ایک انسان کا قتل
کمیونسٹوں کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے لوگ موجود ہیں جو اپنے پروردگار کو کسی نہ کسی شکل میں ضرور مانتے ہیں
کمیونسٹوں کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے لوگ موجود ہیں جو اپنے پروردگار کو کسی نہ کسی شکل میں ضرور مانتے ہیں، اﷲ کی وحدانیت سے کسی کو انکار نہیں، اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اﷲ ایک ہی ہے جو سب کا پالن ہار ہے اب یہ اور بات ہے کہ غیر مسلموں نے اﷲ کے ساتھ بہت سی چیزوں کو شریک کرلیا ہے اور اپنے معبودوں کے مختلف نام رکھ لیے ہیں، وہ ان کی پوجا کرتے ہیں، منتیں مانگتے ہیں اور اپنا مددگار تصور کرتے ہیں، ساتھ میں اﷲ کو بھی مانتے ہیں جب کہ مسلمان صرف اور صرف ایک اﷲ پر یقین رکھتا ہے، اسے پتہ ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اگر کوئی نفی میں دعویٰ کرتا ہے تو مثبت انداز میں ثبوت پیش کرے لیکن تاقیامت یہ ممکن نہیں ہے۔ مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اﷲ کے حکم کے بغیر پتا نہیں ہلتا ہے۔ اچھا، برا جو کچھ بھی اس دنیا میں ہوتا ہے وہ سب اس کے حکم سے ہوتا ہے، نیک اور بد کام کرنے والوں کو روز قیامت جزا اور سزا ملے گی اور اس دنیا میں بھی وہ ذلت کے حقدار ہوں گے ۔ انسان جو بوتا ہے وہی اس کو کاٹنا پڑتا ہے۔
اﷲ رب العزت نے قرآن پاک کے ذریعے دنیا کے تمام انسانوں کو زندگی گزارنے اور حقوق کی ادائیگی کے طریقے محبت و نصیحت کے ساتھ سمجھا دیے ہیں اور اچھی طرح بتا دیا گیا ہے کہ ان کاموں کے کرنے سے دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور دوسرے اچھے کاموں کی بدولت جنت کی نوید سنادی گئی ہے، خیر و شر کو اپنانے والوں کے لیے ان کے کاموں کے ہی اعتبار سے انھیں انجام سے باخبر کردیا گیا ہے اب یہ حضرت انسان کی خوش بختی ہے یا بدبختی کہ کون سے راستے پر وہ چلنا پسند کرے۔
اﷲ کو ماننے والے اپنے رب پر پورا بھروسہ کرتے ہیں، وہ ہر حالات میں خواہ کسی بھی قسم کے ہوں، مایوس نہیں ہوتے، وہ جانتے ہیں دکھ بیماری اﷲ ہی کی طرف سے آتی ہے اور وہی شفا دینے والا ہے، وہ اپنے جاں بہ لب مریض کے لیے بھی دعا گو رہتے ہیں کہ شاید اﷲ تعالیٰ دعاؤں کی برکت سے بچالے اور اسے ایک نئی زندگی بخش دے۔ اور ایسا ہوتا رہتا ہے، اﷲ کے کلام کی برکت سے مریض دم مرگ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے۔ حال میں ہی ہم نے بیلجیم کے حوالے سے ایک خبر پڑھی، وہ یہ کہ یورپ کے کئی ممالک کے بعد اب بیلجیم کی پارلیمنٹ نے متنازع قانون ''یوتھینزیا'' کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا بچوں کو مرنے کا حق ''قتل رحم'' کی اجازت ہے، یہ قانون ان لوگوں کے لیے ہے جو طبی اعتبار سے انتہائی تکلیف کی کیفیت میں موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ بیلجیم کے بادشاہ کی طرف سے اس قانون پر دستخط کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا شروع کردیا جائے گا۔ یہ قانون ان بچوں کے لیے ہے جو انتہائی مخدوش حالت میں ہوں اور ان کے زندہ بچنے کے امکانات بے حد کم ہوں، اس عمل کی فیصلہ سازی کے لیے ڈاکٹر، ماہر نفسیات اور والدین کا متفق ہونا بھی ضروری ہے، کچھ نے اس قانون کی حمایت اور کچھ نے مخالفت کی۔ مذہبی اعتبار سے بیلجیم میں کیتھولک عقائد کی پاسداری کی جاتی ہے، اسی وجہ سے کیتھولک کلیسا اور بچوں کے کچھ ڈاکٹروں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔
مذہب اسلام میں جہاں خودکشی کرنے کی مذمت کی گئی وہاں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور قاتل کا ٹھکانہ جہنم بتایا گیا ہے، اسی وجہ سے پاکستان میں ان معصوم بچوں کا قتل عام زیادہ تعداد میں نہیں کیا جاتا ہے، جنھوں نے اس دنیا میں ابھی قدم نہیں رکھا ہے، ڈاکٹرز، نرسیں ایسی گمراہ خواتین کو گناہ کبیرہ سے باز رکھنے کی تلقین کرتی ہیں جب کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے کئی صوبے ایسے ہیں جہاں صبح و شام ننھے بچوں کا قتل کیا جاتا ہے، زیادہ تر والدین کو لڑکی کی آمد کا خوف موت کے منہ میں دھکیلنے پر مجبور کرتا ہے، دوسری وجہ غربت ہے اور بھی کئی ملک ایسے ہیں جہاں انسانی جان کی قدر و قیمت بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ہر روز بے شمار انسانی جانیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ہزاروں لوگ بڑی اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں، بے شمار چھوٹے بچے موت کی گود میں جانے کے لیے زندگی کے کٹھن دن کاٹنے پر مجبور ہیں، جسمانی و ذہنی اذیت بھی جھیلنا پڑ رہی ہے، ہزاروں مریض وینٹی لیٹر پر ڈال دیے جاتے ہیں لیکن دعائیں، وظیفے رنگ لے آتی ہیں۔ موت کے منہ میں جانے والا واپس لوٹ آتا ہے، وینٹی لیٹر سے کمرے میں منتقل کردیا جاتا ہے اور چند دن کے علاج کے بعد وہی مریض اپنے پیروں پر گھر جاتا ہے، اسی طرح ماں جو اپنی اولاد کے لیے قربانی و ایثار اور بے مثال محبت کا نام ہے وہ اپنے بیمار بچوں کی آخری سانس تک دعا گو رہتی ہے، والدین اپنی جمع پونجی علاج معالجے پر لگا دیتے ہیں لیکن اپنے جگر پارے کے لیے ہر پل اﷲ کے حضور میں سربسجود رہتے ہیں کہ شاید ان کی دعا مقبول ہوجائے۔ لیکن مغربی ممالک کا حال اس کے برعکس ہے کہ والدین امید کا ہر دیا اپنے ہاتھ سے بجھادیتے ہیں کہ یہ بچے کسی صورت میں نہیں بچیں گے، دانستہ اجل کے سپرد کردیتے ہیں۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو ایسا ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے، دوسرے مذاہب میں بھی اجازت تو نہیں ہے، لیکن اپنی آسانیوں کے لیے قوانین نافذ کردیے گئے ہیں کہ ان کے پاس ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے، کوئی مکمل الہامی کتاب نہیں ہے جس کی روشنی میں وہ اندھیروں سے نجات حاصل کرسکیں۔
مغرب میں طرح طرح کے انوکھے قوانین نافذ ہوتے ہی رہتے ہیں، کبھی ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی شکل دے دی جاتی ہے تو کبھی دوسری انسانیت سوز باتوں اور عمل کو زندگی کا لازمی جز بنادیا جاتا ہے، جانوروں سے محبت کے حوالے سے بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں، کبھی سالگرہ تو کبھی ان پر مقدمات دائر کردیے جاتے ہیں، اولاد سے زیادہ جانوروں کو سدھا لیا جاتا ہے، ماں باپ بچوں کا اور بچے ماں باپ کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں لیکن کتے بلی کا ساتھ عمر بھر نبھاتے ہیں، نہ کہ ان کی غذا، علاج معالجے کا خیال رکھا جاتا ہے، بلکہ ان کے نام اپنی جائیداد بھی منتقل کردی جاتی ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ اس قسم کی برائیوں سے پاک ہے لیکن دوسری برائیاں اور عیب امت مسلمہ میں پیدا ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے ہر شخص پریشانی اور تنزلی کا شکار ہے، مالی استحکام ہے اور نہ زندگی کا تحفظ، مفاد پرستی اور خودغرضی نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنادیا ہے لیکن اس کے باوجود انسانیت زندہ ہے لیکن اس کا دائرہ تنگ ہوچکا ہے، جہاں بہت بری مثالیں ہیں، وہاں اچھی مثالیں بھی موجود ہیں، آج بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں۔ بے شک ان ہی کے دم سے زیادہ نہ سہی، تھوڑا بہت سکون ضرور باقی ہے، بھوکوں کو کھانا مل جاتا ہے، اور مخیر حضرات کی مدد سے علاج کا بھی انتظام کردیا جاتا ہے، بے قصور قیدیوں کی رہائی کے لیے وکلا اپنی خدمات بغیر کسی فیس کے پیش کردیتے ہیں۔
اﷲ رب العزت نے قرآن پاک کے ذریعے دنیا کے تمام انسانوں کو زندگی گزارنے اور حقوق کی ادائیگی کے طریقے محبت و نصیحت کے ساتھ سمجھا دیے ہیں اور اچھی طرح بتا دیا گیا ہے کہ ان کاموں کے کرنے سے دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور دوسرے اچھے کاموں کی بدولت جنت کی نوید سنادی گئی ہے، خیر و شر کو اپنانے والوں کے لیے ان کے کاموں کے ہی اعتبار سے انھیں انجام سے باخبر کردیا گیا ہے اب یہ حضرت انسان کی خوش بختی ہے یا بدبختی کہ کون سے راستے پر وہ چلنا پسند کرے۔
اﷲ کو ماننے والے اپنے رب پر پورا بھروسہ کرتے ہیں، وہ ہر حالات میں خواہ کسی بھی قسم کے ہوں، مایوس نہیں ہوتے، وہ جانتے ہیں دکھ بیماری اﷲ ہی کی طرف سے آتی ہے اور وہی شفا دینے والا ہے، وہ اپنے جاں بہ لب مریض کے لیے بھی دعا گو رہتے ہیں کہ شاید اﷲ تعالیٰ دعاؤں کی برکت سے بچالے اور اسے ایک نئی زندگی بخش دے۔ اور ایسا ہوتا رہتا ہے، اﷲ کے کلام کی برکت سے مریض دم مرگ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے۔ حال میں ہی ہم نے بیلجیم کے حوالے سے ایک خبر پڑھی، وہ یہ کہ یورپ کے کئی ممالک کے بعد اب بیلجیم کی پارلیمنٹ نے متنازع قانون ''یوتھینزیا'' کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا بچوں کو مرنے کا حق ''قتل رحم'' کی اجازت ہے، یہ قانون ان لوگوں کے لیے ہے جو طبی اعتبار سے انتہائی تکلیف کی کیفیت میں موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ بیلجیم کے بادشاہ کی طرف سے اس قانون پر دستخط کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا شروع کردیا جائے گا۔ یہ قانون ان بچوں کے لیے ہے جو انتہائی مخدوش حالت میں ہوں اور ان کے زندہ بچنے کے امکانات بے حد کم ہوں، اس عمل کی فیصلہ سازی کے لیے ڈاکٹر، ماہر نفسیات اور والدین کا متفق ہونا بھی ضروری ہے، کچھ نے اس قانون کی حمایت اور کچھ نے مخالفت کی۔ مذہبی اعتبار سے بیلجیم میں کیتھولک عقائد کی پاسداری کی جاتی ہے، اسی وجہ سے کیتھولک کلیسا اور بچوں کے کچھ ڈاکٹروں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔
مذہب اسلام میں جہاں خودکشی کرنے کی مذمت کی گئی وہاں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور قاتل کا ٹھکانہ جہنم بتایا گیا ہے، اسی وجہ سے پاکستان میں ان معصوم بچوں کا قتل عام زیادہ تعداد میں نہیں کیا جاتا ہے، جنھوں نے اس دنیا میں ابھی قدم نہیں رکھا ہے، ڈاکٹرز، نرسیں ایسی گمراہ خواتین کو گناہ کبیرہ سے باز رکھنے کی تلقین کرتی ہیں جب کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے کئی صوبے ایسے ہیں جہاں صبح و شام ننھے بچوں کا قتل کیا جاتا ہے، زیادہ تر والدین کو لڑکی کی آمد کا خوف موت کے منہ میں دھکیلنے پر مجبور کرتا ہے، دوسری وجہ غربت ہے اور بھی کئی ملک ایسے ہیں جہاں انسانی جان کی قدر و قیمت بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ہر روز بے شمار انسانی جانیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ہزاروں لوگ بڑی اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں، بے شمار چھوٹے بچے موت کی گود میں جانے کے لیے زندگی کے کٹھن دن کاٹنے پر مجبور ہیں، جسمانی و ذہنی اذیت بھی جھیلنا پڑ رہی ہے، ہزاروں مریض وینٹی لیٹر پر ڈال دیے جاتے ہیں لیکن دعائیں، وظیفے رنگ لے آتی ہیں۔ موت کے منہ میں جانے والا واپس لوٹ آتا ہے، وینٹی لیٹر سے کمرے میں منتقل کردیا جاتا ہے اور چند دن کے علاج کے بعد وہی مریض اپنے پیروں پر گھر جاتا ہے، اسی طرح ماں جو اپنی اولاد کے لیے قربانی و ایثار اور بے مثال محبت کا نام ہے وہ اپنے بیمار بچوں کی آخری سانس تک دعا گو رہتی ہے، والدین اپنی جمع پونجی علاج معالجے پر لگا دیتے ہیں لیکن اپنے جگر پارے کے لیے ہر پل اﷲ کے حضور میں سربسجود رہتے ہیں کہ شاید ان کی دعا مقبول ہوجائے۔ لیکن مغربی ممالک کا حال اس کے برعکس ہے کہ والدین امید کا ہر دیا اپنے ہاتھ سے بجھادیتے ہیں کہ یہ بچے کسی صورت میں نہیں بچیں گے، دانستہ اجل کے سپرد کردیتے ہیں۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو ایسا ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے، دوسرے مذاہب میں بھی اجازت تو نہیں ہے، لیکن اپنی آسانیوں کے لیے قوانین نافذ کردیے گئے ہیں کہ ان کے پاس ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے، کوئی مکمل الہامی کتاب نہیں ہے جس کی روشنی میں وہ اندھیروں سے نجات حاصل کرسکیں۔
مغرب میں طرح طرح کے انوکھے قوانین نافذ ہوتے ہی رہتے ہیں، کبھی ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی شکل دے دی جاتی ہے تو کبھی دوسری انسانیت سوز باتوں اور عمل کو زندگی کا لازمی جز بنادیا جاتا ہے، جانوروں سے محبت کے حوالے سے بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں، کبھی سالگرہ تو کبھی ان پر مقدمات دائر کردیے جاتے ہیں، اولاد سے زیادہ جانوروں کو سدھا لیا جاتا ہے، ماں باپ بچوں کا اور بچے ماں باپ کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں لیکن کتے بلی کا ساتھ عمر بھر نبھاتے ہیں، نہ کہ ان کی غذا، علاج معالجے کا خیال رکھا جاتا ہے، بلکہ ان کے نام اپنی جائیداد بھی منتقل کردی جاتی ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ اس قسم کی برائیوں سے پاک ہے لیکن دوسری برائیاں اور عیب امت مسلمہ میں پیدا ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے ہر شخص پریشانی اور تنزلی کا شکار ہے، مالی استحکام ہے اور نہ زندگی کا تحفظ، مفاد پرستی اور خودغرضی نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنادیا ہے لیکن اس کے باوجود انسانیت زندہ ہے لیکن اس کا دائرہ تنگ ہوچکا ہے، جہاں بہت بری مثالیں ہیں، وہاں اچھی مثالیں بھی موجود ہیں، آج بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں۔ بے شک ان ہی کے دم سے زیادہ نہ سہی، تھوڑا بہت سکون ضرور باقی ہے، بھوکوں کو کھانا مل جاتا ہے، اور مخیر حضرات کی مدد سے علاج کا بھی انتظام کردیا جاتا ہے، بے قصور قیدیوں کی رہائی کے لیے وکلا اپنی خدمات بغیر کسی فیس کے پیش کردیتے ہیں۔