جی ایس پی پلس اسکیم
برطانیہ جوکہ اس وقت یورپی یونین کا ممبر تھا اس نے جی ایس پی پلس کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کی تھی
LARKANA:
''بولو ، اجنبی کیا مانگتے ہو؟ انعام و اکرام میں تمہیں جاگیریں عطا کردی جائیں، شاہی خزانے کے منہ کھول دیے جائیں، تمہیں سونے میں تول دیا جائے، ہیرے جواہرات وہ بھی انمول دیے جائیں'' انگریز ڈاکٹر جس نے مغل شہنشاہ کی بیٹی کا علاج کیا تھا اس کی صحتیابی پر مغل شہنشاہ بطور انعام اس کی خواہش پر شاہی خزانوں کے منہ کھول دینا چاہتا تھا۔
اس کے ایک اشارے پر اسے ہیرے جواہرات سے مالا مال کردینا چاہتا تھا۔ لیکن انگریز معالج نے اپنے لیے کچھ بھی طلب نہ کیا ، لیکن ایک چھوٹا سا پروانہ لے کر اپنے ملک کی صنعت و تجارت کے لیے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ ڈاکٹر نے جیسے ہی منہ کھولا ، درباری متوجہ ہوئے۔ مغل بادشاہ ہمہ تن گوش ہوا۔ ڈاکٹر کی آواز کی گونج اس کی طلب اس کی خواہش سے درباری حیرت و استعجاب کی نظروں سے دیکھنے لگے۔
مغل شہنشاہ نے حیرت زدہ ہو کر اس کا مطالبہ سنا۔ شہنشاہ ہند برطانیہ کے لیے تجارتی مراعات کا طلب گار ہوں۔ اس پر شہنشاہ نے نہ کوئی مشورہ کیا، نہ معائنہ کے لیے وفد بھیجنے کا اعلان۔ نہ جائزہ ٹیم تشکیل دی۔ نہ کوئی 10 یا 20 کنونشنز بنائے گئے۔ نہ ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی وفد مذاکرات کے لیے لندن روانہ ہوا۔ نہ کوئی تفتیش نہ کوئی تحقیق، ایک لمحے میں ہی تجارتی مراعات کا پروانہ یعنی 17ویں صدی کا جی ایس پی پلس عطا کردیا گیا۔
اور اب اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل کئی عشروں کی جدوجہد کے بعد پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2014 میں محض 10 سال کے لیے ملا تھا۔ جس کی مدت دسمبر 2023 میں ختم ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس کی توسیع کے حوالے سے یورپی یونین کے مانیٹرنگ کمیشن کی وزارت تجارت کے حکام سے مذاکرات ہوئے۔ مانیٹرنگ کمیشن نے وزارت تجارت میں پاکستانی وفد سے ملاقات کی۔
اخباری ذرایع کے مطابق مانیٹرنگ کمیشن کو 27 کنونشنز پر عمل درآمد پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وفد کو چائلڈ لیبر، انسانی حقوق، لیبر رائٹس، ماحولیات، خواتین کے حقوق سمیت دیگر اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔
یہ مشن دیگر حکام سے بھی ملاقات کرے گا۔ یعنی اگلے ایک تا ڈیڑھ سال میں کئی جائزے کئی تحقیقات اور کئی وفد بار بار کے مذاکرات ، مختلف مطالبات اور بہت کچھ کرنے کے بعد جی ایس پی پلس میں توسیع کے امکانات بھی ہیں اور خدشات بھی ہیں۔ پاکستان سمیت کئی اور ملکوں کو بھی 2014 جنوری سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملا تھا اور اس سے قبل بھی بہت سے ملکوں کو تجارتی سہولیات حاصل تھیں۔
پاکستان کو ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد یہ مراعات حاصل ہوئیں۔ برطانیہ جوکہ اس وقت یورپی یونین کا ممبر تھا اس نے جی ایس پی پلس کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کی تھی۔ آج بھی پاک برطانیہ تجارتی حجم 5 ارب پاؤنڈ تک لے جانے کی محض باتیں ہو رہی ہیں، جس پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تو ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔
آج کے معاشی جائزے میں وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ کا یہ بیان قابل غور ہے کہ 8سال ہو گئے نولانگ ڈیم پر کام مکمل نہیں ہو سکا۔ انھوں نے بلوچستان میں نولانگ ڈیم کی تعمیر سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ چیئرمین پی اے سی تھے تو نولانگ ڈیم کے مسئلے کو حل کیا تھا ، مگر یہ ڈیم آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ اس ڈیم کی جلد از جلد تکمیل کو ممکن بنایا جائے گا۔
حیرت کی بات ہے پاکستان میں جب ڈیم ایسے بننے لگیں کہ سالہا سال گزر جائیں سست روی کا شکار رہیں تو ملک میں بجلی اور زراعت کے لیے پانی کی قلت کوکیسے دور کیا جاسکے گا؟ ڈیمز کی تعمیر و ترقی اور انتہائی تیز رفتاری سے اس کی تکمیل ہر حکومت کی ترجیح ہوتی ہے۔ ڈیمز کی تعمیر میں جو بھی رکاوٹیں ہوں ان کو ہر ممکن طریقے سے فوری حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لیے جس طرح سے فرنس آئل یا گیس استعمال کیا جاتا ہے ، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سستی بجلی ڈیمز کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے اور زراعت کے لیے پانی کی کمیابی کا حل بھی ڈیمز کی تیز ترین رفتار سے تعمیر میں ہی مضمر ہے۔ علی الصبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سے ہی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے تو کام جلد مکمل ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تو دن کے 9 یا 10 بجے سے کام کا آغاز ہوتا ہے اور 4 یا 5 بجے ہر مزدور، مستری، فورمین، سپروائزر، سب انجینئر، انجینئرز، سرویئر، ٹیکنیشن، فٹر اور دیگر تمام عملہ کام چھوڑ دیتا ہے۔
درمیان میں ایک تا ڈیڑھ گھنٹہ کھانا کھانے وغیرہ کا وقفہ ہوتا ہے، بمشکل 4 یا 5 گھنٹے کام ہوتا ہے تو ایسے میں کیا ڈیمز وقت پر مکمل کیے جاسکتے ہیں؟ کوئی بھی حکومت ہو اس کی منصوبہ بندی ایسی ہو کہ بروقت پروجیکٹ، ڈیمز وغیرہ مکمل کیے جائیں بلکہ وقت سے قبل تکمیل پر کوئی انعام کوئی اعزازیہ وغیرہ دینا چاہیے۔
پاکستان میں اس مشکل دور کا تقاضا یہی ہے کہ پانی، بجلی حاصل کرنے کے لیے جتنے بھی چھوٹے بڑے ڈیمز پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل اور دیگر کو فوری تیز رفتار طریقے سے مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سستی بجلی کے حصول کے لیے ڈیمز پر ہی انحصار کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ پاکستان اور ایران میں بجلی ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔
معاہدے کے مطابق بجلی کی ترسیل کے لیے بولان تا گوادر بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی۔ اس طرح ایران بلوچستان کو بجلی فراہم کرے گا۔ گزشتہ حکومتوں کے دور میں پاک ایران گیس کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے لیکن ایران پر امریکی پابندیوں اور پاکستان اپنے دیگر مسائل اور رکاوٹوں کے باعث یہ معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اس کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گزشتہ عشرے کے اوائل میں ہی ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا تھا۔ پاکستان میں چونکہ گیس کی قلت پر اس کے مہنگی ترین ہونے اور دیگر کئی مسائل کے سبب ایران سے گیس کے حصول کے بارے میں ممکنات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
''بولو ، اجنبی کیا مانگتے ہو؟ انعام و اکرام میں تمہیں جاگیریں عطا کردی جائیں، شاہی خزانے کے منہ کھول دیے جائیں، تمہیں سونے میں تول دیا جائے، ہیرے جواہرات وہ بھی انمول دیے جائیں'' انگریز ڈاکٹر جس نے مغل شہنشاہ کی بیٹی کا علاج کیا تھا اس کی صحتیابی پر مغل شہنشاہ بطور انعام اس کی خواہش پر شاہی خزانوں کے منہ کھول دینا چاہتا تھا۔
اس کے ایک اشارے پر اسے ہیرے جواہرات سے مالا مال کردینا چاہتا تھا۔ لیکن انگریز معالج نے اپنے لیے کچھ بھی طلب نہ کیا ، لیکن ایک چھوٹا سا پروانہ لے کر اپنے ملک کی صنعت و تجارت کے لیے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ ڈاکٹر نے جیسے ہی منہ کھولا ، درباری متوجہ ہوئے۔ مغل بادشاہ ہمہ تن گوش ہوا۔ ڈاکٹر کی آواز کی گونج اس کی طلب اس کی خواہش سے درباری حیرت و استعجاب کی نظروں سے دیکھنے لگے۔
مغل شہنشاہ نے حیرت زدہ ہو کر اس کا مطالبہ سنا۔ شہنشاہ ہند برطانیہ کے لیے تجارتی مراعات کا طلب گار ہوں۔ اس پر شہنشاہ نے نہ کوئی مشورہ کیا، نہ معائنہ کے لیے وفد بھیجنے کا اعلان۔ نہ جائزہ ٹیم تشکیل دی۔ نہ کوئی 10 یا 20 کنونشنز بنائے گئے۔ نہ ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی وفد مذاکرات کے لیے لندن روانہ ہوا۔ نہ کوئی تفتیش نہ کوئی تحقیق، ایک لمحے میں ہی تجارتی مراعات کا پروانہ یعنی 17ویں صدی کا جی ایس پی پلس عطا کردیا گیا۔
اور اب اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل کئی عشروں کی جدوجہد کے بعد پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2014 میں محض 10 سال کے لیے ملا تھا۔ جس کی مدت دسمبر 2023 میں ختم ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس کی توسیع کے حوالے سے یورپی یونین کے مانیٹرنگ کمیشن کی وزارت تجارت کے حکام سے مذاکرات ہوئے۔ مانیٹرنگ کمیشن نے وزارت تجارت میں پاکستانی وفد سے ملاقات کی۔
اخباری ذرایع کے مطابق مانیٹرنگ کمیشن کو 27 کنونشنز پر عمل درآمد پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وفد کو چائلڈ لیبر، انسانی حقوق، لیبر رائٹس، ماحولیات، خواتین کے حقوق سمیت دیگر اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔
یہ مشن دیگر حکام سے بھی ملاقات کرے گا۔ یعنی اگلے ایک تا ڈیڑھ سال میں کئی جائزے کئی تحقیقات اور کئی وفد بار بار کے مذاکرات ، مختلف مطالبات اور بہت کچھ کرنے کے بعد جی ایس پی پلس میں توسیع کے امکانات بھی ہیں اور خدشات بھی ہیں۔ پاکستان سمیت کئی اور ملکوں کو بھی 2014 جنوری سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملا تھا اور اس سے قبل بھی بہت سے ملکوں کو تجارتی سہولیات حاصل تھیں۔
پاکستان کو ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد یہ مراعات حاصل ہوئیں۔ برطانیہ جوکہ اس وقت یورپی یونین کا ممبر تھا اس نے جی ایس پی پلس کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کی تھی۔ آج بھی پاک برطانیہ تجارتی حجم 5 ارب پاؤنڈ تک لے جانے کی محض باتیں ہو رہی ہیں، جس پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تو ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔
آج کے معاشی جائزے میں وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ کا یہ بیان قابل غور ہے کہ 8سال ہو گئے نولانگ ڈیم پر کام مکمل نہیں ہو سکا۔ انھوں نے بلوچستان میں نولانگ ڈیم کی تعمیر سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ چیئرمین پی اے سی تھے تو نولانگ ڈیم کے مسئلے کو حل کیا تھا ، مگر یہ ڈیم آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ اس ڈیم کی جلد از جلد تکمیل کو ممکن بنایا جائے گا۔
حیرت کی بات ہے پاکستان میں جب ڈیم ایسے بننے لگیں کہ سالہا سال گزر جائیں سست روی کا شکار رہیں تو ملک میں بجلی اور زراعت کے لیے پانی کی قلت کوکیسے دور کیا جاسکے گا؟ ڈیمز کی تعمیر و ترقی اور انتہائی تیز رفتاری سے اس کی تکمیل ہر حکومت کی ترجیح ہوتی ہے۔ ڈیمز کی تعمیر میں جو بھی رکاوٹیں ہوں ان کو ہر ممکن طریقے سے فوری حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لیے جس طرح سے فرنس آئل یا گیس استعمال کیا جاتا ہے ، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سستی بجلی ڈیمز کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے اور زراعت کے لیے پانی کی کمیابی کا حل بھی ڈیمز کی تیز ترین رفتار سے تعمیر میں ہی مضمر ہے۔ علی الصبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سے ہی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے تو کام جلد مکمل ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تو دن کے 9 یا 10 بجے سے کام کا آغاز ہوتا ہے اور 4 یا 5 بجے ہر مزدور، مستری، فورمین، سپروائزر، سب انجینئر، انجینئرز، سرویئر، ٹیکنیشن، فٹر اور دیگر تمام عملہ کام چھوڑ دیتا ہے۔
درمیان میں ایک تا ڈیڑھ گھنٹہ کھانا کھانے وغیرہ کا وقفہ ہوتا ہے، بمشکل 4 یا 5 گھنٹے کام ہوتا ہے تو ایسے میں کیا ڈیمز وقت پر مکمل کیے جاسکتے ہیں؟ کوئی بھی حکومت ہو اس کی منصوبہ بندی ایسی ہو کہ بروقت پروجیکٹ، ڈیمز وغیرہ مکمل کیے جائیں بلکہ وقت سے قبل تکمیل پر کوئی انعام کوئی اعزازیہ وغیرہ دینا چاہیے۔
پاکستان میں اس مشکل دور کا تقاضا یہی ہے کہ پانی، بجلی حاصل کرنے کے لیے جتنے بھی چھوٹے بڑے ڈیمز پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل اور دیگر کو فوری تیز رفتار طریقے سے مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سستی بجلی کے حصول کے لیے ڈیمز پر ہی انحصار کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ پاکستان اور ایران میں بجلی ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔
معاہدے کے مطابق بجلی کی ترسیل کے لیے بولان تا گوادر بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی۔ اس طرح ایران بلوچستان کو بجلی فراہم کرے گا۔ گزشتہ حکومتوں کے دور میں پاک ایران گیس کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے لیکن ایران پر امریکی پابندیوں اور پاکستان اپنے دیگر مسائل اور رکاوٹوں کے باعث یہ معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اس کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گزشتہ عشرے کے اوائل میں ہی ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا تھا۔ پاکستان میں چونکہ گیس کی قلت پر اس کے مہنگی ترین ہونے اور دیگر کئی مسائل کے سبب ایران سے گیس کے حصول کے بارے میں ممکنات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔