عورتوں کا استحصال اور عالمی کوششیں
حواؑ کی بیٹیوں کو ازل سے ہی زمین پر اپنے وجود کی حفاظت کے لیے مصائب کا سامنا ہے
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک مصرعے کے ذریعے عورت کی اہمیت کو اجاگرکیا تھا۔ حواؑ کی بیٹیوں کو ازل سے ہی زمین پر اپنے وجود کی حفاظت کے لیے مصائب کا سامنا ہے۔ آج کی جدید دُنیا میں بھی کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں خواتین کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ خواتین کے ان ہی حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ نے 1975 سے خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔ میکسیکو میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی اور اُس سال کو اقوام متحدہ نے عورتوں کا عالمی سال قرار دیا۔ دوسری عالمی کانفرنس کوپن ہیگن، تیسری 1985 میں نیروبی اور چوتھی 1995 میں بیجنگ میں ہوئی تھی۔ اس میں شرکت کرنیوالے ممالک کے حکومتی نمائندوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مساوات کے اصول کے تحت عورتوں کی ترقی، خوشحالی اور تحفظ کے لیے اقدامات کریں گے۔ اقوام متحدہ کے دو ادارے کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن اور یورپین ویمن عورتوں کے خلاف عدم تشدد اور حقوق کے تحفظ کے نعروں پر کام کررہے ہیں۔ بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن نے عورتوں کے حوالے سے 12 مسائل پر زور دیا تھا جس میں عورتیں اور غربت، تعلیم اور تربیت، صحت، معیشت، عورتوں پر تشدد، مسلح تنازعات، اقتدار اور فیصلہ سازی، عورتوں کی ترقی کے لیے ادارہ جاتی میکنیزم، عورتوں کے انسانی حقوق، ذرائع ابلاغ، ماحولیات اور بچیاں شامل تھیں۔
1995 سے ان موضوعات پرکیا پیش رفت ہوئی، ہر پانچ سال بعد اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہر سال 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے منانے کا مقصد ان موضوعات پر مکمل عمل درآمد کروانا ہے۔ عالمی برادری کی ان کانفرنسز اور اجلاسوں کے باوجود دُنیا کے مختلف ملکوں میں عورتوں کے ساتھ کئی معاملات میں زیادتی کا عمل جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن کے مطابق ہر سال 80 لاکھ خواتین کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی عورتوں کو جسمانی تشدد، جبری مشقت کے علاوہ ونی، سوارا، کاروکاری، قرآن سے شادی جیسے غیراسلامی رسم و رواج کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال سندھ میں 40 عورتوں کو کاری قرار دے کر قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی علاقائی رسم و رواج کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے کا عمل جاری رہا۔ 2013 کی آخری سہ ماہی میں 63 عورتوں کو قتل کیا گیا۔ یہ اعدادوشمار حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا 49.2 فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے لیکن اُن کے لیے تعلیم، صحت، معیشت، کھیل اور دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کے مواقعے مردوں کے مقابلے میں نہایت کم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ پاکستان میں ایسی بھی خواتین ہیں جنھوں نے تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اپنے اہداف حاصل کیے۔
ایسا ہی ایک نام حمیرا بچل کا ہے جنھوں نے اپنے والد کے تعلیم مخالف رویے کی وجہ سے چھپ کر اپنی ماں کی مدد سے تعلیم حاصل کی اور ڈریم ماڈل اسکول کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا جہاں 22 خواتین اساتذہ رضاکارانہ طور پرکام کررہی ہیں۔ جس میں اب تک 1200 بچوں کو معمولی فیس کے عوض تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح سوات کی ملالہ یوسف زئی ہیں جو کم سنی میںعلم دوستی کے جذبے سے سرشار ہونے کی وجہ سے دُنیا میں نہایت مقبول ہیں، انھیں اقوامِ متحدہ میں تقریر کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ عالمی کانفرنس میں اب ملالہ کے نام سے سیشن بھی رکھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک نام خالدہ بروہی کا ہے جو ''سگھڑ خواتین پروگرام'' چلاتی ہیں۔ جہاں خواتین کو بنیادی تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا ہے تاکہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں، ایسی بہت سی خواتین ہیں جو مختلف شعبوں میں تمام تر مشکلات کے باوجود نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور نام ثمینہ بیگ کا ہے جنھوں نے 8848 میٹر دُنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا۔ اسی طرح کیپٹن ثناء ناصری اور ان کے گروپ کی لڑکیاں ہیں جنھوں نے پاک فوج میں ٹریننگ مکمل کرکے ملک کی پہلی خواتین پیراٹروپرز ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح ایک نام شرمین عبید چنائے کا ہے جنھیں دستاویزی فلم پر آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان تمام مثبت مثالوں کے باوجود پاکستان میں عورتوں کو تحفظ اور ترقی کے مواقعے فراہم کرنے کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حواؑ کی بیٹیاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔ اسی طرح کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ظلم و جبر کا شکار خواتین اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اقتدار کے محل میں فرعون جیسے حاکم کے ساتھ جناب آسیہ کا کردار نظر آتا ہے۔
اسی طرح حضرت ایوبؑ کی زوجہ نے امتحان الٰہی کے دوران بچوں اور اموال کے چھن جانے پر صبرکیا۔ یہاں تک کہ شوہر کے زخموں اور بیماری کی طوالت کی وجہ سے انھیں محنت مزدوری کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ اسی طرح جب جناب مریمؑ کی پاکدامنی پر انگلی اٹھائی گئی تو انھوں نے جرات و استقامت کے ساتھ اپنے حق پر ہونے کو ثابت کیا اور خود خاتم النبین کی پہلی زوجہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی مثال موجود ہے جو عرب کی سب سے مالدار خاتون ہونے پر بھی اپنے شوہر کی وجہ سے اپنے تجارتی مال و دولت کو دین کی تبلیغ کے لیے استعمال کرنے پر بھی خوش و راضی ہوئیں اور آخر میں خاتون جنت جناب فاطمہ زہراؓکی مثال ہے، جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے فرمایا کہ فاطمہؓ کی زندگی عالمین کی عورتوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ خاتون جنت نے 18 سال کی دُنیاوی زندگی میں بیٹی کی حیثیت سے باپ کی بے حد خدمت کی ۔ زوجہ کی صورت میں شیرخدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیا اور ماں کی حیثیت سے جوانانِ جنت کی ایسی تربیت کی کہ جب بھی امن و آشتی اور صلح جوئی کی بات ہوگی تو ان کے بڑے فرزند حضرت امام حسن ؓ اور جب باطل کے خلاف ڈٹ جانے کی بات ہوگی تو ان کے دوسرے فرزند سیدالشہدا حضرت امام حسین ؓ کا کردار سامنے آئے گا۔ اسی طرح ماں کے ہاتھوں بیٹیوں کی تربیت کی بات ہوگی تو کربلا کی شیر دل خاتون جناب زینبؓ اور جناب ام کلثومؓ کی مثال دی جائے گی کہ حق کی خاطر اپنے بھائی، بھتیجوں اور بھانجوں کی قربانی دینے کے باوجود نہ اُنہوں نے صبر کا دامن چھوڑا اور نہ حوصلہ توڑا۔
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک مصرعے کے ذریعے عورت کی اہمیت کو اجاگرکیا تھا۔ حواؑ کی بیٹیوں کو ازل سے ہی زمین پر اپنے وجود کی حفاظت کے لیے مصائب کا سامنا ہے۔ آج کی جدید دُنیا میں بھی کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں خواتین کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ خواتین کے ان ہی حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ نے 1975 سے خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔ میکسیکو میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی اور اُس سال کو اقوام متحدہ نے عورتوں کا عالمی سال قرار دیا۔ دوسری عالمی کانفرنس کوپن ہیگن، تیسری 1985 میں نیروبی اور چوتھی 1995 میں بیجنگ میں ہوئی تھی۔ اس میں شرکت کرنیوالے ممالک کے حکومتی نمائندوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مساوات کے اصول کے تحت عورتوں کی ترقی، خوشحالی اور تحفظ کے لیے اقدامات کریں گے۔ اقوام متحدہ کے دو ادارے کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن اور یورپین ویمن عورتوں کے خلاف عدم تشدد اور حقوق کے تحفظ کے نعروں پر کام کررہے ہیں۔ بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن نے عورتوں کے حوالے سے 12 مسائل پر زور دیا تھا جس میں عورتیں اور غربت، تعلیم اور تربیت، صحت، معیشت، عورتوں پر تشدد، مسلح تنازعات، اقتدار اور فیصلہ سازی، عورتوں کی ترقی کے لیے ادارہ جاتی میکنیزم، عورتوں کے انسانی حقوق، ذرائع ابلاغ، ماحولیات اور بچیاں شامل تھیں۔
1995 سے ان موضوعات پرکیا پیش رفت ہوئی، ہر پانچ سال بعد اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہر سال 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے منانے کا مقصد ان موضوعات پر مکمل عمل درآمد کروانا ہے۔ عالمی برادری کی ان کانفرنسز اور اجلاسوں کے باوجود دُنیا کے مختلف ملکوں میں عورتوں کے ساتھ کئی معاملات میں زیادتی کا عمل جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن کے مطابق ہر سال 80 لاکھ خواتین کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی عورتوں کو جسمانی تشدد، جبری مشقت کے علاوہ ونی، سوارا، کاروکاری، قرآن سے شادی جیسے غیراسلامی رسم و رواج کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال سندھ میں 40 عورتوں کو کاری قرار دے کر قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی علاقائی رسم و رواج کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے کا عمل جاری رہا۔ 2013 کی آخری سہ ماہی میں 63 عورتوں کو قتل کیا گیا۔ یہ اعدادوشمار حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا 49.2 فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے لیکن اُن کے لیے تعلیم، صحت، معیشت، کھیل اور دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کے مواقعے مردوں کے مقابلے میں نہایت کم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ پاکستان میں ایسی بھی خواتین ہیں جنھوں نے تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اپنے اہداف حاصل کیے۔
ایسا ہی ایک نام حمیرا بچل کا ہے جنھوں نے اپنے والد کے تعلیم مخالف رویے کی وجہ سے چھپ کر اپنی ماں کی مدد سے تعلیم حاصل کی اور ڈریم ماڈل اسکول کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا جہاں 22 خواتین اساتذہ رضاکارانہ طور پرکام کررہی ہیں۔ جس میں اب تک 1200 بچوں کو معمولی فیس کے عوض تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح سوات کی ملالہ یوسف زئی ہیں جو کم سنی میںعلم دوستی کے جذبے سے سرشار ہونے کی وجہ سے دُنیا میں نہایت مقبول ہیں، انھیں اقوامِ متحدہ میں تقریر کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ عالمی کانفرنس میں اب ملالہ کے نام سے سیشن بھی رکھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک نام خالدہ بروہی کا ہے جو ''سگھڑ خواتین پروگرام'' چلاتی ہیں۔ جہاں خواتین کو بنیادی تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا ہے تاکہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں، ایسی بہت سی خواتین ہیں جو مختلف شعبوں میں تمام تر مشکلات کے باوجود نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور نام ثمینہ بیگ کا ہے جنھوں نے 8848 میٹر دُنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا۔ اسی طرح کیپٹن ثناء ناصری اور ان کے گروپ کی لڑکیاں ہیں جنھوں نے پاک فوج میں ٹریننگ مکمل کرکے ملک کی پہلی خواتین پیراٹروپرز ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح ایک نام شرمین عبید چنائے کا ہے جنھیں دستاویزی فلم پر آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان تمام مثبت مثالوں کے باوجود پاکستان میں عورتوں کو تحفظ اور ترقی کے مواقعے فراہم کرنے کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حواؑ کی بیٹیاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔ اسی طرح کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ظلم و جبر کا شکار خواتین اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اقتدار کے محل میں فرعون جیسے حاکم کے ساتھ جناب آسیہ کا کردار نظر آتا ہے۔
اسی طرح حضرت ایوبؑ کی زوجہ نے امتحان الٰہی کے دوران بچوں اور اموال کے چھن جانے پر صبرکیا۔ یہاں تک کہ شوہر کے زخموں اور بیماری کی طوالت کی وجہ سے انھیں محنت مزدوری کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ اسی طرح جب جناب مریمؑ کی پاکدامنی پر انگلی اٹھائی گئی تو انھوں نے جرات و استقامت کے ساتھ اپنے حق پر ہونے کو ثابت کیا اور خود خاتم النبین کی پہلی زوجہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی مثال موجود ہے جو عرب کی سب سے مالدار خاتون ہونے پر بھی اپنے شوہر کی وجہ سے اپنے تجارتی مال و دولت کو دین کی تبلیغ کے لیے استعمال کرنے پر بھی خوش و راضی ہوئیں اور آخر میں خاتون جنت جناب فاطمہ زہراؓکی مثال ہے، جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے فرمایا کہ فاطمہؓ کی زندگی عالمین کی عورتوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ خاتون جنت نے 18 سال کی دُنیاوی زندگی میں بیٹی کی حیثیت سے باپ کی بے حد خدمت کی ۔ زوجہ کی صورت میں شیرخدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیا اور ماں کی حیثیت سے جوانانِ جنت کی ایسی تربیت کی کہ جب بھی امن و آشتی اور صلح جوئی کی بات ہوگی تو ان کے بڑے فرزند حضرت امام حسن ؓ اور جب باطل کے خلاف ڈٹ جانے کی بات ہوگی تو ان کے دوسرے فرزند سیدالشہدا حضرت امام حسین ؓ کا کردار سامنے آئے گا۔ اسی طرح ماں کے ہاتھوں بیٹیوں کی تربیت کی بات ہوگی تو کربلا کی شیر دل خاتون جناب زینبؓ اور جناب ام کلثومؓ کی مثال دی جائے گی کہ حق کی خاطر اپنے بھائی، بھتیجوں اور بھانجوں کی قربانی دینے کے باوجود نہ اُنہوں نے صبر کا دامن چھوڑا اور نہ حوصلہ توڑا۔