معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہے

مضبوط معیشت، پرامن معاشرے، عوامی اور مستحکم حکومت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے


سیاسی نفسانفسی میں ملک کی معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ (فوٹو: فائل)

HARIPUR: آپ افغانستان کی مثال ہی لے لیجیے جس کی سالانہ فی کس آمدن تقریباً 300 ڈالر ہے۔ اس خطے میں بہت عرصے سے امن وامان کی صورت حال خراب ہے۔ دہشت گردی، امریکی و روسی افواج کی موجودگی، طالبان اور دیگر کئی عوامل کی وجہ سے خطے میں امن عنقا ہے۔

اسی طرح کی صورتحال یمن میں بھی ہے، جہاں حوثی، یمنی حکومت اور دیگر ممالک کے مفادات ٹکرا ٹکرا کر غیر یقینی صورتحال بنا رہے ہیں۔ یہاں جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ 2014 میں خانہ جنگی سے پہلے اس کی جی ڈی پی چالیس بلین ڈالر تھی جو کم ہوکر آدھی رہ گئی ہے اور سالانہ فی کس آمدن بھی اسی تناسب سے کم ہوئی۔ اسی طرح سوڈان، کانگو اور دیگر کئی ممالک کی آمدن کم ہے اورمعیار زندگی نیچے ہے۔ اس کے برعکس ہنگری کی سالانہ انفرادی آمدن بیس ہزار ڈالر جبکہ آسٹریا، فن لینڈ اور بیلجیئم میں پچاس ہزار ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اور دیگر یورپی ممالک فرانس، جرمنی، اسپین وغیرہ اور کئی ایشیائی ممالک میں بھی ایسے ہی آمدن بھی زیادہ ہے اور معیار زندگی بھی بلند ہے۔

ان ممالک میں بہتر معیار زندگی، اچھی تعلیم اور خوراک اس لیے وافر نہیں کہ یہ یورپ یا امریکا کا حصہ ہیں اور افریقہ اور ایشیا کی وجہ سے افغانستان یمن اور کانگو غریب ہیں۔ نہ ہی یہاں آبادی اور وسائل کا مسئلہ ہے، کیونکہ امریکا کی آبادی بھی زیادہ ہے اور سپر پاور بھی ہے۔ ان سب ممالک کے سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ معاشی اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ سیاسی استحکام درخت کا تنا اور جڑیں ہیں اور معاشی خودمختاری اس کا ثمر ہے۔

دنیا کے سب ممالک جہاں حکومت کی غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام، دہشتگردی ہے، وہاں کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ حالانکہ عراق اور شام جیسے ممالک جہاں پرامن حالات میں قومی اور انفرادی سطح پر اقتصادی حالت بہتر تھے، وہاں بھی جنگ، دہشتگردی اور ناامیدی نے انہیں آسمان سے زمین پر دے مارا ہے۔ اس کے برعکس جہاں حکومتیں اور ادارے آئین اور قانون کے تابع ہیں، چاہے وہاں پر جمہوری حکومت ہے یا نہیں مگر سیاسی استحکام ہے، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں امن اور سکون ہے تو سرمایہ کار بنا خوف و خطر اپنا سرمایہ لگاتا ہے، معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور خوشحالی آجاتی ہے۔

پاکستانی معیشت نے بھی صرف اسی وقت اڑان بھری جب حکومت کچھ مضبوط نظر آئی، چاہے وہ ہماری ''عالمی ضرورت'' کے پیش نظر مضبوط ہو یا کسی اور وجہ سے مضبوط نظر آئے۔ اس موقف کی تصدیق سال 1988 میں ہی دیکھ لیجئے، جب الیکشن کے بعد محترمہ بےنظیر بھٹو آئیں تو ہمارا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 7.59 فیصد سے 4.96 فیصد پر آگرا۔ بعد کی حکومتوں کی آنیاں جانیوں کے بعد سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کو حکومت پر تھوڑا اعتماد ہو چلا اور حکومت بھی کچھ سیکھ کر ڈیلیور کرنے ہی لگی تو 1996 میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے مسائل نے دوبارہ جنم لیے اور اچھی بھلی 4.85 فیصد کی گروتھ کم ہوکر ایک فیصد پر چلی گئی۔ اور بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے ڈالر جو کہ ستمبر 1996 میں 35 روپے کا تھا، بڑھ کر اکتوبر میں 40 روپے کا ہوگیا۔

اسی طرح عدلیہ بحالی تحریک، جنرل مشرف کی روانگی، بے نظیر بھٹو کی شہادت نے غیر یقینی کی کیفیت پیدا کی اور پھر ہماری معاشی گاڑی کو بریک لگی، جس کی وجہ سے معاشی گروتھ 1.7 فیصد رہی جو کہ اس سے پہلے 4.85 فیصد تھی۔ اگلی حکومت پر عوام کا اعتماد ابھی بحال ہوا تھا کہ اتحادی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور ڈالر فراٹے بھرتا ہوا 60 سے 80 پر آگیا۔ نئی حکومت آئینی طور طریقے سے 2013 میں آئی تو لوگوں کا اعتماد ہو چلا کہ جمہوریت کا پودا پھلنے پھولنے لگا ہے تو اس کے نتیجے میں معاشی سفرمیں ڈرائیور کی تبدیلی سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ لیکن 2018 کی حکومت ہونی تو پہلے سے بہتر چاہیے تھی مگر تھی ہی مانگے کی تو لوگوں کو لگا کہ حکومت اب گئی اورکب گئی۔ اسی بے چینی نے کام کیا اور ساتھ کورونا کی مار الگ پڑی۔

اب کے کھلاڑی ناتجربہ کار سے تجربہ کار ہوکر معاشی میدان میں اسکور کرنے ہی لگے تو حکومت اپنی آئینی مدت پوری کیے بغیر نکل گئی۔ گوکہ سازش و مداخلت کی بحث میں پڑے بغیر یہ آئینی اقدام تھا مگر اس عدم اعتماد کی تحریک نے پاکستان پر بہت سوں کا اعتماد ''عدم'' کردیا اور معاشی حالات اب دیوالیہ (اللہ نہ کرے) ہونے کی خبر دے رہے ہیں۔

اس سیاسی نفسانفسی میں ملک کی معیشت ترقی نہیں کرسکتی، کیونکہ بیرونی سرمایہ کار اور کاروباری افراد تو کجا پاکستانی بھی اپنا پیسہ نہیں لگائیں گے اگر انہیں اپنے سرمایے کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہو۔ ہماری حکومت کو سیاسی استحکام کو مقصود بنا کر، جو کہ اقتصادی ڈھانچے کی اساس ہے، آئین میں کچھ ترامیم بھی کرلینی چاہئیں، جیسا کہ اسمبلی کی مدت پانچ سے کم کرکے چار سال کرنی چاہئے۔ کیونکہ اکثر وزرائے اعظم اپنے چوتھے سال میں نکلے ہیں۔ اس سے ممکن ہے اپوزیشن جو تین سال صبر کرچکی ہو وہ ایک سال اورکرلے۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں اسمبلی تحلیل ہوجائے اور پوری اسمبلی نیا الیکشن لڑ کر دوبارہ آئے۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے بغیر حکومت بنانے کا قانونی جواز تو بنتا ہے مگر اخلاقی نہیں۔

فوج کے سربراہ بنانے کا طریقہ کار اور اس کے علاوہ کچھ اور اقدامات تاکہ عوام، کاروباری افراد، بیرونی سرمایہ کار اور ہمارے پروفیشنل اس ملک کو پرامن اور اپنی حکمت عملی پر تسلسل کے ساتھ چلنے والے ملک کے طور پر گردانتے ہوئے اس کی معاشی گاڑی کو چلا سکیں۔ کیونکہ مضبوط معیشت، پرامن معاشرے، عوامی اور مستحکم حکومت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں