شہر کراچی کے ساتھ ایک مکالمہ

آج میں نے جب لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو اچانک میرے سامنے ایک مضطرب اور پریشان سا ہیولا منڈلانے لگا۔



آج میں نے جب لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو اچانک میرے سامنے ایک مضطرب اور پریشان سا ہیولا منڈلانے لگا۔
میں نے گھبرا کر پوچھا تم کون ہو؟
وہ بولا : میں شہر کراچی ہوں۔
میں نے پوچھا: تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے؟
وہ بولا: گزشتہ آٹھ ماہ سے ناقص اور آلودہ پانی پی رہا ہوں وہ بھی مقدار میں بہت کم ملتا ہے۔

میں نے کہا: پھر تم نے شکایت کیوں نہ کی؟
وہ بولا: ہر جگہ شکایت کی، درخواست دی۔ فون بھی کیے حتیٰ کہ عدالت میں ایک دستوری گزارش Constitutional Petition بھی دے ڈالی۔
میں نے پوچھا: پھر کیا ہوا۔ محکمے والے تمہارے پاس نہیں آئے؟
وہ بولا: پہلے کبھی آجاتے تھے اب میری خالی خولی درخواست پر نہیں آتے۔
میں نے پوچھا: خالی خولی درخواست سے تمہاری کیا مراد ہے؟
اس نے ہنس کر کہا: آپ خود سمجھ جایا کریں میں ہر بات نہیں بتاسکتا۔

میں نے پوچھا: تم کیا سمجھتے ہو یہ مسئلہ کیا ہے؟
وہ بولا: میں کچھ نہیں کہتا لوگ کہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اداروں کی کارکردگی خراب ہوگئی۔ کوئی کہتا ہے شہرکی آبادی اس کے وسائل سے زیادہ ہوگئی۔ اور کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ درجنوں کمپنیاں یہاں پانی فروخت کر رہی ہیں اس لیے مجھ غریب کے لیے پانی بہت کم ہی بچتا ہے اور جو کچھ بھی بچتا ہے وہ بھی آلودہ۔ پھر پانی کے چوروں کو کوئی نہیں پکڑتا۔
میں نے پوچھا: پھر تم نے کیا سوچا؟
اس نے کہا: میں نے کیا سوچنا ہے۔ یہ کام میرا نہیں ہے۔
میں نے کہا: پھر یہ کس کا کام ہے؟
اس نے کہا: یہ کام میری انتظامیہ کا ہے جو مجھے بھول بیٹھی ہے۔

میں نے پوچھا: پھر بھی تمہاری کوئی رائے تو ہوگی۔
وہ ناراض ہوکر بولا: میں نے کیا رائے دینی ہے مجھے تو ہر سو دریا نظر آتے ہیں پر صاف اور مناسب مقدار میں پانی مجھے نہیں ملتا۔
میں نے پھر کہا: مجھے تو اس وقت تمہارا چہرہ بھی صاف نظر نہیں آرہا ہے۔
وہ بولا: میں اس وقت لوڈشیڈنگ میں ہوں۔
میں نے دریافت کیا: تم اس لوڈشیڈنگ میں کیوں رہتے ہو؟
اس نے جواب دیا: میں لوڈشیڈنگ میں نہیں رہتا مجھے اس میں رکھا جاتا ہے۔

میں نے کہا: تم اس سے نکلنے کی خودکوششیں کیوں نہیں کرتے؟
وہ بولا: میں کوششیں کرسکتا ہوں پر میرے ساتھ مل کر کام کرنے والے نہیں ہیں۔
میں نے پوچھا: اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟
وہ بولا: میں ہر سو اتحاد کی قلت دیکھتا ہوں جس کے بغیر میں کچھ نہیں کرسکتا۔
میں نے پھر پوچھا: اگر تمہیں اتحاد مل بھی جائے تو تم بجلی کہاں سے لاؤگے جس کی شدید قلت ہوگئی ہے۔
وہ بولا: میرا ایک ہتھیار شمسی توانائی ہے اور دوسرا پن بجلی ہے میں دونوں کو پکڑکر لاؤں گا اور بجلی کی کمی کو پورا کردوں گا۔

میں نے پھر پوچھا: تم نے یہ گر کی بات اور لوگوں کو بھی بتائی؟
وہ بولا: میرا ریڈیو آج کل کمزور ہوگیا ہے۔
میں نے پوچھا: کیا مطلب؟
وہ بولا: میرے ریڈیو کی نشریات تمام لوگوں تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔
میں نے کہا: میں اب بھی نہیں سمجھی کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟
اس نے بتایا کہ میرا ریڈیو گزشتہ کئی سالوں سے FM-93 پر چل رہا ہے۔
میں نے کہا: تو پھر کیا ہوا؟
کہنے لگا: اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان تک میری نشریات پہنچتی ہی نہیں اور جن کے پاس پہنچتی ہیں وہ بھی واضح طور پر نہیں پہنچ پاتیں جب کہ میڈیم وے پر میری نشریات ہر جگہ واضح سنائی دیتی تھیں۔
میں نے پوچھا: تم نے اس کی شکایت نہیں کی؟
وہ بولا: ہاں شکایت کی تھی، مجھ سے کہا گیا کہ جو لوگ میری نشریات نہیں سن پا رہے ہیں ان کے ریڈیو سیٹ خراب ہیں۔

میں نے کہا: تو پھر تمہیں کیا پریشانی ہے؟
وہ بولا: ایسا نہیں ہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ FM-93 کے سگنل تمام علاقوں میں واضح طور پر نہیں پہنچ پاتے۔
میں نے کہا: پھر تم نے کیا کیا:
وہ بولا: میں نے کیا کرنا ہے میں تو بس اس پر ہی خوش رہتا ہوں کہ میں سب سے بڑا شہر ہوں۔
میں نے پھر اس سے کہا کہ تمہیں اس ضمن میں کوئی کوشش تو کرنی چاہیے۔
وہ بولا: میں تھک گیا۔
میں نے پھر اپنی گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے اس سے کہا: کہ اچھا اب آؤ تو مجھے فون کرکے آنا۔

وہ بولا: میرے پاس آپ کا ٹیلیفون نمبر نہیں ہے۔
میں نے کہا: ٹیلیفون ڈائریکٹری سے لے لینا۔
وہ بولا: ٹیلیفون ڈائریکٹری کا زمانہ گیا اب کوئی ٹیلیفون ڈائریکٹری شایع نہیں ہوتی۔
پھر میں نے کہا: ٹیلیفون انکوائری سے معلوم کرلینا۔
وہ بولا: ٹیلیفون والے بھی ہوشیار ہوگئے ہیں وہ ٹیلیفون انکوائری (1217) کے اب پیسے لیتے ہیں اور معلومات بھی پوری نہیں دیتے۔میں نے کہا: پھر انٹرنیٹ سے لے لینا۔
وہ بولا۔ انٹرنیٹ پر ہر ایک کا فون نمبر نہیں ہوتا پھر اس میں وقت بھی بہت لگتا ہے اور بجلی اور پیسوں کا خرچ الگ ہے۔

پھر میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ: ٹیلیفون ڈائریکٹری دنیا کے دیگر ممالک میں بھی شایع ہو رہی ہیں جہاں انٹرنیٹ سمیت مواصلات کے تمام جدید ذرائع بھی موجود ہیں کیونکہ ٹیلیفون ڈائریکٹری کی افادیت اور ضرورت اپنی جگہ الگ ہے۔ پھر تم نے ٹیلیفون ڈائریکٹری کی اشاعت کیوں بند کردی جو محکمے سے ہر صارف کو ہر سال بلاقیمت مل جاتی تھی؟
اس پر وہ تھوڑی دیر خاموش ہوگیا پھر کہنے لگا بات تو آپ کی بالکل درست ہے پر یہ کام میری مواصلات کا ہے۔
پھر میں نے کہا: بھئی! تمہارے مسائل تو ان گنت ہیں میں کہاں تک تمہیں بتاؤں؟
وہ بولا: ہاں میرے مسئلے تو اتنے زیادہ ہیں کہ میں ان میں ڈوب چکا ہوں لیکن آپ میری فکر نہ کریں۔
میں نے کہا: مجھے تو تمہاری بہت زیادہ فکر ہے۔
وہ بولا: میں نے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔
میں نے کہا: کیا ڈھونڈ لیا ہے؟
اس پر وہ گنگنانے لگا:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اس کی گنگناہٹ میں میرے ہاتھ سے قلم گر گیا اور وہ ہیولا غائب ہوگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں