ڈاکٹر عافیہ کی فیملی کو امریکی ویزا میں سہولت فراہم کی جائے عدالت کی ہدایت
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی
NAROWAL:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت خارجہ کو ڈاکٹر عافیہ کی فیملی کو امریکی ویزا فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے وکیل ڈاکٹر ساجد قریشی کے ساتھ عدالت پیش ہوئیں جبکہ وزارت خارجہ کی جانب سے ڈائریکٹر یو ایس اے راجیل محسن عدالت میں پیش ہوئے۔ وزارت خارجہ کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کوئی رابطہ ہوا؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ نہیں ابھی تک کوئی رابطہ نہیں ہوا جبکہ نمائندہ وزارت خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ سے رابطہ کیا مگر انہوں نے رابطہ کرنے سے انکار کر دیا، جیل انتظامیہ نے بتایا ڈاکٹر عافیہ صدیقی فیملی سے کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہ رہی، بتایا گیا کہ جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی رابطہ نہیں کرنا چاہتی تو ہم رابطے کے لیے ان پر زبردستی نہیں کرسکتے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس وقت فیڈرل میڈیکل سینٹر ٹیکساس میں ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ پاکستانی کونسل جنرل نے درخواست گزار یا انکی فیملی سے کوئی رابطہ کیا ہے؟ نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ کونسل جنرل درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ڈاکٹر عافیہ کیوں فیملی کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا چاہیے گی، عدالت نے استفسار کیا کہ میں سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ پاکستانی کونسل جنرل حقائق کے خلاف بات کیوں کریں گے؟ نمائندہ وزارت خارجہ نے بتایا کہ وزارت خارجہ کوشش کرے گی کہ انکو ویزا فراہم کیا جائے یہ وہاں خود جائیں اور ان سے رابطہ کریں۔
عدالت نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملے ہو؟ وکیل نے جواب دیا کہ نہیں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے نہیں ملا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جیل وارڈن نے کہا کہ مہینے میں پانچ سو منٹ ملاقات کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اور انکی بہن کی ان سے ملاقات کروائی جائے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ عید، کرسمس اور ہولی جیسے ہر مذہبی دن پر میرے بھائی نے جیل کے باہر دن گزارا لیکن میرے بھائی کو ہمیشہ کہا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی فوت ہوئی، ہمیں شک ہورہا ہے کیونکہ ہماری ملاقات نہیں کروائی جاتی، بات نہیں کرائی گئی، وہاں ایک وکیل نے کہا کہ عافیہ سے ملاقات ہوتی تھی وہ شدید زخمی حالت میں تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل حکام ملاقات نہیں کروا رہے تو اس عدالت کو کیا حکم دینا چاہیے؟ عدالت نے ڈاکٹر فوزیہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ خود امریکا جا کر ان کو دیکھنا چاہیں گے؟ ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ میں جانا چاہتی ہوں مگر سفارتخانہ کو میری حفاظت یقینی بنانا ہوگی، ایسا نہ ہو کہ میں وہاں چلی جاؤ اور مجھے بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیں۔
نمائندہ وزارت خارجہ نے بتایا کہ ان کے بھائی جو کہ امریکا میں ہے ان سے ملاقات کی کوشش کرتے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق انکا بھائی بیمار ہے اور ایسے حالات میں نہیں کہ وہ جیل جا سکے، نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ ان کے ویزا کے لیے درخواست دیتے ہیں ویزا کی اجازت دینے یا نہ دینے کی یقین دہانی نہیں کرسکتے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کیس میں وزارت خارجہ نے کلبھوشن کی فیملی سے ملاقات کروانے میں بہت کوشش کی جبکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ وزارت خارجہ کم از کم کونسل جنرل کی رپورٹ تو شیئر کریں تاکہ ہمیں یقین دہانی ہو۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی زندہ ہے، جس پر ڈاکٹر فوزیہ نے جواب دیا کہ وہ وکیل ہمارا نہیں تھا، وہ وہاں کسی اور کا وکیل تھا جس کی عافیہ سے ملاقات ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وزارت خارجہ کس وجہ سے آپ کی ملاقات نہیں کرائیں گی؟ نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ وزارت خارجہ یو ایس سفارت خانے سے ویزا فراہمی کے لیے درخواست کرے گی، درخواست گزار کو آن لائن ویزا کے لیے اپلائی کرنا پڑے گا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 30 روز کے لیے ملتوی کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت خارجہ کو ڈاکٹر عافیہ کی فیملی کو امریکی ویزا فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے وکیل ڈاکٹر ساجد قریشی کے ساتھ عدالت پیش ہوئیں جبکہ وزارت خارجہ کی جانب سے ڈائریکٹر یو ایس اے راجیل محسن عدالت میں پیش ہوئے۔ وزارت خارجہ کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کوئی رابطہ ہوا؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ نہیں ابھی تک کوئی رابطہ نہیں ہوا جبکہ نمائندہ وزارت خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ سے رابطہ کیا مگر انہوں نے رابطہ کرنے سے انکار کر دیا، جیل انتظامیہ نے بتایا ڈاکٹر عافیہ صدیقی فیملی سے کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہ رہی، بتایا گیا کہ جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی رابطہ نہیں کرنا چاہتی تو ہم رابطے کے لیے ان پر زبردستی نہیں کرسکتے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس وقت فیڈرل میڈیکل سینٹر ٹیکساس میں ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ پاکستانی کونسل جنرل نے درخواست گزار یا انکی فیملی سے کوئی رابطہ کیا ہے؟ نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ کونسل جنرل درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ڈاکٹر عافیہ کیوں فیملی کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا چاہیے گی، عدالت نے استفسار کیا کہ میں سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ پاکستانی کونسل جنرل حقائق کے خلاف بات کیوں کریں گے؟ نمائندہ وزارت خارجہ نے بتایا کہ وزارت خارجہ کوشش کرے گی کہ انکو ویزا فراہم کیا جائے یہ وہاں خود جائیں اور ان سے رابطہ کریں۔
عدالت نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملے ہو؟ وکیل نے جواب دیا کہ نہیں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے نہیں ملا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جیل وارڈن نے کہا کہ مہینے میں پانچ سو منٹ ملاقات کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اور انکی بہن کی ان سے ملاقات کروائی جائے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ عید، کرسمس اور ہولی جیسے ہر مذہبی دن پر میرے بھائی نے جیل کے باہر دن گزارا لیکن میرے بھائی کو ہمیشہ کہا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی فوت ہوئی، ہمیں شک ہورہا ہے کیونکہ ہماری ملاقات نہیں کروائی جاتی، بات نہیں کرائی گئی، وہاں ایک وکیل نے کہا کہ عافیہ سے ملاقات ہوتی تھی وہ شدید زخمی حالت میں تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل حکام ملاقات نہیں کروا رہے تو اس عدالت کو کیا حکم دینا چاہیے؟ عدالت نے ڈاکٹر فوزیہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ خود امریکا جا کر ان کو دیکھنا چاہیں گے؟ ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ میں جانا چاہتی ہوں مگر سفارتخانہ کو میری حفاظت یقینی بنانا ہوگی، ایسا نہ ہو کہ میں وہاں چلی جاؤ اور مجھے بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیں۔
نمائندہ وزارت خارجہ نے بتایا کہ ان کے بھائی جو کہ امریکا میں ہے ان سے ملاقات کی کوشش کرتے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق انکا بھائی بیمار ہے اور ایسے حالات میں نہیں کہ وہ جیل جا سکے، نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ ان کے ویزا کے لیے درخواست دیتے ہیں ویزا کی اجازت دینے یا نہ دینے کی یقین دہانی نہیں کرسکتے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کیس میں وزارت خارجہ نے کلبھوشن کی فیملی سے ملاقات کروانے میں بہت کوشش کی جبکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ وزارت خارجہ کم از کم کونسل جنرل کی رپورٹ تو شیئر کریں تاکہ ہمیں یقین دہانی ہو۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی زندہ ہے، جس پر ڈاکٹر فوزیہ نے جواب دیا کہ وہ وکیل ہمارا نہیں تھا، وہ وہاں کسی اور کا وکیل تھا جس کی عافیہ سے ملاقات ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وزارت خارجہ کس وجہ سے آپ کی ملاقات نہیں کرائیں گی؟ نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ وزارت خارجہ یو ایس سفارت خانے سے ویزا فراہمی کے لیے درخواست کرے گی، درخواست گزار کو آن لائن ویزا کے لیے اپلائی کرنا پڑے گا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 30 روز کے لیے ملتوی کر دی۔