بلوچستان کا یومِ خواتین
نسوانیت کو مردوں نے ہمیشہ نفیس وخوبصورت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عورت اس نسوانی پن کے نشے میں مدہوش رہے
نسوانی نفسیات کی ماہر بلکہ خالق،سیمون دی بووا کی شہرہ آفاق تصنیف'دی سیکنڈ سیکس' کے ابتدائیہ کا آغاز اس کے اولین پیراگراف میں موجود اِن الم ناک فقروں سے ہوتا ہے'' سب اِس حقیقت کی تفہیم پر متفق ہیں کہ نوعِ انسانی میں مادائیں موجود ہیں ،ہمیشہ کی طرح آج بھی انسانیت کا نصف حصہ ان پر مشتمل ہے۔ پھر بھی ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ نسوانیت خطرے میں ہے، ہمیں عورتیں ہونے، عورتیں ہی رہنے اور عورتیں بننے کی نصیحتیں کی جاتی ہیں۔تب یہ لگتا ہے کہ ہر مونث انسان لازماََ عورت نہیں ،عورت ہونے کے لیے اس کا نسوانیت نامی ایک پُر اسرار اور ڈراؤنی حقیقت میں شریک ہونا ضروری ہے۔''
حالانکہ نسوانیت کو مردوں نے ہمیشہ نفیس وخوبصورت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عورت اس نسوانی پن کے نشے میں مدہوش رہے، نہ اس نسوانیت سے باہر آئے اور نہ ان کی مردانہ شہنشاہیئت کو چیلنج کر سکے۔ سماج کو مادرسری سے پدرسری نظام میں بدلنے سے لے کر اب تک ، مرد یہ کام نہایت چالاکی اور ہشیاری سے کرتے آ رہے ہیں۔ترقی یافتہ دنیا میں گو کہ علم و فن کے جدید ذرائع اورخیالات متعارف ہونے کے بعد وہاں عورت نے مرد کے اس ڈھکوسلے کو خاصا بے نقاب کیا اور اس کا 'زنانہ وار' مقابلہ کیا ہے۔ گو کہ وہاں بھی روایتی حربوں کی ناکامی کے بعد سرمایہ داری نے عورت کو منافع بخش پراڈکٹ بنائے رکھنے کے لیے مارکیٹ کے نام پر نت نئے جال بُن رکھے ہیں لیکن سیمون جیسی اہلِ علم خواتین کے شعورکے چشمے کی فراوانی کے بعد تعلقات کی یہ نوعیت کم از کم برابری کی سطح پر ہے ۔جنیٹک انجینئرنگ سے لے کر اسپیس ٹیکنالوجی میں خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔یوں وہاں،عورت نے اپنے passiveہونے کے روایتی تصور کو کسی حد تک ضرور بدلا ہے۔ جب کہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی یہ اکثریتی صنف آج بھی انھی پرانے جالوں میں باآسانی شکار ہو جاتی ہے۔ اس جال میں رکھے جانے والے دانے وہی پرانے...عورت پھول کی طرح نازک ہے، باعصمت ہے، خاندان کی ذمے دار ہے،بچوں کی پرورش کی ذمے دار ہے، وغیرہ وغیرہ۔
پھر پاکستان کے نیم شہری اور بلوچستان کے نیم قبائلی سماج تک آتے آتے یہ صورت حال مزید بدتر ہو جاتی ہے۔ نیم شہری سماج کا المیہ یہ ہے کہ اس کی مثال طبقاتی سماج میں مڈل کلاس کی سی ہے، جو لوئر کلاس میں ایڈجسٹ نہیں ہوتا اور الیٹ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا، سو نہ وہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ نیم شہری سماج کے چونچلے بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ یہ فیوڈل سسٹم میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتا اور جدید شہری طرزِ زندگی اس کی نیم فیوڈل ذہنی سطح کو قبول نہیں کر پاتی۔ یوں یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر رہ جاتا ہے۔پاکستانی سماج کی نومولود سول سوسائٹی اس کی واضح مثال ہے۔ یہ سول سوسائٹی سب سے زیادہ خواتین کے حقوق پہ چلاتی ہے، لیکن حل اس کا فرسودہ اور ازکارِ رفتہ عقائد میں ڈھونڈتی ہے۔ ظاہر ہے کہ حل مل نہیں پاتا، یوں معاملہ مزید گھمبیر ہوجاتا ہے۔
بلوچستان کے نیم قبائلی ، نیم فیوڈل سما ج میں عورت متفقہ طور پر دوسرے درجے کی شہری ہے۔ حتیٰ کہ قبائلی سماج کی خواتین نے بھی اپنے اس سماجی مرتبے کو بے چوں و چرا قبول کیا ہوا ہوتا ہے، اس لیے ایک طرح سے سماجی اخلاقیات کے ساتھ ان کا براہِ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ لیکن ظاہر ہے اس سے سماجی گھٹن تو بہرحال جنم لیتی ہے، جس کا اظہار پھر مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ بہرکیف فی الوقت موضوع بحث یومِ خواتین ہے۔اکثر ایام کی طرح اس دن کا تقدس بھی جس بری طرح سے ہمارے ہاں پامال ہوتا ہے، اس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔خواتین کی معاشی و سماجی برابری کی پُراز تکالیف جدوجہد کی یاد دلانے والا دن جب بیرونِ ممالک سے ملنے والی فنڈنگ کے ساتھ پنج ستارہ ہوٹلوں میں کسی میلے کی صورت منایا جائے، تو کس زود رنج کا جی ماتم کرنے کو نہ چاہے گا۔انقلابیوں کی جدوجہد جب کسی پراجیکٹ میں ڈھل جائے تو انقلاب کو خداحافظ کہہ دیجیے۔
خواتین کی عالمی جدوجہد کا دن بھی اب انھی کی ملکیت ٹھہرا ہے جو موضوع کا انتخاب مارکیٹ میں پراجیکٹ کا مستقبل دیکھ کر کرتے ہیں۔ اس لیے ملالہ سمیت ہر وہ بچی منظر عام پہ آجاتی ہے اور سراہی جاتی ہے جو پراجیکٹ کے تھیم پر پورا اترے، لیکن فرزانہ مجید جیسی بچیوں پہ کسی کی نظر نہیں جاتی، کہ ان کی جدوجہد کسی پراجیکٹ کا موضوع ہی نہیں۔یومِ خواتین کے موقعے پہ فرزانہ اور اس کی ساتھیوں کی کہانی، خواتین کے لیے موٹے موٹے آنسو بہانے والے کسی فورم پہ بیان نہیں ہوگی۔ 'انسپائیرنگ ویمن' کے تحت ان بچیوں کو پیش کیا جائے گا جنھوں نے پسماندہ علاقے سے نکل کر کسی این جی اوز کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد تک یا کہیں بیرونِ ملک کا سفر کیا ہو، یا زیادہ سے زیادہ وہ بچیاں جنھوں نے اپنے علاقے میں کسی فنڈنگ کی مدد سے تعلیم کے فروغ کی کوششیں کی ہوں۔گویا ساری تعریفیں اور سارے انعام واکرام اس گلے سڑے نظام میں اصلاح کرنے والوں کے لیے ہیں، اس نظام کے مکروہ چہرے سے نقاب اٹھانے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے وہی ذلتیں اور اذیتیں ہیں جو ہمیشہ فرسودہ اور استحصالی نظام سے لڑنے والوں کے حصے میں رہی ہیں۔ در حالانکہ ڈھائی ماہ کے دوران ڈھائی ہزارکلومیٹر پیدل سفر کرنے والی یہ نوجوان لڑکی اور اس کی ساتھی لڑکیاں آٹھ مارچ کو منانے کی حقیقی حق دار ہیں۔ اُنھوں نے سیمون دی بوا کے الفاظ میں، 'محض عورت ہونے اور عورت بنے رہنے 'پہ اکتفا نہیں کیا، 'نسوانیت نامی پُر اسرار اور ڈراؤنی حقیقت 'کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے پورا سندھ اور پورا پنجاب پیدل چل کر انھوں نے ہمت، بہادری اورجرأت کا ایک نیا باب لکھا ہے۔ لیکن یہ باب تب تک نہیں پڑھا جائے گا، جب تک سماج این جی اوز کے پھیلائے ہوئے 'شعور' کے نرغے سے نکل کر اپنی حقیقی عوامی دانش کی جانب نہیں آتا۔اداکاراؤں کی فلمی شادیوں اور کرکٹ میچ کی ہر گیند کو بریکنگ نیوز بنانے والے ذرایع ابلاغ میں بھلے ہی یہ خبر آج دب کر رہ گئی ہو، لیکن ایسی لازوال جدوجہد کی داستانیں امر ہوا کرتی ہیں۔ کبھی کوئی دیوانہ اٹھے گا اور اس فرزانہ کی پوری کہانی لکھ ڈالے گا...کچھ یوں کہ جسے برسوں دہرایا جاتا رہے گا۔اپنے بھائی سمیت سیکڑوں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پورا پاکستان پیدل چل کر اسلام آباد پہنچنے والی یہ جوان بچیاں عزم، ہمت اور حوصلے کا ایک نیا نشان ہیں۔ بلوچستان کے پسماندہ سماج میں ان کی جدوجہد ،یورپ کی اولین خاتون کے خلا میںسفر کرنے کے اہم ترین واقعے سے کسی طورکم نہیں۔ ان کا سفر ،نوبل پرائیز کا حق دار ہے۔ یہ سفر دنیا کے کسی اور کونے میں ہوتا تو اس کی درجنوں کہانیاں بنتیں۔ جوان لڑکیوں کے لیے مسلسل پیدل سفر کی مشکلات کی کیسی کیسی کہانیاں نہ ہوں گی؟ ...انھیں کہیں شب بسری کے لیے رکنا پڑتا ہو گا، کہیں پیٹ کی آگ بجھانی ہو گی، جوان لڑکیوں کے وہ مسائل جن پہ ہمارے سماج میں بات کرنا ہی ممنوع ہے، کیسے تین ماہ کے مسلسل سفر میں ان کا سامنا کیا گیا ہو گا...ہر کہانی ایک زخم ہے، ہر زخم ایک مستقل ناسور۔ وہ ناسور جو رفتہ رفتہ ہمارے سماج کے وجود کا حصہ بن کراسے دیمک کی طرح کھا جائے گا...اور ایسا ہونا ہی چاہیے کہ ہم میں سے کسی نے بھی ان بچیوں کو اپنی بچی سمجھا ہی نہیں۔ کراچی پریس کلب کے باہر ٹی وی کیمروں کے سامنے انھیں اپنی بھتیجی کہتے ہوئے سینیٹر حاصل خان بزنجولاکھ آبدیدہ ہوئے ہوں، لیکن اگر ان کی حقیقی بھتیجی ،بزنجو خاندان کی کوئی بچی یوں تین ماہ تک سڑکوں پہ ہوتی تو ہم دیکھتے کہ کیاوہ محض آبدیدہ ہوکر اپنی بے اختیاری کا رونا ہی روتے رہتے! ان میں سے ایک بچی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی عزیز ہوتی، تو ہم دیکھتے کہ کیا یونہی اسے سڑکوں پہ چھوڑ کے وہ بیرونِ ملک کے دوروں پہ نکل جاتے! یہ بچیاں بلوچستان کے کسی دانش ور، کسی لکھاری کی بچیاں ہوتیں تو ہم دیکھتے کہ وہ محض ایک تحریر سے اپنا دامن بچا لینے پہ اکتفا کر لیتے !!وہ درحقیقت پورے بلوچستان کی بچیاں ہیں۔ اس قوم کی بچیاں ہیں جس نے اپنی بچیوں کو سات قرآنوں کا درجہ دے رکھا ہے، لیکن آج ایسی پستی میں جا گری ہے کہ اپنی بچیوں کو سڑکوں پہ خوار ہوتے دیکھنے پہ مجبور ہے۔ بلوچستان کی یہ بچیاں جب بھی واپس لوٹیںگی ،ان کا پورا دیس، ان کے دیس کے بلند و بالا پہاڑ اور وسیع میدان آگے بڑھ کر ان کا شایانِ شان استقبال کریں گے، لیکن اس دیس کے ایک کروڑ باسیوں کی گردنیں ان کے سامنے شرم سے جھکی ہی رہیں گی۔جن کی آنکھ میں ذرا سا بھی پانی ہوگا، وہ ان سے آنکھیں نہیں ملا پائیں گے۔جنھیں ذرا بھی احساس باقی ہو گا، وہ اپنے لیے چُلو بھر پانی ڈھونڈیں گے۔ اور اگر کسی کو خدا نے ہمت دی تو کم ا ز کم بلوچستان میں یومِ خواتین کو ان لڑکیوں کے نام منسوب کر دے گا۔