نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کو اسپتال تک لا ہی نہیں رہے ہیں۔ اصل صورت حال کیا ہے، کتنی ماؤں کی گود اجڑی اس کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
تھر میں میٹھے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے قحط سالی کی صورت حال ہے اور تھر کے باسیوں پر زندگی تنگ ہوگئی ہے، مویشی، پرندے سمیت انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر تیزی سے مر رہے ہیں۔ تین سال پہلے حکومت نے ننگر پار کر تک میٹھا پانی پہنچانے کے لیے اٹھائیس کروڑ کی لاگت سے پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کیا تھا جو مختلف وجوہات کی وجہ سے آج تک مکمل نہیں ہو سکا، جب کہ پائپ لائن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ حکومت نے تھر کے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے پاک اوسس کے ایک سو سے زائد آر او فلٹر پلانٹس لگانے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا لیکن عدم توجہی کی وجہ سے اربوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے تمام آر او پلانٹ ناکارہ ہوگئے، جس کے ساتھ ساتھ تھر کے باسیوں کا میٹھے پانی کے حصول کا خواب بس خواب ہی رہا۔
ان دنوں قدرتی آفات کے بعد وہاں جو المیہ درپیش ہے اس سے نمٹنے کا خیال حکومتِ سندھ حکومت ایک سو اکیس معصوم بچوں کی نعشوں کو دیکھنے کے بعد ہی آیا ہے۔ ضلع تھرپارکر وہی ضلع ہے، جہاں محض ایک ماہ پہلے پورے پاکستان کو روشن کرنے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے تھر کول پروجیکٹ کا افتتاح کیا تھا۔
اس بار بھی نہ تو صوبائی حکومت نے اور نہ ہی وفاقی حکومت نے اس طرف توجہ دی کہ تھر پارکر میں بارشیں کم ہوئی ہیں اور وہاں روایتی انداز میں قحط سالی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ تھر کول پروجیکٹ کے لیے آنے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی روایات سے ہٹ کر تھر کی امداد کے لیے کوئی بھی اعلان نہیں کیا، اپنے دوست آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کے وعدے کیے اور بھاری سیکوریٹی میں واپس چلے گئے۔ پروجیکٹ کے افتتاح کا میلہ چھٹا تو تھر کی بھوک اور بیماری نے جیسے گھر گھر کا رخ کرلیا۔ ہر دن تھرپارکر کے واحد پچاس بیڈ کے سرکاری سول اسپتال میں غذائی قلت سے متاثرہ ادھ موئے معصوم بیماروں کی آمد بڑھ گئی، جنہیں روایتی انداز میں ٹریٹ کیا گیا، یعنی دو دو تین تین ننھے بیماروں کو ایک بیڈ پر جگہ دی گئی، اور دوائی کے لیے ہاتھ میں پرچی تھما دی گئی کہ جاؤ، اپنا بچہ بچانا ہے تو میڈیکل اسٹور سے دوائی خرید لاؤ۔
پرچی لینے والے أنسو بہاتے کہ خشک سالی کی وجہ سے اور اپنی بے روزگاری کے سبب ان کی جیب خالی ہے، لیکن ان کی کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے اپنے معصوم بچوں کو بچانے کے لیے انہوں نے یا تو بھیک مانگی یا پھر اپنے مویشی، جو ان کے روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں، اونے پونے داموں فروخت کرکے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کوشش میں سول اسپتال مٹھی کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ماہ دسمبر میں ایک سے پانچ سال تک کی عمر کے 42 معصوم بچے، جنوری میں 40 بچے اور فروری کے اٹھائیس دنوں میں 36 بچے اور مارچ کے ابتدائی ہفتے میں پانچ بچے لقمۂ اجل بن گئے۔
ایکسپریس نیوز نے جب پہلی بار یہ خبر نشر کی کہ صرف ماہ فروری کے دوران اب تک سول اسپتال مٹھی میں علاج معالجے کے لیے لائے جانے والے 178 بچوں میں سے 36 بچے چل بسے تو حکومتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آ گیا۔ ایک ماہ میں تیس سے زائد معصوم بچوں کی ہلاکت کا پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نوٹس لیا اور انھوں نے سندھ حکومت کو فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے اور اسپیشل ریلیف کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی، جس کے بعد محسوس ہوا کہ سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے پاس عوامی مسائل پر نظر ڈالنے کے لیے بھی وقت ہے۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے مٹھی آئے تو ضلعی انتظامیہ کے افسران،نہایت مطمئن تھے اور اتنے سارے بچوں کے ایک ماہ میں فوت ہوجانے کو تقریباً معمول کی کارروائی قرار دے رہے تھے۔
ضلع تھرپارکر میں قحط سالی اور خوراک کی کمی کے باعث ایک ماہ میں چھتیس بچوں کی ہلاکت کی خبر ایکسپریس نیوز پر نشر ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر تھرپارکر اور پی پی پی کے ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی نے سول اسپتال کا دورہ کیا اور ڈاکٹروں سے صورت حال کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔ پھر مہیش کمار ملانی نے اطلاع دی کہ گذشتہ ماہ ساٹھ ہزار گندم کی بوریاں تھرپارکر پہنچ چکی تھیں اور ایک ہفتہ کے اندر نصف قیمت پر ان کی فراہمی شروع کر دی جائے گی۔ انھوں نے بچوں کی ہلاکت کو صرف قحط سالی نہیں بلکہ مختلف بیماریوں کا شاخسانہ۔ ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ تھرپارکر کو قحط زدہ علاقہ قرار دلانے کے لیے سندھ کو حکومت کو سفارشات بھیج چکے ہیں۔
ڈی سی اور ایم پی اے کی باتیں سننے کے بعد ڈی ایچ او تھرپارکر ڈاکٹر عبدالجلیل بھرگڑی نے فوری طور پر مرنے والے بچوں کی تعداد 36 سے کم کر کے پہلے 32 اور پھر مزید کم کر کے صرف 23 بچوں کی موت کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال سے کم عمر کے تئیس بچوں کی موت واقع ہوئی ہے، جس کے مختلف اسباب ہیں، کچھ بچے وقت سے پہلے پیدا ہوئے تھے اور کچھ بچے ایک بیماری لیونٹی سیپسس انفیکشن کا شکار ہوئے۔ کچھ بچوں میں پیدائشی دل کی بیماریاں تھی۔
وجوہات کچھ بھی ہوں، لیکن ایک ماہ میں بڑی تعداد میں ننھی کلیوں کا مرجھانا تشویش ناک بات ہے۔ مٹھی میں افسران کی جانب سے اس پر بھی سب ٹھیک ہے اور معمول کے مطابق ہے کی رٹ جاری تھی کہ ملک کے معمر ترین وزیر اعلی سید قائم علی شاہ، پارٹی کی قیادت کی ہدایات پر کراچی سے مٹھی کے لیے چل پڑے۔ مٹھی کے سرکٹ ہاؤس میں انہوں نے بریفنگ لی، جہاں تھرپارکر سے منتخب ہونے والے پی پی پی کے ایم پی ایز کا اصرار تھا کہ بچے کسی قحط سالی کی وجہ سے نہیں بلکہ دسمبر جنوری میں پڑنے والی شدید سردی کی وجہ سے، گرم کپڑے نہ ہونے کے باعث بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرے ہیں۔ شاہ جی نے سب کی سنی اور پھر پہلے سرکٹ ہاؤس میں اور پھر سول اسپتال مٹھی میں زیرعلاج بچوں کی عیادت کرنے اور ان کے تیمارداروں کو پندرہ سو اور کسی کو دو ہزار کے بند لفافے دینے کے بعد انھوں نے جو گفتگو کی اس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ کم بارشوں اور شدید سردی کی وجہ سے بچوں اور مویشیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ انھوں نے سول اسپتال کے ایم ایس، لائیو اسٹاف کے دو افسران کو معطل کرنے کا اعلان کیا اور سول اسپتال کے ایک کروڑ سالانہ کے بجٹ کو دو کروڑ کرنے کا بھی اعلان کیا اور چلے گئے، ساتھ ہی یہ بھی فرما گئے کہ بیماری سے متاثرہ مال مویشی خصوصاً بھیڑوں کو کراچی اور دیگر اضلاع میں جانے نہ دیا جائے۔
مٹھی کا سول اسپتال گندگی اور غلاظت کا ڈھیر تھا، لیکن جیسے ہی وزیراعلیٰ سندھ کی آمد کی اطلاع ملی تو انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں اور پورے اسپتال کا نقشہ بدل دیا گیا۔ ہفتوں کے بعد اسپتال کے اندر باہر کچرے کے ڈھیر ہٹادیے گئے، اسپتال کے اطراف اور آنے والی سڑکوں کو جھاڑو دے کر چمکانے کے بعد چونا بھی لگا دیا گیا اور اسپتال میں جن بیڈز پر بغیر چادر کے مریض پڑے ہوئے تھے، ان پر نئی چادریں بچھا کر مریضوں کو لٹا دیا گیا۔ تعفن کو دور کرنے کے لیے اسپتال کی راہ داریوں کو دھویا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ اسپتال کے ڈاکٹرز نے نئے کلف لگے ایپرن پہن لیے۔ دوسری طرف اسپتال کے اندر اور باہر پولیس اہلکار تعینات کرنے کے ساتھ وزیراعلیٰ کی آمد سے کئی گھنٹے قبل دوپہر ایک بجے ہی تیمارداروں کو اسپتال سے باہر نکال دیا گیا، جو شام سات بجے بھی اسپتال میں داخل ہو سکے۔ تھر کے عوام برسوں سے دوا کے لیے ترس رہے تھے، لیکن وزیر اعلیٰ کی آمد سے افسران کو ہوش آگیا اور فوری طور پر ادویات سے بھری گاڑی اسپتال پہنچادی گئی۔ انتظامیہ نے حکومت کو سب اچھا دکھانے کے لیے یہ انتظامات تو کردیے لیکن اسپتال کے ایم ایس کی پھرتیاں کسی بھی کام نہیں آسکیں اور وہ مریضوں کی شکایات پر معطل ہو ہی گئے۔
وزیراعلیٰ نے اپنے دورۂ مٹھی کے دوران اس بات کا بھی نوٹس لیا کہ حکومت نے تھر کے بھوک سے متاثرہ عوام میں تقسیم کرنے کے لیے ساٹھ ہزار گندم کی بوریاں، 12فروری 2014 تک بھجوادی تھیں پھر بھی وہ نصف قیمت میں عوام کو نہیں دی گئیں۔ پتا چلا کہ مٹھی سے دیگر متاثرہ علاقوں میں گندم پہنچانے کے لیے کرائے کی مد میں تیس لاکھ روپے نہیں تھے اور یہ تیس لاکھ روپے ریلیف کمشنر کو فراہم کرنے تھے۔ بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ تھرپارکر میں افسران پر سے حکومت کی رٹ ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے یا پھر حکومت نے اُن افسران کے بااثر ہونے کی وجہ سے اپنی گورنینس ہی کھو دی ہے۔
بہرحال دبے دبے الفاظ میں شاہ جی نے افسران کی بات ماننے سے انکار بھی کیا اور کہا کہ ویسے تو صحرا میں قحط سالی آتی رہتی ہے، لیکن بچوں اور مویشیوں سے متعلق تھر کے صحافی جو کہیں گے وہ حقیقت کے قریب تر ہو گا۔ یہ بات درجنوں چینلز کے رپورٹرز سے آن کیمرا کہہ کر وزیراعلیٰ سندھ نے دراصل بیٹی کو ڈانٹ کر بہو کو سنانے کے محاورے کے مصدق اپنے منتخب نمائندوں کو کہہ دیا ہے کہ اب جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو وہ کم سے کم اس وقت تک تھرپارکر کے عوام کے درمیان رہیں۔ شاہ جی سے صحافیوں نے یہ بھی سوال کرڈالا کہ کیا سردی صرف پاکستانی تھر میں پڑی جو بچے اس کی وجہ سے مرے، یا سردی بھارتی صحرا میں بھی پڑی، اگر سردی نے سرحدوں کا لحاظ نہیں کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف پاکستانی صحرائے تھر ہی میں ہلاکتیں ہوئیں۔ بھارتی صحرا سے اب تک مرنے والوں کے عزیز و اقارب کی آوازیں کیوں نہیں آ رہی ہیں۔ وہاں پر اب تک قحط سالی کا نعرہ کیوں نہیں لگا ہے۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہاں گڈ گورنینس ہے۔ اس سوال کو شاہ جی نے سن کر جواب دینے کے بجائے دوسرے سوال کا مختصر جواب دے دیا کہ صحرا تھر میں تو قحط سالی آتی رہتی ہے۔ یہ معمول کی بات ہے، ہم حالات پر نظر رکھیں گے۔
اب آئیے، دیکھتے ہیں صحرائے تھر میں کب کب قحط سالی ہوئی۔ قیام پاکستان سے اب تک چودہ بار قحط نے ڈیرے ڈالے، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاتعداد مویشی ہلاک ہوئے۔ صحرائے تھر میں بارشیں نہ ہوں تو وہاں موت کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔ انیس سو اکسٹھ، انیس سو چھیاسٹھ، انیس سو انہتر، انیس سو چوہتر، انیس سو چوراسی، انیس سو ستاسی، انیس سو اکیانوے، انیس سو چورانونے، انیس سو ننانوے، دو ہزار دو، دو ہزار چار، دو ہزار سات ، دو ہزار نو اور اب دو ہزار چودہ میں بارشیں نہ ہونے کے باعث قحط آیا۔ ہر بار قحط کے باعث صحرائی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ بیراجی علاقوں میں نقل مکانی کرجاتے ہیں، جو رہ جاتے ہیں ان کے گھروں پر بھوک اور پیاس کے ساتھ موت ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق قحط کے ان سالوں میں صرف انیس سو ستاسی میں اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے دل کھول کر متاثرین کی بھرپور مدد کی تھی اور ان میں گھی، گندم، دالیں اور دیگر اشیائے ضرورت وافر مقدار میں تقسیم کی تھیں، اس کے علاوہ کسی بھی دور میں تھر میں قحط کے مارے عوام کی مدد نہیں کی گئی، اگر کبھی ہوا بھی تو مدد کے نام پر نصف قیمتوں پر گندم فراہم کی گئی۔
وزیر اعلی سندھ نے معصوم ننھی کلیوں کے مرجھا جانے پر ان کے بے روزگار والدین کے لیے کسی بھی قسم کی امداد دینے کا اعلان کرنے سے بھی انکار کیا لیکن دوسرے روز کراچی میں پریس کانفرنس میں ایسے مرنے والے بچوں کے والدین کے لیے دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کر ہی دیا۔ ساتھ ہی گوداموں میں رکھی ساٹھ ہزار گندم کی بوریوں میں ساٹھ ہزار بوریوں کا مزید اضافہ کر کے ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ساتھ ہی اپنی مجبوری بیان کرتے ہوئے سندھ حکومت کو بروقت صورت حال سے مطلع نہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر اور ایس پی تھرپارکر کا ٹرانسفر کرنے کے احکامات بھی دیے، اور ڈپٹی کمشنر بھی وہ جن کے ایک بھائی تھرپارکر سے صوبائی اسمبلی کے رکن، ایک بھائی مٹیاری سے منتخب ہو کر صوبائی وزیر اور والد اور چچا بھی منتخب نمائندے۔ شاہ جی نے کہا کہ بہت دباؤ تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایکشن لیا ہے۔ ویسے بھی سول اسپتال مٹھی میں قحط کے باعث ایک ماہ میں بتیس بچوں کی ہلاکت کی خبر نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وزیر اعلی بڑے اقدامات کے باعث نہایت سادگی سے بتا گئے کہ انہیں کتنے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک ماہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد تین ماہ میں ایک سو اکیس بنتی ہے تاہم یہ اعداد و شمار صرف سرکاری اسپتال میں لائے جانے والے بچوں کے ہیں، دور دراز کے علاقوں میں پنجے گاڑے قحط کے عفریت نے کیا تباہی پھیلائی ہے اس سے فی الحال کوئی واقف نہیں۔ ضلع تھرپارکر کے ہیڈ کوارٹر مٹھی کے سول اسپتال کے نیوٹریشن وارڈ میں مٹھی اور قریب کے دیہی علاقوں سے روزانہ درجنوں بچوں کو داخل کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر بچے قے، اسہال کے علاوہ کم خوراکی کے باعث وزن کی کمی، قوت مدافعت کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث لائے گئے ہیں۔ اسپتال ذرائع کے مطابق نیوٹریشن وارڈ میں روزانہ کم و بیس دس بچے لائے جاتے ہیں، جن میں سے ایک دو بچے ہی اسپتال میں ٹھہر پاتے ہیں، باقی کو ان کے والدین وسائل نہ ہونے کے باعث واپس اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتال کا ریکارڈ سامنے آنے پر لوگوں کو صورتحال معلوم ہوئی، لیکن اصل صورت حال اس سے زیادہ خراب ہے، کیوں کہ بچوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہو سکتی ہے جو دور دراز ہونے یا وسائل نہ ہونے کے باعث اسپتال نہ پہنچ سکی ہو اور اگر ایسا ہے تو یہ صورت حال زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، کیونکہ ہر گاؤں میں دو سے چار بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان میں ہیپاٹائٹس کی بیماری بھی پھیل رہی ہے، جب کہ قحط سالی کے باعث ان کی ماؤں کو مناسب غذا اور پانی نہیں مل رہا، جس سے بچوں کی بھی غذائی ضرورت پوری نہیں ہو رہی۔ بڑی تعداد میں مویشیوں کی ہلاکت کے باعث بچے مویشیوں کے دودھ سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
یہاں مختلف این جی اوز سے تعلق رکھنے والے بڑے واضح انداز میں کہتے ہیں کہ بائیس ہزار مربع میل پر پھیلے سندھ کے اس ضلع میں 2365 ریوینیو دیہات رجسٹرڈ جبکہ چھوٹے چھوٹے دیہات کی تعداد بھی دو سے تین ہزار ہے جو بطور ریوینیو دیہات رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اب یہ نمائندگان یہ بات بھی کرتے ہیں کہ دور دراز علاقوں سے لوگ پیسے نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کو اسپتال تک لا ہی نہیں رہے ہیں۔ اصل صورت حال کیا ہے، کتنی ماؤں کی گود اجڑی اس کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
تھر میں میٹھے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے قحط سالی کی صورت حال ہے اور تھر کے باسیوں پر زندگی تنگ ہوگئی ہے، مویشی، پرندے سمیت انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر تیزی سے مر رہے ہیں۔ تین سال پہلے حکومت نے ننگر پار کر تک میٹھا پانی پہنچانے کے لیے اٹھائیس کروڑ کی لاگت سے پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کیا تھا جو مختلف وجوہات کی وجہ سے آج تک مکمل نہیں ہو سکا، جب کہ پائپ لائن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ حکومت نے تھر کے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے پاک اوسس کے ایک سو سے زائد آر او فلٹر پلانٹس لگانے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا لیکن عدم توجہی کی وجہ سے اربوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے تمام آر او پلانٹ ناکارہ ہوگئے، جس کے ساتھ ساتھ تھر کے باسیوں کا میٹھے پانی کے حصول کا خواب بس خواب ہی رہا۔