علم والے دوسرا اور آخری حصہ

نامناسب حالات اگر بڑھتے گئے تو لوگوں میں دین سے دوری بڑھ جائے گی

فوٹوفائل

PESHAWAR:
آج لوگوں کی بعض آئمہ حضرات سے دوری کی ایک بڑی وجہ ان کا سخت رویہ ہے جس سے بندگان خدا ان سے کچھ پوچھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور یہ نامناسب حالات اگر بڑھتے گئے تو لوگوں میں دین سے دوری بڑھ جائے گی۔

میں پھر اس بات پر زور دوں گا کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام اولیاء اور صوفیا کی عوام سے محبت و شفقت کی بناء پر پھیلا، کیونکہ لوگوں کے دل ان کی محبت سے سرشار ہوکر خود بخود ان کی تقلید کرنے لگتے۔ حالات دن بدن ابتری کی طرف گامزن ہیں اگر ''علم والے'' امت کی رہبری اور رہنمائی نہیں کریں گے تو خلق خدا گمراہیوں اور گناہوں میں مبتلا ہوجائے گی۔

ایک مولانا محترم زندگی کے آخری حصے میں تبلیغ دین کے غرض سے اپنے بڑھاپے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ساؤتھ افریقہ کے دورے پرگئے وہاں ان پر فالج کا حملہ ہوا، جب کراچی اطلاع آئی تو ان کے عقیدت مند اور گھر والے سبھی پریشان ہوگئے، ان کے لیے دعا کرتے رہے کچھ مہینوں بعد دورے پر گئے ان کے ساتھی انھیں گھر جو مسجد سے ملحقہ ہے وہاں لے کر آئے اس عرصے ان کے ساتھیوں نے دل و جان سے ان کی خدمات کی اور کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔

گھر پر ان کے بیٹے عبد اللہ نے اپنے والد کی بہت خدمت کی میں نے سنا کہ رمضان کی راتوں میں وہ اپنے والد کو قرآن پاک سنایا کرتے تھے، کیونکہ وہ رمضان میں تراویح پڑھاتے تھے اور اس خوبصورت انداز میں تلاوت فرماتے کہ ایک ایک لفظ واضح طور پر سماعت میں آتا۔ والد صاحب کی علالت کے باعث وہ عشاء کی فرض نماز پڑھا کر جلدی گھر چلے جاتے میرے استفسار پر مسجد کے ساتھیوں نے مجھے یہ بات بتائی۔

مفتی عبد اللہ صاحب جب مسجد میں درس دیتے تو میں نے دوچار مرتبہ اپنے کانوں سے سنا کہ ان کے والد محترم خود فرماتے کہ '' مفتی صاحب نے کتنی اچھی بات بتائی'' جس پر راقم ان کے چہرے پر وہ خوشی دیکھتا جو آج میں سوچتا ہوں کہ ان کے چہرے پر کتنی اور کس قدر خوشی رہتی کہ میرے بیٹے میں کتنی لیاقت اور دانائی ہے وہ خلق خدا کو کتنے سہل اور سحر انگیز لفظوں میں دین کی باتیں بتاتے ہیں جو دل سے نکلے اور دل میں اتر جائے۔

ایسا لگتا کسی محنت کش کو اس کی مزدوری رب تعالیٰ نے اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردی ہو اور اس کی مزدوری بھی اس کی من چاہی ہو۔ کوئی بھی والد اپنی اولاد کے لیے ایسی خوشی محسوس کرے اور خدمت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھے میں تو سمجھتا ہوں اس اولاد نے تو دنیا میں ہی جنت کمالی۔ مولانا صاحب سے میری آخری ملاقات رمضان کے آخری جمعہ کی نماز (جمعۃ الوداع) پر ہوئی کیونکہ وہ صحت کی خرابی کے باعث مسجد میں نہ آ پاتے، میں نے جیسے ہی انھیں دیکھا فورا ان سے جا کر شرف ملاقات حاصل کی ان سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں آپ ٹھیک ہوجائیں گے اس پر انھوں نے جو مسکراہٹ مجھے دی اس سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ اب ان کے بارگاہ الہی میں جانے کا وقت قریب ہے۔ یہ مختصر سی ملاقات میری یادوں میں رہ گئی۔ اللہ کریم مولانا صاحب کی کامل مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے۔


آج ان کے بیٹے، ان کے پوتے طاہر ، حامد ، حماد ، الیاس اور شعیب سب کسی نہ کسی شکل میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ایک اور انتہائی معروف علمی ہستی پروفیسر حافظ محمد محمود حسین صدیقیؒ نظر اللہ مرقدہ کی ہے جو14اپریل 1929کو ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد خواجہ حسین صدیقی وکالت کرتے تھے ، آپ کا گھرانہ بے انتہا مذہبی تھا ، یہی وجہ تھی کہ آپ نے دینیات میں ماسٹرزکیا ، پھرایل ایل بی کیا۔ سقوطِ حیدرآباد کے بعد آپ کراچی تشریف لے آئے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ آپ کا شمار اردو کالج کے مایہ ناز اساتذہ میں ہوتا ، آپ روانی سے عربی بولتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ آپ جب تقریر یا دعا فرماتے تو مجمع ہمہ تن گوش ہوجاتا۔ آپ انتہائی خوش مزاج اور خوش اطوار انسان تھے۔

آپ صدر دارالعرفان (مرکزتعلیم و تربیت شریعت و طریقت) ، صدر تحریک درس قرآن و سر پرست ادارہ اشاعت قرآن رہے ، ڈائریکٹر ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز (WFIM) اور سابق پرنسپل جامعہ علیمیہ اسلامیہ و المرکز الاسلامی بھی تھے۔

پروفیسر محمود حسین سابق صدر دارالعلوم مظہریہ (درس نظامی) ، جامع مسجد آرام باغ کراچی اور اپنے دور ملازمت میں آپ پرنسپل وفاقی گورنمنٹ اردو کالج برائے فنون ، تجارت و قانون بھی رہے، سابق صدر انجمن اساتذہ اسلامیات ، برائے کالجز کراچی بھی تھے ، سابق منتخب رکن سینیٹ ، جامعہ کراچی (نمایندہ اساتذہ کالجز) ، سابق رکن رویت ہلال کمیٹی و وفاقی امن کمیٹی اور سینئر وائس پریزیڈنٹ تحریک نظریہ پاکستان کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ حافظ محمود حسین مدیراعلیٰ ٰ'' النبی الخاتم '' تحقیقی مجلہ برائے سیرت طیبہ ، رکن مجلسِ انتخاب جامعہ کراچی ، جامعہ این ای ڈی کراچی و جامعہ سندھ اور صدر مسجد عثمان و خطیب جمعہ و عیدین تھے۔ آپ کا اہلِ دل میں مقام بہت بلند تھا۔

آپ عرفانی ، چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی سلسلوںسے تا دمِ زیست وابستہ رہے۔ محمود صاحب کا آخری عہدہ ڈائریکٹر سیرتِ طیبہ چیئر، جامعہ کراچی تھا۔آپ کے ہزاروں مرید پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکا، لندن ،کینیڈا اور دیگر ممالک میں بھی ہیں۔ ''احکام الاسلام '' اور ''تعلیم الاسلام'' کے نام سے آپ کے دو کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ ''عہدِ حاضرکے چیلنج کا اسلامی جواب ''آپ کا مقالہ بہت ہی گوناگوں خوبیوں سے آراستہ ہے جو چھپ کر منظر عام پر آچکا ہے۔

آپ کا شمار جامعہ عثمانیہ کے نامور طالب علموں میں ہوتا، آپ نے وہاں ڈاکٹرعبدالمعید خان، ڈاکٹر قاری قطب الدین، مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولوی عثمان معضری سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ سقوطِ حیدرآباد کے بعد ماسٹرز کی سند جامعہ عثمانیہ سے لے کر وہ کراچی آئے۔ آپ چھوٹوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتے۔

بلاشبہ حافظ محمود حسین اللہ کے نیک بندے اور پیرطریقت تھے۔ شعبان المعظم کے مہینے میں آپ کی رحلت ہوئی۔ گزشتہ دنوں (ماہ ربیع الاول) میں دین کے ایک اور داعی بزرگ مولانا جمیل صاحب ؒ امام و خطیب مکہ مسجد حیدرآباد کالونی نے دنیاوی زندگی سے رخصت لے کر ابدی دنیا کی راہ لی، ساری زندگی کسی نہ کسی صورت میں دین کی خدمت میں مصروف رہے۔

ہمہ وقت واعظ و نصیحت فرماتے خلق خدا کو، عبادت اس قدر اور اتنی کرتے کہ پیروں پر ورم آجاتا۔ بچپن میں راقم الحروف ان کے مدرسہ عربیہ میں کھیلتا کودتا پھرتا، مگر وہ کبھی غصہ نہ کرتے، ہمیشہ شفقت فرماتے بعد میں دنیاوی مصروفیات میں مشغول ہونے کے باعث راقم صرف سال میں ایک دو بار ہی ان کی خدمت میں حاضری دے پاتا افسوس صد افسوس۔ اپنے جوان بچے کی وفات پر مولانا صاحب نے صبر کیا ، اللہ کریم مولانا صاحب کی اور ان کے جواں سال بیٹے کی کامل مغفرت فرمائے اور انھیں اعلیٰ ترین درجات پر فائز فرمائے۔
Load Next Story