سائنس اور ادراک ماورائے حواس

ہزاروں سال سے خارق العادات (سپر نارمل) مظاہر کا چرچا جاری رہا اور آج بھی جاری ہے

ہزاروں سال سے خارق العادات (سپر نارمل) مظاہر کا چرچا جاری رہا اور آج بھی جاری ہے، مثلاً ہمزاد، آسیب، جناب، دیو، پری زاد، جسم مثالی، نادیدہ دنیا کا مشاہدہ، کشف، مستقبل بینی، اشراق (ٹیلی پیتھی) جادو، حاضرات ارواح وغیرہ وغیرہ۔ صدیوں تک نوع انسانی کا ہر طبقہ اور دنیا کی ہر قوم آنکھیں بند کرکے ان عقیدوں کو تسلیم کرتی رہی۔ ہر زمانے میں ایسے حیرت انگیز واقعات پیش آتے رہے جنھیں دنیاوی زندگی بسر کرنے والی عقل نے وہم اور خرافات سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ہر عہد میں دانشمندوں کا ایک گروہ ان اوہام کے خلاف آواز بلند کرتا رہا، یہ کشمکش آج بھی جاری ہے۔ سائنس داں صرف ان حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کا تجربہ وہ اپنے مقرر کردہ قوانین اور وضع کیے ہوئے آلات کے ذریعے کرسکیں، مثلاً وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ایک قطرۂ خون میں بے شمار زندہ جراثیم موجود ہوتے ہیں لیکن اس دعوے کو مسترد کردیتے ہیں کہ ہمزاد نام کی کوئی مخلوق دنیا میں پائی جاتی ہے جو آفتاب بینی یا سایہ بینی کے نتیجے میں نظر آسکتی ہے۔ سائنس صرف ان چیزوں کو تسلیم کرتی ہے جن کا علم وہ حواس خمسہ کے ذریعے دیکھ کر، سن کر، چھو کر، چکھ کر اور سونگھ کر حاصل کرے۔ سائنس دانوں کے اصول کے مطابق حواس خمسہ کے علاوہ علم و ادراک (چیزوں کی حقیقت کو جاننے پہچاننے) کا کوئی اور ذریعہ موجود نہیں۔ سائنس کی حد تک یہ نتیجہ سو فیصد صحیح ہے۔ خود زندگی کے اپنے قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہر اگلا قدم ایسی زمین پر رکھیں جو ٹھوس ہو، خیالی نہ ہو، اگر ہم سچ مچ کی سیڑھیوں کو چھوڑ کر فرض کی ہوئی سیڑھیوں کے ذریعے خیالی عمارت پر چڑھنے کی کوشش کریں گے تو دھڑام سے زمین پر آگریں گے۔ ہم اس مادی کائنات کی تسخیر کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور یہ کائنات ایسے قوانین سے مرکب ہے جن کو عقل، منطق اور سائنسی طریق کار پر عمل کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ مادی کائنات کی تسخیر تک سائنس کا منطقی اور تجرباتی طریقہ کار بالکل صحیح ہے۔ یہ مان لینا چاہیے کہ دو اور دو کی جمع چار ہی ہوگی اور آگ کی خاصیت ہمیشہ جلانا ہی رہے گی۔ یہاں تک ہم سائنس کے قدم بہ قدم چلتے ہیں، لیکن جب ''ذہنی مظاہر'' (مثلاً) ہمزاد کی جانچ پڑتال شروع ہوتی ہے تو نہ سائنس کی لیبارٹری کام آتی ہے نہ ریاضی کے قوانین، نہ کیمیا کے فارمولے چلتے ہیں نہ انجینئرنگ کے ضابطے۔ تمام سائنسی علوم ''ذہن'' کی پیداوار ہیں اور ذہن؟ ... یہاں آکر سوچ ٹھہر جاتی ہے اور عملی عقل جواب دے جاتی ہے۔ آج ادراک ماورائے حواس (E.S.P) Extra Sensory Perception کی عملی انداز سے چھان بین ہورہی ہے اور اس کے نتیجے حیرت انگیز ہیں۔ ادراک ماورائے حواس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، بہت کچھ لکھا جائے گا۔ بس اس وقت تو اتنا سمجھ لیں کہ ادراک ماورائے حواس ذہن کی اس صلاحیت کو کہتے ہیں کہ میں یہاں کراچی میں بیٹھے بیٹھے یہ معلوم کرلوں کہ ملک کے دیگر شہروں میں اس وقت کیا ہورہا ہے۔

ڈوب جانے کی کیفیت میں جو مشاہدات ہوتے ہیں ان کی اصلیت اور حقیقت کیا ہے؟ کیا ان کی حیثیت محض فریب نظر یا التباس حواس کی سی ہے، یا اس سے زیادہ کچھ ہے اور پھر یہ کیوں ضروری ہے کہ غیر معمولی مشاہدات کی بنیادی شرط یہ ہو کہ عملی شعور کو معطل کردیا جائے۔ عملی شعور وہ کہ ہر قدم پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ عملی شعور کی رو کو سست کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نظریں پلک جھپکائے بغیر کسی ایک نقطے پر گاڑ دی جائیں اور پھر ذہن کی تمام قوتیں بھی اسی ایک مرکز توجہ کے گرد جمع کر دی جائیں، مثلاً آفتاب بینی کے طلبا اپنے سائے کی گردن پر دونوں نظریں توجہ کی پوری قوت سے گاڑ دیتے ہیں، رفتہ رفتہ سایہ غائب ہوجاتا ہے، آسمان کو دیکھتے ہیں تو وہ سایہ سفید بادل کے ٹکڑے کی شکل میں اپنے سر پر گردش کرتا نظر آتا ہے اور کچھ دن کی مشق کے بعد وہ پرچھائیں ایک نظر آنے والے مجسمے کی شکل اختیار کرجاتی ہے (یہ طریقہ کار ہمزاد کے عمل میں بھی اختیار کیا جاتا ہے)۔

نفس انسانی کی تحقیق اور دماغ کی کرشمہ آفرینیوں کو سمجھنے کے لیے ان تمام بنیادی سوالات کے جوابات دینے ضروری ہیں۔ دماغ کے اس میکانزم اور ترکیب کو سمجھنا ہی پڑے گا جو اس قسم کے مظاہر میں بروئے کار آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب تک دماغ کی پوری فعالیت اور کارکردگی کو نہیں سمجھا گیا، اس کا سبب علم کی کمی ہے لیکن جوں جوں مابعد النفسیاتی طریق تحقیق معیاری ہوتا چلا جائے گا، اس قسم کے خارق العادات (سپر نارمل) مظاہر و معاملات کی دریافت آسان سے آسان تر ہوتی چلی جائے گی۔ آج اکیسویں صدی میں اس جہت میں کافی پیش رفت ہورہی ہے اور آنے والے دور میں نفس انسانی کے علم و تحقیق کا درجہ اتنا بلند ہوجائے گا جتنا بیسویں صدی کے نفسیات دان اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ خود ہمارے دماغ میں کچھ ایسے پرزے لگے ہوئے ہیں جو سانس اور استغراق کی مشقوں سے متحرک ہوجاتے ہیں، چلنے لگتے ہیں، دماغ کی پیچیدہ کمانی کھلنے لگتی ہے اور انسان شعور برتر کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔


آفتاب بینی کے کالم میں کچھ باتیں تشنہ رہ گئی تھیں۔ آفتاب بینی کی مشق صرف اس وقت تک کرنی چاہیے جب تک سورج کی روشنی ٹھنڈی اور اس کی چمک خوشگوار اور فرحت بخش رہے۔ جوں ہی شعاع آفتاب آنکھوں میں چبھنے لگے فوراً مشق بند کردینی چاہیے۔ اگر طلوع آفتاب کے وقت مشق کا وقت اور موقع نہ ملے تو پھر غروب آفتاب کا وقت اس کے لیے مناسب ہے۔ شام کو اس وقت تک مشق کرنی چاہیے جب تک سورج ڈوب نہ جائے۔ آفتاب بینی کی باطنی مشق کا طریقہ یہ ہے کہ پرسکون انداز میں بیٹھ کر یا لیٹ کر تصور کیجیے کہ سورج آپ کی نگاہِ باطن کے سامنے چمک رہا ہے۔ پندرہ سیکنڈ سے شروع کرکے رفتہ رفتہ 45 منٹ تک اس مشق کا دورانیہ بڑھا دینا چاہیے۔ یہ بات بارہا عرض کرچکا ہوں کہ استغراق کی مشاہداتی مشقیں (یعنی ایک نقطے پر مرکوز کردینا) ہوں یا باطنی مجاہدہ (یعنی یہ تصور کہ فلاں چیز مثلا چاند یا سورج ہماری نگاہ باطن کے سامنے جلوہ گر ہے اور ہماری پوری توجہ اور دل و دماغ کی پوری طاقت اس ایک نقطے پر مرکوز ہے) ان مشقوں کا حقیقی فائدہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب آپ پر ڈوب جانے کی حالت طاری ہو کر عملی شعور کی رفتار معطل ہوجائے۔ جب تک کسی مشق میں استغراق کی حالت پیدا نہیں ہوجاتی، اس مشق کا کرنا نہ کرنا برابر ہے، البتہ یہ درست ہے کہ استغراق کی حقیقی کیفیت ایک دو روز میں پیدا نہیں ہوسکتی۔

(نوٹ: گزشتہ کالم دیکھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)
Load Next Story