ملک کا وقار

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام خارج کیا جانا چاہیے

mjgoher@yahoo.com

LODHRAN:
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان گزشتہ دو تین دہائیوں سے دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ بالخصوص 9/11 کے سانحے کے بعد جس طرح پوری دنیا میں دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ کا آغاز ہوا اور اس میں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بننے پر مجبور کیا گیا تو اس کے مہلک اثرات سے وطن عزیز محفوظ نہ رہ سکا۔ افغانستان پر امریکی اور اتحادی ممالک کی یلغار اور القاعدہ کے خلاف جنگ کے شعلے پاکستان کو بھی جھلسانے لگے۔

سرحد پار سے شر پسند عناصر نے ملک میں داخل ہوکر جتھوں اور گروپوں کی شکل میں منظم ہوکر خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے ملک کے امن کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ ملک کی سول و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے آپریشن رد الفساد اور ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔

پاک فوج کے جانبازوں اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دہشت گردوں کی سرکوبی کی اور ملک میں امن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دوران ملک کی معیشت کو اربوں ڈالرکے نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں لوگ خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں جان کی بازی ہار گئے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت یہ دو بڑے سانحات بھی رونما ہوئے۔ پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادی پاکستان پر ''ڈو مور'' کے لیے دباؤ ڈالتے رہے اور یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا کہ پاکستان کی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ بعینہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔

پڑوسی ملک بھارت اس الزام کو بڑے شد و مد کے ساتھ عالمی برادری میں مہمیز کرتا رہا ہے۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ یکطرفہ پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کو دہشتگرد ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا جائے، اگرچہ بھارت اس ناپاک سازش میں کامیاب تو نہ ہو سکا تاہم عالمی سطح پر قائم تنظیم فنانشل ٹاسک فورس گرے لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کرلیا گیا۔

پہلی مرتبہ فروری 2008 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا اور 2010 میں پاکستان اس فہرست سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ توقع یہ تھی اب پاکستان کو دوبارہ ایف اے ٹی ایف کی ہزیمت نہیں اٹھانا پڑے گی لیکن یہ خیال خام ثابت ہوا۔ 2012 میں پھر پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا اور 2015 میں گلوخلاصی حاصل ہوئی۔ بھارت پاکستان کے خلاف بار بار زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا ہے۔


اس نے عالمی برادری پر دباؤ بڑھا کر پاکستان کے خلاف مذموم مہم جوئی کا سلسلہ دراز کیے رکھا۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی تکمیل کے بعد اس میں بہتری لانے کی کوششیں بھی کرتا رہا ہے۔ تاہم 2018 میں وطن عزیز کو دوبارہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا۔ اور پاکستان کو 34 نکات پر مبنی ایک فہرست تھما دی گئی کہ ان شرائط کی تکمیل کے بغیر پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔

2018 کے بعد پاکستان میں عمران خان کی حکومت بنی تو سول و عسکری قیادت کی مشاورت سے اہم اقدامات اٹھائے گئے اور پوری سنجیدگی سے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی تکمیل کے لیے کاوشیں کی گئیں جس کے نتیجے میں صورتحال تبدیل ہوئی۔ جرمنی کے شہر برلن میں ایف اے ٹی ایف کے حالیہ ہونے والے اجلاس میں ان کی شرائط کے جواب میں اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل پر اجلاس کے شرکا نے غور و خوض کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ادارے کے قواعد و شرائط کیمطابق پاکستان نے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے دیے گئے نکات کی تکمیل کرلی ہے۔

لہٰذا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام خارج کیا جانا چاہیے۔ تاہم اس بات کا حتمی فیصلہ اکتوبر میں اس وقت کیا جائے گا جب ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان آئے گی اور وہ ٹیکنیکل بنیادوں پر پاکستان کے عملی اقدامات کا جائزہ لے گی۔ پاکستان کو انھیں یقین دلانا ہوگا کہ ہم دہشتگردوں کی قطعاً کوئی مالی معاونت نہیں کرتے اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی کسی بھی تنظیم کی پاکستان کے کسی بھی فرد ، تنظیم یا ادارے کی جانب سے انفرادی یا اجتماعی کسی بھی سطح پر کوئی مالی و مادی معاونت نہیں کی جاتی۔

اگرچہ گزشتہ تین چار برسوں کے دوران بھی پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے منعقدہ اجلاسوں میں یہ یقین دہانی کرانے کی بارہا کوشش کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان نے ادارے کی جانب سے دی جانے والی فہرست کیمطابق مقدوربھر اقدامات اٹھائے ہیں ، تاہم فیٹف کی جانب سے عدم اطمینان کے باعث صورتحال تبدیل نہ ہو سکی اور فیٹف کی جانب سے نئے نکات پر مشتمل فہرست دے کر ہدایات دی جائیں کہ ان کی تکمیل تک پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل رہے گا۔

مقام اطمینان کہ اب صورتحال تبدیل ہوگئی۔ برلن میں فیٹف اجلاس میں بالآخر پاکستان کی کاوشیں ثمر آور ثابت ہوئیں اور فیٹف نے پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج کرنے کا اعلان اس شرط کے ساتھ کیا کہ ان کی ٹیم تکنیکی اطمینان حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گی اس کے بعد پاکستان باضابطہ طور پر وائٹ لسٹ میں شامل ہو جائے گا۔ یہ عمل اکتوبر ، نومبر تک مکمل کرلیا جائے گا۔

اس ضمن میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے بجا طور پر کہا کہ '' فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالے جانے کے حوالے سے جشن منانا ابھی قبل ازوقت ہے کیوں کہ اس کا فیصلہ اکتوبر میں ٹاسک فورس کی ٹیم کے دورے اور جائزے کے بعد ہوگا۔'' محترمہ نے بالکل درست کہا ہے کیوں کہ فیٹف نے حتمی فیصلہ اپنی تکنیکی ٹیم کے دورے اور اس کی سفارشات کی روشنی میں ہی کرنا ہے ، لیکن ہم جلد باز لوگ ہیں۔

برلن اجلاس کی روداد سامنے آتے ہی ہم نے شادیانے بجانے شروع کردیے کہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر آگیا۔ سابقہ حکومت کے عہدیداران سے لے کر موجودہ حکومت کے زعما تک سب نے '' کریڈٹ '' لینے کے دعوے شروع کردیے۔ جب کہ اصل کریڈٹ تو پاک فوج اور متعلقہ اداروں کے ذمے داروں کو جاتا ہے جن کی شبانہ روز سنجیدہ کاوشوں سے یہ دن دیکھنے کو ملا۔ توقع کی جانی چاہیے کہ آیندہ بھی وطن عزیز کو اس مشکل صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لیے متعلقہ ادارے سنجیدہ کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بہتر ہوسکے۔
Load Next Story