پاکستانی سیاست کے تضادات
آپ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے فیصلے دیکھیں تو ان میں بالادست طبقوں کی برتری بڑی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے
لاہور:
پاکستان کی سیاست مجموعی طور پر تضادات کی بنیاد پر کھڑی ہے ۔ یہ تضادات محض شخصی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ فکری بنیادوں پر بھی نظر آتے ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے دو مختلف سیاسی چہرے ہیں جو ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں حزب اقتدار کا حصہ ہوتی ہیں تو ان کا طرز عمل ، گفتگو اور فکر مختلف ہوتی ہے ۔یہ ہی قیادت جب حزب اختلاف کے طور پر سامنے آتی ہے تو ان کا طرز عمل اقتدار کی سیاست کے مقابلے میں مختلف نظر آتا ہے۔ لوگوں کو یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ لوگ حزب اقتدار میں سچ بول رہے تھے یا حزب اختلاف میں ان کے سچ کو تسلیم کیا جائے ۔ کیونکہ دونوں معاملات میں ایک واضح تضاد اور ٹکراؤ نظر آتا ہے جو سیاست اور جمہوریت سمیت مجموعی سیاست کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے یا اس طرز عمل سے سیاسی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں ۔
آج کی سیاست کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جو بھی سیاست دان کسی بھی عہدے پر ہو یا بڑا نام رکھتا ہو اس کے مختلف نوعیت کے وڈیو بیانات کو باربار دکھا کر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ان کا کون سا موقف درست ہے اور کون سا غلط ۔ان سیاسی تضادات کو بنیاد بنا کر دیکھا جائے تو یہ لگتا ہے کہ سیاست جھوٹ اور منافقت کا نام بن کر رہ گئی ہے ۔
وہ سیاست جس نے معاشروں کو سیاسی ، جمہوری اور معاشی طور پر مضبوط بنانا تھا وہ لوگوں کو جھوٹ کی تعلیم، سیاسی و سماجی تقسیم ،محرومی کی سیاست کا سبب بن گئی ہے ۔ لوگوں کا سیاست پر اعتبار کم ہوتا جا رہا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ بس جھوٹ پر مبنی سیاست کا کاروبار ہی چلتا ہے ۔سیاسی نظریات، سوچ اور فکر سمیت اصولی سیاست اور سیاسی قربانی کا جذبہ یا جمہوری معاشرے کی تشکیل کی جنگ یا جدوجہد اب ماضی کا قصہ بن گئے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے منشور، دعوؤں ، وعدوں ، خوش نما نعروں سمیت تقریروں میں سچ کا کھیل کہیں چھپ کر رہ گیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں جھوٹ اور ذاتی مفادات نے پوری سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
اسی طرح سیاست میں عام آدمی کی بات بڑی شدت سے کی جاتی ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہماری سیاسی جدوجہد کی جنگ عام آدمی کے مفادات کے گرد ہی کھڑی ہے۔ لیکن پاکستان کا عام آدمی قومی سیاست میں کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے یا اس کا بڑے پیمانے پر استحصال اس انداز سے ہورہا ہے کہ وہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ سیاست میں ایک مراعات یافتہ طبقہ ہے جس کے پاس اختیارات بھی ہیں اور دولت بھی، اسی کو بنیاد بنا کر اس نے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو یرغمال بنالیا ہے۔
آپ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے فیصلے دیکھیں تو ان میں بالادست طبقوں کی برتری بڑی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے ۔سیاسی محاذ پر سیاسی کارکن کے پاس سوائے نعرے لگانے ، ووٹ مانگنے ، طاقت ور سیاست دانوں کی مہم چلانے ان کے سیاسی مخالفین کو اپنا سیاسی دشمن سمجھنے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ جب بھی ان کو اوپر کی سطح پر لانے کی بات کی جاتی ہے تو منطق دی جاتی ہے کہ آپ کے پاس انتخاب لڑنے کے لیے نہ تو طاقت ہے ، نہ برادری ہے اور نہ ہی بڑے پیمانے پر وسائل ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے پاس اپنی قیادت کے تضادات کی موجودگی میں سوائے سمجھوتوں کی سیاست کے سوا کچھ نہیں ۔اگر کسی سیاسی کارکن کو اوپر بھی لایا جاتا ہے تو اس کے پاس اپنی قیادت کی سیاسی غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
ہماری سیاسی قیادت کو انداز ہی نہیں کہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں ان کے تمام ماضی اور حال کے بیانات کو بنیاد بنا کر رائے عامہ پر اثر ڈالا جاتا ہے اور لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ سیاست دانوں کے تضادات کیا ہیں۔ سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادت کی سوشل میڈیا پر تنقید ظاہر کرتی ہے کہ ان کو گلہ ہے کہ لوگوں میں ان کا آئینہ کیوں دکھایا جارہا ہے اور کیونکر ان کی کردار کشی کی جارہی ہے ۔مسئلہ کردار کشی کا نہیں بلکہ ان تضادات کا ہے جو سیاست دان اختیار کرتے ہیں ۔ایک جماعت اقتدار میں شامل کسی بھی جماعت پر الزام لگاتی ہے کہ یہ اسٹیبلیشمنٹ کا حمایت یافتہ گروپ ہے تو دوسری طرف ان کی توجہ کا مرکز بھی وہی طاقت کے مراکز ہوتے ہیں ۔
بنیادی طور پر جب سیاست کی بنیاد اخلاقی یا سیاسی و جمہوری اصولوں کے برعکس ہوگی اور اس کے مقابلے میں ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کو ہی بالادستی دی جائے گی تو ایسی سیاست ہمارے مفاد میں نہیں ہوسکتی ۔ اگر پاکستان میں ایک طبقہ موجودہ سیاست کے کھیل پر مزاحمت دکھاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جمہوریت کے خلاف ہے ۔
ہمیں ان لوگوں کی آوازیں سننی ہوں گی جو موجودہ جمہوری نظام سیاست پر آواز اٹھارہے ہیں یا اپنا ایک متبادل نقطہ نظر پیش کررہے ہیں تو ان کو یکسر نظرانداز کرنے کے بجائے ان کو بھی سننا ہوگا اور جواب بھی دینا ہوگا کیسے آگے بڑھا جائے ۔سیاسی جماعتوں میں موجود کارکنوں کے اندر اس خوف کو ختم کرنا ہوگا کہ اگر انھوں نے اپنی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو وہ باہر نکال دیے جائیں گے۔
سیاسی نظام میں تبدیلی کا عمل محض سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات بالخصوص جو رائے عامہ بناتے ہیں ان کو ہی آگے بڑھ کر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر دباؤ کو بڑھانا ہوگا ۔ سیاسی قیادت کو قائل کرنا ہوگا کہ ان کی موجودہ سیاست سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ۔ اگر واقعی سیاسی جماعتیں کوئی بڑا مقدمہ لڑنا چاہتی ہیں تو ان کو ملک میں موجود طبقاتی نظام کے خلاف جنگ لڑنی ہوگی ، مگر کیا وہ لڑسکیں گے ، جواب مبہم نظر آتا ہے ۔