عورتوں کے مسائل اور ترقی کا ایجنڈا

ہماری عورت کا ایک بڑا حصہ پس ماندگی ، غربت، ناانصافی،ناخواندگی ، عدم تحفظ اور معاشی بدحالی کا شکار ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان میں محروم طبقہ کی سیاست میں ایک اہم فریق عورت بھی ہے ۔اگرچہ ریاست ، حکومت اور بالائی طبقہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ترجیحات میں عورت بھی پیش پیش ہے ، لیکن حقایق اس کے برعکس ہیں ۔اگر ہم اپنے قومی اعدادو شمار ہی کو دیکھ لیں تو ہمیں عورتوں کے حوالے سے سیاسی ، سماجی ، معاشی سمیت تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کے معاملے میں بھی ایک واضح صنفی امتیاز اور فرق نظر آتا ہے ۔ ہماری عورت کا ایک بڑا حصہ پس ماندگی ، غربت، ناانصافی،ناخواندگی ، عدم تحفظ اور معاشی بدحالی کا شکار ہے ۔ریاست بنیادی طور پر دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ملک میں ہر شہری کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ذمے دار ہے۔ ہمارا آئین بھی عام لوگوں بشمول عورتوں کو مختلف بنیادی حقوق اور سہولتوں کی ضمانت دیتا ہے ۔لیکن ہم اپنی بری حکمرانی ، ناقص پالیسیوں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث محروم طبقوں سمیت عورتوں کا سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں ۔

تعلیم اور صحت وہ بنیادی حق ہے جو مرد اور عورت دونوں کو ملنا چاہیے، لیکن ہم اس میں ناکام ہوئے ہیں ۔ اکنامک سروے آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2012-13کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرح خواندگی 58فیصد ہے ۔ جب کہ ملک میں لڑکوں کی شرح خواندگی کے مقابلے میں لڑکیوں کی خواندگی کی شرح 47 فیصد ہے۔پنجاب کے شہری علاقوں میں25فیصد اور دیہات میں 48فیصد عورتیں ناخواندہ ہیں ۔سندھ میں شہری سطح پر 56فیصد اور دیہات میں 84فیصد ناخواندہ ہیں ۔خیبر پختونخوا میں شہروں میں 49فیصد اور دیہات میں 69فیصد لڑکیاں ناخواندہ ہیں ۔ جب کہ بلوچستان کے شہری علاقوں میں 56فیصد اور دیہی علاقوں میں 77فیصد لڑکیاں ناخواندہ ہیں ۔یہ اعداد و شمار عورتوں کی ترقی کے دعوے کی نفی کرتے ہیں ۔

ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم تعلیم اور صحت بالخصوص لڑکیوں کی ترقی ان کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے ،لیکن عملا ہم اس وقت بھی جی ڈی پی کا صحت پر 0.6اور تعلیم پر 2.4خرچ کررہے ہیں ۔ہم علاقائی ملکوں میں سب سے کم پیسہ جی ڈی پی میں تعلیم ا ور صحت پر خرچ کررہے ہیں ۔میلینیم ڈولیپمنٹ اہداف میں طے شدہ33اہداف میں سے ہم صرف اب تک تین ٹارگٹ مجموعی طور پر مکمل کرسکے ہیں، جب کہ سات پر کام جاری ہے اور باقی پر کچھ بھی نہیں ہوسکا ۔عورت فاونڈیشن کی2013کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس برس ملک بھر میں 5815 عورتوں کو مختلف معاملات پر تشددکا سامنا کرنا پڑا۔ 2012 کے مقابلے میں 2013میں عورتوں کے خلاف تشدد میں 12فیصد اضافہ بھی ہوا۔ یو این ڈی پی کے ہیومین ڈولیپمنٹ انڈکس کے مطابق دنیا کے کل 186 ممالک میں سے ہم 146ویں نمبر پر ہیں ۔یاد رہے کہ اب دنیا میں ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کو دیکھنے کا ایک بڑا زاویہ صنفی ترقی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔


اس تصور کو بھی چیلنج کرنا ہوگا کہ شہری عورتوں کے لیے سب کچھ موجود ہے ۔ ایسا نہیں ،یقینا دیہی علاقوں کے مقابلے میں ان کو زیادہ سہولتیں حاصل ہیں ۔ لیکن شہروں کی حالت میں بھی عورتیں پریشان نظر آتی ہیں ۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بعد روزگار کی عدم فراہمی ، نقل و حمل کے لیے بہتر ٹرانسپورٹ کا فقدان ، عدم تحفظ ، اسٹریٹ کرائم ، جنسی خوف و ہراس،مہنگی تعلیم و صحت جیسے مسائل سرفہرست ہیں ۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں عورت کے مسئلہ کو محض ایک سماجی مسئلہ سمجھ کر دیکھا جاتا ہے ۔ جب کہ یہ مسئلہ خالصتا سیاسی نوعیت کا ہے اور اس کو سیاسی فریم ورک میں ہی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں اہم کام سیاسی جماعتوں کا ہے ، عورتوں کو بھی سیاسی جماعتوں کو مضبوط بناکر ان ہی پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ عورتوں کی ترقی کے عمل میں ان کی قیادت کریں۔یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت کی ترقی و خوشحالی محض عورت تک محدود نہیں ہوتی ، بلکہ اس کا براہ راست تعلق گھر، خاندان ، بچے اور معاشرے کی ترقی کے ساتھ جڑ ا ہوا ہوتا ہے ۔وہ تمام سیاسی و سماجی معاہدے جو عورتوں کی ترقی کے حوالے سے ملک کے قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کی صورت میں ہیں ، ان پر عدم دلچسپی کی وجہ سے عورتوں کی ترقی کا سوال پیچھے رہ گیا ہے ۔سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ایجنڈے میں عورتوں کو وہ فوقیت نہیں مل سکی ، جس کی وہ حق دار ہیں۔ اگرچہ عورتوں کی نمائندگی میں ملک میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ، لیکن محض نمائندگی سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ اصل بات خواتین نمائندوں کو بااختیار بنانا ہوتا ہے، جس کی ہمارے سیاسی نظام میں بہت کمی ہے ۔

پاکستان میں ہر برس ہم عورتوں کے حوالے سے 8مارچ کو ان کا دن مناتے ہیں ۔حکومتی اور این جی او ز کی سطح پر عورتوں کے مسائل کو اجاگر بھی کیا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے حکومتوں کی سطح پر بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے ، لیکن محض دن منانے سے کبھی بھی کسی فریق کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اصل مسئلہ عورتوں کے حوالے سے نظام کو منصفانہ، شفاف اور قابل رسائی بنانا ہوتا ہے ۔ لیکن ہم عورتوں کی ترقی کے لیے جو بھی پیکیج یا ماڈل لاتے ہیں اس میں سسٹم کو بہتر بنانے کی بجائے امداد اور خیرات پر مبنی پروگرام ہوتے ہیں جو محض وقتی طور پر فائدہ دیتے ہیں۔اصل کام عورتوں کی امداد سے زیادہ ان کی حیثیت میں تبدیلی کا ہوتا ہے۔ اگر واقعی پاکستان کی ریاست اور حکومت سمیت بالادست طبقہ عورتوں اور لڑکیوں کی ترقی اور خوشحالی چاہتا ہے تو اسے ابتدائی طور پر صرف تعلیم اور صحت کے شعبے میں ایمرجنسی کا نفاذ کرکے اپنے کام کی ابتدا کرنی چاہیے۔ ترقیاتی فنڈز کو اگر کچھ برس کے لیے زیادہ تعلیم اور صحت پر لگایا جائے اوراس میں لڑکیوں کو زیادہ اہمیت دی جائے تو ہم صنفی ترقی کے عمل میں ایک مہذہب معاشرہ کے طور پر اپنا مقدمہ ملک میں اور ملک سے باہر بہتر بنا سکتے ہیں۔
Load Next Story