اسمگلنگ کی روک تھام کیسے ممکن ہے
پاکستانی حکومتیں غیر قانونی تجارت پر قابو پانے میں 95 فیصد ناکام رہتی ہیں
لاہور:
کچھ عرصہ قبل ' ہارورڈ ' کے معاشی ماہرین کی ایک ٹیم اور پاکستان کی وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام کی ایک مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ایک درجن اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حجم 3.3 ارب ڈالر سالانہ ہو چکا ہے۔
زیادہ فکر انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی حکام اس میں سے 95 فیصد سامان ضبط کرنے میں ناکام رہے۔ یہ اندازہ صرف درجن بھر اشیائے ضروریہ کا ہے۔ دیگر اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حساب کتاب کیا جائے تو بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
چند سال پہلے ایک دوسری رپورٹ نظر سے گزری تھی جس کے مطابق 2014ء سے 2018ء کے دوران ہمسائیہ اور دیگر ممالک سے اسمگلنگ میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کا سامان پاکستان کے مختلف سیکٹرز میں پہنچا۔ اس میں تیل، موبائل فون اور بڑی مقدار میں چائے غیرقانونی طور پر پاکستانی مارکیٹوں تک پہنچی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والے74 فیصد موبائل فون غیرقانونی تجارت کے ذریعے یہاں پہنچتے ہیں۔ یہاں فروخت ہونے والا 53 فیصد ڈیزل، 43 فیصد انجن آئل، 40 فیصد ٹائر اور 16فیصد آٹو پارٹس بھی غیرقانونی تجارت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
پاکستانی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی23 فیصد چائے اور 20 فیصد سگریٹ بھی اسمگلنگ کا مال ہوتے ہیں۔ تین لاکھ ٹن کپڑا بھی اسمگلنگ کا مال تھا۔ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے کہ 44 ارب روپے کی ادویات بھی غیرقانونی تجارت کے ذریعے پاکستان کی مارکیٹ میں داخل ہوئیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر بڑی مقدار میں سامان ڈیوٹیز ادا کیے بغیر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اسمگلنگ کیوں ہوتی ہے؟
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسمگلنگ دراصل ایسی غیرقانونی تجارت ہوتی ہے جس میں ملوث لوگ ملک سے اشیائے ضروریہ حکومت کو ٹیکسز اور ڈیوٹیز ادا کئے بغیر برآمد کرتے ہیں۔ وہ اشیائے ضروریہ درآمد بھی اسی انداز میں کرتے ہیں۔ اسمگلنگ میں سرحدوں کے دونوں اطراف میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو سامان خریدار اور فروخت کنندہ تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔
اس کے بدلے میں وہ کچھ رقم لیتے ہیں جو بہرحال کسٹم ڈیوٹی وغیرہ سے کم ہوتی ہے۔ اس انداز میں چند افراد ٹیکسز اور ڈیوٹیز سے بچ کے اپنی تجارت مستحکم کر لیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو بھاری بھرکم نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
یقیناً بعض ممالک میں لوگ اسمگلنگ پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہاں کی حکومتیں ٹیکسز اور ڈیوٹیز بہت زیادہ عائد کرتی ہیں۔ تاہم بعدازاں وہ حکومتیں ڈیوٹیز کم بھی کر دیں تو اسمگلنگ کرنے والے تجارت بذریعہ اسمگلنگ کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ ایک دھیلا بطور کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔
اسمگلنگ کی ایک طویل اور متنازع تاریخ ہے۔ انگلینڈ میں اسمگلنگ کا سب سے پہلے چرچا تیرھویں صدی عیسوی میں ہوا۔ جب بادشاہ ایڈورڈ نے1275ء میں ' نیشنل کسٹمز کولیکشن سسٹم ' متعارف کروایا ۔
اس نے اون اور جانوروں کی کھالوں کی برآمد پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کر دیا، نتیجتاً اسمگلنگ کو رواج ملا ۔ پھر تاجروں نے ایسا سامان بھی سمگل کرنا شروع کر دیا جس کی تجارت پر پابندی تھی۔ ان دنوں انگلینڈ میں بھی گندم کی برآمد پر پابندی عائد تھی۔ حکومت کو خدشہ تھا کہ گندم کی برآمد ہوئی تو مقامی منڈیوں میں اس کی قیمت بڑھ جائے گی اور اس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا نتیجتاً گندم کی اسمگلنگ ہوئی۔ اب بھی دنیا کے ہر خطے میں ایسی پابندیاں عائد ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں اسمگلنگ تیز ہو جاتی ہے۔
18ویں صدی میں انگلینڈ کی حکومت نے کسٹم ڈیوٹی کے ذریعے بھاری بھرکم آمدن حاصل کی ۔ دراصل اس نے چائے ، کپڑے ، شراب اور سپرٹ کی درآمدات پر 30 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔
نتیجتاً وہاں یہ چیزیں بہت مہنگی ہو گئیں۔ ایسے میں وہاں اسمگلنگ کے ذریعے مال آنا، جانا شروع ہو گیا۔ اس عہد کو برطانیہ میں اسمگلنگ کا 'سنہرا دور' قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس وقت حکومت نے اسے سنگین جرم قرار دے کر روکنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اسے سمجھ آگئی کہ محض سزاؤں کے ذریعے اسمگلنگ کو روکنا ممکن نہیں۔
اسمگلنگ کے نقصانات
چونکہ سمگلنگ کے ذریعے حکومتیں بڑی آمدن سے محروم ہو جاتی ہیں، اس لئے وہ اسے ایک سنگین جرم تصور کرتی ہیں ۔ ایسے مجرموں کو بھاری جرمانے اور طویل قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر کے معاشی ماہرین کے مطابق سمگلنگ کسی بھی ملک کی انڈسٹری بالخصوص لوکل پروڈکشن کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی صورت انڈسٹری کو پنپنے نہیں دیتی۔ ظاہر ہے کہ جب باہر سے سمگلنگ کا مال مقامی منڈیوں میں سستے داموں بکے گا تو مقامی پیداوار کو نسبتاً مہنگے داموں کون خریدے گا !
پاکستان ستر اور اسی کے عشروں میں ایک بہت بڑے بحران سے گزرا ۔ 70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے انڈسٹری کو نیشنلائز کیا، حالانکہ اس وقت ہماری انڈسٹری بہت ترقی کر رہی تھی۔ پاکستان کی اعلیٰ معیار کی پیداوار بڑے پیمانے پر نہ صرف مقامی ضرورت کو پورا کر رہی تھی بلکہ بیرون ملک بھی جا رہی تھی لیکن نیشنلائزیشن نے پوری انڈسٹری کا بیڑا غرق کر دیا۔ بعدازاں افغان جنگ اپنے ساتھ پاکستان میں سمگلنگ کا بہت بڑا طوفان لے کر آئی۔ اس نے ہماری رہی سہی انڈسٹری کو بھی آہستہ آہستہ ختم کر دیا۔
پاکستان میں اسمگلنگ کس انداز میں ہوتی ہے؟
یہاں ہونے والی سمگلنگ کی مختلف اقسام ہیں۔ پہلی قسم سرحد پار سے ہونے والی سمگلنگ ۔ یہ تین راستوں سے ہو رہی ہے۔ براستہ کوئٹہ، چمن بارڈر ۔ براستہ ایران مکران بارڈر ہے ، براستہ طور خم بارڈر پشاور۔ اس قسم کی سمگلنگ کے دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم ، وہ سامان جو براہ راست افغانستان سے پاکستان میں آتا ہے۔ دوسری قسم کافی ٹیکنیکل اور خطرناک ہے۔
چونکہ افغانستان کو کوئی سمندر نہیں لگتا ، نتیجتاً ہماری بندرگاہ افغانستان کی درآمدات و برآمدات کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے کسٹم اہلکار وغیرہ اس معاملے کو دیکھتے ہیں ۔ جب کراچی کی بندرگاہ سے کنٹینر مال لے کر افغانستان کی طرف روانہ ہوتا ہے تو راستے ہی سے مال نکال لیا جاتا ہے۔ پھر وہ خالی کنٹینر افغان سرحد تک جاتا اور وہاں سے مہر لگوا کر واپس آجاتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کے کنٹینر میں مال ایسا ہوتا ہے جس پر ڈیوٹی زیادہ شرح کے ساتھ لگتی ہے لیکن سمگلنگ کرنے والے اسے کم ڈیوٹی والا مال ڈکلئیر کر دیتے ہیں۔
اسمگلنگ کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟
پاکستان میں اب تک سمگلنگ کی سزا اور جزا کا نظام بڑا عجیب سا ہے۔ یہاں ایک فرد پر ایف آئی آر کٹ جاتی ہے ، اس کا کچھ سامان ضبط ہوتا ہے اور پھر بس ! معاملہ ختم ۔ حالانکہ سمگلنگ میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً سمگلنگ کرنے والے یا اس کے سہولت کار کا شناختی کارڈ کم ازکم دس سال کے لئے بلاک کردیا جائے۔
تاکہ کوئی بنک اکاؤنٹ کھول سکے نہ ہی بجلی یا ایسی کسی سہولت کا میٹر لگوا سکے۔ اس کا این ٹی این ختم کر دیا جائے، اس کی کمپنی بلاک ہو جائے۔ وہ کسی بھی انداز میں کوئی کاروبار کر سکے نہ ہی کوئی قرضہ لے سکے۔
اسمگلنگ میں کون کون ملوث ؟
سمگلنگ کے پورے نیٹ ورک میں مرکزی کردار کسی پاکستانی کا بھی ہو سکتا ہے ، افغانی کا بھی ہو سکتا ہے اور ایرانی کا بھی ۔ اس کے علاوہ نیٹ ورک میں سہولت کار بھی ہوتے ہیں مثلاً کسٹم اہلکار ۔ اگر افغانستان سے مال بذریعہ چمن بارڈر پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو اسے پنجاب تک پہنچنے میں پانچ سات چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
وہاں کے اہلکار بھی اس نیٹ ورک میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر کسٹم اہلکار کے مالی معاملات کا باقاعدہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس کے اثاثوں میںکتنا اضافہ ہوا؟ اس کے بیوی بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے اثاثوں کو چیک کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ اس کے کوئی بے نامی اثاثے تو نہیں ۔ اسے مجبور کیا جائے کہ وہ ہرسال اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائے ۔ اس کے معاملات کی انویسٹی گیشن کے لئے باقاعدہ الگ ونگ بنایا جائے۔
سمگلنگ کے نیٹ ورک میں ٹرانسپورٹر بھی شامل ہوتے ہیں ، انھیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جو مال لے کر جا رہے ہیں ، وہ سمگلنگ کا ہے یا عام ۔ وہ سمگلنگ کے مال کا کرایہ زیادہ لیتا ہے۔ اس لئے وہ اس مافیا کا حصہ ہوتا ہے۔
اگر کوئی ٹرانسپورٹر سمگلنگ کا مال لے جاتا ہوا پکڑا جائے، نہ صرف سمگلنگ کا مال بلکہ اس کی گاڑی یا ٹرک وغیرہ بھی ضبط کیا جائے، ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس دس سال کے لئے معطل کیا جائے، اسی طرح اس بس اڈے کا لائسنس بھی ختم کیا جائے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔
پاکستان کی ہول سیل مارکیٹیں بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہوتی ہیں ۔ مثلاً پاکستان کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک شیرشاہ کراچی ہے، یہاں گاڑیوںکے پرزے آتے ہیں۔ یہاں سے گاڑیوں کے لئے ' کابلی انجن ' ملتے ہیں ۔ کابلی انجن سمگلنگ کے ذریعے آنے والا انجن ہوتا ہے۔ دیگر مارکیٹوں میں پشاور کی کارخانو مارکیٹ اور لاہور کی بلال گنج مارکیٹ ہے۔ راولپنڈی میں بھی کابلی انجن وغیرہ کی مارکیٹیں ہیں۔ کسٹم انٹیلی جنس کے لوگوں کو ان مارکیٹوں میں سمگلرز کی سرگرمیوں کا مکمل علم ہوتا ہے، وہ بار بار چند ایک دکانوں پر چھاپہ مارتے ہیں۔
اسی طرح دوسری ہول سیل مارکیٹوں میں بھی سمگلنگ کا مال آتا ہے اور فروخت ہوتا ہے۔ مثلاً کراچی کا جوڑیا بازار ، لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ ، راولپنڈی کا راجہ بازار ، پشاور میں کارخانو مارکیٹ ، فیصل آباد میں بھی ایک مارکیٹ ہے۔ یہاں مختلف شعبوں سے متعلقہ ، مختلف اقسام کا مال آتا ہے۔
چھوٹے ریٹیلرز یا دکاندار بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہوتے ہیں۔ مثلاً گاڑیوں کے پرزوں کی دکانیں ، اسی طرح مختلف شعبوں کی دوسری ریٹیل شاپس ۔ یہاں دکاندار خود مختلف اقسام کے مال کی مختلف قیمتیں بتاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں قسم کے مال کی قیمت کم کیوں ہے ؟ وہ بتاتے ہیں کہ یہ باہر ( سمگلنگ )کا مال ہے۔ یا پھر کہا جاتا ہے کہ یہ ' کابلی مال 'ہے۔ پاکستان میں بڑی شاندار سرامیک ٹائلز بھی ملتی ہیں جو دراصل ایران سے سمگل ہوکر آتی ہیں۔
وہ معیاری بھی ہوتی ہیں اور سستی بھی ۔ جب اس کے معیار اور قیمت کا موازنہ دوسری امپورٹیڈ ٹائلز سے کیا جاتا ہے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ایسے ریٹیلر سے منی ٹریل پوچھ کر اس کے نیٹ ورک تک پہنچا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی زیادہ تر سمگلنگ ایران کے راستے سے ہوتی ہے۔کچھ عرصہ قبل سینیٹ کی کمیٹی میں پیٹرولیم کمپنیوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اگر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ ختم ہوجائے تو پاکستانی معیشت کو 200 ارب روپے سالانہ کے نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ افسوس ناک امر ہے کہ ایرانی پٹرول کی سمگلنگ میں ہمارے بہت سے اہم لوگ ملوث ہوتے ہیں جو مختلف اداروں کی اہم جگہوں پر تعینات ہیں۔ اس طرح یہ لوگ یا ان سے جڑے باقی لوگ معاشی طور پر بہتر ہوتے ہیں لیکن ملک اور اس کی معیشت کمزور ہوتی ہے۔
اس حوالے سے بھی قانون سازی اور سخت سزا کی ضرورت ہے۔جس پٹرول پمپ پر سمگلڈ پٹرول فروخت ہورہا ہو تو وہ جگہ ضبط کرلینی چاہیے۔ اس کے مالک کا شناختی کارڈ ضبط اور این ٹی این ختم کردیا جائے۔ جب تک سزائیں سخت نہیں ہوں گی ، سمگلنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ ہمارے محکمہ کسٹم میں ' سمگلنگ ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم ' ہونا چاہیے ، ایک ایسا سافٹ وئیر جس میں سمگلنگ میں پکڑے جانے والے لوگوں کا ریکارڈ جمع کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سمگلنگ کا جو کیس بھی پکڑا جائے ، اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، اس میں ملوث پورے نیٹ ورک پر قابو پانے تک چین سے نہ بیٹھا جائے ۔
سزاؤں کے ساتھ ہی ساتھ جزا کی بھی ضرورت ہے۔ اگر کسٹم انٹیلی جنس کی ایک ٹیم کوئی کیس پکڑے ، تو حاصل ہونے والے مجموعی سمگلڈ مال کی مالیت کا دس فیصد اس ٹیم میں تقسیم کرنا چاہیے۔ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر سمگلروں پر ہاتھ ڈالتے ہیں ۔ جزا ملنے سے جہاں وہ ٹیم مزید حوصلہ مند ہو گی وہاں دیگر ٹیمیں بھی اس معاملے میں محنت کریں گی۔
بارڈر ٹریڈ مارکیٹس ، سمگلنگ کی روک تھام کی اہم تدبیر
مکرر عرض ہے کہ محض سخت سزاؤں سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا، کچھ دیگر تدابیر بھی اختیار کرنا ہوں گی۔گزشتہ برس پاکستان اور ایران کے مابین تین سرحدی مقامات گبد ، منڈ ، چیدگی پر بارڈر ٹریڈ مارکیٹیں قائم ہوئیں ۔ اس اقدام کا پہلا مقصد سمگلروں کو قانونی تجارت کا راستہ دکھانا تھا ، دوسرا ، سمگلنگ کی روک تھام کے نتیجے میں جو اس علاقے کے متاثرہ غریب لوگوں کو بھی زندگی گزارنے کا قانونی انداز سکھانا تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایران اور افغانستان کی سرحد پر مجموعی طور پر 18 بارڈر ٹریڈ مارکیٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایران کی سرحد کے ساتھ 6 جبکہ افغان سرحد پر ( بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں) 12 مارکیٹس۔ ان بارڈر ٹریڈ مارکیٹس کے پہلے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر گوادر میں گبد کیچ میں مندردیگ پنجگور میں چیدگی میںکام شروع ہو چکا ہے۔
سمگلنگ کے خاتمے کے لئے سرحدوں پر ایسے مشترکہ بازاروں کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں پر آنے والا مال باقاعدہ کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد فروخت ہونا ضروری ہے کہ یہاںکسٹم ڈیوٹی کم ہو ۔ برسوں پہلے ایسی ہی ایک مثال واہگہ بارڈر لاہور پر پاکستان بھارت کے مشترکہ ڈرائی پورٹ کی صورت میں قائم ہوئی تھی۔ یہاں دونوں ملکوں کے بزنس مین ٹرک لے کر آتے تھے، وہاں کسٹم ڈیوٹی کی فوری ادائیگی ہوتی تھی اور فوراً مال دوسری طرف شفٹ ہو جاتا تھا۔
سمگلنگ کی روک تھام کے لئے ایسی ہی دیگر تدابیر پر بھی غور و فکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے، جس کے ذریعے بڑے مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ' ہارورڈ ' کے معاشی ماہرین کی ایک ٹیم اور پاکستان کی وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام کی ایک مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ایک درجن اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حجم 3.3 ارب ڈالر سالانہ ہو چکا ہے۔
زیادہ فکر انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی حکام اس میں سے 95 فیصد سامان ضبط کرنے میں ناکام رہے۔ یہ اندازہ صرف درجن بھر اشیائے ضروریہ کا ہے۔ دیگر اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حساب کتاب کیا جائے تو بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
چند سال پہلے ایک دوسری رپورٹ نظر سے گزری تھی جس کے مطابق 2014ء سے 2018ء کے دوران ہمسائیہ اور دیگر ممالک سے اسمگلنگ میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کا سامان پاکستان کے مختلف سیکٹرز میں پہنچا۔ اس میں تیل، موبائل فون اور بڑی مقدار میں چائے غیرقانونی طور پر پاکستانی مارکیٹوں تک پہنچی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والے74 فیصد موبائل فون غیرقانونی تجارت کے ذریعے یہاں پہنچتے ہیں۔ یہاں فروخت ہونے والا 53 فیصد ڈیزل، 43 فیصد انجن آئل، 40 فیصد ٹائر اور 16فیصد آٹو پارٹس بھی غیرقانونی تجارت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
پاکستانی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی23 فیصد چائے اور 20 فیصد سگریٹ بھی اسمگلنگ کا مال ہوتے ہیں۔ تین لاکھ ٹن کپڑا بھی اسمگلنگ کا مال تھا۔ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے کہ 44 ارب روپے کی ادویات بھی غیرقانونی تجارت کے ذریعے پاکستان کی مارکیٹ میں داخل ہوئیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر بڑی مقدار میں سامان ڈیوٹیز ادا کیے بغیر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اسمگلنگ کیوں ہوتی ہے؟
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسمگلنگ دراصل ایسی غیرقانونی تجارت ہوتی ہے جس میں ملوث لوگ ملک سے اشیائے ضروریہ حکومت کو ٹیکسز اور ڈیوٹیز ادا کئے بغیر برآمد کرتے ہیں۔ وہ اشیائے ضروریہ درآمد بھی اسی انداز میں کرتے ہیں۔ اسمگلنگ میں سرحدوں کے دونوں اطراف میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو سامان خریدار اور فروخت کنندہ تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔
اس کے بدلے میں وہ کچھ رقم لیتے ہیں جو بہرحال کسٹم ڈیوٹی وغیرہ سے کم ہوتی ہے۔ اس انداز میں چند افراد ٹیکسز اور ڈیوٹیز سے بچ کے اپنی تجارت مستحکم کر لیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو بھاری بھرکم نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
یقیناً بعض ممالک میں لوگ اسمگلنگ پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہاں کی حکومتیں ٹیکسز اور ڈیوٹیز بہت زیادہ عائد کرتی ہیں۔ تاہم بعدازاں وہ حکومتیں ڈیوٹیز کم بھی کر دیں تو اسمگلنگ کرنے والے تجارت بذریعہ اسمگلنگ کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ ایک دھیلا بطور کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔
اسمگلنگ کی ایک طویل اور متنازع تاریخ ہے۔ انگلینڈ میں اسمگلنگ کا سب سے پہلے چرچا تیرھویں صدی عیسوی میں ہوا۔ جب بادشاہ ایڈورڈ نے1275ء میں ' نیشنل کسٹمز کولیکشن سسٹم ' متعارف کروایا ۔
اس نے اون اور جانوروں کی کھالوں کی برآمد پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کر دیا، نتیجتاً اسمگلنگ کو رواج ملا ۔ پھر تاجروں نے ایسا سامان بھی سمگل کرنا شروع کر دیا جس کی تجارت پر پابندی تھی۔ ان دنوں انگلینڈ میں بھی گندم کی برآمد پر پابندی عائد تھی۔ حکومت کو خدشہ تھا کہ گندم کی برآمد ہوئی تو مقامی منڈیوں میں اس کی قیمت بڑھ جائے گی اور اس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا نتیجتاً گندم کی اسمگلنگ ہوئی۔ اب بھی دنیا کے ہر خطے میں ایسی پابندیاں عائد ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں اسمگلنگ تیز ہو جاتی ہے۔
18ویں صدی میں انگلینڈ کی حکومت نے کسٹم ڈیوٹی کے ذریعے بھاری بھرکم آمدن حاصل کی ۔ دراصل اس نے چائے ، کپڑے ، شراب اور سپرٹ کی درآمدات پر 30 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔
نتیجتاً وہاں یہ چیزیں بہت مہنگی ہو گئیں۔ ایسے میں وہاں اسمگلنگ کے ذریعے مال آنا، جانا شروع ہو گیا۔ اس عہد کو برطانیہ میں اسمگلنگ کا 'سنہرا دور' قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس وقت حکومت نے اسے سنگین جرم قرار دے کر روکنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اسے سمجھ آگئی کہ محض سزاؤں کے ذریعے اسمگلنگ کو روکنا ممکن نہیں۔
اسمگلنگ کے نقصانات
چونکہ سمگلنگ کے ذریعے حکومتیں بڑی آمدن سے محروم ہو جاتی ہیں، اس لئے وہ اسے ایک سنگین جرم تصور کرتی ہیں ۔ ایسے مجرموں کو بھاری جرمانے اور طویل قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر کے معاشی ماہرین کے مطابق سمگلنگ کسی بھی ملک کی انڈسٹری بالخصوص لوکل پروڈکشن کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی صورت انڈسٹری کو پنپنے نہیں دیتی۔ ظاہر ہے کہ جب باہر سے سمگلنگ کا مال مقامی منڈیوں میں سستے داموں بکے گا تو مقامی پیداوار کو نسبتاً مہنگے داموں کون خریدے گا !
پاکستان ستر اور اسی کے عشروں میں ایک بہت بڑے بحران سے گزرا ۔ 70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے انڈسٹری کو نیشنلائز کیا، حالانکہ اس وقت ہماری انڈسٹری بہت ترقی کر رہی تھی۔ پاکستان کی اعلیٰ معیار کی پیداوار بڑے پیمانے پر نہ صرف مقامی ضرورت کو پورا کر رہی تھی بلکہ بیرون ملک بھی جا رہی تھی لیکن نیشنلائزیشن نے پوری انڈسٹری کا بیڑا غرق کر دیا۔ بعدازاں افغان جنگ اپنے ساتھ پاکستان میں سمگلنگ کا بہت بڑا طوفان لے کر آئی۔ اس نے ہماری رہی سہی انڈسٹری کو بھی آہستہ آہستہ ختم کر دیا۔
پاکستان میں اسمگلنگ کس انداز میں ہوتی ہے؟
یہاں ہونے والی سمگلنگ کی مختلف اقسام ہیں۔ پہلی قسم سرحد پار سے ہونے والی سمگلنگ ۔ یہ تین راستوں سے ہو رہی ہے۔ براستہ کوئٹہ، چمن بارڈر ۔ براستہ ایران مکران بارڈر ہے ، براستہ طور خم بارڈر پشاور۔ اس قسم کی سمگلنگ کے دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم ، وہ سامان جو براہ راست افغانستان سے پاکستان میں آتا ہے۔ دوسری قسم کافی ٹیکنیکل اور خطرناک ہے۔
چونکہ افغانستان کو کوئی سمندر نہیں لگتا ، نتیجتاً ہماری بندرگاہ افغانستان کی درآمدات و برآمدات کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے کسٹم اہلکار وغیرہ اس معاملے کو دیکھتے ہیں ۔ جب کراچی کی بندرگاہ سے کنٹینر مال لے کر افغانستان کی طرف روانہ ہوتا ہے تو راستے ہی سے مال نکال لیا جاتا ہے۔ پھر وہ خالی کنٹینر افغان سرحد تک جاتا اور وہاں سے مہر لگوا کر واپس آجاتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کے کنٹینر میں مال ایسا ہوتا ہے جس پر ڈیوٹی زیادہ شرح کے ساتھ لگتی ہے لیکن سمگلنگ کرنے والے اسے کم ڈیوٹی والا مال ڈکلئیر کر دیتے ہیں۔
اسمگلنگ کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟
پاکستان میں اب تک سمگلنگ کی سزا اور جزا کا نظام بڑا عجیب سا ہے۔ یہاں ایک فرد پر ایف آئی آر کٹ جاتی ہے ، اس کا کچھ سامان ضبط ہوتا ہے اور پھر بس ! معاملہ ختم ۔ حالانکہ سمگلنگ میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً سمگلنگ کرنے والے یا اس کے سہولت کار کا شناختی کارڈ کم ازکم دس سال کے لئے بلاک کردیا جائے۔
تاکہ کوئی بنک اکاؤنٹ کھول سکے نہ ہی بجلی یا ایسی کسی سہولت کا میٹر لگوا سکے۔ اس کا این ٹی این ختم کر دیا جائے، اس کی کمپنی بلاک ہو جائے۔ وہ کسی بھی انداز میں کوئی کاروبار کر سکے نہ ہی کوئی قرضہ لے سکے۔
اسمگلنگ میں کون کون ملوث ؟
سمگلنگ کے پورے نیٹ ورک میں مرکزی کردار کسی پاکستانی کا بھی ہو سکتا ہے ، افغانی کا بھی ہو سکتا ہے اور ایرانی کا بھی ۔ اس کے علاوہ نیٹ ورک میں سہولت کار بھی ہوتے ہیں مثلاً کسٹم اہلکار ۔ اگر افغانستان سے مال بذریعہ چمن بارڈر پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو اسے پنجاب تک پہنچنے میں پانچ سات چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
وہاں کے اہلکار بھی اس نیٹ ورک میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر کسٹم اہلکار کے مالی معاملات کا باقاعدہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس کے اثاثوں میںکتنا اضافہ ہوا؟ اس کے بیوی بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے اثاثوں کو چیک کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ اس کے کوئی بے نامی اثاثے تو نہیں ۔ اسے مجبور کیا جائے کہ وہ ہرسال اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائے ۔ اس کے معاملات کی انویسٹی گیشن کے لئے باقاعدہ الگ ونگ بنایا جائے۔
سمگلنگ کے نیٹ ورک میں ٹرانسپورٹر بھی شامل ہوتے ہیں ، انھیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جو مال لے کر جا رہے ہیں ، وہ سمگلنگ کا ہے یا عام ۔ وہ سمگلنگ کے مال کا کرایہ زیادہ لیتا ہے۔ اس لئے وہ اس مافیا کا حصہ ہوتا ہے۔
اگر کوئی ٹرانسپورٹر سمگلنگ کا مال لے جاتا ہوا پکڑا جائے، نہ صرف سمگلنگ کا مال بلکہ اس کی گاڑی یا ٹرک وغیرہ بھی ضبط کیا جائے، ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس دس سال کے لئے معطل کیا جائے، اسی طرح اس بس اڈے کا لائسنس بھی ختم کیا جائے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔
پاکستان کی ہول سیل مارکیٹیں بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہوتی ہیں ۔ مثلاً پاکستان کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک شیرشاہ کراچی ہے، یہاں گاڑیوںکے پرزے آتے ہیں۔ یہاں سے گاڑیوں کے لئے ' کابلی انجن ' ملتے ہیں ۔ کابلی انجن سمگلنگ کے ذریعے آنے والا انجن ہوتا ہے۔ دیگر مارکیٹوں میں پشاور کی کارخانو مارکیٹ اور لاہور کی بلال گنج مارکیٹ ہے۔ راولپنڈی میں بھی کابلی انجن وغیرہ کی مارکیٹیں ہیں۔ کسٹم انٹیلی جنس کے لوگوں کو ان مارکیٹوں میں سمگلرز کی سرگرمیوں کا مکمل علم ہوتا ہے، وہ بار بار چند ایک دکانوں پر چھاپہ مارتے ہیں۔
اسی طرح دوسری ہول سیل مارکیٹوں میں بھی سمگلنگ کا مال آتا ہے اور فروخت ہوتا ہے۔ مثلاً کراچی کا جوڑیا بازار ، لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ ، راولپنڈی کا راجہ بازار ، پشاور میں کارخانو مارکیٹ ، فیصل آباد میں بھی ایک مارکیٹ ہے۔ یہاں مختلف شعبوں سے متعلقہ ، مختلف اقسام کا مال آتا ہے۔
چھوٹے ریٹیلرز یا دکاندار بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہوتے ہیں۔ مثلاً گاڑیوں کے پرزوں کی دکانیں ، اسی طرح مختلف شعبوں کی دوسری ریٹیل شاپس ۔ یہاں دکاندار خود مختلف اقسام کے مال کی مختلف قیمتیں بتاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں قسم کے مال کی قیمت کم کیوں ہے ؟ وہ بتاتے ہیں کہ یہ باہر ( سمگلنگ )کا مال ہے۔ یا پھر کہا جاتا ہے کہ یہ ' کابلی مال 'ہے۔ پاکستان میں بڑی شاندار سرامیک ٹائلز بھی ملتی ہیں جو دراصل ایران سے سمگل ہوکر آتی ہیں۔
وہ معیاری بھی ہوتی ہیں اور سستی بھی ۔ جب اس کے معیار اور قیمت کا موازنہ دوسری امپورٹیڈ ٹائلز سے کیا جاتا ہے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ایسے ریٹیلر سے منی ٹریل پوچھ کر اس کے نیٹ ورک تک پہنچا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی زیادہ تر سمگلنگ ایران کے راستے سے ہوتی ہے۔کچھ عرصہ قبل سینیٹ کی کمیٹی میں پیٹرولیم کمپنیوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اگر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ ختم ہوجائے تو پاکستانی معیشت کو 200 ارب روپے سالانہ کے نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ افسوس ناک امر ہے کہ ایرانی پٹرول کی سمگلنگ میں ہمارے بہت سے اہم لوگ ملوث ہوتے ہیں جو مختلف اداروں کی اہم جگہوں پر تعینات ہیں۔ اس طرح یہ لوگ یا ان سے جڑے باقی لوگ معاشی طور پر بہتر ہوتے ہیں لیکن ملک اور اس کی معیشت کمزور ہوتی ہے۔
اس حوالے سے بھی قانون سازی اور سخت سزا کی ضرورت ہے۔جس پٹرول پمپ پر سمگلڈ پٹرول فروخت ہورہا ہو تو وہ جگہ ضبط کرلینی چاہیے۔ اس کے مالک کا شناختی کارڈ ضبط اور این ٹی این ختم کردیا جائے۔ جب تک سزائیں سخت نہیں ہوں گی ، سمگلنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ ہمارے محکمہ کسٹم میں ' سمگلنگ ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم ' ہونا چاہیے ، ایک ایسا سافٹ وئیر جس میں سمگلنگ میں پکڑے جانے والے لوگوں کا ریکارڈ جمع کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سمگلنگ کا جو کیس بھی پکڑا جائے ، اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، اس میں ملوث پورے نیٹ ورک پر قابو پانے تک چین سے نہ بیٹھا جائے ۔
سزاؤں کے ساتھ ہی ساتھ جزا کی بھی ضرورت ہے۔ اگر کسٹم انٹیلی جنس کی ایک ٹیم کوئی کیس پکڑے ، تو حاصل ہونے والے مجموعی سمگلڈ مال کی مالیت کا دس فیصد اس ٹیم میں تقسیم کرنا چاہیے۔ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر سمگلروں پر ہاتھ ڈالتے ہیں ۔ جزا ملنے سے جہاں وہ ٹیم مزید حوصلہ مند ہو گی وہاں دیگر ٹیمیں بھی اس معاملے میں محنت کریں گی۔
بارڈر ٹریڈ مارکیٹس ، سمگلنگ کی روک تھام کی اہم تدبیر
مکرر عرض ہے کہ محض سخت سزاؤں سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا، کچھ دیگر تدابیر بھی اختیار کرنا ہوں گی۔گزشتہ برس پاکستان اور ایران کے مابین تین سرحدی مقامات گبد ، منڈ ، چیدگی پر بارڈر ٹریڈ مارکیٹیں قائم ہوئیں ۔ اس اقدام کا پہلا مقصد سمگلروں کو قانونی تجارت کا راستہ دکھانا تھا ، دوسرا ، سمگلنگ کی روک تھام کے نتیجے میں جو اس علاقے کے متاثرہ غریب لوگوں کو بھی زندگی گزارنے کا قانونی انداز سکھانا تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایران اور افغانستان کی سرحد پر مجموعی طور پر 18 بارڈر ٹریڈ مارکیٹس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایران کی سرحد کے ساتھ 6 جبکہ افغان سرحد پر ( بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں) 12 مارکیٹس۔ ان بارڈر ٹریڈ مارکیٹس کے پہلے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر گوادر میں گبد کیچ میں مندردیگ پنجگور میں چیدگی میںکام شروع ہو چکا ہے۔
سمگلنگ کے خاتمے کے لئے سرحدوں پر ایسے مشترکہ بازاروں کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں پر آنے والا مال باقاعدہ کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد فروخت ہونا ضروری ہے کہ یہاںکسٹم ڈیوٹی کم ہو ۔ برسوں پہلے ایسی ہی ایک مثال واہگہ بارڈر لاہور پر پاکستان بھارت کے مشترکہ ڈرائی پورٹ کی صورت میں قائم ہوئی تھی۔ یہاں دونوں ملکوں کے بزنس مین ٹرک لے کر آتے تھے، وہاں کسٹم ڈیوٹی کی فوری ادائیگی ہوتی تھی اور فوراً مال دوسری طرف شفٹ ہو جاتا تھا۔
سمگلنگ کی روک تھام کے لئے ایسی ہی دیگر تدابیر پر بھی غور و فکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے، جس کے ذریعے بڑے مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔