مذاکراتی عمل بے جا بیان بازی سے گریز کی ضرورت
طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کی حمایت کے ساتھ ساتھ اب اس کی مخالفت میں آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں
ISLAMABAD:
حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کی حمایت کے ساتھ ساتھ اب اس کی مخالفت میں آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی ان ''مذاکرات'' پر ''مذاق رات'' کی پھبتی کسی ہے، جب کہ فوجی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ فوجی قیادت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنائی جانیوالی مجوزہ حکومتی کمیٹی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہرحال اصل صورت حال کیا ہے یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ابھی تک فوج کو نئی کمیٹی کے لیے اپنے نمائندے نامزد کرنے کے لیے نہیں کہا۔ ادھرگزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور کمانڈرز کانفرس ہوئی۔
اس کانفرنس کے حوالے سے میڈیا میں جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ فوج طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی۔ دوسرا یہ کہ فوجی قیادت نے اسلام آباد کچہری اور خیبر ایجنسی واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کور کمانڈرز کو شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کانفرنس کو معمول کی ماہانہ ملاقاتوں کا حصہ قرار دیا ہے۔ جس میں شرکاء نے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی صورتحال کا بھی تفصیلی جائزہ لیا۔ دریں اثناء وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے تحریک طالبان کو انتباہ کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی خلاف ورزی سے باز رہے، ورنہ رواں ماہ بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔ ایک انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہا کہ اگر طالبان گروپس کی جانب سے جنگ بندی کا احترام نہ کیا گیا تو مارچ میں ہی قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔
حکومت قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی، مارچ میں مارچ ہو سکتا ہے، ان کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد حملے میں ملوث احرار الہند نامی تنظیم کی کڑیاں پنجابی طالبان سے ملتی ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا کے بعد طالبان کا مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اثر و رسوخ بڑھ جائیگا۔ علاوہ ازیں مذاکراتی حکمت عملی میں فوج کی ایڈوائس لے رہے ہیں، آئندہ مذاکراتی مرحلہ فوج کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ فوج حکومت کا حصہ ہے اور اگر آپریشن کا فیصلہ ہوا تو وہ فوج نے کرنا ہے۔ فوج سمیت تمام حکومتی اداروں کے اتفاق رائے سے ہی سب چیزیں آگے بڑھ رہی ہیں، یہ کہنا کہ کسی ادارے کو اختلاف ہے یا ان کا الگ موقف ہے، قطعی طور پر غلط ہے۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ حکومت کی پہلی ترجیح خلوص دل سے نتیجہ خیز مذاکرات ہیں لیکن دوسری جانب سے اگر سویلینز کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر برداشت نہیں کیا جائے گا اور طالبان کے خلاف آپریشن ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اب مذاکراتی ٹیم میں بڑے بااثر لوگ شامل ہو رہے ہیں اور ان کو پورا وقت دیا جا رہا ہے کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز اور کامیاب بنایا جائے۔
حکومت اور سیکیورٹی کے ذمے دار ادارے درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی پہلی ترجیح یہی نظر آتی ہے کہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جائے۔ طالبان کی قیادت بھی شاید حالات کی سنگینی کا احساس کر رہی ہے۔ اسلام آباد کچہری واقعے سے تحریک طالبان نے علیحدگی کا اعلان کر رکھا ہے۔ آہستہ آہستہ صورت حال زیادہ واضح ہو رہی ہے کہ کون سے گروپ مذاکراتی عمل میں شریک ہیں اور کون سے اس عمل کو پسند نہیں کرتے اور اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ملک کی سیاسی قیادت کو بھی زیادہ تدبر اور ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان جو مذاکراتی عمل جاری ہے اس پر اپنی مرضی یا سیاسی ضرورت کے تحت بیانات جاری کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ مذاکرات کِن مراحل میں ہیں، یہ کامیاب جا رہے ہیں یا ناکام ہو رہے ہیں، اس پر سیاستدانوں کو بیان نہیں دینا چاہیے کیونکہ وہ اس عمل کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں صورت حال کا اندازہ ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے بیان صرف وفاقی حکومت کی مجاز اتھارٹی کو ہی دینا چاہیے۔ اس طریقے سے ابہام پیدا نہیں ہو گا۔ جو سیاسی لیڈر یا مذہبی رہنما مذاکراتی عمل کے حوالے سے کوئی بات کرنا چاہتا یا اس کے پاس کوئی تجویز ہے تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ متعلقہ حکام سے مشورہ کرے تا کہ اسے صحیح صورت حال کا پتہ ہو، اپنے پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے بیان بازی کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ جہاں تک وفاقی وزیر دفاع کا تعلق ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ان کا بیان وضاحتی نوعیت کا ہے۔
اس کا مقصد، نتیجہ یا حاصل صرف یہ ہے کہ اگر ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں جاری رہتی ہیں تو آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اس سلسلے میں تیاری مکمل ہے۔ یہ باتیں پہلے بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ حکومت اور پاک فوج اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں اور ان کے درمیان اس معاملے میں مکمل ہم آہنگی ہے کہ اگر کسی گروہ نے من مانی جاری رکھی تو اسے اس کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔ قوم اسی وقت مذاکراتی عمل کا حتمی نتیجہ دیکھنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو راہ اختیار کی ہے، قوم یا اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور ملک کے لبرل حلقوں نے دہشت گردی کے حوالے سے اپنے موقف یا پالیسی کا اعادہ ضرور کیا ہے لیکن حکومت کی راہ میں کوئی مشکل یا رکاوٹ کھڑی نہیں کی اس لیے وفاقی حکومت کو مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ اسی طرح طالبان کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ان گروہوں سے خود کو علیحدہ کر لے جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس طریقے سے معاملات خاصی حد تک بہتر ہو جائیں گے۔
حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کی حمایت کے ساتھ ساتھ اب اس کی مخالفت میں آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی ان ''مذاکرات'' پر ''مذاق رات'' کی پھبتی کسی ہے، جب کہ فوجی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ فوجی قیادت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنائی جانیوالی مجوزہ حکومتی کمیٹی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہرحال اصل صورت حال کیا ہے یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ابھی تک فوج کو نئی کمیٹی کے لیے اپنے نمائندے نامزد کرنے کے لیے نہیں کہا۔ ادھرگزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور کمانڈرز کانفرس ہوئی۔
اس کانفرنس کے حوالے سے میڈیا میں جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ فوج طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی۔ دوسرا یہ کہ فوجی قیادت نے اسلام آباد کچہری اور خیبر ایجنسی واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کور کمانڈرز کو شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کانفرنس کو معمول کی ماہانہ ملاقاتوں کا حصہ قرار دیا ہے۔ جس میں شرکاء نے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی صورتحال کا بھی تفصیلی جائزہ لیا۔ دریں اثناء وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے تحریک طالبان کو انتباہ کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی خلاف ورزی سے باز رہے، ورنہ رواں ماہ بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔ ایک انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہا کہ اگر طالبان گروپس کی جانب سے جنگ بندی کا احترام نہ کیا گیا تو مارچ میں ہی قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔
حکومت قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی، مارچ میں مارچ ہو سکتا ہے، ان کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد حملے میں ملوث احرار الہند نامی تنظیم کی کڑیاں پنجابی طالبان سے ملتی ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا کے بعد طالبان کا مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اثر و رسوخ بڑھ جائیگا۔ علاوہ ازیں مذاکراتی حکمت عملی میں فوج کی ایڈوائس لے رہے ہیں، آئندہ مذاکراتی مرحلہ فوج کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ فوج حکومت کا حصہ ہے اور اگر آپریشن کا فیصلہ ہوا تو وہ فوج نے کرنا ہے۔ فوج سمیت تمام حکومتی اداروں کے اتفاق رائے سے ہی سب چیزیں آگے بڑھ رہی ہیں، یہ کہنا کہ کسی ادارے کو اختلاف ہے یا ان کا الگ موقف ہے، قطعی طور پر غلط ہے۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ حکومت کی پہلی ترجیح خلوص دل سے نتیجہ خیز مذاکرات ہیں لیکن دوسری جانب سے اگر سویلینز کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر برداشت نہیں کیا جائے گا اور طالبان کے خلاف آپریشن ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اب مذاکراتی ٹیم میں بڑے بااثر لوگ شامل ہو رہے ہیں اور ان کو پورا وقت دیا جا رہا ہے کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز اور کامیاب بنایا جائے۔
حکومت اور سیکیورٹی کے ذمے دار ادارے درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی پہلی ترجیح یہی نظر آتی ہے کہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جائے۔ طالبان کی قیادت بھی شاید حالات کی سنگینی کا احساس کر رہی ہے۔ اسلام آباد کچہری واقعے سے تحریک طالبان نے علیحدگی کا اعلان کر رکھا ہے۔ آہستہ آہستہ صورت حال زیادہ واضح ہو رہی ہے کہ کون سے گروپ مذاکراتی عمل میں شریک ہیں اور کون سے اس عمل کو پسند نہیں کرتے اور اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ملک کی سیاسی قیادت کو بھی زیادہ تدبر اور ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان جو مذاکراتی عمل جاری ہے اس پر اپنی مرضی یا سیاسی ضرورت کے تحت بیانات جاری کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ مذاکرات کِن مراحل میں ہیں، یہ کامیاب جا رہے ہیں یا ناکام ہو رہے ہیں، اس پر سیاستدانوں کو بیان نہیں دینا چاہیے کیونکہ وہ اس عمل کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں صورت حال کا اندازہ ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے بیان صرف وفاقی حکومت کی مجاز اتھارٹی کو ہی دینا چاہیے۔ اس طریقے سے ابہام پیدا نہیں ہو گا۔ جو سیاسی لیڈر یا مذہبی رہنما مذاکراتی عمل کے حوالے سے کوئی بات کرنا چاہتا یا اس کے پاس کوئی تجویز ہے تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ متعلقہ حکام سے مشورہ کرے تا کہ اسے صحیح صورت حال کا پتہ ہو، اپنے پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے بیان بازی کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ جہاں تک وفاقی وزیر دفاع کا تعلق ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ان کا بیان وضاحتی نوعیت کا ہے۔
اس کا مقصد، نتیجہ یا حاصل صرف یہ ہے کہ اگر ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں جاری رہتی ہیں تو آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اس سلسلے میں تیاری مکمل ہے۔ یہ باتیں پہلے بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ حکومت اور پاک فوج اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں اور ان کے درمیان اس معاملے میں مکمل ہم آہنگی ہے کہ اگر کسی گروہ نے من مانی جاری رکھی تو اسے اس کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔ قوم اسی وقت مذاکراتی عمل کا حتمی نتیجہ دیکھنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو راہ اختیار کی ہے، قوم یا اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور ملک کے لبرل حلقوں نے دہشت گردی کے حوالے سے اپنے موقف یا پالیسی کا اعادہ ضرور کیا ہے لیکن حکومت کی راہ میں کوئی مشکل یا رکاوٹ کھڑی نہیں کی اس لیے وفاقی حکومت کو مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ اسی طرح طالبان کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ان گروہوں سے خود کو علیحدہ کر لے جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس طریقے سے معاملات خاصی حد تک بہتر ہو جائیں گے۔