آم ذائقے کے ساتھ افادیت سے مالامال پھل

عوام کی طرف 30 سے 40 میٹر یعنی 98 سے 131 فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔

عوام کی طرف 30 سے 40 میٹر یعنی 98 سے 131 فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔

نباتاتی نام: (Botanical name) آم کا نباتاتی نام (Mangifera indica) ہے۔تاریخی پس منظر: (Historical background)آم کا مسکن برصغیر کا ہے۔ اس کا ابتدائی وطن ہندوستان ہے۔ اسے تقریباً 4000 سال سے کاشت کیا جا رہا ہے۔ یہ موسم گرما کا پھل ہے۔ جو جون، جولائی، اگست اور ستمبر تک کھانے کو ملتا ہے۔ اس کا ذائقہ میٹھا اور ترش ہوتا ہے۔

اس کی خاص مہک ہوتی ہیں جس سے ہر کسی کا دل للچا جاتا ہے۔ اس میں بڑی گٹھلی پائی جاتی ہے جس پر آم کا گودا لپٹا ہوتا ہے۔یہ کھانے میں اس قدر لذیذ ہوتا ہے کہ گرمی کا موسم آتے ہی ہر کوئی اس کا انتظار کرتا ہے۔یہ ایسا پھل ہے جسے بچے، خواتین اور بزرگسبھی بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ اسے پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ آم کو 9 ویں اور 10 ویں صدی میں عرب اور فارسی تاجروں نے مشرقی افریقہ میں متعارف کروایا۔ بعد ازآں اسے جنوبی افریقہ سے 16 ویں اور 17 ویں صدی تک برازیل میں متعارف کروایا گیا۔ اسی طرح یہ اٹھارھویں صدی کے وسط سے آخر تک مشرقی میکسیکوسے مغربی میکسیکو اور فلپائن کا سے براہ راست پہنچایا گیا۔ اسے ریاست ہائے متحدہ میں 1833 میں فلوریڈا میں متعارفکروایا گیا۔

عوام کی طرف 30 سے 40 میٹر یعنی 98 سے 131 فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔ اس کی جڑ تقریباً زیرزمین 6 میٹر یعنی بیس فٹ 20 فٹ تک پھیلتی ہے۔ پتے 15 سے 35 سینٹی میٹر لمبے اور 6 سے 16سینٹی میٹر تکچوڑے ہوتے ہیں۔ پھل کی جسامت گول بیضوی یا گردے کی شکل جیسی ہوتی ہے۔ وزن تقریباً پانچ اونس سے لے کر 5 پاؤنڈ یعنی دو کلو گرام تک ہوتا ہے۔ گیننز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کا سب سے وزنی آم 3.4 کلو گرام تک پایا گیا۔ عام حالات میں آم کا وزن 200 سے 300 گرام تک ہوتا ہے۔ اس پھل میں ایک چپٹا لمبا گڑھا ہوتا ہے، جلد چمڑے کی طرح سخت، رنگت پیلی یا نارنجی، سرخ یا گلابی ہوتی ہے۔ آم پاکستان ہندوستان اور فلپائن کا قومی پھل ہے جب کہ بنگلادیش کا یہ قومی درخت ہے۔

اقسام: (Types) دنیا بھر میں آم کی سیکڑوں اقسام ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آم کی 1500 سے زائد اقسام ہیں۔ بھارت میں آم کی صرف 280 سے زائد اقسام ہیں جن میں سے30تجارتی طور پر مشہور ہیں۔ اسی طرح ریاست ہائے متحدہ کی ریاست فلوریڈا میں 400 سے زائد اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں آم کی تقریباً 300 اقسام کاشت کی جاتی ہیں جو اقسام مشہور ہیں ان میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، فجری، نیلم، انور رٹول، سرولی، الفانسو، سورہا، ثمر بہشت، سانول، الماس، گلاب خاص، لال بادشاہاور دیسی شامل ہیں۔ اسی طرح سندھڑی پاکستان کا قومی پھل ہے یہ سندھ اور میرپورخاص میں پیدا ہوتا ہے۔ سندھڑی کا شمار دنیا بھر کے بہترین آموں میںکیا جاتا ہے جو میٹھا نرم خوشبو دار اور مزے دار ہوتا ہے۔ آئیں اس پھل کی چند مشہور اقسام پر روشنی ڈالتے ہیں۔

1۔ لنگڑا:آم کی یہ نسل سب سے پہلے وارانسی میں کاشت کی گئی جسے عام طور پر بنارس بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کے شمالی حصے میں کوئی نہیں جانتا کہ آم کو لنگڑا کیوں کہا گیا؟ لیکن بہت سی مقامی کہانیوں میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ درخت کا مالک خود لنگڑاتھا۔ اسی وجہ سے اس کو لنگڑا کا نام دیا گیا۔ لنگڑا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پکنے کے بعد بھی اپنا سبزرنگ برقرار رکھتا ہے۔ اس کا گودا زردی مائل بھورا ہوتا ہے۔ پکنے کے بعد اس کی بو تیز ہو جاتی ہے۔ اس کا پھل درمیانے سائز کا ہوتا ہے جو عام طور پر جولائی سے اگست کے وسط میں دست یاب ہوتا ہے۔ پھل انتہائی میٹھا یا کڑواہو سکتا ہے۔

2۔ چونسہ :یہ آم اصل میں رحیم یار خان اور ملتان میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اس نسل کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ اسے یہ نام شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کو ہندوستان کے صوبہ بہار کے ضلع چونسہ میں شکست دینے کے بعد دیا تھا۔ یہ سوری سلطنت کے بانی کا پسندیدہ آم تھا۔چونسہ دنیا بھر میں آموں کی دیگر اقسام کی نسبت زیادہ پسند کی جانے والی قسم ہے، کیوںکہ یہ غیرمعمولی طور پر میٹھا اور رس دار ہوتا ہے۔ آپ انگلیوں سے دبا کر اس کا گودا نرم کر سکتے ہیں اس میں گھٹلی کافی بڑی ہوتی ہے۔ اس کے پکنے کا موسم جون سے اگست تک ہے۔

3۔ انور رٹول: یہ آم انوار الحق نام کے ایک صاحب کا مرہون منت ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اترپردیش بھارت کے باغ پت ضلع کے قریب رتول نامی گاؤں میں اس کی پہلی قسم کاشت کی تھی۔ اس پھل کا ذائقہ اور خوشبو من کو بھاتی ہے۔ یہ بہت کم تعداد میں ملتا ہے۔ یہ ناقابل یقین حد تک میٹھا ہوتا ہے۔ یہ منڈیوں میں مئی سے اگست تک دستیاب ہوتا ہے۔

4۔ سندھڑی: یہ صوبہ سندھ کی ایک معروف قسم ہے جس کی ابتدا میرپورخاص کے پاس واقع اسی نام کے ایک قصبے سے ہوئی۔ یہ بیضوی شکل کابڑا پھل ہے۔ اس کی جلد زرد ہوتی ہے۔ اس میں فائبر کم ہوتا ہے۔ یہ بہت زیادہ خوشبودار ہوتا ہے شروع میں تھوڑا سا کسیلا ہو سکتا ہے۔ یہ عوام سندھ کے بازاروں میں سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے یہ قسم زیادہ تر ملک شیک اور آئس کریم بنانے کے کام آتی ہے۔ یہ قسم بھی مئی اور اگست کے درمیان دستیاب ہوتی ہے۔

5۔ دسہری:دسہری کی جڑیں اٹھارھویں صدی میں لکھنؤ کے نواب کے باغات میں ملتی ہیں۔ اس کو دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے اور یہ سب سے زیادہ رس دار ہوتا ہے۔ اس کا شان دار ذائقہ اور لذت بخش خوشبو ہوتی ہے۔ اس آم سے لطف اندوز ہونے کا بہترین وقت جولائی کے پہلے دو ہفتے ہوتے ہیں جس میں اس کا ذائقہ عروج پر ہوتا ہے۔

مجموعی پیداوار: د ی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کارپوریٹ اسٹیٹسکل ڈیٹابیس (FAOSTAT) 2020 کے اعدادوشمار کے مطابق آم کی عالمی پیداوار 55 ملین میٹرک ٹن ہے۔ جس میں 45 فی صد حصہ صرف بھارت کے پاس ہے۔ دنیا کا تقریباً نصف آم صرف بھارت میں ہی کاشت کیا جاتا ہے۔ آم کی پیداوار کا دوسرا بڑا ملک انڈونیشیا ہے، جب کہ دیگر ممالک میں چین، پاکستان، برازیل، نائجیریا اور فلپائن شامل ہیں۔

ملک کا نام ۔۔۔۔ ملین ٹن:

انڈیا 24.7،انڈونیشیا3.6، چائنا2.4، میکسیکو2.4، پاکستان 2.3، برازیل 2.1،

مجموعی پیداوار: 55
غذا ئی مقدار: امریکی ادارے یو ایس ڈی اے (USDA) کے مطابق سوگرام100 والے آم میں مندرجہ ذیل غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔

کیلوریز 60(Kcal)، پانی 83.5گرام ، کاربوہائیڈریٹس 15 گرام، شکر 13.7 پروگرام ، غذائی ریشہ 1.6 گرام ، فیٹ 0.38گرام، حیاتین: روزانہ ضرورتDV %، وٹامن اے 54 مائیکرو گرام%7، بیٹا کیروٹین 640 مائیکرو گرام%6 ، لیٹن زیاکسنتھین23 مائیکرو گرام، تھایامین 0.028 ملی گرام%2، رائبو فلیون 0.038 ملی گرام %3، نیاسین 0.0669 ملی گرام %4، پینٹوتھینک ایسڈ 0.197 ملی گرام %4)، وٹامن بی سکس 0.119 ملی گرام%9، فولیٹ بی نائن 43 مائیکرو گرام %11، چولین 7.6 ملی گرام %2، وٹامن سی 36.4 ملی گرام%44، وٹامن ای 0.9 مائیکرو گرام%6، وٹامن کے 4.2 مائیکرو گرام %4، معدنیات: (Minerals)روزانہ ضرورتDV %، کیلشیم 11 ملی گرام%1، کاپر 0.111 ملی گرام%6، آئرن 0.16 ملی گرام%1، مگنیشیم 10ملی گرام %3، میگنیز 0.063 ملی گرام %3، فاسفورس 14 ملی گرام%2، پوٹاشیم 168ملی گرام%4، سلینیم 0.6مائیکرو گرام%1، سوڈیم 1 ملی گرام%0، زنک 0.09 ملی گرام%1

فائٹو کیمیکل مرکبات: آم میں ایک درجن سے زائد پولی فینول پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک طاقت ور اینٹی اوکسیڈنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

Catchins, Anthocyanis, Kaempferol, Rhametin, Mangiferin, Gallic acid, Benezoic acid, Lutin, Zeaxathine

طبی فوائد
1۔کینسر سے بچاؤ: آم میں پولی فینول کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کینسر کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ پولی فینل نقصان دہ عمل سے بچاتے ہیں خاص طور پر اکسیڈیٹو تناؤ جو کئی اقسام سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ پولی فینول کینسر کے مختلف خلیوں کی نشوونما کو روکتے ہیں۔ آم بشمول چھاتی، بڑی آنت، پراسٹیٹ، پھیپھڑوں اور لیوکیمیا جیسے کینسر سے بچاتا ہے۔ اس میں بیٹا کیروٹین ہوتے ہیں جو عموماً پیلے یا نارنجی پھلوں میں پایا جاتا ہے۔

2۔ کولیسٹرول کی سطح: آم میں وٹامن سی فائبر اور پیکٹین موجود ہوتا ہے۔ اس سے آم کی خصوصیت میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے یہ کولیسٹرول کی بڑھتی ہوئی سطح کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔


3۔ جلد اور بالوں کی صحت:آم دیگر خصوصیات کے ساتھ جلد کو صحت مند اور بالوں کوچمک ملائم اور خوب صورت رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وٹامن سی کا استعمال کولیجن کی نشوونما اور دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسے گرمیوں میں لازمی کھانا چاہیے۔

4۔ ذیابیطس کنٹرول کرنے کے لیے:دوسرے تازہ پھلوں کی نسبت آم میں قدرتی شکر زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم ریسرچ ثابت کرتی ہے کہ تازہ پھل مجموعی طور پر زیابیطس کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وٹامن سی اور کیروٹینائیڈزسے بھرپور پھلوں اور سبزیوں کا استعمال ذیابیطس کے آغاز میں بہت مفید ہے۔ آم کے پتے زیابیطس میں مبتلا مریضوں کے لیے بہت مفید ہیں۔ شوگر میں مبتلا افراد کو رات کو آ م کے پتے برتن میں ابال لینے چاہییں اور صبح سویرے اٹھ کا اس کا قہوہ پینا چاہیے اس کے علاوہ عام میں گلائسیمک انڈیکس موجود ہوتا ہے جس سے بلڈ شوگر میں اضافہ نہیں ہوتا۔ قدرت نے عام کو ٹارٹارک (tartaric) مالیک ایسڈ (Malic Acid) اور سٹرک ایسڈ (citric acid)سے بھی مالا مال کیا ہے۔ اگر آم کو اعتدال کے ساتھ کھایا جائے تو زیابطیس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

5۔ وزن کم کرنے کے لیے: آم میں بہت سے وٹامنز یعنی وٹامن اے، بی، اور سی پائے جاتے ہیں۔ آم توانائی کے حصول کا عمدہ ذریعہ ہے۔ اس میں فائبر کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ہضم کے فعل کو درست کرتا اور جسم سے غیرضروری کلوریز ختم کر کے وزن کم کر دیتا ہے۔

6۔ محبت والا پھل: آم کو محبت والے پھل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس میں افرو ڈیاسیک (Aphrodisiac) خصوصیات موجود ہیں۔ اس کے باقاعدہ کھانے سے سپرم کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

7۔ بینائی کی بحالی: آم غذائی اجزاء سے بھرپور پھل ہے جو آنکھوں کو صحت مند رکھتا ہے۔ اس میں دو اہم غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ پہلا لٹین (Lutin) اور دوسرا زیاکسنتھین (Zeaxanthin)۔ یہ آنکھ کی رٹینا میں مرتکز ہوتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہوتا ہے جو روشنی کو سگنل میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ غذائی اجزاء خاص طور پر رٹینا کے مرکز میں مرتکز ہوتے ہیں جسے میکولا کہا جاتا ہے۔ یہ اضافی روشنی جذب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آنکھ کو نقصان دے نیلی روشنی سے بچاتے ہیں۔ آم میںوٹامن اے کثرت سے موجود ہوتا ہے اس کو باقاعدہ کھانے سیآنکھوں کی بینائی بہتر ہوتی ہے۔ آم اندھراتا یعنی (night blindness) اور آنکھوں کو خشک ہونے سے بچاتا ہے۔

8۔ ہضم کا فعل:آم کئی خصوصیت کا حامل ہے۔یہ ہضم کے فعل کے لیے بہترین ہے۔ ہاضمے کے انزائمکھانے کے بڑے مالیکولکو توڑ دیتے ہیں تاکہ انسان کا جسم خوراک کو آسانی سے جذب کر سکے۔ ایمی لیز (Amylse) کاربوہائیڈریٹ کو شکر میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ انزائم پکے ہوئے پھولوں میں زیادہ ہوتے ہیں۔ مزید برآں آم میں وافر مقدار میں پانی اور ڈائٹری فائبر پایا جاتا ہے، جو ہاضمہ کے مسائل جیسے قبض اور اسہال ادل بدل کر ہوتے ہیں۔ ان سے تحفظ اور نجات دیتے ہیں۔ دائمی قبض میں مبتلا مریضوں کو آم لازمی کھانا چاہیے۔

آم میں موجود انزائم (enzymes) جسم سے پروٹین کے مواد کو توڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ چوںکہ آم فائبر سے مالا مال ہے چناں چہ اس سے ہضم کا فعل درست رہتا ہے۔ آ م قبض اور پیٹ کی دیگر بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

9۔ ہیٹ اسٹروک:آم کھانے سے فوری طور پر انسان کو تازگی اور توانائی ملتی ہے۔ گرمیوں میں یہ ہیٹ اسٹروک سے بچاتا ہے۔ اسے باقاعدگی سے کھائیں۔

10۔ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے:آم قوت مدافعت بڑھانے والے پھلوں میں بہترین پھل ہے۔ یہ وٹامن سی کی تقریباً 75 فی صد ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ وٹامن جسم میںبیماریوں کے خلاف لڑنے والے سفید سیلز کی نشوونما کرتا ہے۔ آم میں وٹامن اے، بی، سی، بھی موجود ہوتے ہیں۔ جو قوت مدافعت بحال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دیگر غذائی اجزاء میں تانبا،فولیٹ وٹامن بی اور وٹامن ای شامل ہیں۔

11۔ یاداشت میں بہتری: اگر آپ کسی کام پر توجہ نہیں دے پاتے یا آپ کی یادداشت کم زور ہے تو آپ آم باقاعدگی سے کھائیں اس سے نہ صرف آپ کی توجہ بلکہ یاداشت بھی بہتر ہوجائے گی۔

12۔آئرن کی کمی: آم باقاعدگی سے کھانے سے آئرن اور کیلشیم کی مقدار پوری ہو جاتی ہے۔

13۔ حاملہ خواتین کے لیے: آم حاملہ خواتین کے لیے بہترین پھل ہے۔ حمل کے ابتدائی دنوں میں اکثر ڈاکٹر حاملہ خواتین کو وٹامنز اور آئرن کی گولیاں کھلاتے ہیں، جب کہ ان دنوں آم کو بطور سپلیمنٹ بھی کھایا جا سکتا ہے۔

14۔ ہڈیوں کی مضبوطی: وٹامن کے اور کیلشیم کی کمی ہڈیوں کو کم زور کردیتی ہے جس کی وجہ سے فریکچر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آم میں وٹامن کی موجودگی ہڈیوں کو مضبوط بناتی اور کیلشیم کو جذب کرنے میں مدد دیتی ہے۔

احتیاطی تدابیر: ذیل میں چند احتیاطی تدابیر کا ذکر کیا جارہا ہے ان پر سختی سے عمل کریں۔ ورنہ آپ کو کئی طرح کے مضر اثرات سے نمٹنا پڑے گا۔
٭ منڈی سے آم لانے کے بعد اسے دھو کر کھایا جائے، تاکہ اس پر لگا ہوا مسالہ دھل جائے۔
٭ زیادہ آم کھانے سے اسہال ہو سکتے ہیں کیوںکہ ان میں فائبر زیادہ ہوتا ہے۔ ریشہ دار پھلوں کا زیادہ استعمال اسہال کا سبب بن سکتا ہے۔
٭ آم میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو ذیابیطسکے مریضوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔آم کھانے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرلیں۔
٭ کچھ لوگوں کو آم کھانے سے الرجی ہوتی ہے مثلاً ناک بہنے کی شکایت یا بہت زیادہ چھینکیں آنا شروع ہو سکتی ہیں۔
٭ کچے آم کھانے سے پرہیز کریں کیوںکہ ان سے پیٹ درد یا بدہضمی کی شکایت ہو سکتی ہے۔
٭ آم اعتدال سے کھائیں ورنہ وزنمیں اضافہ ہو سکتا ہے۔

حوالہ جات: (References)
* https //en.m.wikipedia.org
* https // www.healthline.com
* https // www.zameen.com
* https // www.webmd.com
* https // www.medicalnews.com
Load Next Story