خط لکھیں گے کیونکہ مطلب کچھ تو ہے
یوں تو خطوط نگاری کا آغاز بھی کم و بیش اسی زمانے سے ہوگیا تھا جب انسان نے لکھنا سیکھا تھا
وسب سے پہلے تو حضرتِ غالبؔ کی روح سے اس تحریف کے لیے معذرت مگر اس کی وجہ ایسی ہے کہ وہ یقینا اس کی اجازت بھی دیں گے اور داد بھی کہ خود ان ہی کا کہنا ہے کہ
پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے
یوں تو خطوط نگاری کا آغاز بھی کم و بیش اسی زمانے سے ہوگیا تھا جب انسان نے لکھنا سیکھا تھا لیکن یہ خطوط عام طور پر کسی نہ کسی خاص حوالے سے یا مقصد سے لکھے جاتے تھے کہ انھیں مکتوب الیہ تک پہنچانا اپنی جگہ پر ایک مسئلہ تھا کہ ڈاک کا ابتدائی نظام گھڑ سوار قاصدوں کے ذریعے تشکیل پاتا تھا اور بعض اوقات ایک خط اور اس کے جواب کے آنے جانے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔ برصغیر میں جدید انداز کا محکمہ ڈاک انگریز کا لایا ہوا ہے جو انیسویں صدی میں قائم ہوا اور ادیبوں میں اس سے سب سے زیادہ استفادہ بھی مرزا غالبؔ ہی نے کیا کہ جن کے اب تک کے دریافت شدہ خطوط کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔
اردو میں اس رعائت سے اب تک جو خطوط کے مجموعے شائع ہوئے ہیں ان میں صفیہ اختر کے اپنے شوہر جاں نثار اخترؔ (زیر لب) اور فیضؔ صاحب کے ایلس فیض کے نام ایام اسیری کے دوران لکھے گئے خطوط نے بہت مقبولیت حاصل کی ہے۔ حال ہی میں دور حاضر کے سب سے مقبول شاعر انورؔ مسعود کے اپنی بیگم صدیقہ انور کے نام لکھے گئے خطوط کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں جو کئی حوالوں سے پڑھنے کے لائق ہیں۔ ان میں سے بیشتر خطوط اس زمانے کے ہیں جب ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔اس کتاب ''صدیقہ انور کے نام۔ خطوط کے ابتدائی خطوں کو پڑھتے وقت مجھے کیٹس کے وہ خط بہت یاد آئے کہ کلچر، موضوعات اور ماحول کے فرق کے باوجود ان میں جذبے کی شدت اور خلوص قلب کی حد تک خاصی مماثلت ہے اگرچہ تقریباً ہر خط پر تاریخ تحریر درج ہے لیکن کسی نامعلوم وجہ سے انھیں زمانی تسلسل کی ترتیب نہیں دی گئی۔ اس سے پڑھنے والوں کو دونوں کرداروں کے درمیان بڑھتی ہوئی انسیت کے گراف کو سمجھنے میں تو قدرے دقت ہوتی ہے لیکن اس بے ترتیبی کا ایک عجیب سا حسن بھی سامنے آتا ہے کہ القاب کے الفاظ، مخاطب کے انداز اور خطوط کے متن میں موجود ذہنی کشمکش، جوش جذبات اور ''کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے'' کی کیفیات قارئین کو انور بیتی کی دنیا سے نکال کر آپ بیتی کی فضا میں لے جاتی ہے۔ ان کو پڑھتے ہوئے مجھے برادرِ بزرگ جمیل الدین عالیؔ کا ایک شعر بار بار یاد آیا۔
ہائے نومشق ادیبوں کا وہ انداز کلام
اپنے مکتوب، ترے نام، کئی یاد آئے
زیادہ تر خطوط 1961ء سے 1964ء کے درمیانی عرصے میں لکھے گئے ہیں۔ ابتدا میں دونوں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ فارسی کے طالب علم تھے۔ آگے چل کر انور مسعود اور کسی حد تک صدیقہ انور بھی تدریسی نوعیت کی عارضی ملازمتوں پر مختلف شہروں میں مقیم رہے پھر رشتے کی بات چلی جو بالآخر شادی کے مبارک انجام پر منتج ہوئی لیکن اس دوران میں ان دو محبت کرنے والوں پر معاشرے، غربت، کشمکشِ روزگار اور عزیزوں رشتہ داروں کے حوالے سے کیا کیا گزری اور اس دوران میں دونوں نے جذباتی سطح پر ایک دوسرے کی کس کس طرح امداد، پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی۔ یہی وہ بات ہے جس کو اس کتاب کا حاصل کہا جا سکتا ہے۔ آئیے اب ترتیب وار اس کہانی کے کچھ واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے اولین ملاقات کا کچھ احوال جو انورؔ مسعود نے اپنے پیش لفظ میں بیان کیا ہے۔ ''اب قدرت کا یہ نظام دیکھئے کہ میرے داخلہ فارم پر دستخط کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے نائب قاصد محمد حسین سے یہ کہا کہ اگلی امید وار قدرت الٰہی صدیقہ کو بلایا جائے یہ انوکھا سا نام سن کر میں بہت متعجب ہوا۔ چند لمحوں کے بعد ایک لڑکی داخل ہوئی جو بڑی پروقار شخصیت کی حامل، متانت اور مشرقیت کا پیکر اور مجسم شائستگی دکھائی دیتی تھی۔ آنکھیں ایسی حیا دار اور پرکشش کہ دیکھنے والا ان میں ڈوبتا ہی چلا جائے۔ قسمت کی کرشمہ سازی دیکھیے، مجھے اس وقت کیا معلوم تھا کہ یہی لڑکی چند سال بعد میری شریک حیات ہو کر صدیقہ انور بننے والی ہے... جب کلاسیں شروع ہوئیں تو پے در پے ایسے اتفاقات رونما ہوئے جن سے ہمیں ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا بار بار موقع ملتا رہا۔'' اب یہ مواقع کس حد تک اتفاقیہ تھے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ اس کا کچھ اندازہ ابتدائی خطوط میں ملاقات کے بہانوں سے کیا جا سکتا ہے جو ''وہی سوچی ہوئی باتیں وہی بے ساختہ پن'' کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ ''اگر زحمت نہ ہو تو یہ اطلاع ضرور کر دیجیے کہ کالج کس تاریخ کو کھل رہا ہے۔'' اس تکلیف کے لیے پیشگی ہدیۂ تشکر نذر کرتا ہوں... آپ کو شاعرات سے یقینا دلچسپی ہو گی۔ دور حاضر کی مشہور شاعرہ زہرا نگاہ ہیں ان کا ایک شعر یاد آ رہا ہے شاید آپ کو پسند آئے۔
کیا قیامت ہے ہجر کے دن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں
''مجھے لاہور کچھ دنوں کے لیے رکنا پڑ گیا۔ شاید کوئی کام دھندا مل سکے آثار تو اچھے ہیں، کام بن گیا تو مفصل عرض کروں گا۔ سوچتا ہوں گھر والے کیا سوچتے ہوں گے لاہور جاتا ہے تو آنے کا نام نہیں لیتا۔ کسی کا ایک شعر ہے
تصویر تیری دیکھ کے رونا وہ ہجر میں
رونے کے بعد پھر تری تصویر دیکھنا
خوش قسمت تھا کہ اسے یہ وسائل گریہ میسر تھے ورنہ کسی کو رونے بھی کون دیتا ہے!''
''ایک شکایت یہ بھی ہے کہ آپ میری مختصر نویسی کو سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن آپ خود بھی تو بہت کم سخن واقع ہوئی ہیں۔ خط کے کاغذ کا دوسرا صفحہ ہمیشہ... دست مفلس سے تہی تر رہتا ہے۔ اس کی لکیروں کی شاخیں ترستی رہتی ہیں کہ ان پر بھی کوئی کونپل پھوٹے، اگر اس صفحے کی گود بھی ہری ہو جایا کرے تو کیا برا ہو؟'' ''ایک مختصر نظم ''مفلس'' کے عنوان سے لکھی تھی
اسے حاصل نہیں برقی ضیا بھی
دھواں دیتا ہے مفلس کا دیا بھی
گزر ہوتا نہیں کٹیا میں دھن کا
کچیلے چیتھڑے زیور بدن کا
تمنا آنسوؤں میں بہہ گئی ہے
شرافت بوجھ بن کر رہ گئی ہے
غضب ہے پھر اسے انسان کہیے
تمناؤں کا گورستان کہیے
''ایک خوش خبری کہ مزید چھ مہینوں کی Pay Slip آگئی ہے۔ اپریل تک تنخواہ میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ نومبر میں انکریمنٹ بھی لگ جائے گی'' اب ایسے خطوط کو روایتی معنوں میں کون Love letters کہہ سکتا ہے لیکن ان خطوط کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ اپنی بنیاد میں Intense Love کے ترجمان ہیں محبت ہے کیا! ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساجھے داری... ایک دوسرے کو یہ حوصلہ دینا کہ حالات جیسے بھی ہوں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ آج انورؔ مسعود اور صدیقہ انور کو دنیا بھر کی خوشیاں اور سہولتیں حاصل ہیں۔ طویل خوشگوار رفاقت، اچھی اولاد، اچھے دوست، دنیاوی آسانیاں لیکن ان سب کے پیچھے جو ایک دوسرے کی چاہت اور دکھوں کی ساجھے داری ہے وہ ایک اعتبار سے ان سب پر بھاری ہے کہ یہ سب چیزیں اصل میں اسی ایک جذبے کی دین اور عطا ہیں۔ یہ خطوط تمام محبت کرنے والوں کے لیے اس اعتبار سے بھی سرمایۂ افتخار ہیں کہ یہ ہمیں جمالیاتی مسرت کے ساتھ ساتھ زندگی کے حقائق سے مردانہ وار نبرد آزما ہونے کا درس بھی دیتے ہیں اور حوصلہ بھی۔