ہنستے ہوئے شیر ضرور آئیں گے
نطشے نے کہا تھا ہنستے ہوئے شیر ضرور آئیں گے تو والٹیر آیا۔ اور اس نے بہت سی چیزیں غارت کرکے رکھ دیں
نطشے نے کہا تھا ہنستے ہوئے شیر ضرور آئیں گے تو والٹیر آیا۔ اور اس نے بہت سی چیزیں غارت کرکے رکھ دیں۔ بات یہ ہے کہ ان دنوں ایک وسیع معاشی اور سیاسی تغیر واقع ہو رہا تھا، حکومت بڑے بڑے امیر جاگیرداروں کے ہاتھ سے نکل کر متوسط درجے کے لوگوں کے ہاتھوں میں آرہی تھی والٹیر اور روسو اس عمل تغیر کے ترجمان تھے اور نقیب بھی۔ جب ترقی کرنے والی جماعت کسی قانونی یا رواج کے ہاتھوں تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ رواج پر خاک ڈالو یہ دیکھو کہ عقل کا تقاضا کیا ہے قانون کو بھاڑ میں جھونکو، دیکھو کہ فطرت کیا کہتی ہے ، انقلاب عظیم کے نمودار ہونے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ پرانے رسوم و رواج کمزور کردیے جائیں احساس اور فکر کو جلادی جائے اور ان کا احیاکیا جائے اور ذہن انسانی کو نئے تجربوں اور تغیرات کے لیے تیار کیا جائے ۔ جب شہنشاہ لوئی شانزدہم نے زنداں میں والٹیر اور روسو کی تصانیف دیکھیں، تو کہا ان دو آدمیوں نے فرانس کو برباد کردیا۔ والٹیر نے کہا دنیا پر تحریر کی حکومت ہے اور تعلیم سے آزادی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
والٹیر نے فرانس کے لوگوں میں یہ احساس پیدا کردیا اور جب کوئی قوم ایک بار فکر کرنا شروع کردے تو پھر اس عمل کو روکنا ناممکن ہے۔ والٹیر کو کسی دوست نے لکھا کہ ہوش کے ناخن لوخواہ مخواہ جان کیوں دیتے ہو، اس کے جواب میں اس نے لکھا آپ پھانسی پر چڑھنا پسند نہیں کرتے تو خیر یہ اور بات ہے لیکن دوسروں کو اس کام سے کیوں روکتے ہو۔ اس نے کہا تھا ہمیں خود اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے اپنی ہی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے ہمیں اپنی بصیرت و بصارت ہی سے وہ کام لینا چاہیے جو لوگ کاہنوں، دیوتاؤں کے سہاروں سے لیتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ کچھ عرصے کی بات ہے ممتاز اشخاص کی ایک جماعت اس فرسودہ اور بیہودہ سوال پر بحث کررہی تھی کہ سب سے بڑا آدمی کون تھا،سیزر، سکندر، تیمور، کرام ویل کسی نے جواب دیا کہ نیوٹن ۔اس نے کہا بے شک و شبہ وہ سب سے بڑا آدمی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ہمارے ذہنوں کو قوت صداقت سے مسخر کیا ہے وہی ہمارے احترام کا مستحق ہے وہ لوگ نہیں جنھوں نے تشدد سے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے۔ مائیکرو میگاس واحد کتاب نہیں جو والٹیر کے قیام انگلستان کا نتیجہ ہو لیٹرز آن دی انگلش بھی اسی قیام کا نتیجہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انگلستان میں ہر کوئی ٹیکس ادا کرتا ہے اس نے لکھا کہ ہر شخص اپنے رتبے کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی آمدنی کے حساب سے ٹیکس دیتا ہے۔ اس نے لکھا برطانوی کسانوں کے پاؤں کھڑاؤں سے زخمی نہیں ہوتے وہ سفید روٹی کھاتے ہیں اچھا کپڑا پہنتے ہیںوہ اپنی زمین پر ہل چلانے کو حقیر کام نہیں سمجھتے۔ والٹیر نے سب سے زیادہ تعریف آزادی اظہار کی کی جو انگلستان میں لوگوں کو حاصل تھی۔ وہ کہتا ہے ہر کسی کو پبلک میں بولنے کا حق حاصل ہے۔ اور ہر کوئی اجتماعی امور پر اپنے خیالات چھپوا سکتا ہے۔
تین سال کی جبری جلاوطنی کے بعد وہ پیرس واپس آگیا اس نے اپنی کتاب لیٹرز آن دی انگلش اشاعت کے لیے مرتب نہ کی تھی وہ دوستوں میں نجی طور پر تقسیم کرنے کے لیے تھی مگر ایک بے ایمان ناشر نے اس کے علم کے بغیر ہی یہ کتاب چھاپ دی۔ اس کا ایک نسخہ ایک سرکاری افسر کے ہاتھ لگ گیا وہ جان گیا یہ کیا ہے یہ تفریحی کشتی میں چھپا ہوا بارود فرانسیسی مطلق العنانی کے لیے بے حد خطرناک تھا۔ نتیجہ یہ ہوا پیرس کی پارلیمنٹ نے فوراً حکم دیا کہ یہ کتاب سر عام جلادی جائے کہ یہ شرمناک ہے مذہب اوراخلاق کے خلاف ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ تاریخ سے بات ثابت کی جاسکتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسی تاریخ لکھوں جس میں لڑائیوں کا ذکر نہ ہو بلکہ معاشرے سے بحث ہو۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ذہن انسان کی تاریخ مرتب کی جائے مجھے امرا، شرفا، بادشاہوں کی سوانح حیات سے بھی کوئی بحث نہیں۔ میں ان منازل اور مراحل سے بحث کرنا چاہتا ہوں جن سے گذر کر ذہن انسانی بربریت سے تہذیب تک پہنچا ہے۔
بقول بکل کے والٹیر کی تالیف موجودہ علم تاریخ کی بنیاد ہے۔ والٹیر کے نزدیک تاریخ کا مقصد نسل انسانی کو جسمانی، ذہنی اور اخلاقی طور پر آزاد کروانا ہے اس آزادی اور اس نجات کو حاصل کرنے کا واحد ہتھیار انسانی عقل ہے۔ وہ کہتا تھا کہ عوام کی آوازخدا کی آواز ہے وہ کہتا ہے کہ جب تم انسانوں کو بیلوں کی طرح ہانکتے ہو تو ہر شے سے محروم ہوجاتے ہو جلد یا بدیر وہ تمہیں اپنے سینگوں سے چھید ڈالیں گے۔ اس کی عملی زندگی کی ابتدائی حصے کا ماٹو یہ رہا تھا کہ ہنسو اور ہنسنے دو۔ بعد میں اس نے یہ پرانا ماٹو بدل دیا اور جو اپنا یا وہ یہ تھا کہ سوچو اور سوچنے دو۔ اس نے کہا تھا کہ میرا مسلک یہ ہے ریاکاری کو کچل دو۔ اس نے کلیسا اور اہل کلیسا کی بدعنوانیوں کا ذکر اس انداز سے کیا کہ فرانس کے لوگوں کے دل کانپ گئے ۔ اس نے وہ عملی آتش فشانی کی جس کے شعلوں میں جبے اور عصا جل کر خاک ہوگئے۔ اس نے فرانس کے پادریوں کی کمر توڑ دی اس نے اپنے دستوں ڈیڈیرو ، شجاع والیمبار کو آواز دی اور انھیں للکارا آؤ مل کر کام کریں اور مذہبی دیوانوں اور بدمعاشوں کو مارکے گرا دیں۔ لوگوں کو مذہبی جنونیوں کا غلام نہ بننے دو ، آنے والی نسل کی آزادی اور عقلی ترقی کے ہم ہی تو ضامن ہیں اس نے کہا کہ تمام قوموں کو تعصب، تو ہمات، جہالت اور مذہبی انتہا پسندی کی بیماریاں گھن کر طرح کھائے جارہی ہیں۔ عوام ان مضحکہ خیز اور مہلک فسادات کے ذمے دار نہیں یہ خوفناک مصائب عوام کی تخلیق نہیں بلکہ ان جھگڑوں کا موجب مذہبی جنونی ہیں۔ جو عوام کا خون چوس کر خود عیش و عشرت کی بے مصرف زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ان مذہبی ٹھیکیداروں کا مقصد یہ نہ تھا کہ تم خدا کا خوف کرو بلکہ ان کا منشا تو یہ تھا کہ تم ان سے ڈرتے رہو۔
آج صدیوں بعد پاکستان کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس میں مذہبی عدم رواداری سرفہرست ہے۔ انتہا پسندی محض ایک عمل یا کارروائیوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو پاکستانی معاشرے میں آہستہ آہستہ سرایت کررہی ہے جو خود کش بم دھماکوں کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ پاکستان کی ثقافت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی اسلامی عمل ہے کہ بے گناہ لوگوں، معصوم بچوں اور عورتوں کو قتل کیا جائے ، بموں سے اڑادیا جائے اور نہ ہی کسی کو اس بات کا حق ہونا چاہیے کہ وہ بندوق لے کر اپنے نظریات سب پر تھوپ دے ماضی میں روشن خیالی کا نعرہ اس لیے ناکام ہوا کہ ملک میں انتہا پسندی کے خلاف کوئی نظریاتی جنگ نہیں لڑی گئی بلکہ سارا زور اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے تھا۔ ملک میں انتہا پسندی کا مسئلہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے قوم کو متحد کرکے ہی انتہا پسندی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اور ہمیں والٹیر کی طرح ایسے عناصر کو للکارنا ہوگا۔ پوری قوم کو اباٹھ کھڑا ہونا ہوگا، اس کے علاوہ ہمارے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ آئیں ہم مل کر ریاکاری کو کچل دیں ، یکجہتی، محبت ،انسانیت کا چلن عام کریں ، توہمات اور فساد معاشرت کے خلاف ایسا شدید اور موثر محاذ قائم کریں کہ ملک میں امن قائم ہوجائے۔
والٹیر نے فرانس کے لوگوں میں یہ احساس پیدا کردیا اور جب کوئی قوم ایک بار فکر کرنا شروع کردے تو پھر اس عمل کو روکنا ناممکن ہے۔ والٹیر کو کسی دوست نے لکھا کہ ہوش کے ناخن لوخواہ مخواہ جان کیوں دیتے ہو، اس کے جواب میں اس نے لکھا آپ پھانسی پر چڑھنا پسند نہیں کرتے تو خیر یہ اور بات ہے لیکن دوسروں کو اس کام سے کیوں روکتے ہو۔ اس نے کہا تھا ہمیں خود اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے اپنی ہی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے ہمیں اپنی بصیرت و بصارت ہی سے وہ کام لینا چاہیے جو لوگ کاہنوں، دیوتاؤں کے سہاروں سے لیتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ کچھ عرصے کی بات ہے ممتاز اشخاص کی ایک جماعت اس فرسودہ اور بیہودہ سوال پر بحث کررہی تھی کہ سب سے بڑا آدمی کون تھا،سیزر، سکندر، تیمور، کرام ویل کسی نے جواب دیا کہ نیوٹن ۔اس نے کہا بے شک و شبہ وہ سب سے بڑا آدمی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ہمارے ذہنوں کو قوت صداقت سے مسخر کیا ہے وہی ہمارے احترام کا مستحق ہے وہ لوگ نہیں جنھوں نے تشدد سے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے۔ مائیکرو میگاس واحد کتاب نہیں جو والٹیر کے قیام انگلستان کا نتیجہ ہو لیٹرز آن دی انگلش بھی اسی قیام کا نتیجہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انگلستان میں ہر کوئی ٹیکس ادا کرتا ہے اس نے لکھا کہ ہر شخص اپنے رتبے کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی آمدنی کے حساب سے ٹیکس دیتا ہے۔ اس نے لکھا برطانوی کسانوں کے پاؤں کھڑاؤں سے زخمی نہیں ہوتے وہ سفید روٹی کھاتے ہیں اچھا کپڑا پہنتے ہیںوہ اپنی زمین پر ہل چلانے کو حقیر کام نہیں سمجھتے۔ والٹیر نے سب سے زیادہ تعریف آزادی اظہار کی کی جو انگلستان میں لوگوں کو حاصل تھی۔ وہ کہتا ہے ہر کسی کو پبلک میں بولنے کا حق حاصل ہے۔ اور ہر کوئی اجتماعی امور پر اپنے خیالات چھپوا سکتا ہے۔
تین سال کی جبری جلاوطنی کے بعد وہ پیرس واپس آگیا اس نے اپنی کتاب لیٹرز آن دی انگلش اشاعت کے لیے مرتب نہ کی تھی وہ دوستوں میں نجی طور پر تقسیم کرنے کے لیے تھی مگر ایک بے ایمان ناشر نے اس کے علم کے بغیر ہی یہ کتاب چھاپ دی۔ اس کا ایک نسخہ ایک سرکاری افسر کے ہاتھ لگ گیا وہ جان گیا یہ کیا ہے یہ تفریحی کشتی میں چھپا ہوا بارود فرانسیسی مطلق العنانی کے لیے بے حد خطرناک تھا۔ نتیجہ یہ ہوا پیرس کی پارلیمنٹ نے فوراً حکم دیا کہ یہ کتاب سر عام جلادی جائے کہ یہ شرمناک ہے مذہب اوراخلاق کے خلاف ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ تاریخ سے بات ثابت کی جاسکتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسی تاریخ لکھوں جس میں لڑائیوں کا ذکر نہ ہو بلکہ معاشرے سے بحث ہو۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ذہن انسان کی تاریخ مرتب کی جائے مجھے امرا، شرفا، بادشاہوں کی سوانح حیات سے بھی کوئی بحث نہیں۔ میں ان منازل اور مراحل سے بحث کرنا چاہتا ہوں جن سے گذر کر ذہن انسانی بربریت سے تہذیب تک پہنچا ہے۔
بقول بکل کے والٹیر کی تالیف موجودہ علم تاریخ کی بنیاد ہے۔ والٹیر کے نزدیک تاریخ کا مقصد نسل انسانی کو جسمانی، ذہنی اور اخلاقی طور پر آزاد کروانا ہے اس آزادی اور اس نجات کو حاصل کرنے کا واحد ہتھیار انسانی عقل ہے۔ وہ کہتا تھا کہ عوام کی آوازخدا کی آواز ہے وہ کہتا ہے کہ جب تم انسانوں کو بیلوں کی طرح ہانکتے ہو تو ہر شے سے محروم ہوجاتے ہو جلد یا بدیر وہ تمہیں اپنے سینگوں سے چھید ڈالیں گے۔ اس کی عملی زندگی کی ابتدائی حصے کا ماٹو یہ رہا تھا کہ ہنسو اور ہنسنے دو۔ بعد میں اس نے یہ پرانا ماٹو بدل دیا اور جو اپنا یا وہ یہ تھا کہ سوچو اور سوچنے دو۔ اس نے کہا تھا کہ میرا مسلک یہ ہے ریاکاری کو کچل دو۔ اس نے کلیسا اور اہل کلیسا کی بدعنوانیوں کا ذکر اس انداز سے کیا کہ فرانس کے لوگوں کے دل کانپ گئے ۔ اس نے وہ عملی آتش فشانی کی جس کے شعلوں میں جبے اور عصا جل کر خاک ہوگئے۔ اس نے فرانس کے پادریوں کی کمر توڑ دی اس نے اپنے دستوں ڈیڈیرو ، شجاع والیمبار کو آواز دی اور انھیں للکارا آؤ مل کر کام کریں اور مذہبی دیوانوں اور بدمعاشوں کو مارکے گرا دیں۔ لوگوں کو مذہبی جنونیوں کا غلام نہ بننے دو ، آنے والی نسل کی آزادی اور عقلی ترقی کے ہم ہی تو ضامن ہیں اس نے کہا کہ تمام قوموں کو تعصب، تو ہمات، جہالت اور مذہبی انتہا پسندی کی بیماریاں گھن کر طرح کھائے جارہی ہیں۔ عوام ان مضحکہ خیز اور مہلک فسادات کے ذمے دار نہیں یہ خوفناک مصائب عوام کی تخلیق نہیں بلکہ ان جھگڑوں کا موجب مذہبی جنونی ہیں۔ جو عوام کا خون چوس کر خود عیش و عشرت کی بے مصرف زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ان مذہبی ٹھیکیداروں کا مقصد یہ نہ تھا کہ تم خدا کا خوف کرو بلکہ ان کا منشا تو یہ تھا کہ تم ان سے ڈرتے رہو۔
آج صدیوں بعد پاکستان کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس میں مذہبی عدم رواداری سرفہرست ہے۔ انتہا پسندی محض ایک عمل یا کارروائیوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو پاکستانی معاشرے میں آہستہ آہستہ سرایت کررہی ہے جو خود کش بم دھماکوں کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ پاکستان کی ثقافت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی اسلامی عمل ہے کہ بے گناہ لوگوں، معصوم بچوں اور عورتوں کو قتل کیا جائے ، بموں سے اڑادیا جائے اور نہ ہی کسی کو اس بات کا حق ہونا چاہیے کہ وہ بندوق لے کر اپنے نظریات سب پر تھوپ دے ماضی میں روشن خیالی کا نعرہ اس لیے ناکام ہوا کہ ملک میں انتہا پسندی کے خلاف کوئی نظریاتی جنگ نہیں لڑی گئی بلکہ سارا زور اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے تھا۔ ملک میں انتہا پسندی کا مسئلہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے قوم کو متحد کرکے ہی انتہا پسندی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اور ہمیں والٹیر کی طرح ایسے عناصر کو للکارنا ہوگا۔ پوری قوم کو اباٹھ کھڑا ہونا ہوگا، اس کے علاوہ ہمارے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ آئیں ہم مل کر ریاکاری کو کچل دیں ، یکجہتی، محبت ،انسانیت کا چلن عام کریں ، توہمات اور فساد معاشرت کے خلاف ایسا شدید اور موثر محاذ قائم کریں کہ ملک میں امن قائم ہوجائے۔