یہ دہشت گرد ہیں مذاق نہیں
جو قابل گردن زدنی دشمن ہوتا ہے کیا اس کا علاج فقط اس کی گردن مار دینا ہوتا ہے یا مذاکرات
جناب فضل الرحمان صاحب نے ایک دلچسپ بات کہی ہے کہ حکومت طالبان سے اور طالبان حکومت کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ فریقین میں جس انداز میں نہ ختم ہونے والی بے معنی گفتگو جاری ہے، اس سے جناب فضل الرحمان صاحب کی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ جناب رحمٰن صاحب کے حریف مولانا سمیع الحق کو حکومت نے اپنا نمائندہ بنا لیا ہے جب کہ جناب فضل الرحمان صاحب اس منظر سے بالکل باہر ہیں اور انھیں لا تعلق کر دیا گیا ہے، اس بات کا انھیں بے حد رنج ہے اور اس رنج سے ہی ان کے منہ سے دلچسپ باتیں سرزد ہو رہی ہیں جب کہ ان کا دعویٰ تو یہ تھا کہ طالبان سے اگر کسی کا کوئی تعلق ہے تو ان سے ہے لیکن فی الحال ان دونوں مولاناؤں کو اپنی اپنی جگہ پر کامیابی کا جشن مناتے یا ناکامی کا ماتم کرتا ہوا چھوڑ کر اصل مسئلہ کا ذکر کرتے ہیں جو فضل الرحمان کے الفاظ میں بلاشبہ ایک مذاق ہے اور وہ بھی قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ میں ایک وارداتی قسم کے دیہات کی پیداوار ہوں جہاں قتلوں کے جھگڑے جاری رہتے ہیں، ان کا ایک طریقہ تو یہ ہے جو پولیس اختیار کرتی ہے کہ انھیں عدالت میں لے جاتی ہے لیکن ایک دوسرا طریقہ قصہ زمیں بر سر زمیں طے کرنے کا ہے جو دشمن قتل کا سزاوار ہے اسے زندہ کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ میرے بچپن کی بات ہے کہ گاؤں میں عزت بے عزتی کے مسئلہ پر فوج میں ملازم سپاہی بدلہ لینے کے لیے فوج سے فرار ہو گئے ان کے پاس فوج کی 303 رائفلیں تھیں۔ برطانیہ کا زمانہ تھا پولیس نے ان کی زندگی حرام کر دی لیکن وہ قابو نہ آئے ان کے مقامی مخالف بھی ان کی تلاش میں تھے پتہ چلا کہ وہ فلاں کے ڈیرے میں مقیم ہیں ان کے واقف ایک صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی وہ صبح کے وقت اس ڈیرے پر پہنچا۔ بڑا مفرور باہر برآمدے میں ایک پیڑھی پر بیٹھا تھا' ان کو ختم کرنے والے نے ان سے رخصت ہوتے وقت ہاتھ ملایا اور چھوٹی کلہاڑی کا دستہ زور کے ساتھ اس کے سر پر مارا جس سے وہ گر گیا ایسے انداز میں کہ مضبوط پیڑھی بھی ٹوٹ گئی حملہ آور اس کے بعد بھاگ کر خوفزدگی کے عالم میں اطلاع دینے آیا ا ور کہا کہ میں تو اب جا رہا ہوں لاش آپ لوگ اٹھوا لیں جو بعد میں گھوڑے پر لاد کر سڑک پر پھینک دی گئی جہاں سے اطلاع پانے پر پولیس لے گئی۔ جو قابل گردن زدنی دشمن ہوتا ہے کیا اس کا علاج فقط اس کی گردن مار دینا ہوتا ہے یا مذاکرات۔ ایک ایسے ہی مجرم کو غیر ضروری اور غیر متوقع تاخیر سے ٹھکانے لگایا گیا تو کسی نے پوچھا کہ اس قدر دیر کیوں کر دی۔
جواب ملا کہ اس کا سر تو مجھے مدت سے دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ موقع ملنے کی بات تھی۔ ایک آزاد خود مختار ملک اور حکومت کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کے ساتھ دشمنی کر رکھی ہے اور بغاوت کر دی ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ موقع ملتے ہی ان باغیوں اور قانون کے مفروروں کو فوراً ہی قابو کر لیا جائے۔ مجرموں اور ڈاکوؤں کے ساتھ مذاکرات ایک ناقابل قبول واقع ہے اور پھر ان کو جیسے وہ کسی ایک ملک کے نمائندے ہوں مذاکرات تو انتہائی کمزوری اور شرم کی بات ہے۔ ہر لحاظ سے ناقابل فہم۔ پرانے زمانہ کی روایات میں بھی اور جدید دور کے قانون میں بھی۔ ایسی لاتعداد مثالیں ہیں جب قانون کے باغیوں کو پولیس نے ٹھکانے لگا دیا اور بڑے قاتل قسم کے باغیوں سے مقابلے کیے تو پولیس کے اعلیٰ افسر بذات خود سامنے آئے جیسے ضلع کا ایس پی' خود پاکستانی دور میں بھی ہمارے دوست محمد خان کو پکڑنے کے لیے پنجاب کے آئی جی جو خود پولیس لے کر اس کے تعاقب میں گئے تھے لیکن ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی باغی کے ساتھ مذاکرات کیے گئے ہوں جنھیں منت سماجت کہنا زیادہ موزوں ہے۔
جب یہ قصہ شروع ہوا یا جب اس مذاق کا آغاز ہوا تو میں نے عرض کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہو گا۔ میں نے اس ضمن میں طالبان سے اپنے پرانے اور طویل تعارف کا ذکر بھی کیا تھا میں جانتا تھا کہ اس وقت کے حالات میں ان کا مزاج کیا ہو گا وہ کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہوں گے وہ تو اپنے زعم میں اس وقت پاکستان پر اپنا اقتدار قائم کرنے کی جدوجہد یا جہاد میں مصروف ہیں اگرچہ حالت یہ ہے کہ افغانستان کے ایک حصے میں طالبان کی حکومت بننے کے بعد ان کے ایک لیڈر سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بینک کیا ہوتا ہے اور اسے کس طرح قائم کیا جاتا ہے۔ میں نے جواب میں کہا یہ کوئی مشکل کام نہیں پاکستان میں اس کے جاننے والے بہت ہیں' میں اس طبقے کی سادگی کو خوب جانتا ہوں اور ان لوگوں کے ارادوں کی پختگی کو بھی۔ اس وقت ان کے پیچھے اگر بھارت ہے تو بھارت سے انھیں ضرورت کے مطابق ہلکا اسلحہ گولہ بارود اور تیکنیک مل رہی ہو گی۔ ان کے ساتھ صلح صفائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر ہمت ہو تو انھیں صرف شکست دی جا سکتی ہے لیکن افسوس کہ ہماری حکومت نے ان کے ارادوں کو بہت مضبوط کر دیا ہے اور وہ ایک باقاعدہ ملک ایک بہت بڑی فوج والے ملک اور ایک ایٹمی ملک کے مقابلے میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اب ایک تو ہماری حماقتوں سے پیدا ہونے والی ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے دوسرے ان کی سرکوبی کرنا ہے۔ کیا ہمیں اتنا علم بھی نہیں اتنی عقل بھی نہیں کہ جب ہم نے ان پر سخت حلے کیے تو وہ فوراً ہی ایک ماہ کی جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے لیکن اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ ہر روز کی وارداتیں کون کر رہا ہے اور کون کرا رہا ہے۔ بات کتنی بھی لمبی کریں لیکن اصل بات یہ ہے کہ قانون اور اخلاق کے کسی بھی دائرے میں ان کو پناہ دینے کی گنجائش نہیں ہے اور وہ مشہور کہاوت یاد کریں کہ پٹھان جنگ کرتا ہے یا جنگ کی تیاری کرتا ہے۔ تین سُپر پاور اس کی گواہ ہیں اور زخم چاٹ رہی ہیں ہم تو کہیں بھی نہیں۔